Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر عبدالمنعم النمر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر عبدالمنعم النمر
ARI Id

1676046599977_54338302

Access

Open/Free Access

Pages

506

ڈاکٹر عبدالمنعم النمر
(مولانا قاضی اطہر مبارکپوری)
اس دور میں مصر کے دو ازہری عالموں نے ہندسوستان کی اسلامی تاریخ اور یہاں کی علمی و دینی خدمات و شخصیات سے خصوصی اعتنا کیا ہے اور اس موضوع کے بارے میں عالم عرب اور عالم اسلام کے لیے بیش بہا معلومات فراہم کیں، ایک سابق وزیر اوقاف ڈاکٹر عبدالمنعم النمرؒ اور دوسرے مدیر کلیہ شیخ الازہر ڈاکٹر عبدالعزیز عزت حفظہ اﷲ وسلمہ، اس وقت شیخ عبدالمنعم النمر کا ذکر مقصود ہے، جنھوں نے ۲۷ ماہ ہندوستان میں رہ کر عربی زبان و ادب اور ثقافت کی تعلیم دینے کے ساتھ کشمیر سے مالابار تک سیاحت کر کے یہاں کے اسلامی آثار و تواریخ کا بغور مطالعہ کیا اور کتابیں لکھیں، نیز مولانا ابوالکلام آزاد پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور استاذ عبدالعزیز عزت نے یہاں کی متعدد کتابوں کا عربی میں ترجمہ شایع کیا، یہ دونوں عالم جامع ازہر اور موتمر اسلامی کی طرف سے ہندوستان میں مبعوث تھے، شیخ النمر کے ذکر سے پہلے استاذ عزت کا مختصر تعارف مناسب معلوم ہوتا ہے۔
استاد عبدالعزیز عزت نے جامع ازہر میں تعلیم حاصل کی اور اسی میں اردو زبان سیکھی اردو کی کتابیں اور اخبارات و رسائل بے تکلف پڑھتے اور سمجھتے ہیں البتہ بات چیت میں عربی اردو بولتے ہیں جس طرح یہاں کے علماء عربی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں اور گفتگو میں ہندی عربی بولتے ہیں اور دونوں کے لیے یہ عیب کی بات نہیں ہے بلکہ اس سے سننے والے اہل زبان کو لطف آتا ہے، وہ جامع ازہر اور موتمر اسلامی کی طرف سے بمبئی میں عربی زبان کی تعلیم کے لیے مبعوث ہوئے اور تقریباً چار سال کے بعد ۱۹۶۵؁ء میں واپس ہوئے، اس درمیان میں میرے ان کے تعلقات عزیزانہ انداز کے ہوگئے اس کے بعد وہ پاکستان میں مبعوث ہوئے اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کی سیرۃ النبیؐ جلد سوم پر تحقیقی مقالہ لکھ کر کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، نیز سید صاحب مرحوم کی کتاب ’’عربوں کی جہاز رانی‘‘ کا عربی میں ترجمہ ’’الملاحۃ عندالعرب‘‘ کے نام سے شایع کیا جس کا مقدمہ پاکستان میں مصر کے سفیر سید علی ابوالفضل خشبہ نے لکھا ہے، موصوف نے مصر میں ایک ملاقات میں بتایا کہ اس کا مسودہ اسکندریہ یونیورسٹی کے استاد بحریات نے مطالعہ کے لیے طلب کیا اور تقاضا کے باوجود واپس نہیں کیا مگر بعد میں کسی طرح اس کو حاصل کر کے شایع کیا، موصوف نے میری کتاب ’’عرب و ہند عہد رسالت میں‘‘ کا ترجمہ ’’العرب والھند فی عھد الرسالۃ‘‘ کے نام سے کر کے ۱۹۷۳؁ء میں قاہرہ کی ’’الھیۃ المصریۃ العامۃ للکتاب‘‘ سے شایع کیا، اور ’’ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں‘‘ کا ترجمہ ’’الحکومات العربیۃ فی الھندوالسند‘‘ کے نام سے مکتبہ آل مداﷲ البکریہ ریاض سے شایع کیا ، وہ فی الحال مجمع البحوث الاسلامیہ کے رکن رکین اور مدیر مکتبہ شیخ الازہر ہیں۔
