Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حکیم عبدالقوی دریابادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حکیم عبدالقوی دریابادی
ARI Id

1676046599977_54338312

Access

Open/Free Access

Pages

523

آہ! جناب حکیم عبدالقوی دریابادی مرحوم
جناب حکیم عبدالقوی دریا بادی کے انتقال کی خبر دارالمصنفین میں نہایت غم و اندوہ کے ساتھ سنی گئی۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ جنوری ۱۹۱۳؁ء میں پیدا ہوئے تھے، اب ۷۹ برس کی حیات مستعار کے بعد جب انھوں نے رخت سفر باندھا تو محسوس ہوا کہ علم، ادب، صحافت اور طبابت ہی نہیں شرافت، مروت، وضعداری، سادگی، فروتنی اور عجز و انکسار کا ایک پیکر مجسم رخصت ہوگیا۔
مرحوم دریاباد کے اس معزز قدوائی خاندان کے چشم و چراغ تھے، جس کو دینداری، علم و فضل اور طب و حکمت میں غیر معمولی امتیاز حاصل تھا، اس خانوادے کے جدا مجد خواجہ محمد آبکشؒ، مفتی مظہر کریم اسیرانڈمان و صاحبِ فتاویٰ مظہریہ و مترجم مراصد الاطلاع اور شفاء الملک محسن طب حکیم عبدالحسیب دریا بادی کے سلسلۃ الذہب کی سب سے روشن و تابدار کڑی مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کی ذات گرامی تھی جو اردو ادب کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے، حکیم صاحب مولانا مرحوم کے داماد اور ان کے بڑے بھائی عبدالمجید صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے، ڈپٹی صاحب نیک نام سرکاری عہدیدار ہونے کے علاوہ علم و ادب اور شعر و سخن کا بھی ستھرا اور اعلا ذوق رکھتے تھے۔
حکیم صاحب والد سے زیادہ اپنے نامور عم محترم کی تربیت اور سایۂ عاطفت میں رہے، دس برس کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کے بعد عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی، عربی ادب کی تعلیم انھوں نے مولانا خلیل عرب سے حاصل کی جو مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے بھی استاذ تھے، دونوں بزرگوں کے درمیان رشتہ اخوت و محبت کا آغاز اسی ہمدرسی کے زمانہ میں ہوا جو تمام عمر اس طرح استوار رہا کہ حکیم صاحب کی نماز جنازہ مولانا مدظلہ نے ہی پڑھائی، حکیم صاحب نے پنجاب اور لکھنؤ یونیورسٹی سے منشی فاضل، مولوی فاضل، عالم اور بی،اے کی سندیں بھی حاصل کیں، ابتداً شفاء الملک، حکیم عبدالحسیب، حکیم شمس الدین اور ڈاکٹر عبدالعلی حسنی وغیرہ سے طب و حکمت کا درس لیا پھر حکیم اجمل طبیہ کالج دہلی سے فاضل الطب و الجراحت کی سندلی۔
حکیم صاحب طب میں ذی کمال تھے ان کی صداقت و مسیحائی کا اعتراف مریضوں کے علاوہ نامور اہل فن کو بھی تھا، مدۃ العمر طب کے پیشہ سے وابستہ رہنے کے باوجود حکیم صاحب نے اس کو کبھی وسیلہ معاش نہیں بنایا، ان کا اصل شغل بلکہ پیشہ صحافت تھی، مسلم لیگ کے اخبار تنویر کے مدیر ہونے کے علاوہ حق، قائد، ندائے ملت اور سیاست جدید کے اداریے برابروہی لکھتے رہے، ملک و ملت کے علاوہ بین الاقوامی مسائل پر ان کے اداریے اور تعلیقات بہترین صحافت کا نمونہ ہوتے تھے، ان اخباروں کے متعدد کالم اور صفحات انہی کی تحریروں سے مزین رہتے تھے مگر اس میں بھی وہ پیشہ ور صحافیوں سے ممتاز تھے، نہ نام و نمود اور شہرت کے کبھی طالب ہوئے اور نہ اپنے حق المحنت کا کبھی مطالبہ کیا، واجبات پر انھوں نے کبھی توجہ نہیں کی، حرص و آز کے اس دور میں مالی حساب و کتاب سے ایسی بے نیازی کی مثال کہاں ملے گی، ان کی اصل تگ و دو کا مرکز ’’صدق‘‘ تھا جس کی طباعت و اشاعت اور اہتمام و انصرام سے لے کر صدق بک ایجنسی کے تمام مسائل و امور کو وہ تنہا انجام دیتے تھے، مراسلت، اخبار کی کتابت، پریس اور ڈاکخانہ کے دشوار گزار مراحل ہفتہ وار اخبار کی متعین وقت پر اشاعت اور ان سب کے ساتھ بلاناغہ ہر جمعہ کو دریا باد جا