Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > کرنل بشیر حسین ز یدی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

کرنل بشیر حسین ز یدی
ARI Id

1676046599977_54338306

Access

Open/Free Access

Pages

510

کرنل بشیر حسین زیدی
ابھی مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی موت سے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ ۲۹؍ مارچ کو کرنل بشیر حسین زیدی بھی اﷲ کو پیارے ہوگئے، ان کا خاندان سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں ہندوستان آیا اور پنجاب کے علاقہ کلانور میں قیام پذیر ہوا، شہاب الدین غوری کی افواج کے سپہ سالار قطب الدین ایبک نے دہلی کو اپنا پایۂ تخت بنایا تو درباری روابط کی بنا پر اس خاندان کے لوگوں نے بھی دارالحکومت کے قریب ضلع مظفر نگر میں موضع سنبھل ہیٹرہ اور اس کے آس پاس کے مواضعات میں توطن اختیار کیا، اسی خانوادے کے ایک بزرگ سید عمر نے موضع ککرولی کو آباد کیا، زیدی صاحب ان کی بارہویں پشت میں تھے۔
یہ خاندان سادات باہرہ (روشن) کے نام سے مشہور ہوا جو تبدیل ہوکر سادات بارہہ ہوگیا، یہ لوگ اپنے علوے نسب اور مکارم اخلاق کے علاوہ ہر دور میں شجاعت و بہادری کے لیے بھی ممتاز سمجھتے جاتے تھے، مغلوں کے زمانے میں سادات بارہہ بلند مناصب پر فائز ہوئے اور اپنی سیاسی طاقت کی وجہ سے اورنگزیب کے بعد کے طوائف الملوکی دور میں بادشاہ گر کہلاتے تھے، بلگرام کے سادات بھی اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کو حیدرآباد میں بڑا عروج نصیب ہوا۔
سید بشیر حسین زیدی کی ولادت ۳۰؍ جولائی ۱۸۹۸؁ء کو قصہ چھانسا (ضلع دہلی) میں ہوئی جہاں ان کے والد سید شوکت حسین بحیثیت سب انسپکٹر پولیس ملازم تھے، زیدی صاحب اسکول اور کالج کی تعلیم دہلی میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۱۹؁ء کے اواخر میں کیمبرج گئے، ۲۳؁ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے گھر آنے لگے تو حج بیت اﷲ کی سعادت بھی حاصل کی۔
وطن پہنچ کر انھوں نے میرٹھ میں وکالت کرنے کا ارادہ کیا جس کے بہت کچھ انتظامات بھی کرلیے تھے لیکن انگلستان کے قیام میں وہ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کے بہت قریب ہوگئے تھے جو اس زمانہ میں وہیں تھے اور اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، زیدی صاحب ان سے اپنے آئندہ کے پروگرام کے بارے میں کچھ مشورے کے لیے علی گڑھ آئے تو انھوں نے ان کے علی الرغم انہیں علی گڑھ یونیورسٹی اسکول کی ہیڈماسٹری کا تقرری نامہ تھمادیا۔
مارچ ۱۹۳۰؁ء میں اسکول کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوکر پھر انھوں نے وکالت کرنے کا ارادہ کیا لیکن رضا علی خاں والی رامپور نے ان کو اپنی ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا، ۳۶؁ء میں وہ ریاست کے مستقل طور پر چیف منسٹر ہوئے جس پر اس کے انڈین یونین سے انضمام ۴۹؁ء تک برقرار رہے۔
