Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مالک رام
ARI Id

1676046599977_54338317

Access

Open/Free Access

Pages

527

ذکر مالک رام
اردو کے مشہور عالم و فاضل، نامور محقق و مصنف اور غالب و ابوالکلام کے عارف و شیدائی جناب مالک رام کی وفات پر پوری اردو دنیا سوگوار اور اشکبار ہے، ان سے راقم کے جو گہرے اور مخلصانہ تعلقات تھے اس کی بنا پر اس کے لیے بھی ان کی جدائی بہت شاق ہے۔
وہ پھالیہ ضلع گجرات میں جواب مغربی پنجاب (پاکستان) کا حصہ ہے، ۲۲؍ دسمبر ۱۹۰۶؁ء کو بویجہ کھتریوں کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے ، ان کے والد لالہ نہال چند فوج کے محکمہ سپلائی میں ملازم تھے، لیکن مالک رام ابھی بارہ دن ہی کے تھے کہ والد کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے، والدہ نے پرورش و پرداخت کی، چار برس کی عمر سے تعلیمی سلسلہ شروع ہوا جو ایم۔ اے اور ایل ایل بی کرنے کے بعد ۱۹۳۳؁ء میں منقطع ہوا، اس سے قبل ۱۹۳۱؁ء میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔
مضمون نگاری اور رسالوں کے مطالعہ کا چسکہ بچپن سے تھا، ابتدا میں شعر و شاعری سے بھی کچھ دلچسپی رہی، ان کا پہلا باقاعدہ مضمون نیرنگ خیال لاہور میں چھپا، یہ ٹیگور کی گیتا نجلی کے بعض ٹکڑوں کا ترجمہ تھا، اس کے بعد ۱۹۲۶؁ء کے نگار میں ’’ذوق اور غالب‘‘ کے عنوان سے ان کا مضمون شایع ہوا جس میں آگے چل کر ماہر غالبیات ہونے والے نے غالبؔ پر ذوقؔ کو ترجیح دی تھی، لوہر میں قیام کی بنا پر نیرنگ خیال کے مدیر حکیم محمد یوسف حسین سے مالک رام کے تعلقات ہوگئے تھے، ۱۹۳۰؁ء میں ان کی خواہش پر ساٹھ روپے ماہوار پر نیرنگ خیال کی مجلس ادارت میں شامل ہوگئے، پھر لاہور ہی سے شائع ہونے والے ’’آریہ گزٹ‘‘ سے متعلق ہوئے، اس سے علیحدگی کے بعد ۱۹۳۶؁ء میں روزنامہ ’’بھارت ماتا‘‘ سے منسلک ہوئے، یہ بند ہوگیا تو دلی کا رخ کیا اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے محکمہ اطلاعات عامہ سے وابستہ ہوئے پھر جالندھر کی ایک فرم میں بھی ملازمت کی۔
پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خاں سے مالک رام کی اچھی یاد اﷲ تھی۔ ان کی کوشش سے یکم اپریل ۱۹۳۹؁ء کو حکومت ہند کے محکمہ تجارت میں ان کا تقرر ہوگیا، تین مہینے کی ٹرنینگ کے بعد یکم اگست ۱۹۳۹؁ء کو انڈین گورنمنٹ ٹریڈ کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ ہوکر اسکندریہ چلے گئے اور آزادی کے بعد جب انڈین فارن سروس کی تشکیل ہوئی تو اس میں لے لیے گئے اور مصر، عراق، ترکی اور بلجیم وغیرہ میں رہے، سرکاری طور پر ان کو شام فلسطین، سوڈان، افغانستان، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، ہالینڈ اور انگلینڈ جانے کا بھی اتفاق ہوا اور بعد میں روس اور ایران کا بھی سفر کیا، سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ساہتیہ اکاڈیمی میں مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیفات کی ترتیب و تدوین کی خدمت پر مامور ہوئے اور اردو سیکشن کے انچارج ہوئے، اکاڈیمی سے ضابطہ کا تعلق ختم ہوجانے پر دلی سے ایک تماہی رسالہ ’’تحریر‘‘ کے نام سے نکالا جو بڑا معیاری اور بلند پایہ تھا، لیکن جب اس نے بھی دم توڑ دیا تو جالندھر موٹر ایجنسی لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائرکٹر ہوگئے۔
