Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر مسعود حسن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر مسعود حسن
ARI Id

1676046599977_54338309

Access

Open/Free Access

Pages

515

پروفیسر مسعود حسن
(پروفیسر مختارالدین احمد)
علمی و ادبی دنیا میں یہ خبر افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ ۲۷؍ مئی ۱۹۹۲؁ء کی شب کو عربی و فارسی کے مشہور استاد اور اردو کے ممتاز ادیب پروفیسر مسعود حسن طویل علالت کے بعد کلکتہ میں وفات پاگئے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔
مسعود حسن ۵؍ نومبر ۱۹۲۰؁ء کو اپنے وطن کھگول (دانا پور) ضلع پٹنہ کے ایک ممتاز اہلحدیث خاندان میں پیدا ہوئے جو وہاں کئی پشتوں سے آباد تھا اور اپنے مذہبی اور علمی خدمات کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان کے والد منشی غلام قادر نے انہیں ان کے حقیقی ماموں حکیم مولانا محمد حسن (۱۸۸۰؁ء۔ ۱۹۶۱؁ء) کے سپرد کردیا جن کے سایۂ عاطفت میں ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی، متوسطات کی تعلیم مدرسۂ فیض عام مؤناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ میں پاکر وہ ۱۹۳۳؁ء میں مدرسۂ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں داخل ہوئے جہاں مدرسہ اکزامنیشن بورڈ سے ۳۳؁ء میں انھوں نے ’’مولوی‘‘ اور ۱۹۳۵؁ء میں ’’عالم‘‘ کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی وہاں کے اساتذہ میں مولانا محمد سہول عثمانی، اصغر حسین بہاری، مولانا سید دیانت حسین دربھنگوی، مولانا ظفرالدین قادری (۱۸۸۵؁ء۔ ۱۹۶۲؁ء)، مولانا سید شاہ عبیداﷲ (متونی ۱۵ جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸؁ھ، مولانا عبدالشکور آہ ؔؔ مظفر پوری اور مولانا سید عبدالسبحان دسنوی کے نام یاد آتے ہیں۔ مولانا محمد سہول، مولانا اصغر حسین اور مولانا عبدالشکور مدرسۂ دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے شاگرد، مولانا دیانت حسین نے مدرسۂ عالیہ رام پور میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ معقولات میں مولانا فضل حق خیر آبادی اور مولانا حکیم برکات احمد بہاری ثم ٹونکی کے اہم تلاندہ میں تھے۔ مولانا ظفر الدین قادری، مولانا احمد حسن کانپوریؒ کے شاگرد تھے وہ مدرسۂ منظر اسلام بریلی کے فارغ التحصیل اور مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلویؒ (۱۲۷۲؁ھ، ۱۳۴۰؁ھ) کے تلمیذ خاص اور ان کے مجاز و خلیفہ تھے، مولانا شاہ عبید اﷲ نے الجھر اور دوسرے مقامات کے علماء سے علمی فیض حاصل کئے تھے۔ جب کہ مولانا سید عبدالسبحان ندوۃ العلما کے تعلیم یافتہ تھے۔ مسعود حسن ایک دینی مدرسے سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے اس لیے ان کی علمی استعداد مضبوط تھی۔ عربی ادب سے ان کی خاص دلچسپی تھی، عربی لکھنے پر قدرت رکھتے تھے، ان کی شرح دیوان حماسہ دہلی سے شایع ہوئی تھی اور بہار کے دینی مدارس میں مروج تھی۔ مقامات حریری کے دس مقامات انہیں حفظ تھے اور اس کے فقرات و تراکیب اپنی عربی تحریر میں خوبصورتی سے استعمال کرتے تھے، اس لیے مولانا عبدالسبحان جو عربی ادب پڑھاتے تھے ان پر خاص طور پر شفقت فرماتے تھے۔
