Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالمالک جامعی مدنی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالمالک جامعی مدنی
ARI Id

1676046599977_54338293

Access

Open/Free Access

Pages

500

آہ! مولانا عبدالملک جامعی مدنی
(مولانا افتخار فریدی)
یہ خبر انتہائی رنج اور صدمہ کے ساتھ سنی گئی کہ مہاجر مدینہ مولانا عبدالملک جامعی، مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے۔ ان کی ذات گرامی گوناگوں خصوصیات کی حامل تھی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابقین اولین میں تھے اور اس کے کئی شعبے ان کی صلاحیتوں سے پروان چڑھے۔ مولانا، مولانا محمد علی جوہرؔ کے فدائی اور خادم اور سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے محبوب شاگردوں میں سے تھے، حق بات کہنے میں کبھی ان کو تامل نہیں ہوتا تھا۔ اپنے استاد ذاکر صاحب سے بھی اس وقت کے امر کی ایک بات کہی تھی جس سے ذاکر صاحب رات بھر روتے رہے۔
مولانا عبدالملک کا بچپن اپنے والد منشی عبدالقیوم صاحب کیساتھ جو مشہور خطاط تھے بجنور میں گزرا جہاں سے مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ‘‘ نکلتا تھا۔ یہاں وہ کئی عبقری صحافیوں اور ہمدرد ان ملت کی خاص شفقتوں کے مورد رہے۔ ۱؂ وہیں سے مولانا نے تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا، مولانا کے والد محترم نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کلکتہ میں رہ کر ’’ترجمان القرآن‘‘ کی کتابت بہت ہی بے کسی کے عالم میں کی اور اسے مدینہ پریس بجنور میں طبع کرایا۔ دوسرا ایڈیشن لاہور میں طبع کرایا اور دونوں کا منافع مولانا آزاد کو پہنچایا۔
مولانا عبدالملک صاحب، مولانا محمد علی جوہرؒ کے فدائی اور عاشق تھے اور ساری ایمان افروز تربیت انہیں سے حاصل کی تھی۔ فرمایا کرتے تھے مولانا محمد علی بیسویں صدی کے مرد مومن ہیں۔ ان کا تعلق مولانا کے خاندان کے ہرہر فرد سے تھا۔ کراچی میں بھی ان کے نواسوں سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔
مولانا مرحوم نے تقریباً ۵۰ سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور حفظ قرآن کا نظام چلاتے رہے۔ مولانا کی زندگی بہت ہی بے کسی اور غربت میں گزری اور کبھی کوئی دنیاوی منفعت حاصل نہیں کی حتیٰ کہ مدینہ کے پچاس سالہ قیام کے دوران وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی سے سفارش نہیں کی جبکہ وہ چاہتے تو یہ کام انتہائی آسان تھا، دعوت تبلیغ کے اہم ترین کام کا درد ہمیشہ ان پر غالب رہا اور سخت سے سخت حالات اور صحت کی خرابی کے باوجود اس کی فکر فرماتے رہے۔ وفات سے چند ہفتہ قبل مرحوم نے راقم کو جو خط تحریر فرمایا تھا اس میں اس کی بشارت دی تھی کہ روس چین اور ہندوستان کے ایک علاقے کو ہدایت ملے گی۔
مولانا مرحوم نے مدینہ اور اس کے اطراف میں حفظ قرآن کو فروغ دیااور تحفیظ القرآن کے نام سے ایک ادارہ کی منظوری سعودی حکومت سے ایک ایسے وقت میں کرائی جبکہ حفظ قرآن کا نظام وہاں بے حد کمزور ہوگیا تھا۔ اب الحمدﷲ اس ادارہ کی برکت سے مدینہ منورہ میں ایک لاکھ سے زیادہ قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں۔ خدا مولانا مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مرتبہ سے سرفراز فرمائے، آمین۔ ( مئی ۱۹۹۱ء)(مولانا افتخار فریدی)
یہ خبر انتہائی رنج اور صدمہ کے ساتھ سنی گئی کہ مہاجر مدینہ مولانا عبدالملک جامعی، مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے۔ ان کی ذات گرامی گوناگوں خصوصیات کی حامل تھی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابقین اولین میں تھے اور اس کے کئی شعبے ان کی صلاحیتوں سے پروان چڑھے۔ مولانا، مولانا محمد علی جوہرؔ کے فدائی اور خادم اور سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے محبوب شاگردوں میں سے تھے، حق بات کہنے میں کبھی ان کو تامل نہیں ہوتا تھا۔ اپنے استاد ذاکر صاحب سے بھی اس وقت کے امر کی ایک بات کہی تھی جس سے ذاکر صاحب رات بھر روتے رہے۔
مولانا عبدالملک کا بچپن اپنے والد منشی عبدالقیوم صاحب کیساتھ جو مشہور خطاط تھے بجنور میں گزرا جہاں سے مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ‘‘ نکلتا تھا۔ یہاں وہ کئی عبقری صحافیوں اور ہمدرد ان ملت کی خاص شفقتوں کے مورد رہے۔ ۱؂ وہیں سے مولانا نے تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا، مولانا کے والد محترم نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ کلکتہ میں رہ کر ’’ترجمان القرآن‘‘ کی کتابت بہت ہی بے کسی کے عالم میں کی اور اسے مدینہ پریس بجنور میں طبع کرایا۔ دوسرا ایڈیشن لاہور میں طبع کرایا اور دونوں کا منافع مولانا آزاد کو پہنچایا۔
مولانا عبدالملک صاحب، مولانا محمد علی جوہرؒ کے فدائی اور عاشق تھے اور ساری ایمان افروز تربیت انہیں سے حاصل کی تھی۔ فرمایا کرتے تھے مولانا محمد علی بیسویں صدی کے مرد مومن ہیں۔ ان کا تعلق مولانا کے خاندان کے ہرہر فرد سے تھا۔ کراچی میں بھی ان کے نواسوں سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔
مولانا مرحوم نے تقریباً ۵۰ سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور حفظ قرآن کا نظام چلاتے رہے۔ مولانا کی زندگی بہت ہی بے کسی اور غربت میں گزری اور کبھی کوئی دنیاوی منفعت حاصل نہیں کی حتیٰ کہ مدینہ کے پچاس سالہ قیام کے دوران وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی سے سفارش نہیں کی جبکہ وہ چاہتے تو یہ کام انتہائی آسان تھا، دعوت تبلیغ کے اہم ترین کام کا درد ہمیشہ ان پر غالب رہا اور سخت سے سخت حالات اور صحت کی خرابی کے باوجود اس کی فکر فرماتے رہے۔ وفات سے چند ہفتہ قبل مرحوم نے راقم کو جو خط تحریر فرمایا تھا اس میں اس کی بشارت دی تھی کہ روس چین اور ہندوستان کے ایک علاقے کو ہدایت ملے گی۔
مولانا مرحوم نے مدینہ اور اس کے اطراف میں حفظ قرآن کو فروغ دیااور تحفیظ القرآن کے نام سے ایک ادارہ کی منظوری سعودی حکومت سے ایک ایسے وقت میں کرائی جبکہ حفظ قرآن کا نظام وہاں بے حد کمزور ہوگیا تھا۔ اب الحمدﷲ اس ادارہ کی برکت سے مدینہ منورہ میں ایک لاکھ سے زیادہ قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں۔ خدا مولانا مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مرتبہ سے سرفراز فرمائے، آمین۔ ( مئی ۱۹۹۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...