دوسری جنگ عظیم میں اور ریاستوں کی طرح رامپور نے بھی حکومت ہند کو فوجی امداد دی لیکن دوسری ریاستوں کے برخلاف رامپور بٹالین کا خرچ بھی ریاست کے خزانے سے ادا کیا گیا، اسی زمانے میں زیدی صاحب ریاست کی فوج میں اعزازی کرنیل بنائے گئے اور دوران جنگ انگلستان کی حکومت نے انہیں سی۔آئی۔ای کا اعزاز بھی دیا۔
۱۹۳۷؁ء میں بیگم قدسیہ سے ان کی شادی ہوئی جو زندگی بھر ان کی ہمدم و ہم ساز اور شریک و مشیر بنی رہیں۔
۴۶؁ء میں زیدی صاحب حکومت ہند کی دستور ساز اسمبلی کے رکن مقرر ہوئے اور ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے رکن ہوئے ۵۱؁ء میں مجلس اقوام متحدہ میں ہندوستانی وفد کے رکن کی حیثیت سے گئے اور ۵۲؁ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر ہردوئی سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے، ۵۶؁ء میں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے۔ اکتوبر ۶۲؁ء میں اس عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد نظام ٹرسٹ کے ٹرسٹی مقرر کیے گئے اور ۶۴؁ء میں راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے، اسی سال حکومت نے ایک خیرسگالی وفد مسلم ممالک بھیجا جس کی سربراہی زیدی صاحب نے کی۔ ۷۰؁ء تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے، اسی زمانہ میں جامعہ نگر میں انھوں نے نجی مکان تعمیر کرایا اس وقت سے یہی گھر ان کا مسکن تھا کہ پیام اجل آگیا اور اب جامعہ ملیہ کے قبرستان میں ڈاکٹر انصاری مرحوم کے بغل میں مجیب صاحب اور عابد صاحب کے ساتھ محو خواب ہیں۔
زیدی صاحب کی پوری زندگی قومی خدمت اور سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں گزری، ان کے دل میں قوم و ملک کی خدمت کا جذبہ شروع ہی سے موجزن تھا، اسکول اور کالج کی طالب علمی کے زمانہ ہی میں بعض قومی رہنماؤں سے ان کی قربت ہوگئی تھی، ۱۸؁ء میں کانگریس کا سالانہ اجلاس دہلی میں پنڈت مدن موہن مالویہ کی صدارت میں ہوا تو یہ اس میں رضاکار تھے۔
کالج کے استادوں میں پروفیسر گھوش کے جذبہ خدمت سے متاثر ہوکر انھوں نے خدمت خلق کو اپنا وظیفہ حیات بنالیا تھا، طالب علمی ہی میں اپنے ہم جماعت رگھونندن سرن سے مل کر سوشل سروس لیگ قائم کی، ایک شبینہ اسکول کھولا جس میں غریبوں اور مزدوروں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی، ایک ہاسپٹل وزیٹنگ گروپ اور ایک ریلوے اسٹیشن وزیٹنگ گروپ بھی قائم کیا تاکہ مریضوں کی تیمارداری اور تیسرے درجہ کے مسافروں کی مدد کی جائے۔
زیدی صاحب نے رامپور ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اس کی فلاح و بہبود کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے، ان کے دور میں مستاجری کی ظالمانہ اور غیرمنصفانہ لعنت ختم ہوئی، اس کی تنسیخ پر جو ہنگامے اور مظاہرے ہوئے انہیں زیدی صاحب نے اپنے تدبر اور خوش انتظامی سے ختم کردیا اور ریاست میں صنعت و حرفت کو فروغ دے کر خوش حالی اور فارغ البالی لادی۔