مدرسۂ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے دوستوں میں عبدالاحد شرف الدین پوری (جو بعد کو طبیہ کالج پٹنہ میں پروفیسر اور اس کے پرنسپل ہوئے) حفیظ الرحمن اوجؔ شمسی (جو تعلیم سے فراغت کے بعد اسی مدرسے میں استاد، پھر اس کے پرنسپل مقرر ہوئے)، عبدالقیوم مہجور شمسی سہسرامی (۱۹۱۵؁ء۔ ۱۹۷۴؁ء) اور حافظ ظہیر احمد مجروحؔ عظیم آبادی مرحوم کے نام اس وقت یاد آرہے ہیں۔ میں ان سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن مجھ سے اس زمانے میں بھی ان کا برتاؤ دوستانہ رہا اور بعد کو جو ان سے گہرے تعلقات قائم ہوئے وہ ہمیشہ استوار رہے۔
وہ مدرسے کی تعلیم کے بعد ۱۹۳۶؁ء میں اپنے بھائی ڈاکٹر محمود حسن کے پاس کلکتہ چلے گئے جو بعد کو وہاں کے ایک طبی ماہر اور سماجی کارکن کی حیثیت سے مشہور ہوئے ان کی وفات کلکتہ ہی میں ۷؍ نومبر ۱۹۶۷؁ء کو ہوئی، مسعود حسن نے ان کے زیر سایہ رہ کر انگریزی کی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے ۱۹۴۳؁ء میں عربی میں اور بعد کو فارسی میں بھی ایم اے کیا۔ دونوں امتحانات میں وہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوئے ان کے اساتذہ میں پروفیسر محمد زبیر صدیقی (المتونی ۱۸؍ مارچ ۱۹۷۶؁ء پروفیسر محمد محفوظ الحق (ولادت ۷؍ جنوری ۱۹۰۰؁ء۔ وفات ۱۰؍ جون ۱۹۴۶؁ء پروفیسر محمد اسحق (۱۲؍ ستمبر ۱۹۶۹؁ء)، مولانا فضل الرحمن باقیؔ اور مولانا محمد اکبر ندوی (۱۵؍ رمضان المبارک ۱۴۰۰؁ھ) تھے۔ ڈاکٹر صدیقی اور ڈاکٹر محمد اسحٰق کے طبائع میں بڑا فرق تھا اور ان کا طریقۂ کار بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف، لیکن مسعود حسن کے تعلقات دونوں سے ہمیشہ استوار رہے، وہ اپنے اساتذہ میں مولانا فضل الرحمٰن باقیؔ (۱۸۹۷ ۔ ۱۹۶۳) کے تبحر علمی کے خاص طور پر قائل تھے اور ان کے اخلاق حمیدہ سے بہت متاثر۔ وہ ابن ربن الطبری (۱۶۵؁ھ۔ قبل از ۲۴۶؁ھ) کی فردوس الحکمۃ (برلن ۱۹۲۸؁ء) مرتبہ پروفیسر محمد زبیر صدیقی پر ان کے تنقیدی مضمون کو تحقیق و تنقید کا بہت اچھا نمونہ سمجھتے تھے جو مولوی عبداﷲ دہلوی کے فرضی نام سے مولانا عبدرزاق ملیح آبادی کے اخبار ہند کلکتہ میں کئی قسطوں میں شایع ہوا تھا۔
انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز پٹنہ کالج سے کیا جہاں وہ ۱۹۴۶؁ء۔ ۱۹۴۷؁ء میں عربی کے لکچرر رہے۔ یہ عارضی جگہ غالباً وہاں کے لکچرر حافظ عبدالقدوس کے تحقیقی کاموں کے لیے انگلستان چلے جانے پر خالی ہوئی تھی۔ وہ ایک سال کے بعد ہی واپس آگئے تو مسعود حسن کلکتہ واپس چلے گئے، ۱۹۴۸؁ء میں ان کا تقرر عربی، فارسی اور اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ہوگلی محسن کالج ہوگلی میں ہوگیا، جہاں وہ ۱۹۵۲؁ء تک ان شعبوں کے صدر رہے۔ اسی سال وہ سنٹرل کلکتہ کالج کلکتہ میں عربی و فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۹؁ء میں وہ کلکتہ مدرسہ (سابق مدرسۂ عالیہ) کے پرنسپل بن کر آئے اور ۴؍ جنوری ۱۹۶۴؁ء کو کوئی چھ سال کے بعد مدرسے سے سکبدوشی کے بعد وہ مولانا آزاد کالج کلکتہ میں اپنی سابقہ ملازمت پر واپس آگئے۔ یہاں وہ عربی فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ وہ ۱۹۶۷؁ء میں پروفیسر مقرر ہوگئے، جہاں وہ دس سال تک عربی و فارسی کے صدر رہے۔ ۱۹۷۷؁ء میں ان کی خدمات پبلک سروس کمیشن مغربی بنگال نے حاصل کرلی، وہ پانچ سال تک کمیشن میں اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے کر ۱۹۸۲؁ء میں متقاعد ہوئے۔ وہ تقریباً بیس سال تک کلکتہ یونیورسٹی میں عربی و فارسی کے جزوقتی لکچرر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
مسعود حسن کے علمی و ادبی ذوق کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ کم عمری ہی میں جب وہ مدرسے کے طالب علم تھے ان کے افسانے، دوسری ادبی تحریریں اور عربی سے ترجمے، مسعود حسن دانا پوری، کے نام سے ادبیؔ دنیا، ہمایوںؔ، ساقیؔ اور موقر ادبی رسالوں میں شایع ہوتے تھے، جب وہ کلکتہ یونیورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے انھوں نے اپنا ایک مضمون علامہ سید سلیمان ندویؒ کو معارف میں اشاعت کے لیے بھیجا۔ یہ جولائی ۱۹۴۲؁ء میں شایع ہوا، پھر معارف میں ان کے متعدد مضامین شایع ہوئے۔ پروفیسر محمد زبیر صدیقی (کلکتہ یونیورسٹی) (مئی ۱۹۷۶؁ء) مولانا محمد اکبر ندوی (معارف ستمبر ۱۹۸۰؁ء) اور مولانا ابوسلمہ شفیع احمد (معارف مارچ ۱۹۸۶؁ء کی رحلت پر ان کے جو مضامین ـ’’دفیات‘‘ کے عنوان کے تحت چھپے وہ اکثر قارئین معارف کو یاد ہوں گے۔
اردو کے مشہور انشا پردازل۔ احمد (لطیف الدین احمد ۱۸۸۵؁ء۔ ۱۹۸۰؁ء) اکبر آبادی مقیم کلکتہ سے ان کے گہرے تعلقات تھے، وہاں کی انجمن ’’سخن زار‘‘ نے جشن احمد منانے کا منصوبہ بنایا تو مسعود حسن جو انجمن اور جشن کمیٹی کے اہم رکن تھے۔ وہ ان مضامین کو ایک مجموعے کی شکل میں شایع کرنا چاہتے تھے۔ کلکتہ میں اس کی اشاعت کا کوئی انتظام نہ ہوسکا تو انھوں نے اس مجموعے کے لیے جو مضامین لکھوائے تھے وہ مالک رام صاحب کو بھیج دیے جو اس زمانے میں ل۔ احمد پر رسالہ تحریرؔ (ادبی مجلس دہلی) کا ایک خصوصی نمبر شایع کررہے تھے۔ یہ مضامین تحریرؔ جلد ۸۔ ۳ (جولائی ۱۹۷۴؁ء) میں شایع ہوئے، جس میں ان کا بھی ایک مضمون شریک اشاعت ہے۔ ان کے ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ وہ سخن شعرا کے مصنف عبدالغفور نساخ (۱۸۳۴؁ء۔ ۱۸۸۹؁ء) کی خود نوشت سوانح حیات (نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال) مرتب کررہے ہیں اور اس پر مفصل مضمون بھی لکھ رہے ہیں۔
