Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عبداﷲ کنون

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عبداﷲ کنون
ARI Id

1676046599977_54338299

Access

Open/Free Access

Pages

503

اُستاد عبداﷲ کنون
معاصر مراکشی عالم ، مورخ اور ادیب
( شیخ نذیر حسین )
عصر حاضر کے ممتاز مراکشی مصلح، عالم، ادیب اور مورخ استاد عبداﷲ کنون نے ۹؍ جولائی ۱۹۸۹؁ء کو بیاسی برس کی عمر میں انتقال کیا۔ ان کی ساری زندگی تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف اور دعوت و تجدید میں گزری۔ وہ ۱۳۲۶؁ھ؍ ۱۹۰۸؁ء میں فاس میں پیدا ہوئے، انھوں نے دینی اور روحانی ماحول میں پرورش پائی۔جب مراکش پر فرانسیسی سیادت قائم ہوگئی تو ان کے والد عبدالصمد طنجہ (Tangier) کے بین الاقوامی شہر میں چلے آئے۔ اس کے بعد وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانا چاہتے تھے، لیکن پہلی جنگ عظیم کے باعث وہ اپنے خاندان سمیت طنجہ ہی میں ہمیشہ کے لیے مقیم ہوگئے۔
استاد عبداﷲ کنون نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد اور اعلیٰ تعلیم مراکش کے مشاہیر علماء سے پائی۔ بیس برس کی عمر میں وہ تعلیم و تدریس کے علاوہ اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے لگے۔ اس وقت سرکاری مدارس میں فرانسیسی زبان کا چلن تھا اور عربی زبان خارج ازنصاب تعلیم تھی، اس لیے استاد عبداﷲ کنون نے مسلمان بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لیے طنجہ اور تطوان میں آزاد مدارس کھولے، جہاں ذریعہ تعلیم عربی زبان تھی۔
۱۹۵۳؁ء میں فرانسیسیوں نے سلطان محمد خامس کو معزول کرکے ایک غیر مقبول شخصیت کو مراکش کے تخت پر بٹھادیا تو سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ سلطان کی بحالی کی تحریک میں استاد عبداﷲ کنون نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ جب سلطان محمد خامس مراکش کے تاج و تخت پر دوبارہ متمکن ہوئے تو انھوں نے عبداﷲ کنون کو طنجہ کا حاکم اعلیٰ مقرر کیا۔ اس کے بعد جب طنجہ کے بین الاقوامی علاقے کا مراکش میں انضمام ہوا تو وہ سیاسی اور مالی معاملات طے کرنے کے لیے دول یورپ اور حکومت مراکش کے درمیان رابطہ آفیسر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
استاد عبداﷲ کنون سیاست میں شروع سے دلچسپی رکھتے تھے۔ جب امیر عبدالکریم (ریف) نے فرانس اور اسپین کے خلاف اعلان جہاد کیا اور اس کے نتیجہ میں مراکش میں مکمل آزادی کے لیے جمعیۃ الوطنیہ قائم ہوئی تو انھوں نے اس کے قیام میں سرگرم حصہ لیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سیاست دانوں سے مخلصانہ تعلقات کے باوجود وہ اپنے مخصوص افکار و نظریات سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوسکے۔
استاد عبداﷲ کنون کی سرگرمیوں کا اصلی میدان صحافت اور تصنیف و تالیف تھا۔ وہ بیک وقت عالم، مورخ، ادیب اور صحافی تھے۔ ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی نے تطوان سے ایک ماہ نامہ لسان الدین کے نام سے جاری کیا۔ (۱۹۴۶؁ء) تو ہلالی صاحب کے پاکستان اور جرمنی چلے جانے کے بعد وہ آٹھ نو سال تک لسان الدین کی ادارت کرتے رہے۔ اس رسالے میں علمی، ادبی اور سیاسی مقالات ہوتے تھے اور زبان کی صحت و صفائی کے باعث علمی و دینی حلقوں میں بہت پسند کیا جاتا تھا، لسان الدین کی بندش کے بعد وہ رسالۃ الانوار اور المیثاق اور رسالۃ الاحیاء میں بھی کام کرتے رہے۔