اردو کے فروغ و ترقی کے لیے جو سرکاری وغیر سرکاری کمیٹیاں بنیں، ان میں ان کی شمولیت ضروری سمجھی جاتی تھی، انجمن ترقی اردو ہند اور غالب اکیڈمی کے وہ برابر ممبر رہے اور انجمن کے کئی برس تک صدر بھی رہے، گجرال کمیٹی اور اردو یونیورسٹی کمیٹی کے بھی وہ رکن تھے اور جامعہ اردو علی گڑھ کے ممبر کے علاوہ پروچانسلر بھی تھے، اردو کی مدۃ العمر خدمت کرنے کی وجہ سے اس کے تعلق سے ان کو بڑے سے بڑا اعزاز ملا اور ان کی کتابوں پر مختلف اداروں نے انعام دینے میں فخر محسوس کیا، دراصل ان کی ذات اعزاز و انعام سے بالاتر تھی۔
مالک رام صاحب مطالعہ کے بڑے حریص اور شوقین تھے، کتب بینی کی عادت بچپن ہی سے تھی، جس میں سرکاری ملازمت کی مشغولیت بھی مانع نہیں ہوئی، مطالعہ میں کثرت اور انہماک کی وجہ سے بصارت کمزور ہوگئی تھی اس لیے میگنیفائنگ گلاس استعمال کرتے تھے، میری آمدورفت ان کے یہاں اس وقت شروع ہوئی جب وہ بوڑھے ہوگئے تھے مگر جب بھی انکے کمرے میں داخل ہوا تو پڑھتے لکھتے ہی پایا، کرسیوں اور میزوں پر کتابوں کا انبار لگا رہتا تھا۔
پنجابی مادری زبان تھی اور اردو سے ان کو عشق تھا، فارسی، عربی، انگریزی اور فرانسیسی پر بھی عبور حاصل تھا، غالباً ہندی اور بنگالی سے بھی واقفیت تھی اس لیے ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور چونکہ حافظہ بھی اچھا تھا اس لیے جو کچھ پڑھتے تھے اسے مستحضر رکھتے تھے، طبیعت میں سلامت روی، اعتدال اور بے تعصبی تھی اور اصل مقصود علم کی طلب و جستجو تھا اس لیے کسی زبان و مذہب سے متعلق کتاب بھی ہوتی، وہ اس کا مطالعہ کرکے اپنی علمی تشنگی بجھاتے، کالج کی طالب علمی کے زمانہ میں انہیں قرآن مجید کے مطالعہ کا شوق ہوا تو عربی سیکھی اور ایک صاحب سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا، معلم کی مشغولیت کی وجہ سے اس کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا تو شوقین متعلم نے خود ترجمہ قرآن کی مدد سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ عرب ملکوں میں رہنے کی وجہ سے عربی میں ان کی استعداد بہت اچھی تھی اور وہ عربی بولنے پر بھی قادر ہوگئے تھے، قرآن مجید میں غور و فکر کا سلسلہ آخر عمر تک قائم رہا۔
تاریخ و ادبیات پر ان کی گہری نظر تھی اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔ غالب و ابوالکلام پر وہ اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں انہیں کئی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں جاتے وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کرتے اور عجائب گھروں کی سیر کرتے۔ مالک رام کی علمی و ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا اور تصنیف و تالیف سے ان کا اشتغال ہمیشہ قائم رہا اس لیے ان کی قلمی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے لیکن تحقیق کا میدان ان کی اصل جولان گاہ رہا ہے اور اس میں ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں، اگست ۶۷ء میں ماہنامہ آجکل دہلی کا ’’اردو تحقیق‘‘ نمبر شائع ہوا، جس میں اردو تحقیق کے چارستونوں کے ساتھ ان کی بھی تصویر چھپی تھی اور اسی نمبر میں جناب علی جواد زیدی نے ان چاروں ستونوں کو یہ خراج عقیدت پیش کیا تھا:
’’جہاں تک تحقیق کے میدان میں رہنمائی کا تعلق ہے، ہمارے سامنے ہندوستان میں چار محققین کے نام بیک وقت آتے ہیں، قاضی عبدالودود، مالک رام، امتیاز علی عرشی، سید مسعود حسین رضوی ادیب‘‘۔
اور اردو ادب کے میر کارواں پروفیسر آل احمد سرور نے خطوط غالب کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’اردو کے محققوں میں مالک رام صاحب کئی حیثیتوں سے امتیاز رکھتے ہیں، وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں، اس کے ہر پہلو کا غائر مطالعہ کرتے ہیں، تمام ضروری مواد مہیا کرتے ہیں اور نہایت سلجھے ہوئے اور شگفتہ انداز میں یہ مواد پیش کردیتے ہیں، ان کے یہاں جذباتیت سرے سے نہیں بلکہ ہمدردی کے باوجود ایک معروضی نظر کی کوشش ہے‘‘۔
اردو تحقیق کے تین ستون تو کب کے گر چکے تھے اور اب یہ چوتھا ستون بھی زمیں بوس ہوگیا ع افسوس کہ ازقبیلہ مجنوں کسے نہ ماند۔
مالک رام صاحب کے علمی، تصنیفی اور تحقیقی کاموں میں بڑی وسعت، تنوع اور رنگارنگی ہے، ان کی ہر تصنیف علمی، ادبی اور تحقیقی حیثیت سے معیاری اور بلند پایہ ہے، غالب ان کی تلاش و تحقیق کا خاص موضوع تھا اور اسی کو ان کے سب کاموں میں اولیت و فضیلت حاصل ہے، غالب پر ۵۰ سے زیادہ مضامین انھوں نے لکھے ہوں گے، جن کے دو مجموعے عیار غالب اور فسانہ غالب چھپ گئے ہیں، ۱۹۳۷؁ء میں پہلی مرتبہ غالب کی کتاب ’’سبدچین‘‘ ایڈٹ کرکے شائع کی، جس میں مرزا کا وہ کلام دیا ہے جو ان کی زندگی میں چھپنے والے کلیات میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا، اسی کتاب کے مقدمہ کے لیے انھوں نے غالب کے حالات لکھنا شروع کیا جو اس قدر پھیل گیاکہ ۱۹۳۸؁ء میں ’’ذکر غالب‘‘ کے نام سے اسے علیحدہ کتابی صورت میں شائع کیا۔ اس کتاب کو بڑی مقبولیت نصیب ہوئی اور اس کے ۵ اڈیشن نکلے، ہر اڈیشن نئی تحقیقات پر مشتمل ہوتا تھا، غالب پر جو دوچار اچھی اور مستند کتابیں لکھی گئی ہیں انہی میں اس کا بھی شمار ہوتا ہے بلکہ حسن تالیف و ترتیب میں یہ زیادہ بڑھی ہوئی ہے، اس کا ہندی ترجمہ بھی ہوا، متعلقاتِ غالب میں ان کی تصنیف تلامذہ غالب ایک معیاری اور مستند کتاب ہے، اس کے پہلے اڈیشن میں ۱۴۶ اور دوسرے میں لگ بھگ پونے دوسو تلامذہ غالب کے حالات و انتخاب کلام درج ہے، متون کے سلسلہ میں دیوان غالب، خطوط غالب، دستنبو اور گل رعنا کو شائع کیا، موخر الذکر میں غالب کے اردو فارسی کلام کا انتخاب ہے جو انھوں نے خود کلکتہ کے مولوی سراج الدین احمد کی فرمائش پر کیا تھا، اس کو ڈھونڈنکالنا اور عالمانہ مقدمہ و حواشی کے ساتھ شائع کرنا مالک رام صاحب کا عظیم الشان کارنامہ ہے، لیکن اول الذکر دونوں کتابوں کے سلسلے میں اہل نظر کو ان سے بعض بجا شکایتیں رہیں۔ تاہم غالب پر ان کے سارے کام مجموعی حیثیت سے بہت اہم اور بڑی قدر و قیمت کے حامل ہیں جس کا اندازہ پروفیسر گوپی نارنگ کے اس تجزیہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے:
’’غالبیات کے سلسلے کا ایک وقیع نام ہے مالک رام کا، پچھلی نصف صدی سے جن کا ایک ایک لمحہ غالب کے لیے وقف رہا ہے اور جن کے لیے غالب اور اردو ایک ہی حقیقت کے دو رخ بن گئے ہیں، مالک رام تقریباً پچاس کتابوں کے مصنف و مولف و مرتب ہیں، ان کی تحقیقات کا دائرہ خاصا وسیع ہے، ان کی خدمات کا اعتراف صرف یہ کہہ دینے سے نہیں ہوجاتا کہ انھوں نے ’’ذکر غالب‘‘ یا ’’تلامذۂ غالب‘‘ یا ’’فسانہ غالب‘‘ لکھیں یا غالب کی بعض تصانیف کو مرتب کیا یا غالب کے معاصرین، ممدوحین درفقا پر مضامین قلم بند کئے بلکہ یہ کہ غالبیات کی موجودہ مہتم بالشان روایت میں ان کا کام اس بنیادی نوعیت کا ہے کہ اگر اسے الگ کردیا جائے تو ہیں اس میں بہت کمی محسوس ہوگی، مالک رام کا کام اس پائے کا ہے کہ اسے زندگی بھر کی لگن اور انہماک کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، اس بات کی پوری معنویت غالبیات کی، اعلا علمی روایت کو نظر میں رکھے بغیر واضح نہیں ہوسکتی‘‘۔
انھوں نے کلیات غالب فارسی کی ترتیب کا کام بھی کرلیاتھا مگر اس کی اشاعت نہ ہوسکی۔
غالب کی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کے علوم و معارف کی تحقیق و تدوین نے بھی مالک رام صاحب کی عظمت میں چار چاند لگا دیا ہے، ساہتیہ اکاڈیمی نے ترجمان القرآن کی جو چار جلدیں شائع کی ہیں، ان کی ترتیب و تدوین کے کام میں دوسروں کے ساتھ ان کی شرکت بھی رہی ہے لیکن غبار خاطر، تذکرہ اور خطبات آزاد کے متون کی تصحیح و تحقیق کا کام انھوں نے تن تنہا انجام دیا ہے، علامہ سیوطی نے جمع الجوامع کے نام سے احادیث کا جو مجموعہ مرتب کیا تھا شیخ علی متقی کی کنزالعمال اسی کی ترتیب و تنقیح ہے، لیکن اہل علم کا خیال ہے کہ ’’سیوطی نے اپنی کتاب لکھ کر دنیا والوں پر احسان کیا اور شیخ علی متقی نے کنزالعمال لکھ کر خود سیوطی پر احسان کیا‘‘ یہی بات اگر اس موقع پر بھی کہی جائے تو بیجا نہ ہوگا چنانچہ مولانائے مرحوم کے ایک بڑے قدرداں جناب ابوسلمان شاہجہاں پوری رقمطراز ہیں:
’’غبار خاطر مولانا کی بہترین علمی و فنی تحریروں کا مجموعہ ہے لیکن اس کے افادہ و فیضان کا دائرہ مکمل نہ تھا، اس دائرے کی تکمیل جناب مالک رام صاحب کے حواشی سے ہوتی ہے، نادر الوجود اشعار کی طرح جو مولانا نے اس میں استعمال کیے ہیں، سیکڑوں اشخاص و کتب تھیں جن کے وجود و کمال پر کوئی روشنی نہ پڑتی تھی، اور بے شمار منقولات تھے جن کی صحت کا یقین تھا لیکن عین الیقین نہ تھا، فاضل مرتب کی تحقیق نے ہمیں ان کے وجود کمال سے آشنا کیا ہے اور منقولات کی صحت کو عین الیقین کے مقام پر پہنچا دیا ہے‘‘۔
تحقیق و تحشیہ کے کام میں بعض نقائص اور غبار خاطر سے اجمل خاں صاحب کے ضروری مقدمہ کو خدف کردینے کے باوجود حق یہ ہے کہ یہ کام مالک رام صاحب سے بہتر شاید کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے متعلقات پر مالک رام نے متعدد وقیع مقالے بھی لکھے ہیں جن کا ایک مجموعہ ’’کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں‘‘ ۱۹۸۹؁ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی نے شایع کیا ہے، یہ گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔
متون کی تہذیب، تدوین اور تحقیق کے سلسلے میں انھوں نے اور بھی گوناگوں کام انجام دیے ہیں جن میں کربل کتھا بڑا اہم ہے، اس کو پروفیسر مختار الدین احمد کے اشتراک سے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔
مالک رام صاحب کی دلچسپی اور تحقیق کا ایک میدان مذہب اسلام بھی ہے، مولانا ابوالکلام آزاد کے علوم و معارف کی تدوین و تحقیق کا کام اس اعلیٰ اور بلند معیار پر وہ اسی لیے انجام دے سکے ہیں کہ انہیں اسلامیات پر عبور تھا، وہ عربی زبان سے بخوبی واقف تھے اور انھوں نے قرآن مجید اور احادیث نبوی کا مطالعہ براہ راست کیا تھا اس لیے اسلام کے بارے میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ذاتی مطالعہ و تحقیق اور معروضی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے، انہیں دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں مذہب اسلام سے زیادہ دلچسپی تھی، خصوصاً عورتوں کے بارے میں وہ اسلامی تعلیم و ہدایت سے زیادہ متاثر تھے، ان کی کتاب ’’عورت اور اسلامی تعلیم‘‘ اسی تاثر کا نتیجہ ہے جو ان کی برسوں کی محنت، مطالعہ اور تحقیق کا نچوڑ ہے، ’’اسلامیات‘‘ بھی ان کی محققانہ کتاب ہے جو اسلام کے بارے میں چھ اہم مفید مضامین کا مجموعہ ہے، بعض خامیوں سے قطع نظریہ دونوں کتابیں مصنف کی غیر جانبداری، بے تعصبی اور مذہب اسلام سے ہمدردی کا ثبوت ہیں، ان میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں ان پر مسلمان فضلا کی نظر بھی شاید ہی گئی ہو ؂
سّرِخدا کہ عارف و سالک بکس نہ گفت
در میر تم کہ بادہ فروش از کجا شنید
انہی خوبیوں کی بنا پر مولانا عبدالماجد دریا بادی مرحوم تحریر فرماتے ہیں:
’’صراحت کے ساتھ اگر اپنا نام ہر بار نہ لکھتے رہیں تو کوئی شخص بھی ان مالک رام اور عبدالمالک کی تحریروں میں فرق و امتیاز کرہی نہیں سکتا‘‘۔
خاکہ نگاری میں بھی ان کو کمال حاصل تھا، وہ لوگوں کا سراپا بیان کرنے اور اشخاص کی تصوری کشی میں بڑی مہارت رکھتے تھے، ان کی کتاب ’’وہ صورتیں الٰہی‘‘ خاکہ نگاری اور مرقع آرائی کا اچھا نمونہ ہے۔ تذکرہ نگاری سے بھی ان کو خاص مناسبت تھی، ذکر غالب اور تلامذہ غالب اسی ضمن میں آتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں ان کا زیادہ اہم کارنامہ تذکرہ معاصرین ہے جس کی چار جلدیں شایع ہوچکی ہیں اور ایک جلد کے بقدر مواد چھپنے سے رہ گیا ہے، ’’تذکرہ ماہ و سال‘‘ کی اہمیت بھی مسلم ہے، ان کی کتابوں میں بعض غلطیاں بھی راہ پاگئی ہیں لیکن علی جواد زیدی کے بقول:
’’ان تمام تذکروں اور خاکوں کا جمع ہونا معمولی بات نہیں، اس جاں سوز کام کے لیے مالک رام ستائش کے مستحق ہیں، تذکرہ معاصرین کا سلسلہ دور حاضر کے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں بے حد مواد مہیا کرتا ہے، اس سلسلے میں تذکرہ نویسی ایک نئے اور ترقی یافتہ روپ میں ظاہر ہوتی ہے جس لگن اور خلوص سے مالک رام نے اپنے زمانے کے ادیبوں، شاعروں اور بعض صحافیوں کے حالات یکجا کردیے ہیں، اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اس طرح کے معلومات کی فراہمی سے سابقہ پڑا ہے‘‘۔
اردو میں یاد گار صحیفوں کی اشاعت کی روایت مالک رام صاحب ہی نے قائم کی ہے، اس کی بدولت نذر عرشی، نذر ذاکر، نذر عابد، نذر زیدی اور نذر حمید جیسی باوقار کتابیں شایع ہوئیں، یہ صحیفے اس عہد کے بڑے ممتاز اصحاب علم کی نگارشات سے مزین ہیں، اتنے سارے مضامین کو مالک رام صاحب ہی حاصل بھی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ جن موقر اصحاب کمال کو یہ مضامین نذر کیے گئے ہیں ان کے حالات و کمالات کا پورا مرقع بھی پیش کیا ہے، اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی انھوں نے ’’نذر‘‘ کے مجموعے شایع کیے ہیں اور غالب اور حالی پر انگریزی میں کتابچے لکھے ہیں۔