۱۹۳۲؁ء سے انھوں نے مضمون نگاری شروع کی، اگر ان کی علالت کے آخری پانچ سال نکال بھی دیے جائیں تو پچاس پچپن سال میں انھوں نے جو کچھ لکھا انہیں جمع کیا جائے تو یہ تحریرات دو تین جلدوں میں آئیں گی۔ ضرورت ہے کہ ان مضامین کا انتخاب مرتب کر کے شایع کر دیا جائے۔ ان کے احباب و تلامذہ اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی کو اس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے۔
مسعود حسن اردو نثر تو اچھی لکھتے ہی تھے، انہیں انگریزی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی۔ اسلامک کلچر (حیدرآباد) جرنل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال انڈوایر انیکا (کلکتہ) انڈین لٹریچر (ساہتیہ اکیڈمی دہلی) السٹرٹیڈ ویکلی (بمبئی)، اسٹیٹسمین (کلکتہ) وغیرہ میں شایع شدہ مضامین اس کے گواہ ہیں۔
پھلواری شریف (پٹنہ)کے ایک قدیم فارسی گوشاعر شاہ ابوالحسن فردؔ (ولادت ۱۰؍ رجب ۱۱۹۴؁ھ، وفات ۲۴؍ محرم ۱۲۶۵؁ھ) کے ضخیم دیوان کا مطالعہ کر کے انھوں نے ایک تفصیلی مضمون انگریزی میں لکھ کر انڈو۔ ایرانیکا جلد۸ شمارہ۲ (۱۹۵۵؁ء) کلکتہ میں شایع کرایا تھا۔ یہ کتابچے کی شکل میں سوسائٹی سے اب بھی ملتا ہے، عباسی شہزادی علیہ بنت المہدی (۱۶۰؁ھ۔ ۲۱۰؁ھ) کی زندگی اور شاعری پران کا مضمون اسلامک کلچر (حیدرآباد) میں چھپا جس میں انھوں نے مختلف قدیم مصادر سے اس کے اشعار بھی تلاش کر کے جمع کردیے ہیں۔ ابن حزم اور اس کی جمہرۃ الانساب پر ان کا مقالہ جرنل آف دی ایشیاٹک سوسائٹی بنگال (جلد ۱۲:۱) میں ۱۹۴۷؁ء میں شایع ہوا۔ انڈو۔ ایرانیکا میں بھی ان کے کچھ مضامین چھپے ہیں لیکن وہ شمارے اس وقت پیش نظر نہیں۔ میرزا انیسؔ پر ان کا ایک بہت اچھا مضمون خوشونت سنگھ اور قرۃالعین حیدر کے دورادارت میں السٹرٹیڈ ویکلی (بمبئی) میں چھپا تھا۔ جسے انیسؔ کے قدردانوں نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ ساہتیہ اکیڈمی کے انگریزی رسالے انڈین لٹریچر میں ل۔احمد پر ان کا مقالہ شایع ہوا تھا ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’ہندوستانی ادب کے معمار سیریز‘‘ کے لیے انگریزی میں احمد پر ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ انھوں نے جناب مالک رام صاحب سے جو اس وقت اکیڈمی کے جنرل کونسل کے ممبر اور اردو سیکشن کے سکریٹری تھے، دہلی جا کر اس کی اشاعت کے سلسلے میں بات بھی کرلی تھی۔
عربی و اسلامیات سے ان کی دلچسپی گہری تھی۔ ۱۹۵۱؁ء میں وہ عہد عباسی کے غزل گوشاعر عباس بن الاحنف (متوفی ۱۹۲ھ) پر ایک مقالہ لکھ رہے تھے۔ دیوان العباس بن الاحنف کا ایک پرانا اڈیشن مطبع الجوائب، قسطنطنیہ کا ۱۲۹۸؁ھ کا چھپا ہوا ان کے پیش نظر تھا، میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنے کام کی بنیاد اس جدید علمی اڈیشن پر رکھیے جسے ڈاکٹر عاتکتہ الخزرجی نے متعدد نسخوں سے مرتب کرکے قاہرہ سے ۱۹۵۲؁ء میں شایع کیا ہے۔
ابن حزم اندلسی (۳۸۴؁ھ۔ ۴۵۶؁ھ) ان کے محبوب مصنفوں میں تھے مراتب الاجماع کا ایک قلمی نسخہ ان کے ذخیرۂ کتب میں تھا، کتب خانۂ خدا بخش کے نسخے کی مدد سے انھوں نے اس کا متن مرتب کرنا شروع کیا اور اس پر ایک سیر حاصل مضمون لکھا، جس کا اختصار راقم الحروف نے اپنے دور ادارت میں علی گڑھ کے مجلہ علوم اسلامیہ جلد ۱:۲ (دسمبر ۱۹۶۰؁ء) میں شایع کیا۔ کچھ اضافوں کے بعد یہ مقالہ انھوں نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کی اسلامک اسٹڈیز کی کانفرنس میں پیش کیا۔ انھوں نے مراتب الاجماع کے مرتب کردہ متن سے حمد و نعت اور کتاب الطہارۃ کے ابتدائی حصے کا متن بھی مجلہ علوم اسلامیہ میں اشاعت کے لیے بھیجا تھا، میں نے انہیں لکھا کہ یہ کتاب مکتبۂ قدسی قاہرہ سے ۱۳۵۷؁ھ میں شایع ہوئی ہے اسے بھی پیش نظر رکھیے اور مکمل کتاب ایک ساتھ شایع کیجئے۔
ابن حزم کی دوسری کتاب جس کی ترتیب و تصحیح کی فکر میں وہ برسوں رہے، جمہرۃ انساب العرب ہے، اس کا بہت اچھا نسخہ کتاب خانۂ خدابخش میں محفوظ ہے۔ جب وہ پٹنہ کالج میں عربی کے لکچرر تھے، ان کی نگاہ سے یہ نسخہ گزرا اور مصنف سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ جب وہ کچھ دنوں کے بعد کلکتہ واپس گئے تو انھوں نے عزم کرلیا کہ وہ اس نادر مخطوطے کو جو اب تک شایع نہیں ہوا تھا، پروفیسر محمد زبیر صدیقی (صدر شعبۂ عربی و فارسی و اسلامیات کلکتہ یونیورسٹی) کی نگرانی میں اڈٹ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پیش کریں گے۔ انہیں خدابخش اور ذخیرۂ شاہ احسن اﷲ سندھی کے نسخوں کا علمی تھا۔ انھوں نے استاذ مرحوم علامہ عبدالعزیز المیمنیؒ سے جمہرہ کے دوسرے نسخوں کے بارے میں اطلاعات طلب کیں انھوں نے اطلاع دی کہ اس کے نسخے قاہرہ، استانبول وغیرہ میں ہیں، ایک نسخہ جو شاہ احسان اﷲ سندھی کے ذخیرے میں سندھ میں محفوظ ہے۔ بہت بعد کامکتوبہ ہے اور اس کی اہمیت نہیں لیکن نسخ خدابخش و رام پور جو علی الترتیب ۹ ویں اور ۱۰ ویں صدی ہجری کے لکھے ہوئے ہیں بہت اچھے ہیں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ فی الحال ان دو نسخوں کی بنیاد پر کام کر کے ڈاکٹریٹ کے لیے پیش کردیجئے، اس عرصے میں مصر و ترکی کے نسخوں کی مائکرو فلم یا عکس حاصل کیجئے اور اشاعت کے وقت ان سے مدد لیجئے، آپ ان کے حصول کے انتظار میں ابھی سے رہے تو کام میں تعویق ہوگی۔ وہ میرے مشورے پر عمل نہ کر سکے اور اگر کام انھوں نے کچھ کیا تھا تو اسے اتمام تک نہ پہنچا سکے۔
اس سے پہلے استاذ مرحوم کی نگریانی میں علی گڑھ کے ایک ریسرچ اسکالر مزمل حسین جمہرۃ انساب العرب کو بانکی پور، رام پور اور استانبول کے نسخوں کی مدد سے مرتب کررہے تھے، لیکن افسوس ہے کہ تکمیل سے پہلے وہ وفات پاگئے، ۱۹۳۶؁ء میں جرمن مستشرق اوٹو اشپینر جو یہاں شعبۂ عربی میں دو سال (۱۹۳۲؁ء۔ ۱۹۳۴؁ء) بہ حیثیت استاد مامور رہے تھے جاتے وقت مزمل حسین مرحوم کا مرتب کردہ متن اور مصورۂ استانبول اپنے ساتھ بغرض اشاعت جرمنی لیتے گئے وہ شاید جرمن اورینٹل سوسائٹی سے شایع کرانا چاہتے ہوں گے، جہاں سے بیسوں قدیم عربی محظوطات شایع ہوئے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں لیکن کسی وجہ سے یہ کتاب شایع نہ ہوسکی۔ دسمبر ۱۹۵۴؁ء میں جب پروفیسر اشپینر سے میں بون یونیورسٹی میں ملا تو وہ عدم اشاعت کی کوئی وجہ بتانے سے قاصر رہے، بیس سال پہلے کی بات انہیں اچھی طرح یاد بھی نہ تھی۔ مزمل حسین کا مرتب کردہ نسخہ میں نے ان کے شعبے میں تلاش کیا، موجود نہ تھا میرا خیال ہے انھوں نے جرمن اورینٹل سوسائٹی کو ماینز (مغربی جرمنی) بھیج دیا ہوگا جہاں ان دنوں اس کا دفتر تھا، وہاں کسی وجہ سے یہ کتاب شایع نہ ہوسکی۔
ڈاکٹر عظیم الدین احمد (۱۸۸۰؁ء۔ ۱۹۴۹؁ء) سابق صدر شعبۂ عربی و فارسی و اردو پٹنہ یونیورسٹی اور علامہ ابوعبداﷲ محمد بن یوسف السورتی (۱۸۸۹؁ء۔ ۱۹۴۳؁ء) بھی کسی زمانے میں جمہرہ کی اشاعت کی فکر میں تھے۔ مولاناے سورتی نے تو نسخۂ رامپور کی نقل تیار کراکے کتب خانۂ خدابخش کے نسخے سے اس کا مقابلہ بھی کرلیا تھا، وہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد سے اسے شایع کرانا چاہتے تھے، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان کا مرتب کردہ متن بھی اشاعت پذیر نہ ہوسکا، ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی بھی ایک زمانے میں اس کی ترتیب و اشاعت کی فکر میں تھے۔
جمہرۃ نساب العرب لابن حزم کی اشاعت کسی ہندوستانی اسکالر مولانائے سورتی، ڈاکٹر عظیم الدین احمد، مزمل حسین، ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی، مسعود حسن کسی کی قسمت میں نہ تھی، فرانس کے مشہور مستشرق لیفی پرو فنشال (پیرس یونیورسٹی) نے اسے مرتب کیا اور دارالمعارف قاہرہ نے ۱۹۴۸؁ء میں اس درّبے بہا کو شایع کر کے اس سے استفادہ عام کردیا۔ اب اس کا بہت اعلیٰ علمی اڈیشن مرتبہ الاستاذ عبدالسلام محمد ہارون قاہرہ سے ۱۹۶۸؁ء میں شایع ہوگیا ہے۔
ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے کتابخانے میں ابوبکر محمد بن احمد الصنوبری الضبی (متوفی ۳۳۴؁ھ) کے دیوان کا ایک نسخہ محفوظ ہے (رقم ۲۰۲) جو اپنی ندرت کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ۱۹۶۳؁ء میں انھوں نے مجھے لکھا کہ دیوان الصنوبری کے مخطوطے کے بہت سارے حصے وہ دیکھ چکے ہیں، اب نقل کرنا باقی ہے۔ حالات زندگی کے سلسلے میں بہت سی معلومات انھوں نے جمع کرلی تھیں اورراغب الطباخ نے (اعلام النبلاء بتاریخ حلب الشہباء اور الروضیات (حلب ۱۹۳۲؁ء) میں جو اشعار الصنوبری کے درج کیے ہیں․․․․․․ ان کا مقابلہ وہ دیوان کے مخطوطے سے کررہے تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ اس نسخے کی فلم دمشق کے کسی عالم نے منگوائی ہے اور وہاں بھیجنا منظور کرلیا گیا ہے اس خبر نے انہیں بالکل مایوس و افسردہ کردیا۔
