Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالمجید ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالمجید ندوی
ARI Id

1676046599977_54338295

Access

Open/Free Access

Pages

501

آہ! مولانا عبدالمجید ندوی
افسوس ہے کہ ۲۳ مئی کو مولانا عبدالمجید ندوی صدر مدرس مدرستہ الاصلاح سرائے میر ایک حادثہ میں جاں بحق ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ایک تقریب میں شرکت کے لیے جارہے تھے، رانی کی سرائے میں کوئی بچہ ان کی گاڑی کی زد میں آگیا، مگر ڈرائیور کی ہوشیاری سے وہ بالکل بچ گیا اور اسے کوئی چوٹ نہیں آئی، اس کے باوجود بعض شرپسند لوگوں نے پتھراؤ کیا۔ جس سے مولانا کے دماغ پر ضرب شدید آگئی اور اعظم گڑھ اسپتال میں انھوں نے دم توڑ دیا۔
مدرستہ الاصلاح میں متوسطات تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ندوۃ العلما لکھنؤ میں داخل ہوئے، فراغت کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا، پھر بی۔ایڈ کے لیے شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخلہ لیا۔ ندوہ کی آخری جماعت میں تفسیر کا درس مولانا عبدالباری ندوی فلسفی سے لیا۔ جن کی تعلیم و تربیت کا خاص اثر ان پر پڑا، وہ کئی برس تک ان کے ساتھ ہی ان کے مکان میں رہے، اس سے ان کو بڑا علمی و دینی فائدہ پہنچا مگر باقاعدہ بیعت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ سے ہوئے۔
اعظم گڑھ میں وہ میرے ساتھ رہتے تھے، ان کے دینی ذوق و رجحان، مذہبی حمیت، شعائردین اور ارکان اسلام کے احترام خصوصاً نماز کی پابندی اور اہتمام کی بنا پر مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ان کی بڑی قدر کرتے تھے اور شاہ صاحب نے دارالمصنفین میں لائبریرین کی حیثیت سے ان کا تقرر بھی کیا مگر وہ اپنے بعض مشاغل کی وجہ سے یہاں زیادہ دنوں تک قیام نہیں کرسکے۔ اس کے بعد مختلف وقتوں میں مدرستہ الاصلاح، جامعتہ الرشاد اور شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے، ادہر چند برس سے وہ مدرستہ الاصلاح کے مہتمم تھے۔ ان میں لکھنے پڑھنے کی اچھی صلاحیت تھی مگر اس کے لیے جس یکسوئی اور دل جمعی کی ضرورت ہے وہ انہیں میسر نہیں ہوسکی۔
ان میں اچھی انتظامی صلاحیت بھی تھی اور وہ ہر کام کو بڑے سلیقہ اور پوری ذمہ داری سے انجام دیتے تھے، نظم و نسق کے معاملہ میں کسی کے ساتھ بھی رورعایت نہ کرتے، اپنے اعزہ کو بھی کوتاہی کرنے پر معاف نہیں کرتے تھے، اس کی وجہ سے بعض لوگ ان کے شاکی رہتے تھے مگر وہ کبھی کسی کی شکایت اور ناراضگی کی پروا نہ کرتے اپنی سخت گیری، ایمانداری، اصول پسندی، ہر ایک کے ساتھ یکساں برتاؤ اور انتظامی لیاقت کی بنا پر اداروں کے منتظمین اور ذمہ داروں میں بہت مقبول تھے، ان کی صحت بہتر نہیں تھی۔ مگر ابھی پچاس برس سے زیادہ عمر نہیں رہی ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جون ۱۹۹۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...