تعلیمی اصلاحات کی غرض سے خواجہ غلام السیدین کو ریاست کا تعلیمی مشیر مقرر کیا، اس میں صرف ایک ہائی اسکول تھا، زیدی صاحب کی کوشش سے ایک اور ہائی اسکول، ایک ڈگری کالج اور ایک گرلز ہائی اسکول قائم ہوگیا، تو دیہاتوں میں دو سو کے قریب پرائمری اسکول کھلے، رضا لائبریری کو بھی ترقی دینے اور کارآمد بنانے کی تدبیریں کیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ان کو شروع ہی سے لگاؤ تھا، ریاست رامپور نے اس کی ترقی میں جس قدر بھی حصہ لیا وہ انہی کی دلچسپی کا نتیجہ تھا، ۴۶؁ء میں اس کی سلور جوبلی ہوئی تو اس کے مصارف کے لیے زیدی صاحب نے ریاست سے ایک لاکھ روپے نقد دلائے، تنبو، قناتیں اور سارے سازوسامان بھی وہیں سے آئے تھے، جامعہ سے تعلق ہی کی بناء پر اس کے قرب میں اپنا مکان بنوایا۔
مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تدبر اور حسن انتظام کے خوب جوہر دکھائے اور ان کے دور میں مختلف مفید اور تعمیری کام انجام پائے، مڈیکل کالج کی تجویز پرانی تھی مگر اس کو بروئے کار لانے کا سہرا انہی کے سر ہے، شعبہ دینیات کو موثر اور فعال بنانے کی تدبیریں بھی کیں، عمارتوں کی تعمیر سے ان کو بڑی دلچسپی تھی اور وہ علی گڑھ کے شاہجہاں کہلاتے تھے۔ مولانا آزاد لائبریری، پولی ٹکنک، اسٹاف کلب، فزکس لبارٹیری، جیولیوجی لباریٹری، آرٹس، فیکلٹی، کشمیر ہوسٹل، وائس چانسلر لاج اور کنیڈی ہال کی خوبصورت اور عالی شان عمارتیں ان کی یادگار ہیں، انہیں شجرکاری سے بھی دلچسپی تھی، شاندار عمارتیں اور تناور درخت لگواکر انھوں نے یونیورسٹی کو گل و گلزار بنادیا۔
زیدی صاحب کو دوسرے علمی و تعلیمی اداروں سے بھی سروکار رہا، دارالمصنفین کے نہایت بہی خواہ اور مخلص کارکن تھے، اپنی دور اندیشی اور وسیع تجربات کی بناء پر نہایت مفید اور صحیح مشورے دیتے تھے، ہمیشہ اسے فائدہ پہنچانے کی فکر میں رہتے، پیرانہ سالی کے باوجود دارالمصنفین کے جلسوں میں شوق سے تشریف لاتے۔
زیدی صاحب کو فرقہ ورانہ تنگ نظری سے نفرت تھی، وہ ہندو مسلم اتحاد کے برابر حامی رہے، خود شیعہ تھے اور اپنے مذہبی خیالات میں پختہ تھے اور صوم صلوٰۃ کے پابند تھے۔ لیکن شیعہ سنی اور ہندومسلم کی تفریق کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کے دوستوں میں ہر فرقہ و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے ان کے دوست رگھونندن سرن ایک ہوئی حادثے میں فوت ہوگئے تو ان کے بچوں کے ساتھ سگے بھائیوں کی اولاد جیسے سلوک کیا، ان کے ملازمین میں ہندو مسلمان دونوں تھے اور وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے، مسلم یونیورسٹی کے ہندو طلبہ کا خیال مسلمان طلبہ سے زیادہ رکھتے تھے۔
زیدی صاحب حکومت میں مقبول تھے ان کو بہت سے انعامات عطا کئے گئے اور مختلف کمپنیوں اور اداروں کے رکن بنائے گئے، پدم وبھوشن کا خطاب بھی حکومت نے دیا۔