اسی زمانے میں مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی ( استاد تفسیر کلکتہ مدرسہ) عربی زبان و ادب کے معروف عالم و محقق جن کے تحقیقی مضامین عربی رسالوں میں شایع ہوتے رہتے ہیں، دیوان الصنوبری مرتب کرنے پر آمادہ تھے، اس سلسلے میں ان سے میری خط و کتابت بھی رہی، میں سمجھتا تھا کہ معصومی صاحب کم وقت میں بہتر کام کرسکیں گے لیکن اس اطلاع پر کہ ایک شامی عالم اسے شایع کرنے والے ہیں، انھوں نے اپنا کام روک دیا۔ شاید اس لیے بھی کہ نشر و اشاعت کی جو آسانیاں عرب فضلاء کو حاصل ہیں وہ ہمیں میسر نہیں۔ میرے خیال میں جن اصحاب نے اب تک اس مخطوطے کی ترتیب میں دلچسپی لی، مولانائے معصومی اس دیوان کی ترتیب کے لیے ان سبھوں میں سب سے زیادہ موزوں تھے اور ان کا مرتب کردہ دیوان شام سے شایع شدہ اڈیشن سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتا، دمشق سے اگر کوئی اڈیشن نکلا تو وہ میری نظر سے نہیں گزرا لیکن ایشیاٹک سوسائٹی کے اسی نسخے پر مبنی اڈیشن ڈاکٹر احسان عباس، استاد ادب عربی بیروت یونیورسٹی نے جواب مبحث العلمی جامعہ اردن (عمان) کے ڈائریکٹر ہیں دیوان الصنوبری مع اضافات و استداراکات بیروت سے ۱۹۷۰؁ء میں شایع کردیا ہے، یہ بہت اچھا علمی و تنقیدی اڈیشن ہے۔
مسعود حسن کوئی تیس سال تک پٹنہ کالج، محسن کالج ہوگلی، سنٹرل کالج (موجوڈ آزاد کالج) کلکتہ مدرسہ اور کلکتہ یونیورسٹی میں عربی و فارسی اور اسلامیات کی تعلیم دیتے رہے۔ اس عرصہ میں ہزاروں طالب علم ان سے فیضیاب ہوئے ہوں گے۔ اور ان میں سے کتنے حکومت کے اچھے عہدوں پر سرفراز ہوں گے اور کتنے ایسے ہونگے جو کالجوں، اسکولوں اور مدرسوں میں استاد کے فرائض انجام دے رہے ہونگے اور نئی نسل کو اپنے علمی فیوض سے سیراب کررہے ہوں گے۔
ان کا تعلق کلکتہ کے مختلف اداروں سے رہا۔ وہ ایران سوسائٹی کے لائف ممبر تھے، عرصے تک اس کی کونسل کے رکن اور مجلہ انڈوایرانیکا کے مقامی اڈیٹروں میں رہے، وہ ایشیاٹک سوسائٹی کے رکن تھے اور دس سال تک اس کے جواینٹ فیلوجیکل سکیریٹری رہے۔ وہ مولانا ابوسلمہ شفیع احمد کے ادارۂ ترجمہ و تالیف (کلکتہ) کے بڑے سرگرم کارکن تھے جہاں سے متعدد مفید کتابیں شایع ہوئیں۔
مسعود حسن خلیق اور متواضع تھے۔ وہ کم آمیز اور کم سخن تھے، خاموش طبیعت رکھتے تھے اور نرم لب و لہجے کے آدمی تھے۔ میں نے کبھی انہیں اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنانا مناسب بات سن کر بھی وہ عام طور پر خاموش رہتے۔ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ضروری ہوا تو وہ نہایت شایستہ لہجے میں اپنے خیالات کا اظہار کردیتے، نہ اپنی بات پر زیادہ اصرار کرتے اور نہ اسے منوانے کے لیے زیادہ جوش خروش کا اظہار کرتے۔ یہ ان کی زندگی کا عام رویہ تھا، خاص مواقع اور خاص مسائل پر ان کا انداز ضرور مختلف ہوتا تھا جو ایک فطری بات تھی۔ وہ عام طور پر جھگڑوں میں پڑنے سے گریز کرتے تھے اور اختلاف سے بچتے تھے، لیکن ان کی رایوں میں استحکام و صلابت ہوتی تھی اور جب وہ کوئی فیصلہ کرلیتے تھے تو اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے، زندگی میں انھوں نے غلط فیصلے بھی اور اس کی پاداش بھی انہیں بھگتنی پڑی۔ میرے ناقص خیال میں کلکتہ مدرسہ میں پرنسپل ہو کر جانے کا فیصلہ کچھ صائب نہ تھا۔ وہاں کے اساتذہ سے (جن میں کچھ اہم اور لایق علما بھی تھے) اگر وہ اپنے تعلقات استوار رکھتے اور اپنے لطف و کرم، اپنی نرم گفتاری، خوش اخلاقی سے ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجاتے تو وہ اس ذہنی کشمکش و ابتلا میں نہ پڑتے جس میں ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال ضایع ہوگئے ان کے اس زمانے کے خطوط سے جو انھوں نے مجھے لکھے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی ذہنی کیفیت اور کیسے کرب میں مبتلا ہیں۔ اس نامناسب فضا نے ان کی کارکردگی کو خاصہ متاثر کیا اور ان کا ذہنی سکون درہم برہم کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو علمی منصوبے ان کے ذہن میں تھے انہیں بروے کار نہ لاسکے۔
مسعود حسن تنہائی پسند تو نہ تھے ہاں کم آمیز تھے۔ وہ زیادہ لوگوں سے تعلقات بڑھانے کے حق میں نہ تھے لیکن جن سے ان کے تعلقات ایک بار قائم ہوگئے، ہمیشہ قائم رہے۔ وہ دوستوں سے دوستی نبھانے کا سلیقہ رکھتے تھے، کلکتہ کے دوستوں میں جسٹس خواجہ محمد یوسف، پروفیسر جگدیش نرائن سرکار، پروفیسر عطا کریم برق، پروفیسر شاہ مقبول احمد، ڈاکٹر محمد صابر خاں، مولانا ابو سلمہ شفیع احمد (متوفی ۲۲؍ دسمبر ۱۹۸۵؁ء) سے ان کے دیرینہ مراسم تھے کچھ اور احباب بھی ہوں گے، ان کے مدرسہ شمس الہدیٰ کے دوستوں میں پروفیسر حکیم عبدالاحد اور راقم الحروف کے تعلقات کا زمانہ پچاس سال کو محیط ہے اس عرصے میں کتنے انقلابات آئے، حالات زیرو زبر ہوئے لیکن ان کی محبت اور ان کا خلوص ہمیشہ خوشبو بکھیرتا رہا۔
مرحوم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھتے تھے چنانچہ انہیں بہت اچھی تعلیم دی اور ان کی بہت اچھی تربیت کی۔ خان بہادر مولانا ابونعیم محمد مبارک کریم سپرنٹنڈنٹ اسلامک اسٹڈیز حکومت بہار کے صاحبزادے مولانا محمد تبارک کریم فاضل شمسی (مقیم حیدرآباد) کی بیٹی ان کے عقد میں تھیں، یہ پانچ تعلیم یافتہ اور ہونہار بیٹے اپنی نشانی چھوڑ کر ۱۵؍ اپریل ۱۹۶۸؁ء کو رحلت کرگئیں۔ بڑے بیٹے سعید حسن تعلیم کی تکمیل کے بعد مرکزی حکومت میں ریلوے بورڈ میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ رشید حسن میکانیکل انجینئر ہیں اور کلکتہ کی ایک اہم فرم میں ملازم ہیں۔ وحید حسن ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں اور کلکتہ ہی میں پریکٹس کرتے ہیں، حمید حسن نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے اور فرید حسن بی کام کررہے ہیں۔ مرحوم کی دوسری شادی اپنے قریبی عزیزوں میں ہوئی، ان کے بیٹے لبید حسن اور ولید حسن چھوٹے ہیں اور اسکول میں تعلیم پارہے ہیں، خدا ان سبھوں کو خوش و خرم رکھے اور دینی و دنیوی سعادتوں سے مالا مال کرے۔
مسعود حسن مرحوم نے متعدد علما کی رحلت پر رسالہ معارف میں ’’وفیات‘‘ کے تحت پُر معلومات تحریریں شایع کرائی ہیں آج اسی عنوان ’’وفیات‘‘ کے تحت مرحوم پر یہ صفحات شایع ہورہے ہیں۔ (ستمبر ۱۹۹۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...