استاد عبداﷲ کنون اندلس کی تاریخ کے علاوہ المغرب (طرابلس، تونس، الجزائر اور مراکش) کی علمی، ادبی، دینی اور سیاسی تاریخ کے بڑے واقف کار اور ماہر تھے، چنانچہ ان کی تصانیف کا محور یہی موضوع ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اسلام کے وفاع میں بہت سے مضامین لکھے ہیں، دشمنان اسلام کے اعتراضات کا جواب دیا ہے اور بہت سے نوادر تحقیق کے بعد شائع کئے ہیں، انھوں نے مستقل علمی کتابوں کے علاوہ بہت سے رسائل اور کتابچے بھی شائع کئے تھے جو وقتی مسائل پر لکھے گئے ہیں۔ ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم ان کی اہم کتابوں کا ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ النبوغ المغربی: یہ المغرب کی ادبی تاریخ ہے، جس کا تیسرا ایڈیشن تین جلدوں میں ۱۹۷۴؁ء میں بیروت سے شائع ہوا ہے اور علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوا ہے۔ اس کا انگریزی و ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، میڈریڈ یونیورسٹی (اسپین) نے مصنف کو ڈاکٹریٹ دی ہے۔
۲۔ ذکریات مشاہیر رجال المغرب: المغرب کے مشاہیر علماء، ادباء، صلحاء کے حالات میں چالیس چھوٹے چھوٹے رسائل ہیں۔
۳۔ احادیث عن الادب المغربی الحدیث: معہد دراسات العربیۃ العالیہ، قاہرہ میں مصنف نے موجودہ ادب المغربی پر ایک لیکچر دیا تھا۔ (قاہرہ ۱۹۶۴؁ء)
۴۔ القاضی عیاض بین العلم و ادب: فخر مغرب عربی قاضی عیاض کے حالات میں ایک کتابچہ۔ (ریاض ۱۹۸۴؁ء)
۵۔ مدخل الی تاریخ المغرب: مغرب عربی کی تاریخ عہد اسلام سے لے کر عصر حاضر تک۔ (تطوان ۱۹۵۸؁ء)
۶۔ شرح مقصورہ المکودی: عبدالرحمن المکودی (م۸۰۷ھ) کے مقصورہ کی لغوی اور ادبی تشریح جو مدارس عربیہ کے طلبہ کے لیے لکھی گئی ہے۔
۷۔ نظرۃ فی منجد الادب و العلوم: لبنان کے عیسائی فاضل لوئیس معلوف نے عربی لغت کو منجد کے نام سے ابجدی ترتیب سے شائع کیا تھا، جو اپنی تسہیل کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئی ہے اور اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، لیکن علمی و دینی حلقوں میں اس پر بہت سے شبہات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ قرآن اور احادیث کے لغات کی تشریح کے لیے اس پر مطلقاً اعتماد نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ استاد عبداﷲ کنون نے المنجد کی فروگزاشتوں کی نشاندہی کی ہے اور اسماء اور اعلام اور انساب کے بیان میں اس کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے۔ (قاہرہ ۱۹۷۳؁ء)
۸۔ ادب الفقھاء: بعض ادبی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اکثر علمائے دین کی کتابوں میں سلاست اور شگفتگی نہیں ہوتی اور وہ ادبی لطافت سے خالی ہوتی ہیں، اس تاثر کو دور کرنے کے لئے انھوں نے ادب الفقہا لکھی ہے، جس میں علمائے اسلام کی جاندار تحریروں کے اقتباس پیش کئے ہیں۔
استاد عبداﷲ کنون عمر بھر اسلام کا دفاع کرتے رہے اور مسلمانوں کو صحیح اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بے شمار دینی اور اصلاحی مضامین اخباروں اور رسالوں میں لکھے تھے، جو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں:
