Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی عبید الرحمن خان شروانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی عبید الرحمن خان شروانی
ARI Id

1676046599977_54338307

Access

Open/Free Access

Pages

512

آہ! فرزند حبیب شبلی
قفانبک من ذکریٰ حبیب و منزل
نواب الحاج مولوی عبیدالرحمن خان شروانی کئی برس سے علیل تھے۔ ان کی زندگی کے معمولات میں فرق آگیا تھا، کمیٹیوں میں شرکت کے لیے سفر سے معذور ہوگئے تھے۔ بڑھاپے اور عمر طبعی کو پہنچ جانے کی وجہ سے ضعف و نقاہت میں اضافہ ہورہا تھا۔ راقم کو گذشتہ سال دو بار عیادت و زیارت کی سعادت میسر آئی تھی۔ اور دونوں دفعہ بڑھتی ہوئی کمزوری اور معذوری کو دیکھ کر خیال ہوا تھا کہ یہ چراغ سحر بجھا ہی چاہتا ہے۔ بالآخر ۸؍ مئی کو صاحبزادہ والاتبار پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی کے تار سے یہ المناک خبر آہی گئی جس نے پھر اس ارشاد ربانی کی ایک بار تصدیق و توثیق کردی کہ کل من علیھا فان[الرحمن: ۲۶]۔
دارالمصنفین کی بنا و تاسیس میں علامہ شبلیؒ اور ان کے متعدد اعزہ کی طرح نواب مولوی عبیدالرحمن خان شروانی کے خاندان کا بھی بڑاحصہ تھا۔ ان کے والد ماجد نواب صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی مرحوم علامہ شبلی کے حبیب لبیب تھے۔ جب علامہ کے دل و دماغ پر دارالمصنفین ہی کا خیال چھایا رہتا تھا تو اس کے متعلق سب سے زیادہ انھی سے مراسلت و مکاتبت رہتی تھی۔ علامہ شبلی کی وفات کے بعد یہی رابط و تعلق دارالمصنفین کی جانب منتقل ہوگیا تھا جس کے مدۃ العمر وہ رکن رکین اور صدر نشین رہے، دارالمصنفین کے پہلے صدر جسٹس مولوی کرامت حسین اور دوسرے نواب عماد الملک اور تیسرے مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی ہوئے، مولانا حمیدالدین فراہی کی وفات کے بعد ۱۹۳۱؁ء میں وہی اس کی مجلس ارکان کے بھی صدر بنے، دوسروں سے علامہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہا لیکن ایک نواب صدر یار جنگ ہی کی ایسی ذات تھی جن سے عمر بھر اخلاص و مودت میں کمی نہیں آئی، ایک دفعہ مولوی عبیدالرحمن خاں شروانی نے فرمایا تم اندازہ نہیں کرسکتے کہ مولانا شبلی مرحوم سے میرے والد مرحوم کے کتنے گہرے اور مخلصانہ تعلقات تھے گویا متمم بن نویرہ کے بقول:
وکناکند مانی جذیمۃ حقبۃ
من الدھرحتی قیل لن یتصدعا
علی گڑھ کا ممتاز و معزز شروانی خاندان بہلول خاں لودی کے دور میں ہندوستان آیا اور سپہ سالاری کے منصب پر فائز ہوا، اسی زمانہ میں اس خاندان کے دو اشخاص علی گڑھ میں آباد ہوئے جن کی اولاد مدت تک زمیندار رہی، درمیان میں جاٹ گردی کی وجہ سے زمینداری چھوڑ کر جلا وطن رہنا پڑا لیکن کچھ عرصہ بعد اسی خاندان کے ایک بزرگ باز خان صاحب اپنی آبائی ریاست پر قبضہ کرکے بھموری میں آباد ہوئے ان کو بڑا عروج نصیب ہوا، ان کے پیر و مرشد نے انہیں دوبارہ بھیکم پور میں متوطن ہونے کا حکم دیا، ان کے ایک بیٹے خاں زماں صاحب کے بیٹے محمد تقی خان صاحب مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کے والد بزرگوار تھے، باپ نے بیٹے کے نام پر حبیب گنج کو آباد کیا جو بھیکم پور سے کچھ فاصلہ پر واقع ہے، یہیں ربیع الاول ۱۳۱۵؁ھ مطابق اگست ۱۸۹۷؁ء میں نواب عبیدالرحمن خاں شروانی پیدا ہوئے جو نواب صدر یار جنگ کے خلف الرشید تھے۔ وکفی بہ فخراَ۔
