1676046599977_54338310
Open/Free Access
519
الحاج مولوی عین الحق اعظمیؒ
افسوس ہے کہ ۹؍ اگست کو الحاج مولوی عین الحق اعظمی کانپور میں رحلت فرماگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ ۱۵؍ فروری ۱۹۱۳ء کو اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں جواب ضلع مؤ میں ہے پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی مولوی کرنے کے بعد انٹرنس پاس کیا اور ۱۹۳۴ء سے اعظم گڑھ میں چمڑے کی تجارت شروع کی جس میں اﷲ نے برکت دی مگر ان کی حوصلہ مند طبیعت اس پر قانع نہیں ہوئی اور ۱۹۵۹ء سے کانپور بھی ان کی جولانیوں کا مرکز ہوگیا، یہاں جاجمؤ میں انھوں نے نیولائٹ ٹینری کی داغ بیل ڈالی اور جب کاروبار میں زیادہ وسعت و ترقی ہوئی تو ۱۹۶۷ء میں یہیں توطن اختیار کرلیا، اب یہ کاروبار اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان کے پانچ بیٹے شب و روز اسی میں لگے رہتے ہیں۔
علم و تعلیم سے ان کو بڑا شغف تھا، اکثر دینی مدارس کی مالی امداد کرتے تھے خود مدرستہ الاسلام کے نام سے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ قایم کیا، جس کے سالانہ جلسوں میں مولانا امین احسن اصلاحی اور دوسرے مشاہیر شریک ہوتے تھے، جاجمؤ میں انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جامعۃ الزہرا قائم کیا۔
دارالمصنفین کے علاوہ اعظم گڑھ میں علامہ شبلیؒ کی یاد گاریں مدرستہ الاصلاح سرائمیراور شبلی کالج بھی ہیں،تینوں اداروں اور ان کے ذمہ داروں سے حاجی صاحب مرحوم کے روابط تھے، دارالمصنفین میں ان کی آمد و رفت ۱۹۳۵ء سے شروع ہوگئی تھی انھوں نے اس کی فصل بہار دیکھی تھی، علامہ سلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالسلام ندویؒ کی مجلس علم و ادب میں بھی وہ باریاب رہ چکے ہیں، کانپور میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی جب وہ اعظم گڑھ آتے تو یہیں قیام کرتے مجھ پر ان کا خاص لطف و کرم رہتا، جب طبیعت ٹھیک رہتی تو ہر ہفتہ ان کا خط آتا میں بھی کانپور جاتا تو ان سے ضرور ملتا، اس سال رمضان سے پہلے وہ عمرہ کے لیے جارہے تھے تو مجھے تار دیکر بلوایا، کیا خبر تھی کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے۔
دارالمصنفین میں باہر سے جو مہمان آتے یا اسکی مجلس انتظامیہ کے معزز ارکان تشریف لاتے تو شہر کے دوسرے عمائد کی طرح وہ بھی ان اکابر سے ملنے دارالمصنفین آتے اور اپنے یہاں چائے یا ناشتے پر مہمانوں کو مدعو کرتے وہ بھی دارالمصنفین کی دعوتوں میں مدعو ہوتے تھے۔
مولانا مسعود علی ندوی مرحوم اور حکیم محمد اسحاق صاحب مرحوم کانگریس اور جمعیۃ علمائے ہند کے سرگرم رکن تھے، دونوں سے خاص تعلق کی بنا پر حاجی صاحب بھی ان تحریکوں میں عملی حصہ لیتے، یہ اعظم گڈھ کی جمعیتہ کے سکریٹری بھی رہے۔
حاجی صاحب صوم و صلوٰۃ کے بچپن سے عادی تھے، صبح سویرے اٹھ جانے کا معمول تھا فجر سے پہلے تہجد پڑھتے اور تلاوت کرتے اور فجر بعد اوراد وظائف میں مشغول رہتے، متعدد بار حج و زیارت سے مشرف ہوئے، زکوٰۃ تو نکالتے ہی تھے اسکے علاوہ بھی غریبوں اور ضرورت مندوں پر بہت کچھ خرچ کرتے رہتے تھے، علماء و صلحا سے برابر تعلق رکھا، حضرت مولانا علی میاں سے خاص تعلق تھا ان کی خدمت میں اکثر جایا کرتے، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ سے بیعت و ادارت کا تعلق تھا۔
برسوں سے صحت اچھی نہیں تھی اور موتواقبل ان تموتوا کی تفسیر بن گئے تھے، اﷲ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس نصیب کرے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
(ضیاء الدین اصلاحی۔ ستمبر ۱۹۹۲ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |