Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مسٹر راجیو گاندھی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مسٹر راجیو گاندھی
ARI Id

1676046599977_54338294

Access

Open/Free Access

Pages

501

آہ! مسٹر راجیو گاندھی!!
کانگریس آئی کے صدر اور سابق وزیر اعظم ہند مسٹر راجیو گاندھی کا وحشیانہ اور بے رحمانہ قتل ملک و قوم کا بڑا المناک سانحہ ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، وہ مدراس کے انتخابی دورہ کے سلسلہ میں ۲۱ مئی کو دس بجے کے بعد رات میں سری پر مبو دور کے ایک انتخابی جلسہ میں خطاب کرنے جارہے تھے تو کسی درندہ صفت، شقی القلب اور لئیم نے ان کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل کردیا، ان کی اس اذیت ناک موت نے ایک بار پھر ان کی والدہ مسز اندرا گاندھی اور قوم و ملک کے محسن گاندھی جی کی یاد تازہ کردی، اور ہر انسان دوست اور محب وطن شخص یہ سوچنے لگا کہ گوتم بُدھ اور گاندھی کے اس دیس میں کب تک راون اور ناتھورام گوڈ سے ہنسا اور تشدد کی ریت قائم و دائم رکھیں گے۔
راجیو گاندھی ۱۹۴۴؁ء میں پیدا ہوئے تھے، دون اسکول میں ابتدائی و ثانوی تعلیم پانے کے بعد لندن گئے اور میکنکل انجینئرنگ کا کورس کیا، ہندوستان واپس آکر ہوائی جہاز چلانے کی ٹریننگ لی، اور انڈین ایرلائنز سے وابستہ ہوئے، وہ ایک کامیاب پائلٹ تھے لیکن اپنے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی کے ہوائی حادثہ میں ہلاک ہونے کے بعد انھیں اپنی والدہ کی مدد کے لیے سیاست میں آنا پڑا، ۱۹۸۱؁ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری بھی مقرر کیے گئے، ۱۹۸۴؁ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد وہ وزیراعظم ہوئے، اسی سال انھوں نے قبل از وقت انتخاب کرایا اور پانچ برس تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے، ۱۹۸۹؁ء کے الیکشن میں تو ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں ملیں تاہم انھوں نے حکومت کی تشکیل نہ کرکے اپوزیشن میں رہنا پسند کیا، ابھی ڈیڑھ برس بھی انہیں ہوئے تھے کہ پھر نئے انتخاب کی نوبت آگئی جس کے دوران ہی میں نھیں بم سے اڑا دیا گیا، دنیا کی جس زندگی پر انسان پھولا نہیں سماتا اس کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا یہی حال ہے۔
مسٹر راجیوگاندھی کی ابھی عمر ہی کیا تھی، وہ اس ملک کے سب سے کم سن وزیراعظم تھے ع فتی سادالعشیرۃ امردا۔ ان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھا گیا تو پورے ہندوستان کا دل دھڑک رہا تھا، مگر کم سنی اور طویل سیاسی تجربہ نہ ہونے کے باوجود وہ اس بھاری ذمہ داری سے عہدہ برآ اور ملک اور پارٹی کا اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے، ان کی قیادت میں ہونے والے پہلے انتخاب میں انھیں زبردست کامیابی ہوئی، ۱۹۸۹؁ء کے انتخاب میں واضح اکثریت نہ ملنے کے باوجود انھوں نے پارٹی کو انتشار سے بچایا، ان کی حکومت کے دونوں رخ ہیں، لیکن یہ ان کی بڑائی تھی کہ غلطی کے احساس کے بعد انھیں اس کا اعتراف کرلینے میں تامل نہیں ہوا، خیال تھا کہ دوبارہ برسر اقتدار آنے پر وہ پچھلی غلطیوں سے سبق لیں گے اور ان کی تلافی کریں گے، اقلیتوں کے معاملہ میں فراخدلانہ رویہ اختیار کریں گے، جن کی تصویر ملک میں روز بروز بگڑتی ہی جارہی ہے، لیکن یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور ملک کے مستقبل پر ان کی موت سے دھند اور غبار چھاگیا۔
اس سنگدلانہ حادثہ کے پس پردہ جن لوگوں کا واقعی ہاتھ ہے ان کا سراغ لگنا مشکل ہے، اس سے پہلے دنیا کے بعض ملکوں کے سربراہوں کو اسی طرح لقمۂ اجل بنادیا گیا، لیکن ان کے قتل کا راز سربستہ ہی رہا، کیونکہ اس قسم کے قتل کا رخ غیر متعلق لوگوں کی جانب اس طرح موڑ دیا جاتا ہے کہ صحیح صورت حال سامنے نہ آئے، بہر حال یہ سو چی سمجھی گہری سازش ہے، جس میں بیرونی ملکوں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی ملک کے بدباطن لوگوں کا اس میں ملوث ہونا یقینی ہے، یہ سانحہ جمہوریت اور ملک کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک چیلنج ہے، سیاست پر سماج دشمن اور جرائم پیشہ لوگوں کے اثر و نفوذ بڑھ جانے کی وجہ سے آج جو انجام راجیو گاندھی کا ہوا ہے وہی دوسروں کا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں اور ملک کے سنجیدہ اور درد مند لوگوں کو اس کی روک تھام کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے ورنہ ملک تباہ ہوجائے گا۔
تھوڑے سے وقفہ کو چھوڑ کر ۱۹۴۷؁ء سے اب تک ملک کی باگ ڈور نہرو خاندان ہی میں رہی، راجیو گاندھی کے بچے ابھی چھوٹے ہیں جن کے سیاست میں آنے کا کوئی سوال نہیں، اس وقت وزارت عظمیٰ کے دعویدار تو بہت ہیں مگر ملک بڑے بحرانی دور سے گذر رہا ہے، ایک طرف مذہبی اور فرقہ وارانہ جنون حد سے بڑھ گیا ہے، دوسری جانب مہنگائی، گرانی، رشوت، چور بازاری اور کرپشن نے ملک کی چولیں ہلادی ہیں اور اس کی وحدت و سالمیت خطرے میں آگئی ہے، ایسے بحرانی وقت میں صاف ستھری اور مدبرانہ قیادت ہی ملک کو اس بحران و انتشار سے بچاسکتی ہے۔ دارالمصنفین کو راجیو گاندھی کی حسرت ناک موت کا دوہرا غم ہے، ان کے ننھیال سے اس ادارہ کا گہرا تعلق رہا ہے، ان کے پر نانا پنڈت موتی لال نہرو اور نانا پنڈت جواہر لال نہرو اس کو اپنی تشریف آوری اور کرم سے برابر نوازتے رہے، موخر الذکر دارالمصنفین کے بڑے محسن اور لائف ممبر تھے، مسز اندرا گاندھی نے اپنے بزرگوں کی روایت برقرار رکھی، دارالمصنفین راجیو گاندھی کے سوگوار خاندان کے غم میں شریک ہے۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جون ۱۹۹۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...