شیخ عبدالمنعم النمر اگست ۱۹۱۳؁ء میں مصر کے مشہور شہر دسوق میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم مقامی درسگاہ میں حاصل کرکے جامع ازہر میں داخل ہوئے اور ۱۹۳۹؁ء میں کلیۃ اصول الدین سے عالمیت کی سند پائی، پھر وہیں سے ۱۹۴۱؁ء میں ماہر تعلیم کی سند حاصل کرکے جامع ازہر اور مصر کے دیگر معاہد و جامعات میں تعلیمی خدمت انجام دی، ۱۹۵۶؁ء میں جامع ازہر اور موتمر اسلامی نے ان کو دارالعلوم دیوبند بھیجا جہاں انھوں نے ۲۷ ماہ رہ کر عربی ادب و ثقافت کی تعلیم دی اور ہندوستان کی سیاحت کر کے یہاں کی اسلامی تاریخ و آثار کے متعلق معلومات جمع کیں، ان کے ساتھ شیخ عبدالعال العقباوی بھی استاد و معلم کی حیثیت سے تھے، ۱۹۶۵؁ء میں کویت کے مجلہ الوعی الاسلامی کے رئیس التحر پر ہوئے، اور مختلف علمی و فقہی موضوعات پر پُرمغز مضامین و مقالات لکھے، اسی دوران امارت عربیہ متحدہ سے مجلہ المنار جاری کیا، ۱۹۷۸؁ء میں جامع ازہر کے وکیل بنائے گئے اور مدیر البعثات الازہریہ کی حیثیت سے مفوضہ خدمات بوحوہ احسن انجام دیں، ۱۹۷۹؁ء میں وزیر اوقاف بنائے گئے اور ۱۹۸۶؁ء میں حکومت مصر کی طرف سے ان کی علمی، تحقیقی اور دوسری مختلف خدمات کے اعتراف کے طور پر توصیفی سند پیش کی گئی اور مئی ۱۹۹۱؁ء (اواخر ذوقعدہ ۱۴۱۱؁ھ) میں قاہرہ میں انتقال کیا، رحمتہ اﷲ علیہ۔
شیخ عبدالمنعم النمر کی شخصیت بڑی طرح دار تھی، وہ قدیم و جدید کے جامع اور متوازن ذہن و مزاج کے عالم تھے، علمی و تحقیقی اور تعلیمی و تصنیفی مشاغل کے ساتھ عالم اسلام کے مسائل و معاملات سے عملی تعلق رکھتے تھے، اسلامی و سیاسی موتمرات میں اپنی باوزن شخصیت اور صائب رائے کے ساتھ حصہ لیتے تھے، بہترین خطیب تھے، اپنی مختلف الجہات صلاحیت کی وجہ سے دینی و علمی اور سیاسی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور اپنے اخلاق کر یمانہ کی وجہ سے ہر طبقہ میں مقبول تھے۔
ایک موقع پر ان کے شیخ الازہر ہوجانے کا امکان پیدا ہورہا تھا، راقم کی ان سے پہلی ملاقات اکتوبر ۱۹۵۶؁ء میں جمعیۃ علمائے ہند کے اجلاس سورت میں ہوئی اسی سال وہ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تھے، ہندوستان کی اسلامی تاریخ ان کی طرح میرا بھی خاص موضوع تھا، اس لیے دونوں میں اچھا خاصا تعارف و تعلق ہوگیا، بعد میں مکہ مکرمہ کے مجلہ الحج میں انھوں نے المسلمون فی الھند کے عنوان سے مقالات لکھے جس میں بعض باتیں میرے حوالہ سے نقل کیں اور تقریباً دو ہفتہ تک ان سے تفصیلی ملاقات ۱۹۵۸؁ء میں بمبئی میں ہوتی رہی جب کہ وہ واپس جارہے تھے، پہلی بار میرے کمرے میں آئے، اور اندر قدم رکھا تو بے ساختہ کہا یاسلام تاھلت بالکتب والکتابۃ، اس وقت چٹائی پر کتابیں اور اخبارت بکھرے ہوئے پڑے تھے، ان کا یہ جملہ میرے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے، اس وقت رجال السندوالہند مطبعہ حجازیہ بمبئی میں چھپ رہی تھی، اس پر اپنی رائے لکھی اور مطبوعہ فرمے اپنے ساتھ لیتے گئے۔ اس کے بعد وہ تین بار بمبئی، دیوبند اور دہلی تشریف لائے اور اتفاق سے ہر بار ان سے ملاقات ہوتی رہی اور سب سے زیادہ ملنا جلنا قاہرہ میں ۱۹۷۸؁ء میں ہوا جب وہ مدیر البعثات الازہریہ تھے، اور میں عرب و افریقہ کے علمی سفر میں تھا۔
