Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حبیب الرحمن الاعظمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حبیب الرحمن الاعظمی
ARI Id

1676046599977_54338305

Access

Open/Free Access

Pages

509

محدث العصر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی
محدث العصر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی عرصہ سے موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار تھے، راقم ۲۳؍ فروری کو مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے امیر مولانا مختار احمد ندوی حفظ اﷲ کی دعوت پر کلیۃ فاطمۃ الزہرا کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے مؤ گیا تو مولانا الاعظمی کی عیادت کے لئے بھی حاضر ہوا لیکن ڈاکٹروں نے ملنے جلنے پر سخت پابندی لگا رکھی تھی، میری خواہش پر صاحب زادہ محترم مولانا رشید احمد صاحب نے دید و زیارت کا موقع مہیا کردیا لیکن اس وقت محدث کبیر نہ بات چیت کرتے تھے اور نہ آنکھیں کھولتے تھے، چند روز بعد مولانا رشید احمد صاحب نے خط سے اطلاع دی کہ اب بھی وہی کیفیت ہے بلکہ صحت مزید خراب ہوتی جارہی ہے، میں پھر عیادت کے لیے جانا چاہتا تھا کہ ۱۱؍ رمضان المبارک کو حادثہ جانکاہ کی اطلاع آگئی، اِناﷲ وَ اِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
محدث العصر نے طویل عمر پائی اور مصروف علمی زندگی گزاری، وہ ۱۳۱۹؁ھ میں پیدا ہوئے، اختر حسن تاریخی نام تھا۔ گھریلو تعلیم کے بعد انھوں نے مؤ سے ملحق قصبہ بہادر گنج کے مدرسہ میں داخلہ لیا جہاں مولانا عبدالغفار عراقی کے بھائی مولانا ابوالحسن عراقی سے کسب فیض کرنے کے بعد مظہرالعلوم بنارس میں داخلہ لیا، حصول تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا سفر دوبارہ کیا مگر دونوں بار طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے واپس چلے آئے اور دارالعلوم مؤ ہی میں مولانا کریم بخش سنبھلی کی خدمت میں رہ کر دورہ حدیث مکمل کیا، فراغت کے بعد یہیں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوگئے، پھر مؤ کے دوسرے بڑے مدرسہ جامعہ مفتاح العلوم سے وابستہ ہوئے اور اس کے صدر مدرس بھی رہے، یہاں سے علیحدہ ہوئے تو خود المعمہد العالی مرقاۃ العلوم کی داغ بیل ڈالی جو اب مؤ کے بڑے مدرسوں کی صف میں آگیا ہے۔
مولانا کا اصل مشغلہ درس و تدریس تھا، ان کے بے شمار تلامذہ اس برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں مولانا محمد منظور نعمانی ایڈیٹر الفرقان اور مفتی ظفیرالدین صاحب بھی ہیں۔ تاہم تحریر و تصنیف کا کام بھی وہ برابر انجام دیتے رہے اور انہیں اس کا اچھا سلیقہ اور عمدہ ذوق تھا، حدیث و اسماء الرجال ان کا خاص فن تھا اور اس پر ان کی نظر بڑی گہری تھی، مخطوطات سے بھی انہیں بڑا شغف تھا، ان کا مہتم بالشان کارنامہ احادیث کی بہت سی ان نادر کتابوں کی اشاعت ہے جو مخطوطہ ہونے کی بناء پر اہل علم کی دسترس سے باہر تھیں، مولانا نے ان کو ان کے مختلف نسخوں کی مدد سے مقابلہ، تصحیح و تعلیق اور مفید حواشی کے ساتھ شائع کرکے اصحاب علم و تحقیق پر بڑا احسان کیا، انھوں نے جن کتابوں کو ایڈٹ کیا ہے ان پر عالمانہ مقدمے بھی لکھے ہیں جن میں مصنف کے حالات و کمالات کے علاوہ ان موضوعات پر پہلے اور بعد میں