زیدی صاحب ہر ایک سے لطف و شفقت کے ساتھ پیش آتے اور اس کے دکھ درد میں اس کی دلجوئی کو اپنا فرض خیال کرتے، بیوی، بچوں اور عزیزوں کے حقوق ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے، بیوی پر پورا اعتماد کرتے گھر کی ساری ذمہ داری انہیں سونپ دی تھیں، ریاست کے معاملات میں بھی ان سے مشورے کرتے تھے، انھوں نے بیوی کو برابری کا درجہ دے رکھا تھا اور ان کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتے تھے، زیدی صاحب کا نام علی گڑھ کے وائس چانسلر کے لیے تجویز ہوا تو بیوی کو اس سے شدید اختلاف تھا اور وہ اپنی مشغولیتوں کی وجہ سے وہاں جانے کے تیار نہیں تھیں، تاہم زیدی صاحب نے ملک و قوم کی خدمت سمجھ کر یہ ذمہ داری قبول کرلی مگر بیوی پر علی گڑھ جانے کے لیے کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا۔
زیدی صاحب کا حلقہ احباب وسیع تھا جس میں مخلصین کے علاوہ خود غرض قسم کے لوگ بھی شامل تھے، جنھیں صرف اپنے مطلب سے کام ہوتا مگر زیدی صاحب سب سے خلوص اور اپنائیت سے پیش آتے تھے، وہ دوسروں کی خدمت اور دوستوں کی مدد کرکے خوش ہوتے تھے اور کبھی کسی کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ اس پر کوئی احسان کررہے ہیں بلکہ اسے اپنی سعادت سمجھتے کہ انہیں خدمت کا موقع ملا۔
زیدی صاحب کو کسی کی مخالفت کا خیال بھی دل میں نہیں آتا، بغض و عناد اور کینہ کپٹ سے ان کی طبیعت ناآشنا تھی، جو لوگ ان کی دشمنی اور عداوت پر کمربستہ رہے ان کو بھی انھوں نے معاف کردیا، رام پور کے چیف منسٹر کی حیثیت سے انھوں نے جو اصلاحات کی تھیں ان سے ایک طبقہ میں بڑی برہمی تھی انڈین یونین سے ریاست کے انضمام میں ان کا بڑا ہاتھ تھا، اس کی بناء پر ان لوگوں کو ان پر غصہ اتارنے کا موقع ملا، انھوں نے زیدی صاحب کے بھائی اور عزیزوں کا مکان لوٹا، نذر آتش کیا اور عزیزوں کو زدوکوب بھی کیا، اس بدامنی اور انتشار کو دور کرنے کے لیے انہیں فوج کی مدد لینی پڑی، مگر انھوں نے یہ سب انگیز کیا، کچھ ہی عرصہ بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور انہی مخالفین کے پانچ ہزار آدمی دہلی میں گھر گئے یہ لوگ فریاد کرتے ہوئے زیدی صاحب کے پاس آئے وہ اپنی جان پر کھیل کر دہلی گئے اور اسپیشل ٹرین کا انتظام کرکے انہیں واپس لائے حالانکہ اس وقت دہلی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، بیگم نے بہت منع کیا مگر وہ نہ مانے اور کہا مجھے ان سے بدلہ لینا ہے، وہ بولیں یہ کیسا بدلہ ہے، کہنے لگے کہ سیدوں کا بدلہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
زیدی صاحب کے ملازمین ان کے گھر ہی کے افراد معلوم ہوتے تھے وہ ان کی ہر ضرورت و آسائش کا پورا خیال رکھتے، بعض ملازمین ان کی نرمی و مروت سے گستاخ ہوجاتے اور گھرگرہستی کے معاملہ میں ان کو فریب بھی دے دیتے مگر اس کی وجہ سے ان کے ساتھ زیدی صاحب کے رویے میں فرق نہیں آتا۔
زیدی صاحب ہماری قدیم تہذیب و روایت اور شرافت و وضعداری کی یادگار تھے، اب ایسے بامروت، خلیق، ملنسار، شائستہ اور باوقار لوگ معدوم ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف کرے اور ان کی مغفرت فرمائے، آمین!!
(ضیاء الدین اصلاحی۔ اپریل ۱۹۹۲ء)

تصحیح: معارف اپریل ۹۲ء میں کرنل بشیر حسین زیدی کے متعلق پر غلطی سے دارالمصنفین کا کارکن چھپ گیا ہے۔ وہ دارالمصنفین کے بہت معزز رکن تھے۔ (ضیاء الدین اصلاحی۔ جون ۱۹۹۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...