1676046599977_54338296
Open/Free Access
502
مولانا محمد یوسف صاحب مرحوم
افسوس کہ مولانا محمد یوسف صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ہند کا ۴ جولائی کو دن میں ۲بجے رامپور میں انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ان کی وفات سے ملک و قوم کے درد مند وہوشمند اور مخلص اور فعال رہنماؤں کی صف اور سونی ہوگئی۔
جماعت اسلامی سے ان کا تعلق بڑا دیرینہ تھا، ۴۸ء میں منقسم ہندوستان میں جماعت کی تشکیل نو کے وقت وہ جماعت کے قیم مقرر کیے گئے، ۷۲ء تک وہ اس منصب پر فائز رہنے کے بعد امیر جماعت منتخب کیے گئے ۸۰ء تک اس پر فائز رہے۔ جماعت کے کئی اور اداروں جیسے بورڈ آف اسلامک پبلیکشنر، دعوت ٹرسٹ اور اشاعت اسلام ٹرسٹ وغیرہ کے بھی وہ چیئرمین تھے، پیرانہ سالی اور عوارض واعذار کی وجہ سے ادھر کئی برسوں سے وہ گوشہ گیر ہوگئے تھے مگر ملی و قومی مسائل سے باخبر اور ان کے متعلق فکر مند رہا کرتے تھے، گو انکے دور امارت میں جماعت کو ابتلا و آزمایش کا سامنا کرنا پڑا تاہم انھوں نے اس کو ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن رکھا، ملک کے دوسرے اسلامی اداروں اور اشخاص سے بھی ان کا تعاون و اخلاص کا معاملہ رہا، مسلم مجلس مشاورت، مسلم پرسنل لابورڈ اور دینی تعلیمی کونسل کے وہ رکن رکین تھے، قومی و ملکی مسائل پر ان کی وسعتِ نظر، فراخدلی اور اشتراک عمل کے جذبہ کی قدر کی جاتی تھی، وہ جماعت کے اہم اجتماعات میں دوسرے مکاتب فکر کے افراد کو بھی اظہار رائے کے لیے مدعو کرتے، ان کی تقریریں اور خطبات عام طور سے نہایت متوازن، جامع اور بامقصد ہوتے، گفتار کے علاوہ کردار کے میزان میں بھی وہ پورے اترے، ۷۵ء میں ایمرجینسی کے دور ابتلاء میں انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر کے اور پس دیوار زنداں اسلام کے پیام کو اپنے قول و عمل سے پیش کر کے۔ اسوۂ یوسفی کو تازہ کردیا، جب ۷۹ء میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کے خلاف ہندوستان کے بعض حلقوں میں بڑی برہمی ہوگئی تھی تو انھوں نے نہایت درد مندانہ انداز میں ایک رسالہ ویالیت قومی یعلمون، [ےٰسین:۲۶]کے بلیغ و برمحل عنوان سے شایع کیا جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ عالمی مساجد کونسل اور موتمر عالم اسلامی کے رکن کی حیثیت سے انھوں نے بیرون ملک جماعت اسلامی کے وقار میں اضافہ کیا، ان کے دور امارت کی ایک یادگار ۸۱ء کا اجتماع حیدرآباد بھی ہے، اس میں عالم اسلام کی بعض نمایاں و مقتدر ہستیوں کی شرکت سے اس کی حیثیت ایک عالمی اجتماع کی سی ہوگئی، شکل و صورت اور وضع قطع کی مانند اپنے گفتار و کردار میں بھی پاکیزہ اور خوش اطوار تھے، جو لوگ ان کے قریب رہے وہ ان کی دینداری، سادگی، فروتنی، اخلاص، ایثار اور شیریں کلامی کے مداح و معترف ہیں۔ دارالمصنفین کے سابق شریک ناظم مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کے حادثہ وفات پر انھوں نے جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کے نام تعزیتی خط میں لکھا تھا کہ ’’ایک دن تو ہر ایک کو جانا ہے، آج وہ تو کل ہماری باری ہے، وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو کامیابی کے ساتھ مراحل حیات طے کر کے اپنی ابدی جائے قرار کے لیے روانہ ہوگئے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مرحوم سے حوض کوثر پر اس دن ملائے جس دن ہر مومن بندہ اپنے بچھڑے ہوؤں کو پالے گا اور بھر جدائی کا کوئی سوال نہ ہوگا‘‘۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی نیکیوں کے طفیل میں ان کو جام کوثر و تسنیم سے سیراب کرے اور انکے پسماندگان ظاہری و معنوی کو صبر و رضا کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ (عبد السلام قدوائی، اگست ۱۹۹۱ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |