Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسرڈاکٹر معظم حسین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسرڈاکٹر معظم حسین
ARI Id

1676046599977_54338311

Access

Open/Free Access

Pages

519

ڈاکٹر معظم حسین
(پروفیسر مختار الدین احمد)
عربی و اسلامیات کے ایک جلیل القدر عالم، ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے سابق صدر اور وہاں کے سابق وائس چانسلر کی وفات کی خبر بنگلہ دیش سے مجھے بہت تاخیر سے ملی، ہندوستان کے اخبارات و رسائل میں تو اس سانحۂ علمیہ کا ذکر بھی نہیں آیا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید معظم حسین، متحدہ ہندوستان میں عربی ادب اور علوم اسلامی کے اہم علماء میں تھے، وہ مشہور مستشرق پروفیسر مارگولیوتھ (متوفی۱۹۴۰؁ء) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر کے نامور تلامذہ میں تھے، وہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ عربی میں ایم اے کرنے کے بعد بنگال کی حکومت سے وظیفہ پاکر عربی زبان و ادب کے تنقیدی مطالعے کے لیے انگلستان گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوکر کئی سال تک پروفیسر مارگولیوتھ کی نگرانی میں علمی تحقیقات میں مصروف رہے۔
مارگولیوتھ، اسلام کے خلاف جس قسم کے تعصبات کے شکار تھے ان سے دنیائے اسلام اچھی طرح واقف ہے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ عربی ادب کی خدمات میں وہ اپنے معاصرین میں بہت ممتاز رہے ہیں۔ عربی مخطوطات کی ترتیب و تہذیب سے ان کی گہری دلچسپی تھی۔ ہمیں ان کا احسان بھولنا نہیں چاہیے کہ تراث اسلامی کی تلاش بازیافت اور ان کی تصیح و اشاعت کے کارناموں میں انھوں نے مکمل حصہ لیا۔ قدیم مسلم مصنفین کی متعدد تصانیف انھوں نے خود مرتب کر کے یا اپنے احباب اور تلامذہ سے مدون کراکے انہیں ضایع ہونے سے بچالیا۔ یاقوت الحموی کی معجم الادباء اور متعدد علمائے عرب کی تصانیف نے ان کی بدولت نئی زندگی پائی، ان کے تلامذہ میں ہندوستانی طلباء میں افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق (مدراس) ڈاکٹر عابد احمد علی (علی گڑھ) ڈاکٹر محمد عبدالحق (حیدرآباد) کے نام یاد آتے ہیں۔ اول الذکر سے انھوں نے دیوان ابن سناء الملک مرتب کرایا، دوسرے سے ابن السکیت کی اصلاح المنطق اور تیسرے سے اسلامی عہد کے ایک شاعر پر کام کرایا۔ ڈاکٹر معظم حسین کے ذمے انھوں نے المفضل الضبی کی المفضلیات اور الاصمعی کی الاصمعیات کا انتخاب کتاب الاختیار بن منسوب بابن السکیت کی تصیح و تحشیے اور انگریزی ترجمے کا کام سپرد کیا۔ مکمل کتاب تو اب کہیں نہیں ملتی، اس کی جلد دوم کا نسخہ فریتس کرنیکو کے پاس تھا جسے ۱۹۱۳؁ء میں انڈیا آفس کی لائبریری کے لیے حاصل کرلیا گیا تھا، یہ جلد ۱۱۶ قصیدوں پر مشتمل ہے جن میں ۲۳ المفضلیات میں اور ۲۱ الاصمعیات میں موجود ہیں۔ ۷۲ قصیدے ایسے ملے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ تھے۔ ڈاکٹر معظم حسین نے دو قصیدے خالد بن الصقعب النہدی اور جبیہاء الاشجعی کے ایسے دریافت کیے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ کتاب الاختیارین کے گم شدہ حصے کے ہیں، انھوں نے اس طرح ۷۴ قصیدوں کے متن کی تصحیح کی، ان پر حواشی لکھے اشعار کی تخریج کی اور سارے قصیدوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ایک مفصل مقدمہ تحریرکیا۔ اکتوبر ۱۹۲۸؁ء میں انھوں نے اپنا کام مکمل کر کے یونیورسٹی میں داخل کیا جس پر انہیں ڈاکٹریٹ تفویض ہوئی۔
اپنے تحقیقی کام کے دوران انھوں نے یورپ کے بعض ممالک ترکی اور مصر کا علمی سفر کیا اور اہم اور نادر مخطوطات سے مستفید ہوئے۔ انگلستان سے ڈھاکا واپسی پر وہ شعبۂ عربی میں لکچرر پھر بعد کو پروفیسر اور صدر شعبہ بنے اور آخر میں ترقی کر کے اسی یونیورسٹی کے جس کے کبھی وہ طالب علم رہے تھے، وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ اس عہدۂ جلیلہ پر وہ متقاعد ہونے تک اپنے فرائض منصبی بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
تصانیف:
ڈاکٹر معظم حسین نے عربی کے دو اہم محظوطات پہلی مرتبہ مرتب کر کے شایع کیے۔
۱۔ نخبۃ من کتاب الاختیار ین للاخفش الاصغر: المفضل
الضبی (متوفی ۱۶۴؁ھ) نے قدیم اور اہم عربی شعرا کے قصائد کا ایک انتخاب تیار کیا، یہ المفضلیات کہلایا۔ عبدالملک بن قریب الاصمعی (متوفی ۲۱۶؁ھ) کے جمع کیے ہوئے قصائد الاصمعیات کے نام سے مشہور ہوئے، یہ مختارات بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گئے اور انکی متعدد شرحیں لکھی گئیں۔ الاخفش الاصغر (۲۳۵؁ھ۔ ۳۱۵؁ھ) نے دونوں مجامیع شعری سے کچھ اہم قصائد کا انتخاب مرتب کیا اور ان کی شرح لکھی۔ اس انتخاب نے کتاب الاختیارین کے نام سے شہرت پائی، عجیب اتفاق ہے کہ چوتھی اور پانچویں دو صدیوں تک یہ کتاب مفقودالخبررہی، اس عہد کا کوئی مصنف اس کا ذکر نہیں کرتا۔ ابن خیر الاشبیلی پہلا مصنف ہے جو اس کتاب کا ذکر کرتا ہے لیکن یہ چھٹی صدی ہجری کی بات ہے۔ اس کے بعد یہ کتاب پھر گم ہوجاتی ہے اور تقریباً ۸۰۰ سال تک کسی مصنف کے یہاں اس کا ذکر نہیں پایا جاتا اور نہ کسی کتابخانے میں اس کے وجود کی اطلاع ملتی ہے، عربی زبان و ادب کے نامور عالم اور یورپ کے مشہور مستعرب فریتس کرنیکو (۱۸۷۶؁ء۔ ۱۹۵۳؁ء) جو اسلامی کی طرف مائل ہونے کے بعد اپنی عربی تحریروں میں اپنے کو سالم الکرنکوی لکھنے لگے اور جن کا دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گہرا تعلق رہا، پہلے اسکالر ہیں جن سے ۱۳۲۵؁ھ میں ہمیں کتاب الاختیارین کا نام سننے میں آیا، انھوں نے اسی نادر کتاب سے جس کا نسخہ منحصر بفردان کے پاس تھا، طفیل بن عوف الغنوی کا، ۷۷ شعروں پر مشتمل قصیدۂ بائیہ نقل کر کے رایل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کے جرنل میں ۱۹۰۷؁ء میں شایع کیا۔ جب انھوں نے ۱۹۲۷؁ء میں لندن سے دیو ان طفیل الغنوی شایع کیا تو کتاب الاختیارین ان کے اہم مصادر میں تھی۔
اپریل ۱۹۷۶؁ء میں میں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے سوریہ گیا ہوا تھا جہاں جامعۂ حلب میں اس کے جلسے ہورہے تھے، وہاں ڈاکٹر فخرالدین قبادہ سے ملاقات ہوئی جو اس وقت جامعہ میں مدرس نحو و ادب تھے۔ دوران گفتگو انھوں نے علامہ عبدالعزیز المیمنی اور ڈاکٹر معظم حسین کی خیر و عافیت دریافت کی۔ میں نے کہا افسوس ہے کہ یہ دونوں مشاہیر اب ہندوستان میں نہیں ہیں۔ میمن صاحب کراچی میں مقیم ہیں اور معظم حسین صاحب کا وطن ڈھاکا ہے جو اب بنگلہ دیش میں ہے اور وہ وہیں سکونت پذیر ہیں۔ ڈاکٹر قبادہ نے اطلاع دی کہ ڈاکٹر معظم حسین نے کچھ منتخب قصائد مرتب کئے تھے میں نے کتاب الاختیارین کی اہمیت کے پیش نظر اس کے جز و دوم کا مکمل متن اپنے حواشی و تعلیقات کے ساتھ ابھی حال میں دمشق سے شایع کیا ہے۔ انھیں صنعاء (یمن) میں اس کا ایک اور نسخہ مل گیا ہے، لیکن وہ بھی صرف دوسری جلد کا، پہلی جلد اب بھی مفقود ہے۔ انھوں نے دلچسپ اطلاع دی کہ کتاب الاختیارین ابن السکیت کی تالیف نہیں جیسا کہ کرنیکو اور معظم حسین سمجھتے ہیں، بلکہ یہ انتخاب الاخفش الاصغر کا کیا ہوا ہے، انھوں نے اس کے دلائل بھی دیے جو مجھے تشفی بخش معلوم ہوئے، میں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ کرنیکو کو کتاب کی صرف دوسری جلد ملی، پہلی جلد کے سردرق پر دیباچے یا ترقیمے میں جامع کتاب کا نام ہوسکتا تھا، لیکن یہ جلد اب بھی مفقود ہے۔ بعض قیاسات کی بنا پر کرنیکو ڈاکٹر معظم حسین نے ابن السکیت کو اس کا جامع ٹھہرایا تھا، الاستاذ فخرالدین قبادہ نے معظم حسین کے شایع کردہ متن، اس کے حواشی اور مقدمے سے استفادے کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے: ’’افادنی کثیراً فی تصویب بعض العبارات وزیادۃ بعض الابیات‘‘۔
نخبۃ من کتاب الاختیارین کو ڈاکٹر معظم حسین نے ڈھاکا یونیورسٹی کے خرچ پر مطبع لطیفیہ دہلی سے ۱۳۵۴؁ھ؍ ۱۹۳۶؁ء میں شایع کیا۔ اس کا انتساب انھوں نے اپنے شفیق استاذ پروفیسر مارگولیتھ کے نام کیا ہے۔ الاستاذ فخرالدین قبادہ کا مرتب کردہ ایڈیشن مجمع اللغتہ العربیہ دمشق نے ۱۳۹۴؁ھ؍ ۱۹۷۴؁ء میں شایع کیا ہے، جلد اول اب بھی کہیں مل جائے تو اس کا امکان ہے کہ اصل جامع کتاب کا معاملہ طے پاجائے۔ ویسے فی الحال یہ مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ انتخاب الاخفش الاصغر کا کیا ہوا ہے۔
۲۔ کتاب معرفۃ علوم الحدیث للحاکم النیسابوری:
یہ الامام الحاکم ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحافظ النیسابوری (۳۲۱؁ھ۔ ۴۰۵؁ھ) کی مشہور تصنیف ہے۔ ان کی کتاب المستدرک نے بہت شہرت پائی، عرصہ ہوا یہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے شایع ہوگئی ہے۔ المدخل الی علم الصحیح شیخ محمد راغب الطباح نے حلب سے ۱۳۵۱؁ھ میں شایع کردی ہے، اس وقت معرفۃ علوم الحدیث شایع نہیں ہوئی تھی، ڈاکٹر معظم حسین نے اپنے آکسفورڈ کے کام سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۲۹؁ء میں اپنے ہاتھ سے برٹش میوزیم کے نسخے کی نقل تیار کی، پھر یورپ، ترکی، شام اور مصر میں انہیں اس کے مزید سات نسخے ملے، جن سے حتی المقدور انھوں نے مقابلہ متن و تصیح کلمات میں فائدہ اٹھاکر اس کا متن مرتب کیا اور ڈاکٹر کرنیکو کے مشورے پر دائرۃ المعارف حیدرآباد کو اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ حسن اتفاق سے اس کتاب کے مزید تین نسخے کتب خانہ خدابخش، ذخیرۂ حبیب گنج علی گڑھ اور مکتبۂ آصفیہ حیدرآباد میں مل گئے۔ نسخۂ خدا بخش کا تو انھوں نے پٹنہ جا کر اپنے تیار کیے ہوئے نسخے سے خود مقابلہ کیا، بقیہ دو نسخوں سے سید محمد ہاشم ندوی مدیر دائرۃ المعارف کی نگرانی میں دائرے کے مصحیحین نے مقابلہ کیا، یہ کتاب دائرۃ المعارف کے اخراجات پر مطبع دارلکتب المصریہ قاہرہ میں ۱۳۵۶؁ء؍ ۱۹۳۷؁ء میں چھپی۔ اس کا دوسر اڈیشن مطبع دائرۃ العارف حیدرآباد سے ۱۳۸۵؁ھ؍ ۱۹۶۶؁ء میں شایع ہوا۔
۳۔ اشعار سراقتہ بن مرداس البارتی:
سراقہ بن مرداس الازدی البارتی اموی عہد کا ایک قدیم شاعر ہے جو جریر و فرزوق کا معاصر تھا۔ طبقات الشعر للجھی، الموتلف والمختلف للآمری اور العقدالفرید لابن عبد ربہ میں اس کا مختصر سا ذکر ہے۔ کتاب الاغانی جیسی ضخیم کتاب میں اس کے صرف دو مقطوع درج ہیں اور وہ بھی کثیر اور جریر کے حالات کے ضمن میں، نقائص جریر و فرذوق اور بعض مصادر میں جریر و سراقہ کی مہاجات کے سلسلے میں بعض اطلاعات ملتی ہیں، طبری اور دوسرے مورخین کے یہاں اگر اس کا نام آیا ہے تو مختار بن عبیدالثقفی سے آویزش کے سلسلے میں۔
سراقہ کی زندگی کے حالات پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ سال و لادت کیا سال وفات تک نہیں معلوم۔ بس اس قدر معلوم ہے کہ وہ ۶۶؁ھ میں مختار سے برسر پیکار تھا۔ اس جنگ میں وہ گرفتار ہوا لیکن اپنی مداہنت اور شاعری کی بنا پر وقتی طور پر اس نے نجات حاصل کرلی، ابن کثیر کی البدایتہ والنہایتہ میں ۷۹؁ء کے حوادث و واقعات کے ذیل میں اس کا نام متوفین میں ملتا ہے، امالی الزجاجی سے بھی (مات فی حدود ثمانین من الھجرۃ) اس کے سال وفات کی تعین میں مدد ملتی ہے۔
سراقہ کا مکمل دیوان (اگر کبھی مرتب ہوا تھا تو وہ) مفقود ہے۔ ابن الندیم کی کتاب الفہرست اور عبدالقادر البغدای کی خزانتہ الادب میں اس کا ذکر نہیں۔ ڈاکٹر معظم حسین کو دیانا (آسٹریا) کے قومی کتب خانے میں اس کے اشعار کا ایک مختصر سا مجموعہ دست یاب ہوا۔ جسے فروری ۱۹۰۴؁ء میں غالباً کسی مستعرب نے برلن کے شاہی کتب خانے کے نسخے سے نقل کیا تھا۔ معلوم ہوا برلن کا نسخہ خود دارلکتب المصریہ قاہرہ کے ایک جدید العہد نسخے (مکتوبہ ۱۲۷۹؁ھ) سے منقول ہے۔ ڈاکٹر مرحوم کو حسن اتفاق سے ترکی میں کتب خانہ عاشر آفندی میں اسکے اشعار کے ایک مجموعے پر نظر پڑی لیکن یہ بھی ناقص تھا اور درمیانی اوراق غائب تھے۔ اسی زمانے میں قاہرہ کے دوران سفر انہیں دارالکتب میں متعدد شعرائے عربی کے کلام پر مشتمل ایک مجموعہ علامہ الشنقیطی کے ہاتھ کا لکھا ہوا (مکتوبہ ۱۲۹۳؁ھ) ملا جس میں سراقہ کے کچھ ایسے اشعار بھی درج تھے جو ویانا اور ترکی کے مقدم الذکر نسخوں سے غیر حاضر تھے۔ ڈاکٹر معظم حسین نے ان تینوں مخطوطات (جن میں نسخۂ عاشرآفندی سب سے اہم ہے) کو پیش نظر رکھ کر سراقہ کے قصائد و مقطوعات کو بہت محنت، دیدہ ریزی اور نہایت احتیاط سے مرتب کیا، جن مصادر میں یہ اشعار ملے ان سے ان کا مقابلہ کیا اور متن کی تصحیح میں ان سے مدد لی، انھوں نے اسے جرنل آف دی رائل ایشاٹک سوسائٹی لندن کے دو شماروں (جولائی، اکتوبر ۳۶؁ء) میں ۳۵ صفحات پر شایع کیا۔ اس میں سراقہ کے اہم قصائد و مقطوعات ہیں بعض قصائد طویل ہیں اور ۱۵۷ اور ۱۷۹ بیات پر مشتمل اور بعض مقطوعات دو دو تین تین اور چار چار شعروں کے ہیں، موضوع کے لحاظ سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں دو قطعے عبدالرحمن بن مخنف اور انکے بھائی محمد بن مخنف کے مرثیے میں ہیں، دو مختصر قطعات ابراہیم بن الاشتر پر ہیں اور دو جریر اور ایک فرزدق کی ہجو میں ہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ قصائد و مقطوعات ہیں۔
تقریباً چالیس سال کے بعد ڈاکٹرحسین نصار نے دیوان سراقۃ البارتی، لجنۃ التالیف والترجمۃ والنشر قاہرہ کی طرف سے شایع کیا، ان کے سامنے وہی نسخے تھے جن سے ڈاکٹر معظم حسین استفادہ کرچکے تھے، اس فرق کے ساتھ کہ مرحوم کے پیشِ نظر ترکی کا اصل نسخہ کتب خانہ عاشرآفندی کا تھا اور ڈاکٹر حسین نصار کے سامنے اس سے تیار کی ہوئی ایک نقل نویس کی نقل۔
مرتب نے ابتدا میں ایک تفصیلی بر معلومات مقدمہ لکھا ہے اور متن پر بہت محنت سے تفصیلی حواشی لکھے ہیں، اتنے تفصیلی کہ القینۃ (الامۃ مغنیۃ کانت اوغیر مغنیۃ)، القطا (نوع من الطیر)، المبین (الواضح)، الیفاع (المرتفع من الارض)، السمھریۃ (القناۃ الصلبۃ)، ھزبر (الاسد)، اللیث (الاسد)، المدامۃ (الخمر)، الطرف (الغین)، البیداء (الصحراء)، الفکاھۃ (المزاح)، الھیجاء (الھرب) جیسے مشہور لفظوں کے بھی معانی درج کیے ہیں جن سے عربی مدرسوں کے ابتدائی درجے کے لڑکے بھی واقف ہوں گے، انھوں نے حسان بن ثابتؓ، الاعشی، لبید، مصعب بن لازبیر، ابن الاعرابی، محمد بن حبیب البغدادی اور السکری وغیرہ ہم پر بھی سوانحی نوٹس تحریر فرمائے ہیں جو معروف اشخاص ہیں۔
دیوان مطبوعہ کے آخری صفحے ( ۱۰۶) پر سراقہ کے یہ دو شعرہیں:
قالواسراقۃ عنین’‘ فقلت لھم
اللّٰہ یعلم انی غیر عنین
فان ظننتم بی الشی الذی زعموا
فقر بونی من نبت ابن یاسین
ذیلی حاشیے میں مرتب نے العنین کی تشریح کی ہے: الذی لایقدر علیٰ اتیان النساء اولا یشتھی النساء لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ نبت ابن یاسین (یابنت ابن یامین) کون ہے۔ یہ اطلاع ہمارے لیے مفید ہوتی۔ خاتمہ دیوان پر اصل نسخے میں یہ سطریں درج ہیں: ’’ھذا آخر ماوجدتہ بخط الحسین بن علی النمری، یقول ھذا آخر ماوجدتہ بخط السکری، یقول ھذا آخر ماوجدتہ فی کتاب ابن حبیب والحمدﷲ۔ و وجدت بخط الشیخ ابی احمر بعد ذلک: قابلت بجمیع مامضیٰ، واعلمت علیہ، وکتبت مالم یکتب فیہ فی الحواشی‘‘۔
مرتب دیوان نے ابو احمد پر دس سطروں کا نوٹ لکھا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ابو احمد، مصنف کتاب التصحیف، ابو احمد الحسن بن عبداﷲ العسکری اللغوی (۲۹۳؁ھ۔ ۳۸۲؁ھ) ہیں۔ یہ قرین صواب نہیں۔ یہ ابوالعلاء المعری کے دوست ابواحمد عبدالسلام البصری خازن دارالعلم بغداد (متوفی ۴۰۵؁ھ) ہیں۔ ابوعبداﷲ الحسین بن علی النمری مصنف کتاب الملمع کی وفات ۳۸۵؁ھ میں ہوئی اور ابواحمد العسکری کی تاریخ وفات ۳۸۲؁ھ ہے۔ یعنی النمری کی وفات سے تین سال پہلے العسکری وفات پاچکے تھے۔ ابواحمد مذکور کو ۳۸۵؁ھ کے بعد کا ہونا چاہیے۔ یہ ابواحمد عبدالسلام الخازن ہی ہوسکتے ہیں۔
مرتب دیوان نے ڈاکٹر معظم حسین کی علمی کوشش، نسخوں کی تلاش، اس کے قابل قدر مقدمے اور حواشی کا ذکر نہیں کیا۔ اپنے مقدمۂ دیوان کی آخری سطور میں صرف یہ لکھنے پر اکتفا کیا کہ س: م۔ حسین الہندی نے مجلۃ الجمعیۃ المکیۃ الاسیویہ لندن میں ۱۹۳۶؁ء کے دو شماروں میں اسے نشر کیا ہے اور یہ کہ ہمارے اڈیشن سے پہلے دیوان سراقہ مستقل کتابی صورت میں طبع نہیں ہوا۔ یہ مناسب اور علمی طریقہ نہیں۔ انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھایا یا نہیں۔ دیوان کی ترتیب جدید کے وقت ڈاکٹر مرحوم کا کام ان کے پیش نظر ضرور رہا ہوگا اور اس سے انھوں نے استفادہ بھی کیا ہوگا۔ لیکن پوری کتاب میں مرحوم کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر طبع معظم حسین انھوں نے پیش نظر نہیں رکھا تو بھی یہ بات قابل اعتراض ہے۔ کسی قلمی نسخے کی ترتیب و اشاعت کے وقت حتی الامکان سارے مخطوطات اور اگر کتاب چھپ گئی ہو تو مطبوعہ اڈیشن بھی سامنے رکھنا شرق و غرب کے علماء کا دستور رہا ہے۔ ڈاکٹر معظم حسین کا مرتب کردہ دیوان کا متن دنیا کے ایک مشہور رسالے میں شایع ہوا تھا جس سے استفادہ مشکل نہ تھا۔
یورپ، ترکی اور شرق اوسط کے قیام و سفر کے دوران ڈاکٹر معظم حسین کو عربی کے اہم مخطوطات کے مطالعے کے بڑے مواقع ملے کچھ کے عکسی نقول وہ ساتھ لائے ہوں تو عجب نہیں۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ منتھی الطلب من اشعارالعرب لابن میمون البغدادی سے ان کی گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے اس پر انگریزی میں ایک مضمون بھی لکھا تھا اور اس کتاب سے ایک قصیدہ انھوں نے شایع بھی کیا تھا۔ اس بات کا خاصا امکان ہے کہ انھوں نے مکمل کتاب نہ سہی اس کا ایک حصہ مرتب کیا ہو لیکن شایع نہ کرسکے ہوں۔
ڈاکٹر معظم حسین کی ایک تحریر مورخہ اکتوبر ۱۹۲۸؁ء سے جو آکسفورڈ میں لکھی گئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ الاصمعیات کا مکمل اڈیشن مرتب کر کے شایع کرنا چاہتے تھے، اس اڈیشن کی تکمیل اور اس کی اشاعت کے بارے میں پھر کوئی اطلاع نہیں ملی۔ الاصمعیات کا وہ اڈیشن جو مستعرب آلورد نے برلن سے ۱۹۰۲؁ء میں شایع کیا تھا، غیر مکمل تھا۔ ڈاکٹر معظم حسین کے سامنے اس کا وہ قلمی نسخہ تھا جو کتب خانہ کوپرولو میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر معظم حسین کے اعزہ و تلامذہ اور ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے اساتذہ اگر ان کے ذخیرۂ کاغذات میں منتھی الطلب اور الاصمعیات کے سلسلے مسودات تلاش کرسکیں تو یہ ایک مفید علمی خدمت ہوگی، ہر چند کہ اب الاصمعیات کا بہت اچھا اڈیشن قاہرہ سے نکل آیا ہے اور منتھی الطلب کے کچھ اجزا اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
مقالات:
ڈاکٹر معظم حسین نے زیادہ تر مقالات انگریزی میں لکھے ہیں۔ ان کا عربی میں ایک مقالہ جو دمشق میں چھپا تھا میری نگاہ سے گزرا ہے، ممکن ہے انھوں نے اور بھی لکھے ہوں۔
۱۔ الخیل والا بل فی الشعر الجاھلی (مجلۃ المجمع العلمی العربی، دمشق (جلد ۲۲ ص ۱۲۱۔ ۱۲۹) میں شایع ہوا)
۲۔ ایک غیر معروف قدیم عربی قصیدہ (روداد اجلاس ششم آل انڈیا اورنٹیل کانفرنس میں چھپا، ۱۹۳۰؁ء)
۳۔ بنگال میں اسلامی تعلیمات (مطبوعہ اسلامک کلچر، حیدرآباد، ۱۹۳۴؁ء)
۴۔ قدیم عربی شاعری کا ایک غیر معروف مجموعہ (روداد اجلاس ہشتم آل انڈیا اورینٹل کانفرنس، ۱۹۳۵؁ء)
۵۔ اشعار سراقتہ بن مرداس البارقی (جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن، ۱۹۳۶؁ء)
۶۔ تلبیات الجاھلیۃ مطبوعہ روداد اجلاس نہم، (آل انڈیا اورنٹیل کانفرنس، ۱۹۳۷؁ء)
۷۔ عہد سلطنت دہلی (۱۲۰۶؁ء۔ ۱۳۷۰؁ء)میں اہل الذمہ (مطبوعہ اسٹڈیز ان اسلام شمارہ ۴، ۱۹۶۷؁ء)
۸۔ اسلام میں تعذیرات پر توبہ کا اثر (مطبوعہ اسلامک اسٹڈیز شمارہ ۸، ۱۹۶۹؁ء)
میرا خیال ہے ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے جرنل اور بنگلہ دیش کے علمی انگریزی رسالوں میں بھی انکے مضامین ضرور شایع ہوئے ہوں گے، لیکن وہ میری نظری سے نہیں گزرے اس کا بھی امکان ہے کہ عربی ادب اور اسلامیات پر ان کے مضامین بنگلہ زبان کے رسائل میں اشاعت پذیر ہوئے ہوں۔
ڈاکٹر معظم حسین اور الاستاذ عبدالعزیز المیمنی میں گہرے علمی روابط قائم تھے، قدیم عربی شاعری کا مطالعہ ان دونوں کا مشترک موضوع تھا۔ مرحوم کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ متن کی تصحیح اور قدیم مصنفین و شعرا کے حالات کے متعلق جب بھی انہیں مشکلات پیش آئیں تو انھوں نے بغیر کسی تکلف کے الاستاذ المیمنی کی طرف رجوع کیا، الاستاذ نے ایک تحریر مجھے لکھ کر دی تھی جس میں ان سے مستفید ہونے والوں میں نام تھے، یورپ، شرق اوسط اور ہندوستان کے بعض جلیل القدر علماء کے ساتھ ڈاکٹر معظم حسین مرحوم کا بھی نام ثبت تھا، ڈاکٹر معظم حسین بھی نئی اور اہم محظوطات کے بارے میں الاستاذ کو اطلاع دیتے رہے تھے منتھی الطلب لابن میمون کی دریافت ڈاکٹر معظم حسین کی کوششوں کا نتیجہ ہے، انھوں نے دریافت کرتے ہی الاستاذ کو اسکی اطلاع دی اور ان کی طلب پر شعر ا اور ہزار قصیدوں کی مکمل فہرست انہیں بھیج دی۔ یہ فہرست شعرا و قصائد اب میرے ذخیرۂ مخطوطات میں ہے۔
افسوس ہے کہ ایسے جلیل القدر عالم سے مجھے شرف ملاقات حاصل نہ ہوسکا۔ اگرچہ تعلقات قائم ہوئے اور ہمیشہ استوار رہے۔ ایک موقع ایسا آیا تھا کہ میں ڈھاکا جاکر وہیں کااور انہی کا ہوجاتا۔ لیکن قضاد قدر کے فیصلے کچھ اور تھے۔ ۱۹۴۹؁ء کے اوائل میں ڈاکٹر معظم حسین نے الاستاذ کو لکھا کہ یہاں برنداین کالج اور ڈھاکا یونیورسٹی میں عربی کے ایک لکچرر کی ضرورت ہے، اپنے شاگردوں میں کسی ممتاز اور مستعد شخص کا نام بھیج دیجئے کہ تقرر کے لیے مناسب کاروائی کی جائے، الاستاذ نے میرا نام تجویز کیا اور ڈھاکا میں اسے منظور بھی کرلیا گیا، لیکن اس زمانے میں تقسیم ہند کی وجہ سے حالات غیر مستقیم تھے، پھر میں الاستاذ کی نگرانی میں ان کے خاص موضوع پر ریسرچ کرنی چاہتا تھا، اس لیے ڈھاکا کی لکچررشپ پر علی گڑھ کی طالب علمی کو ترجیح دی۔ میں علی گڑھ ہی میں رہا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔
اگست ۱۹۹۱؁ء میں ڈھا کا یونیورسٹی نے مجھے یونیورسٹی کے ایک کام سے مدعو کیا تھا، وہاں عربی، اسلامیات، فارسی اور اردو کے سارے اصحاب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ڈاکٹر معظم حسین سے ملنے کی خواہش کا ذکر کیا، ان کے شاگرد اور رفیق شعبہ پروفیسر سراج الحق سابق صدر شعبۂ عربی و اسلامیات نے کہا ان سے اس وقت ملنا مناسب نہ ہوگا وہ سخت علیل ہیں، پھر کبھی آیئے تو ملاقات کراؤں گا، اب اطلاع ملی کہ وہ طویل علالت کے بعد ڈھاکا میں رحلت کرگئے۔ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ واسکنہ فسیح بناتہ جزاء مابذل من جھد جاھد فی خدمۃ لسان تنزیلہ العزیز۔ (نومبر ۱۹۹۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...