لکھی جانے والی کتابوں کا تذکرہ کرکے زیر اشاعت کتاب کی اہمیت و عظمت دکھائی ہے، حواشی و تعلیقات میں مختلف نسخوں کے فرق و اختلاف اور متن میں درج آیتوں اور حدیثوں کی تخریج، رجال و اسناد کی تحقیق، مشکل و غریب الفاظ اور مشکلات حدیث کی تشریح کی گئی ہے، دوسری مشہور و متداول کتابوں کی حدیثوں سے زیر نظر کتابوں کی مطابقت یا اختلاف کو ظاہر کرکے ان کی صحت و خطا کا فیصلہ کیا ہے، شروع میں مخطوطہ کے بعض صفحوں کا عکسی فوٹو اور متعدد فہرستیں دے کر استفادہ و مراجعت کو آسان کردیا ہے، اس طرح کی جو کتابیں مرتب کی ہیں ان کے نام یہ ہیں:
مسند حمیدی، مصنف: ابن ابی شیبہ، مصنف: عبدالرزاق، کتاب السنن (حافظ سعید بن منصور) کتاب الزہد و الرقائق (عبداﷲ بن مبارک) مجمع بحار الانوار (ملا محمد بن طاہر پٹنی) الحاوی علی رجال الطحاوی وغیرہ۔
آخرالذکر رجال طحاوی پر خود مولانا کی بلند پایہ علمی و تحقیقی تصنیف ہے۔
اردو میں بھی مولانا کی متعدد تصانیف ہیں جو اکثر ردو مناظرہ میں ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: (۱) اعیان الحجاج (دو جلدیں) (۲) نصرۃ الحدیث (۳) الاعلام المرفوعہ (۴) رکعات تراویح۔
مولانا سلیس، شگفتہ، پرمغز اور حشو و زوائد سے پاک اردو لکھتے تھے جو ماقل و مادل کا نمونہ ہوتی تھی۔
مستقل کتابوں کے علاوہ انھوں نے معارف اور برہان میں متعدد محققانہ مضامین بھی لکھے ہیں، ان میں سے اکثر میں کسی مصنف یا مقالہ نگار کی فروگزاشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بڑے بیش قیمت ہیں جن سے علمی و تحقیقی کام کرنے والے بے نیاز نہیں ہوسکتے اس لیے معارف میں چھپنے والے ان کے مضامین کی ایک فہرست دی جاتی ہے۔
جو ادساباط (جلد۲۱ عدد۴) دو متبرک اجازت نامے (جلد۴۰ عدد۶) تخریج زیلعی (جلد۴۶ عدد۱) الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ (جلد۶۶ عدد۲) مبارق الازہار کس کی تصنیف ہے (جلد۷۳ عدد۱) پورب کی چند برگزیدہ ہستیاں (جلد۷۴ عدد ۴و۵) قاضی رشید بن زبیر غسانی، اسوانی مصری مصنف الذخائر والتحف (جلد۸۷ عدد۶) دینور و مشائخ دینور (جلد۹۶ عدد۴) ابوعبید کی غریب الحدیث (جلد۱۰۰ عدد۴) غریب الحدیث (جلد۱۰۱ عدد۲) فہرست مخطوطات عربیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور (جلد۱۲۳ عدد ۴)۔
مولانا متبحر عالم اور بلند پایہ محدث تھے اور اس حیثیت سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ عرب ملکوں میں بھی وہ بے نظیر تھے، فقہ حنفی پر بھی ان کی وسیع نظر تھی جس کی تائید و حمایت میں پیش پیش رہتے تھے۔
لگن اور خاموشی سے علم و مذہب کی خدمت ہی مولانا کا مشن تھا اور اسی سے ان کو طبعاً مناسبت بھی تھی لیکن ان کا رجحان آزادی و اتحاد کی تحریک کی طرف رہا اور وہ کانگریس اور جمعیۃ علمائے ہند سے عملاً وابستہ بھی تھے، ۱۹۵۲؁ء میں مؤ کے حلقہ سے کانگریس نے انہیں اسمبلی کے لئے اپنا امیدوار بنایا جس میں وہ کامیاب ہوئے اس زمانہ میں اسمبلی کی ممبری باوقار سمجھی جاتی تھی تاہم مولانا جیسے علمی آدمی کو اس سے کوئی مناسبت نہیں تھی اس لیے ان کا زیادہ وقت ندوۃ العلماء کے کتب خانہ میں گزرتا تھا اس سے فائدہ اٹھا کر ندوہ کے ارکان نے انہیں درس حدیث کی خدمت تفویض کردی جس کو وہ بلامعاوضہ انجام دیتے رہے۔ مگر دوبارہ انتخاب میں امیدوار ہونا پسند نہیں کیا، مولانا کی طویل علمی و تحقیقی خدمات کے صلہ میں حکومت ہند نے ۱۹۸۴؁ء میں انہیں صدر جمہوریہ کا ایوارڈ عطا کیا تھا۔