کر ہفتہ کی صبح کو لکھنؤ واپس آنے کا معمول حکیم صاحب جس خاموشی اور استقلال کے ساتھ نبھاتے رہے اس کا یقین ان کے جیسے بظاہر کمزور، نحیف اور خاموش وجود کو دیکھتے ہوئے کسی شخص کو مشکل ہی سے آئے گا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کے انتقال ۱۹۷۷؁ء کے بعد صدق کی ادارتی ذمہ داری بھی ان پر آگئی اور جب تک خود ان کی شامِ زندگی کے دھند لکے گہرے نہیں ہوگئے وہ خوش اسلوبی سے صدق کی روایت و وراثت کو زندہ کیے رہے، اپنے عم محترم مولانا دریا بادی کے مخصوص طرز ادب و انشا کو اپنانے میں گو وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تاہم انہی کی طرح اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے عشق و شیفتگی اور مغرب و مغربی تہذیب سے بیزاری اور نفرت ان کی بھی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی اور مولانائے مرحوم کی طرح مشرقی تہذیب و تمدن کی برتری کے اعتراف میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیتے، حق کی حمایت اور باطل کے ردو احتساب میں وہ مولانا کا مثنی تھے، مولانا کی زندگی ۱۹۷۵؁ء ہی میں حکیم صاحب کے قلم سے پہلی بار سچی باتیں نکلیں جو اﷲ اکبر کے دو لفظی فقرہ کی معنویت و تاثیر سے متعلق تھیں، اگر ان کا نام درج نہ ہوتا تو ان سچی باتوں اور مولانا مرحوم کی سچی باتوں کے طرز تحریر کا فرق د شوار ہوجاتا، ان کے چھوٹے چھوٹے شذرات و تعلیقات کے عنوان بھی خالص ماجدی رنگ کے ہوتے جنکی رعایت لفظی اور ضلع جگت اکثر بڑی پُرلطف ہوتی، مثلاً ڈاک کے ڈاکو، زنانہ ڈاکخانہ، زن راہزن، شراب نذر آب، ملاوٹ کی گراوٹ، ویٹ نام کی جنگ خون شام، شب قدر کی قدر وغیرہ، ایک بار خبر آئی کہ اب لکھنؤ کی سڑکوں پر تانگے نہیں چلیں گے، اس پر انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے سرخی دی ’’تانگے بھی چلے‘‘ کسی مسلمان کا انتقال اگر نماز پڑھتے یا حج کرتے یا کوئی اور عمل خیر انجام دیتے ہوئے ہوتا تو وہ ضرور اس کے حسنِ خاتمہ، خوش نصیبی اور عاقبت بخیر ہونے کا ذکر کرتے، سچی باتوں کے علاوہ کتابوں پر انکے تبصرے، ان کے وسیع، مطالعہ کے غماز ہوتے۔ صحافتی زندگی نے ان کو تصنیف و تالیف کے لیے مطلوب یکسوئی اور وقت نہیں دیا۔ تاہم اپنے والد کے حالات پر انھوں نے ایک چھوٹی سی کتاب ذکر مجید مرتب کی۔ ادارۂ فروغ اردو نے جس کے ترجمان رسالہ فروغ اردو کے بھی وہ مدیر رہے ان کی کچھ کتابیں شایع کیں لیکن ان کی حیثیت نصابی کتابوں کی شرح کی سی ہے جیسے شرح ترانہائے خیام، شرح مفتاح العربیہ، شرح سلک گہر وغیرہ، علامہ اقبال کے وہ شیدائی تھے، چنانچہ ایک کتاب فلسفہ اقبال لکھی، علی گڑھ کے رسالہ تہذیبب الاخلاق کے نومبر کے شمارہ میں ان کی ایک تحریر شایع ہوئی ہے جو شاید ان کی سب سے آخری تحریر ہو، یہ مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم کے متعلق ہے اور عنوان ہی ہے ’’جن سے میں نے اردو سیکھی‘‘ اس میں انھوں نے بڑی صراحت سے لکھا کہ فلسفہ اقبال کا بیشتر حصہ ’’اقبال کامل‘‘ سے مستعار ہے، ’’اقبال کامل‘‘ کو وہ اقبال کی شاعری پیام اور فلسفہ پر حرف آخر سمجھتے تھے۔ مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم اور علامہ شبلیؒ سے ان کو بڑی عقیدت تھی اور دارالمصنفین کے ہر ہر فرد سے محبت کرتے تھے اور اس سے شایع ہونے والی کتاب کو پسند کرتے تھے، اپنے عم محترم کے ساتھ وہ یہاں کئی بار آئے، ۱۹۸۲؁ء میں اسلام اور مستشرقین پر سمینار ہوا تو خرابی صحت کے باوجود اپنے بھائی جناب حبیب احمد قدوائی کے ساتھ تشریف لائے اور صدق کے دو نمبروں میں اپنا سفر نامہ لکھا، جس کی سطر سطر سے ان کی محبت و شفقت کی خوشبو آتی ہے، انتقال سے شاید کچھ ہی دن پہلے ان کا والا نامہ جناب ضیاء الدین صاحب کے نام آیا جس میں ’’سوئے حرم‘‘ کے متعلق لکھا کہ وہ اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں، ادھر عرصہ سے ان کی خواہش تھی کہ محمد علی ذاتی ڈائری کو دارالمصنفین پھر سے شایع کرے۔
کثرت مطالعہ اور کتب بینی سے ان کو خاص شغف تھا، چند ماہ قبل لکھنؤ ان کی خدمت میں آخری بار حاضر ہوا تو معارف کے ایک مضمون کے علاوہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی نئی کتاب سانحہ کربلا پر وہ دیر تک گفتگو فرماتے رہے، ادھر خدابخش لائبریری نے طلسم ہوش ربا کا جدید ایڈیشن کئی جلدوں میں شایع کیا ہے، انھوں نے ضعفِ بصارت کے باوجود اس کے مطالعہ کے لیے محترم الحاج منظور علی لکھنوی کو کلکتہ لکھا کہ یہ جلدیں ان کو بھیج دی جائیں، جس دن یہ کتابیں ان کی خدمت میں روانہ کی جانے والی تھیں اسی دن وہ خود اس طلسم آب و گل سے نکل چکے تھے۔
وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، انڈین بورڈ آف یونانی میڈیسن اور انجمن اصلاح المسلمین کی انتظامی مجالس کے رکن بھی تھے، یو پی اردو اکادمی کے بھی وہ ممبر رہے۔
نماز روزہ کے پابند تھے، حج بیت اﷲسے بھی مشرف ہوئے، سیاست جدید میں ان کا سفر نامہ حج مستقل شایع ہوتا رہا، ان کی اہلیہ محترمہ نے ایک عمدہ سفر نامۂ حج لکھا جو خواتین کے رسالہ حریم لکھنؤ میں شایع ہوا، قرآن مجید بہت اچھا یاد تھا، عرصہ تک وہ تراویح میں قرآن مجید سناتے رہے، حفظ کی برکت سے ان کا حافظہ بھی قوی تھا، برسوں پرانے واقعات اور سنین ان کو اچھی طرح یاد رہتے اور انہیں وثوق کے ساتھ بیان کرتے، وہ ایک معصوم اور فرشتہ صفت انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا عرفی اور گھریلو نام آفتاب تھا اور حق یہ ہے کہ وہ شرافت، مروت، خدمت اور استغناء کا مجسم آفتاب تھے، ایسے بے غرض، بے ریا، بے ضرر اور مکارم اخلاق سے آراستہ انسان کو دیکھنے کے لیے اب آنکھیں ترسیں گی۔ صبر و تحمل کا پیکر تھے، ان کو بعض شدید مالی اور ذہنی صدمے پہنچے مگر انہیں خاموشی سے برداشت کرلیا اور زبان پر حرف گلہ یا اپنوں اور غیروں کسی کے سامنے اس کا ذکر بھی نہ آنے دیا، خوراک و پوشاک میں ان کی سادگی اور بے پروائی ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوئی، سفر میں ان کی شیروانی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی، سفر انھوں نے کثرت سے کیے جس میں راہ کی صعوبتیں کبھی مانع نہ ہوئیں۔ چند کتابیں اور اخبارات ہی ان کا زاد سفر ہوتا، میزبانوں کے لیے ان سے زیادہ عافیت بخش مہمان ملنا مشکل ہے، چائے ان کے لیے آب حیات سے کم نہ تھی، ایک اور شوق کرکٹ کا تھا، نوجوانی میں کھیلنے کا اور بعد میں دیکھنے کا، ٹسٹ میچ دیکھنے کے لیے وہ ایک بار لاہور بھی گئے، اس برصغیر کے کرکٹ کے مشہور کھلاڑی جہانگیر خاں، صدق اور مدیر صدق کے بڑے قدرداں تھے، حکیم صاحب نے ایک بار بتایا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کا نام عم مرحوم کے نام پر ماجد خاں رکھا، یہی ماجد خاں بعد میں بڑی شہرت کے مالک ہوئے، اپنے ادارتی کالموں میں وہ کرکٹ کے اہم میچوں پر ضرور تبصرہ کرتے جس سے اس کھیل کی باریکیوں اور اس کے ہر ہر پہلو سے ان کی واقفیت کا اندازہ ہوتا۔
پس ماندگان میں ان کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ تین بھائی حبیب احمد قدوائی، ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی سابق ایم پی اور عبدالعلیم قدوائی ہیں، لاولد تھے لیکن بھتیجوں اور بھانجوں کو موجودگی نے اس محرومی کا احساس کبھی نہ ہونے دیا، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل کی توفیق دے اور اپنے اس فرشتہ خصلت بندہ کو جنت الفروس میں اپنی قربت کی نعمت سے نوازے۔ (عبد السلام قدوائی، دسمبر ۱۹۹۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...