Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی
ARI Id

1676046599977_54338300

Access

Open/Free Access

Pages

505

آہ! مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی
افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ میں رشد و ہدایت اور اصلاح وارشاد کی وہ شمع فروزاں بجھ گئی جس کو حضرت مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی نے روشن کیا تھا یعنی حضرت مولانا محمد احمد پرتابگڑھی اپنے ہزاروں مسترشدین اور عقید تمندوں کو سوگوار اور اشکبار چھوڑ کر رفیق اعلیٰ سے جاملے، رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔
وہ اس دور کے شیخ کامل، عارف باﷲ اور ’’درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق‘‘ کا مصداق تھے۔
راقم الحروف کو چند بار حضرت کی خدمت میں حاضری اور ان کے اشغال و معمولات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ان کی زندگی زہدو ورع اور سادگی و اخلاص میں سلف صالحین کا نمونہ اور خلق نبویﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ ان کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں نسبت حاصل تھی اور وہ حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مسترشد مولانا شاہ بدرعلی صاحب رائے بریلوی کے خلیفہ تھے اس لیے وہ ہمیشہ طریقت پر شریعت کو مقدم رکھتے تھے اور اتباعِ سنت ان کا شعار تھا۔
تواضع و انکسار ان کی سرشت میں داخل تھا، کہیں سے اپنی برتری اور کمال کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ہر شخص سے لطف و محبت کا برتاؤ کرتے، ان کی شفقت و دلجوئی، اخلاص و بے نفسی سادگی وبے تکلفی، خورد نوازی اور مظاہرسے بے پروائی کی وجہ سے لوگ خود ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے، جن لوگوں کو خانقاہی نظام کے رسوم و آداب سے واقفیت اور مناسبت نہیں ہوتی تھی وہ بھی ان کی دلنوازی وبے تکلفی کی وجہ سے ان سے مانوس ہوجاتے تھے، راقم الحروف سے وہ بڑا مخلصانہ تعلق رکھتے تھے اس لیے مجھے بھی ان سے بڑی انسیت ہوگئی تھی، میرے ایک بزرگ مولانا محمد عاصم اصلاحی مرحوم کے روابط ان سے بڑے مخلصانہ تھے اور وہ برابر اپنی اصلاح کے لیے ان کی خدمت میں تشریف لے جاتے تھے اور جب واپس آتے تو حضرت کا سلام و پیام مجھ کو پہنچا کر محجوب کرتے۔
ان کی مجلس میں نہ کسی کی غیبت و دلآزاری ہوتی اور نہ کسی پر تنقید، وہ صرف توحید و اخلاص کا درس دیتے، سنت کے اتباع اور بدعت سے اجتناب کی تلقین فرماتے اور اہل اﷲ کا تذکرہ کرکے لوگوں کے ایمان و یقین میں اضافہ فرماتے۔
انہیں نام و نمود اور شہرت و جاہ سے نفرت تھی، اگر وہ بھی عام مشائخ اور ارباب طریقت کا انداز اختیار کرتے تو پورے ملک میں ان کا غلغلہ مچ سکتا تھا لیکن ان کے دردیشانہ مزاج نے انہیں گوشہ گمنامی سے باہر نہ آنے دیا اس کے باوجود سالکین و طالبین کا رجوع ان کی ذات کی جانب بہت بڑھ گیا تھا اور خصوصیت سے مشرقی اترپردیش کے لوگوں کو ان سے بڑا فیض پہنچا۔
مولانا شریعت و طریقت کے جامع تھے، ان کی دکان معرفت سے درد مندوں کی دوائے دل ہر وقت ملتی تھی، نفوس کی اصلاح و تزکیہ اور مسترشدین کی ہدایت و تربیت ہی ان کا اصل مشغلہ تھا، پیشہ ورانہ تقریر و تحریر کی نہ ان کو فرصت تھی اور نہ ان سے مناسبت تھی، اپنے حلقہ بگوشوں کے سامنے جو وعظ و ارشاد فرماتے وہ نہایت دل پذیر اور موثر ہوتا بعض حضرات نے اس کو مرتب کر کے ’’روح البیان‘‘ کے نام سے دو حصوں میں شایع کیا تھا، اس میں رضائے الٰہی کے حصول، آخرت کے استحضار، کتاب و سنت کے اتباع، ذکر، تلاوت و عبادت کی فضیلت، اخلاق و معاملات کی صفائی، تزکیۂ قلب، اخلاص نیت، اصلاحِ عمل اور اہل اﷲ سے محبت و تعلق وغیرہ کی تاکید کی گئی ہے۔
مولانا کو شعر و سخن سے طبعی مناسبت تھی اور اس کا عمدہ اور ستھرا ذوق رکھتے تھے ان کی محفل ارشاد و ہدایت ان کے پرسوز اور عشق و مستی سے معمور کلام کی وجہ سے ہمیشہ نہایت پر اثر اور پر کیف ہوتی تھی ان کا مجموعہ کلام ’’عرفان محبت‘‘ کے نام سے شایع ہوا ہے یہ اسم باسمٰی اور سلوک و معرفت کالائحہ عمل ہے، مولانا کے نزدیک راہ سلوک کی سب سے بڑی دولت محبت ہے، اسی کو وہ اپنے مسترشدین میں لٹانا چاہتے تھے کیونکہ اس سے تمام اسرار و حقائق منکشف ہوجاتے ہیں، اسی لیے وہ خود بھی آتش عشق و محبت میں مرکر جینا اور لسبمل کی طرح تڑپنا پسند کرتے تھے ان کا یہ مجموعہ عشق و محبت اور جوش و مستی کے انہی حقایق و اسرار کی کیفیتوں اور لذتوں کی شرح و تعبیر اور لاہوتی ترانوں اور سرمدی نغموں سے معمور ہے، مولانا کا کلام زلف و گیسو، رخ و عارض اور گل و بلبل کی حکایت اور ہجر و وصال کی داستان کے بجائے ان کے قلبی واردات اور باطنی کیفیات کا آئینہ دار ہے اور یہ عشق کی مستی و سرشاری، محبت کی گرمی و شعلہ نوائی، جذبات کی لطافت و پاکیزگی اور خیالات کی معنویت و بلندی کا حامل اور بادۂ معرفت کا چھلکتا ہوا جام ہے۔
مولانا کا اصلی کمال یہ ہے کہ عشق و مستی اور جذب و کیف کے عالم میں بھی ان کا ہوش و حواس بجا رہتا ہے، اور وہ بندگی کی لذت کے مقابلہ میں حال و قال کی لذتوں کو ہیچ سمجھتے ہیں، مولانا کا کلام صوفیانہ عاشقانہ شاعری میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور یہ سلوک و تصوف کا ایک صحیفہ ہے۔ ان کا دل دینی حمیت اور اسلام کی محبت و حمایت کے جذبہ سے سرشار تھا یہ بھی ان کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ہے وہ مسلمانوں کی طرح دنیا کے بگڑے ہوئے حالات کی اصلاح کا دلولہ بھی رکھتے تھے ایک موقع پر مسلمانوں کو معمارِ جہاں بن جانے کی اس طرح تلقین فرماتے ہیں ؂
رحمت کا ابر بن کے جہاں بھر میں چھائیے
عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے
کاش مسلمان اپنا یہ فراموش شدہ سبق یاد کرلیں۔ (ضیاء الدین اصلاحی، نومبر ۱۹۹۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...