جس زمانہ میں ڈاکٹر صاحب الوعی الاسلامی کویت کے ریئس التحریر تھے، ایک لکھے پڑھے آدمی کو جو بمبئی آرہا تھا، مجھ سے ملاقات کرنے اور سلام پہنچانے کی تاکید کی تھی، وہ صاحب عشاء کے وقت میرے کمرے میں آئے مغربی لباس میں تھے، حسب معمول کمرے میں چٹائی اور چادر بچھی ہوئی تھی وہ کھڑے رہے، میں نے تشریف رکھنے کو کہا، انھوں نے کہا کہ میں تاج محل ہوٹل کے فلاں کمرے میں ہوں، آپ وہیں آجائیں، یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور میں نہیں گیا، موجودہ دور کے مصر و عرب کے فضلا و مشائخ سمجھ نہیں سکتے کہ ہندوستان کے بوریہ نشین علما کس طرح دینی و علمی خدمت کرتے ہیں، انھوں نے ہندوستان سے واپس جا کر قاہرہ میں ہندوستان کے متعلق تین کتابیں تصنیف کیں: ۱۔تاریخ الاسلام فی الہند ۲۔کفاح المسلمین فی تحریر الہند ۳۔سبعۃ و عشرون شہرافی الہند اور مولانا ابوالکلام آزاد پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، تاریخ الاسلام فی الہند ۱۳۷۸؁ھ (۱۹۵۹؁ء) میں شایع ہوئی اور ۲۱؍ اپریل ۱۹۶۰؁ء کو موصوف نے میرے پاس بھیجا، اس کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب جامع ازہر اور موتمر اسلامی نے مجھے ہندوستان بھیجنے کا ارادہ کیا تو میں بڑی کشمکش میں پڑگیا کیونکہ اس ملک کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کو محمد بن قاسم ثقفی اور سلطان محمود غزنوی نے فتح کیا ہے اور یہاں کے لوگ ہاتھی پر سواری کرتے ہیں، اسی وجہ سے یہاں کی اسلامی تاریخ کی تلاش و تحقیق کا خیال پیدا ہوا اور یہاں آکر تدریس و تعلیم کی مشغولیت میں کشمیر سے مالا بار تک مختلف تقریبوں سے سفر کیے اور ہر جگہ مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی۔
مرحوم نے تاریخ الاسلام فی الہند کے ساتھ جو خط مجھے لکھا اس سے ان کی اسلامی ہند کی تاریخ سے گہری دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے، لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس یہ کتاب بھیج رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ اس میں آپ کے لیے خوش کن باتیں ہوں گی، نیز یہ کہ آپ مجھے اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے لکھیں گے اور جو کمی ہو اس کی نشاندہی کریں گے تاکہ طبع ثانی میں اس استفادہ کروں، مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی کتاب رجال السند والہند کی پہلی جلد شایع ہوچکی ہے، مجھے ایک نسخہ بھیج دیں اس طرح میں ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھ چکا ہوں جس میں ہندوستان کی تحریک آزادی سے قیام پاکستان تک مسلمانوں کی جدوجہد کی تفصیل بیان کی ہے، اس موضوع کے بارے میں اگر کوئی خاص بات معلوم ہو تو لکھیں تاکہ اس سے مدد لوں، اس سال (۱۹۶۰؁ء) قاہرہ کے ہندوستانی سفارت خانہ نے صوت الہند کے نام سے جریدہ شایع کیا ہے میں نے اس میں ایک طویل مقالہ ’’النشاط العلمی و الاجتماعی للمسلمین فی الھند‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے اور انجمن خدم النبی بمبئی اور اس کے ارکان کے بیان پر ختم کیا۔ یہ جریدہ عالم عربی میں تقسیم کیا گیا ہے، موسم حج کی مناسبت سے شایع کیا گیا ہے، اور حجاز میں بھی تقسیم کیا جائے گا۔
میری کتاب مترجمہ ڈاکٹری عبدالعزیز عزت الحکومات العربیۃ فی الھند و السند پر ڈاکٹر عبدالمنعم النعمر مرحوم نے ۱۸؍ اگست ۱۹۸۰؁ء کو نہایت شاندار مقدمہ لکھا ہے، مرحوم سے میرے آخری ملاقات گذشتہ سال دہلی میں ہوئی تھی جب وہ سرکاری مہان کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد صدی تقریبات میں آئے تھے، ان کی طلب پر میں نے العقد الثمین فی فتوح الھند پیش کیا اور کہا کہ آپ اب بوڑھے ہوگئے ہیں انھوں نے اس کے جواب میں کہا، وانت ایضاً۔ (جنوری ۱۹۹۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...