(۱) مفاھیم الاسلامیہ (طبع بیروت و دارالبیضاء)، (۲)اسلام رائد (طبع رباط، ۱۹۷۸ء)، (۳)تحرکات اسلامیہ (مطبوعہ دارالبیضاء)، (۴)علیٰ درب الاسلام (تطوان، ۱۹۷۲ء)، (۵)شؤن اسلامیہ (مطبوعہ دارالبیضاء)، (۶)جولات فی الفکر الاسلامی (تطوان ۱۹۸۰ء)، (۷)منطلقات اسلامیہ (طنجہ ۱۹۸۰ء)، (۸)الاسلام اھدٰی (دارالبیضاء، ۱۹۸۴ء)، (۹)معسکر الایمان یتحدیٰ (طنجہ ۱۴۱۰ھ)۔
مذکورہ بالا کتب میں وہ حیرت سے مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ اہل یورپ اپنے الحاد اور بے دینی کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت پر کمربستہ ہیں لیکن مسلمان اس کے برعکس یورپ والوں کی ہر ادا پر مر مٹے ہیں اور ان کی ہر بات کو تصدیق اور تحقیق کے بغیر مان لیتے ہیں۔ علی درب الاسلام میں ان کی مخاطب مسلم خواتین ہیں اور ان کو قرآن اور اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے بعض مضامین میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں اوران کے انسداد کا ذکر ہے۔ انھوں نے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے عربی ریڈرین بھی لکھی ہیں۔
استاد عبداﷲ کنون نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ بہت سے نوادر تحقیق اور بڑی محنت سے شائع کیے تھے، جن میں اہم ترین یہ ہیں۔
(۱) رسائل سعدیہ: مراکش میں سعدی خاندان کے سرکاری مراسلات کا مجموعہ۔
(۲) قواعد اسلام (قاضی عیاض): یہ مختصر سا رسالہ لسان الدین میں شائع ہوا تھا۔
(۳) تلقین الولید الصغیر (عبدالحق اشبیلی): یہ رسالہ بھی لسان الدین میں چھپ کر شائع ہوا۔
(۴) شرح الاربعین الطبیہ: چالیس طبی احادیث کا مجموعہ جو علامہ عبدالطیف بغدادی نے سنن ابن ماجہ سے منتخب کی تھیں اور ان کی تہذیب و ترتیب شیخ محمد بن یوسف البرزالی نے کی تھی۔
(۵) مناھل الصفاء فی اخبار الملوک و الشرفاء (عبدالعزیز القشقالی)
(۶) المنتخب من شعرابی ذاکور (مطبوعہ طنجہ و قاہرہ)
(۷) دیوان ملک غرناطہ یوسف الثالث (تطوان ۱۹۵۸ء)
(۸) عجالۃ المبتدی و فضالۃ المنتھی فی النسب (چھٹی صدی کے ماہر نسب ابوبکر الحازمی کی تصنیف مطبوعہ قاہرہ ۱۹۷۳ء)۔
استاد عبداﷲ کنون بہت اچھے شاعر بھی تھے، چنانچہ ان کے کلام کے دو تین مجموعے رباط وغیرہ سے شائع ہوچکے ہیں۔ عبداﷲ کنون کے تمام عالم اسلامی کے مشاہیر سے مخلصانہ تعلقات تھے اور یہ اکابر ان کو مختلف مسائل پر خطوط لکھتے رہتے تھے، چنانچہ ان کے بعض تلامذہ اور مداحین ان خطوط کو کئی جلدوں میں مرتب کررہے ہیں۔
استاد عبداﷲ کنون عالم عرب کی بہت سی علمی اور ادبی مجالس کے رکن تھے، جہاں ان کی آراء و تجاویز کو بڑی قدر و وقعت سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ مجمع العلمی العربی (دمشق)، مجمع اللغۃ (قاہرہ)، مجمع اللغۃ (اردن) کے علاوہ رابطہ اسلامیہ، مکہ مکرمہ کے بھی سرگرم ممبر تھے۔ مصر، تیونس اور مراکش کی حکومتوں نے انہیں سرکاری انعامات اور خطابات سے بھی نوازا تھا، چنانچہ جب ۹؍ جولائی ۱۹۸۹؁ء کو ان کا انتقال ہوا تو وہ سرکاری اعزاز و اکرام سے دفن کیے گئے۔ رحمۃ اﷲ علیہ رحمۃ واسعۃ۔ (مجلہ مجمع اللغۃ، دمشق) (ستمبر ۱۹۹۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...