نواب عبیدالرحمن خاں شروانی حصول تعلیم کے لیے مدرستہ العلوم کے اسکول میں داخل ہوئے اور ۱۷؁ء میں عربک کالج دہلی سے انٹرنس پاس کیا ۱۸؁ء میں ایف اے میں علی گڑھ میں داخلہ لیا مگر والد ماجد کے حیدرآباد تشریف لیجانے کی وجہ سے ریاست اور خاندان کی ذمہ داری انہیں سبنھالنی پڑی اس لیے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا، عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی ان کو گو نا گوں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑا کئی برس تک آنریری اسپیشل مجسٹریٹ رہے، ۲۳؁ء میں صوبہ کی آئین ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر مسلسل ممبر منتخب ہوتے رہے ۴۵؁ء میں پہلی دفعہ انہیں الیکشن میں مقابلہ کرنا پڑا تو مخالف امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں، ان سے زیادہ طویل عرصے تک شاید ہی کوئی اسمبلی کا ممبر رہا ہو، ان کی قومی خدمات کی بنا پر ۱۹۲۸؁ء میں حکومت نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا، مسلم لیگ کی آل انڈیا ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی رہے اور صوبہ کی زمیندار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور علی گڑھ کی زمیندار اسمبلی کے صدر چنے گئے، صوبہ کے بورڈ آف اکانمک انکوائری کی پلاننگ کمیٹی اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ممبر اور صدر مقرر ہوئے چھ سال تک انٹرمیڈیٹ اور ہائی اسکول کے تعلیمی بورڈ کے اور تین سال تک یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ممبر رہے۔
شروانی صاحب کی دلچسپی اور سرگرمی کا خاص محور مسلم یونیورسٹی تھی، جس سے ان کا ذمہ دارانہ تعلق ۱۸؁ء ہی میں قائم ہوگیا تھا جو اب وفات کے بعد جا کر ختم ہوا ہے، پہلے وہ اس کے فاؤنڈیشن کمیشن کے رکن ہوئے، ۲۳؁ء میں کورٹ اور ایگزکیٹیو کونسل کے رکن منتخب ہوئے، چار بار وائس چانسلر اور تین بار خازن مقرر ہوئے، ۸۴؁ء سے اب تک انھوں نے پرو چانسلر کے عہدے کو زینت بخشی، آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بھی وہ برابر وابستہ رہے، اس کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر اور خازن رہے، کانفرنس کے کئی جلسوں کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر ہوئے ۴۹؁ء میں اپنے والد مرحوم کی جگہ اس کے سکریٹری مقرر ہوئے، چند برس تک ان کی ادارت میں کانفرنس گزٹ شایع ہوتا رہا، یونیورسٹی سے کبھی انھوں نے ایک حبہ کا بھی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اس کے لیے ہمیشہ اپنی دولت، محنت، وقت اور قابلیت کی قربانی دی، ۳۵؁ء میں وہ یونیورسٹی کے خازن ہوئے، اس وقت اس عہدہ کی تنخواہ پانچ سو روپے ماہوار تھی مگر انھوں نے یہ کام حسبتہ ﷲ انجام دیا۔
مرحوم کو یونیورسٹی سے غیر معمولی جذباتی لگاؤ تھا، وہ اس کو ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا سرمایہ اور قیمتی متاع سمجھتے تھے، ان کے خیال میں یونیورسٹی نے مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دیکر ملک میں ان کے وزن و وقار میں اضافہ کیا ہے، وہ فرماتے تھے کہ اس کے لیے سر سید علیہ الرحمہ کو بہت کچھ طعن دتشنیع سننا پڑی، یہاں تک کہ ان کی تکفیر بھی کی گئی لیکن آج انہی لوگوں کی نسلیں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، یونیورسٹی سے ان کو ایسا عشق تھا کہ اس پر جب بھی کوئی آنچ آئی تو وہ بیقرار ہوگئے، اس کو مجروح کرنے کی جو کوشش و سازش کی گئی اسے وہ ناکام بنانے میں لگ گئے، یہاں شرپسند لوگ کوئی فتنہ و ہنگامہ برپا کرتے تو وہ کرب و اذیت میں مبتلا ہوجاتے، جب اس کا اقلیتی کردار ختم کیا گیا تو اس کو بحال کرنے کی مہم میں پیش پیش رہے۔
علی گڑھ کے بعد ان کو دارالمصنفین اور دارالعلوم ندوۃ العلما سے خاص لگاؤ تھا، دونوں کے رکن رکین تھے اور بڑی پابندی سے ان کے جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لاتے تھے، وہ دارالمصنفین کی متعدد کمیٹیوں کے ممبر تھے اور اسے اپنے تجربات اور بزرگانہ مشوروں سے پورا فائدہ پہنچاتے، ان کی رائے کا بڑا وزن محسوس کیا جاتا تھا، کبر سنی کی وجہ سے جب یہاں آنے میں ان کو دشواری ہونے لگی تو ان کی سہولت کے خیال سے جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب لکھنؤ اور دہلی میں جلسے کرتے اور کبھی کبھی ان کو لینے کے لیے آدمی بھی بھیجتے، دارالمصنفین سے ان کو ایسا والہانہ تعلق تھا کہ جب بھی ملاقات ہوتی تو یہاں کے ایک ایک شخص کی خیریت دریافت کرتے اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرتے، اگر اس کے بارے میں کوئی ناخوشگوار بات سنتے تو بہت بے چین ہوجاتے، ادھر اس کی ایک تشویشناک بات سے بہت پریشان اور متردد رہتے تھے، دارالمصنفین کے لیے ان کا وجود بڑا سہارا تھا افسوس اب وہ ختم ہوگیا اور دارالمصنفین اپنے ایک بہت مخلص ہوا خواہ سے محروم ہوگیا، مولانا شبلیؒ سے فرط تعلق کی بنا پر شبلی کالج کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے، انہیں مسلمانوں کے تمام اداروں سے ہمدردی تھی اور وہ سب کی مدد بھی کرتے تھے، دارالعلوم دیوبند، اسلامیہ کالج اٹاوہ، مزمل اسلامیہ انٹر کالج سکندرہ راؤ اور جامعہ اردو علی گڑھ وغیرہ سے ان کا باضابطہ تعلق تھا۔
مرحوم صوم و صلوٰۃ اور اورادو وظائف کے پابند اور مخیر شخص تھے، سفر میں بھی تلاوت قرآن، شب بیداری اور سحر خیزی کے معمول میں فرق نہ آنے دیتے، جوانی ہی میں حج و زیارت کی سعادت حاصل کرچکے تھے، تدین، تقویٰ اور دینی غیرت و حمیت ان میں بدرجہ اتم تھی، اخلاص، بے لوثی، ہمدردی، دردمندی، شفقت و مروت، نرمی و ملاطفت، عفو و حلم، ضبط و تحمل، خوش خلقی، مہان نوازی، تواضع اور انکساری ان کی سرشت میں داخل تھا تہذیب و شرافت، سنجیدگی و شائستگی، متانت و وقار، وضعداری رکھ رکھاؤ اور سیرت کی پختگی و استواری کا مجسم نمونہ تھے بڑے مرتب، ہر کام میں اعتدال پسند، نہایت چاق و چوبند اور وقت کے بہت پابند تھے، بے سلیقگی اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی، کو پسند نہیں کرتے تھے وہ رئیس تھے اور امارت و تنعم میں ان کی پرورش ہوئی تھی لیکن رعونت، نخوت، تمکنت اور گھمنڈ کا شائبہ بھی ان میں نہ تھا اور کسی کو