سیاست میں مولانا حسین احمد مدنی ؒکے مسلک سے قریب ہونے کی بناء پر مولانا اسعد مدنی سے بھی ان کو عزیزانہ تعلق تھا، چند برس قبل امارت شرعیہ ہند نے ان کو امیرالہند منتخب کیا تھا، بیعت و اجازت کا تعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے تھا، مولانا محمد احمد پرتابگڑہیؒ سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور دونوں بزرگ ایک دوسرے کے فضل و کمال کے معترف تھے، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ان کے بڑے عظمت شناس تھے، دارالمصنفین آتے تو مولانا سے ملاقات کے لیے مؤ بھی تشریف لے جاتے۔ شروع ہی سے مولانا اعظمی کا تعلق دارالمصنفین سے بھی تھا جو آخر تک قائم رہا، حضرت سید صاحب ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور اپنی بعض تحریروں کو اشاعت سے پہلے ان کے پاس بھیجتے اور ان کے مشورے کے مطابق ان میں ردوبدل بھی فرماتے۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم بھی ان کا بڑا اکرام کرتے۔ چند برس قبل ان کو دارالمصنفین کی وقف کمیٹی کی رکنیت پیش کی گئی تو انھوں نے اس کو بخوشی منظور کرلیا۔
مولانا اس برصغیر ہی نہیں پوری اسلامی دنیا میں اپنے علمی و دینی کارناموں کی وجہ سے مشہور مقبول تھے، انھوں نے کئی مسلم ملکوں کا علمی سفر بھی کیا تھا۔ عرب ممالک کے ممتاز فضلا سے ان کے روابط تھے، شیخ عبدالفتاح غدہ ان کے بڑے مداح تھے، شیخ نذیر حسین مدیر اردو انسائیکلوپیڈیا لاہور بھی ان کے بڑے قدرداں تھے، ایک دفعہ وہ دارالمصنفین تشریف لائے تو مولانا سے ملنے مؤ بھی گئے۔
اپنے وطن میں مولانا کو جو مقبولیت حاصل تھی اس کا اندازہ ان کے جنازہ سے ہوا جس میں شرکت کے لیے دارالمصنفین سے راقم اپنے رفیق کار مولوی محمد عارف عمری اور مولوی احتشام علی ندوی کے ساتھ گیا تھا، مؤ کے ہر گلی کوچہ میں آدمی دکھائی دیتے تھے، ہم لوگ بڑی زحمت سے مولانا کی قیام گاہ (پٹھان ٹولہ) پہنچے لیکن دید و زیارت کا شرف حاصل نہ کرسکے۔ ریلوے کے بڑے اور وسیع میدان میں جنازہ کی نماز کا اہتمام کیا گیا تھا، مولانا ہی کے ایک ہم نام اور اپنے اہل تعلق مولوی حبیب الرحمن ندوی کی معیت میں ریلوے میدان گئے، جہاں اتنے لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی جن کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکا البتہ بعض لوگوں کو جب یہ کہتے سنا کہ مؤ میں ابھی تک کسی کے جنازہ میں نہ اتنا بڑا مجمع ہوا تھا اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے تو ہم نے بھی اپنے دل میں کہا یہ اس عہد کے امام زیلعی اور ملاعلی قاری کا جنازہ ہے جن کی زبان و قلم ہمیشہ احادیث کی شرح و ترجمانی اور ان کی مشکلات و غوامض کو حل کرنے میں مصروف رہے ہیں اور جن کا وجود گرامی علوم نبویﷺ کی خدمت و فروغ اور نادر و نایاب کتب احادیث کی طبع و اشاعت کے لیے وقف رہا ہے۔
اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں علم و دین اور احادیث نبویؐ کے اس خادم کے مراتب و درجات کو بلند کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی۔ اپریل ۱۹۹۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...