اپنی ریاست و امارت کا حساس نہیں ہونے دیتے تھے، فروتنی کا یہ حال تھا کہ اپنے ملازمین اور صاحبزادگان کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، طبیعت میں بڑی خودداری اور استغنا تھا، مال و جاہ کی ہوس کبھی دامنگیر نہیں ہوئی خود نمائی، خود ستائی اور شہرت و نمود سے نفرت تھی، گھر پر خدمت گزاروں کی کمی نہیں تھی لیکن اپنا ضروری کام خود ہی کرلیتے تھے، اپنے خوردوں کو بھی اپنی خدمت کا موقع نہیں دیتے تھے، بڑھاپے اور معذوری کے باوجود کسی سے کام لینا گوارا نہیں تھا، ہر طبقہ کے لوگ ان سے ملنے آتے تھے اور سب سے بشاشت سے ملتے اور یکساں انداز سے پیش آتے نہ کسی کی بڑائی سے مرعوب ہو کر اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے اور نہ کسی کو چھوٹا سمجھ کر اس کی تحقیر اور دلآزاری کرتے، بڑے معاملہ فہم تھے، بہت جلد ہر مسئلہ کی گہرائی میں پہنچ جاتے اور اس کا حل ڈھونڈ لیتے، نہایت مردم شناس تھے کوئی شخص ان کو دھوکا دے کر نہ ان سے غلط کام لے سکتا تھا اور نہ ناجائز سفارش کراسکتا تھا، وہ خود بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے معزز عہدوں پر متمکن رہے لیکن اپنے اعزہ اور خاص متعلقین کو بھی ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا، کسی نظام میں خلل انداز ہونا اور کسی شخص پر غلط دباؤ ڈالنا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔
شروانی صاحب نے اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھنے اور اپنے والد مرحوم کے متروکات کو ان کی اصلی حالت میں باقی رکھنے کے لیے سعی بلیغ کی اور حسن تدبیر سے اپنی زمین جائداد اور مکانات کو بھی بچایا، ان میں بھی اپنے والد ہی کی طرح ایسی صحیح مذہبیت اور راسخ العقیدگی تھی جس میں تعصب اور نفرت کا شائبہ نہ تھا، ان کو بھی مختلف الجہات اور متضاد خیالات رکھنے والے افراد سے تعلقات کو نبھانے کا اچھا سلیقہ تھا، جس سے جس نوعیت کا تعلق قائم ہوجاتا وہ پتھر کی لکیر بن جاتا، اختلاف خیال اور اختلافِ مذاق سے ہرگز اس میں کمزوری نہ پیدا ہونے دیتے، صبح کی تفریح میں جہاں جانے اور بیٹھنے کا معمول بن جاتا اس کو پختگی سے قائم رکھتے، مرحوم اعظم گڑھ تشریف لاتے تو صبح کی واک کے بعد میری قیام گاہ پر تشریف لاکر ہلکا ناشتہ اور چائے پیتے، وہ جب بھی اعظم گڑھ آئے تو اس معمول کے مطابق انھوں نے میری عزت افزائی فرمائی، دراصل وہ اپنے والد مرحوم کی سیرت و اخلاق کی تمام خوبیوں اور کمالات کی جیتی جاگتی تصویر اور الولدسرلابیہ کی مکمل مثال تھے، میں علی گڑھ جاکر اگر کبھی ان کے دولت کدہ پر قیام نہ کرتا تو ان کو تکلیف ہوتی جس کو کبھی کبھی ظاہر بھی کردیتے، افسوس اب و ضعداری، شرافت، تہذیب اور شائستگی کا یہ نمونہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا، بارالہٰا تونے اپنے اس نیک بندے کو دنیا میں جو عزت و مقبولیت بخشی تھی، عالم آخرت میں بھی اسے وہی اعزاز و کامرانی بخش اور اس کی نیکیوں کے بدلے میں اسے جنت نعیم عطا فرما آمین۔ برحمتک یا ارحم الراحمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی،جون ۱۹۹۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...