جس طرح مالک صاحب نے دوسروں کی خدمات علم و ادب کے اعتراف میں یہ یادگار صحیفے شایع کیے، اسی طرح خود ان کے کمالات کے اعتراف کے لیے ارمغان مالک کی دو جلدیں شایع ہوئیں، جن کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے منتخب اہل علم کے ایک بورڈ کے تعاون سے مرتب کرکے ۱۹۷۱؁ء میں شایع کیا تھا، انگریزی میں یاد گار صحیفے کو علی جواد زیدی صاحب نے ایڈٹ کیا تھا، وہی ’’مالک رام ایک مطالعہ‘‘ کے بھی مرتب ہیں جو ۱۹۸۶؁ء میں شایع ہوئی ہے، اس میں ان کے مبسوط مقدمہ کے علاوہ غالبیاتؔ، اسلامیات، تذکرہ نگاری، تحقیق، مرقع نگاری، نثر نگاری اور تدوین ابوالکلام کے زیر عنوان دو درجن سے زیادہ مضامین شامل ہیں۔مالک رام صاحب کسی ادارہ اور اکیڈمی سے وابستہ نہیں تھے حیرت ہوتی ہے کہ سرکاری ملازمت کے علم و ادب کش ماحول میں رہ کر انھوں نے تن تنہا یہ سارے علمی، ادبی اور تحقیقی کام کس طرح انجام دیے؟
کون ہوتا ہے حریف مے مردافگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
مالک رام صاحب اردو کے بہت اچھے نثر نگار تھے، اب ایسی سلیس، صحیح اور خوبصورت نثر لکھنے والے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔ انہیں قدرت نے تصنیف و تالیف کا خاص سلیقہ اور بڑا عمدہ ذوق عطا کیا تھا اس لیے ان کی تحریریں خوبی و دلکشی اور رعنائی و بانکپن سے معمور ہوتی ہیں، سادگی اور اصلیت کے باوجود ان کی نثر میں شگفتگی، سلاست، روانی، برجستگی اور پُرکاری ہوتی ہے جو حشو و زوائد، طوالت تکرار، ایچ پیچ اور ژولیدہ بیانی سے پاک ہوتی ہے، الفاظ اور جملے نپے تلے اور موقع و محل کے اعتبار سے ہوتے ہیں، کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہنے کا ہنر وہ خوب جانتے تھے، مختصر ہونے کے باوجود ان کی تحریریں جامع پُرمغز، بلیغ اور جاندار ہوتی ہیں، ان کے موضوعات خشک علمی و تحقیقی ہوتے تھے اس کے باوجود وہ تحریر کی دلآویزی اور اثر انگیزی کو قائم رکھتے اور شگفتگی، بے ساختگی اور برجستگی میں کمی نہ آنے دیتے، ان کی عالمانہ، باوقار اور سنجیدہ تحریریں لطافت و حلاوت سے معمور ہوتی تھیں، کبھی کبھی طنز و مزاح کی لطیف آمیزش سے بھی ان کی نثر میں بڑی کیفیت و جاذبیت پیدا ہوگئی ہے، مواد و معلومات کو سمیٹ کر اچھے ڈھنگ اور خاص سلیقے سے پیش کرنے میں مالک رام صاحب کو بڑی مہارت ہے، ان کی ساری کتابیں مواد و معلومات سے پُر اور مناسب و موزوں ترتیب و تبویب کا اچھا نمونہ ہیں۔
اپنے دور کے اکثر اکابر اور نامور فضلا و مشاہیر سے ان کے اچھے روابط تھے، دارالمصنفین سے ان کے روابط بہت قدیم تھے، جس زمانے میں انھوں نے علمی میدان میں قدم رکھا اس زمانے میں دارالمصنفین اور مولانا سید سلیمان ندوی کے آوازۂ شہرت سے پورا ملک گونج رہا تھا، اس لیے مالک رام صاحب کی نگاہ بھی ان کی جانب اٹھی، غالب کے خطوط میں جب ’’سبدچیں‘‘ کا ذکر پڑھا تو ان کو اس کی تلاش ہوئی اور مولانا سید سلیمان ندوی کو خط لکھ کر اس کے متعلق دریافت کیا، انھوں نے بتایا کہ کتب خانہ حبیب گنج میں اس کا نسخہ موجود ہے۔ اس کے لیے نواب صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی سے رجوع کیا جائے، معارف میں مالک رام صاحب کے مضامین بھی چھپتے تھے اس کے سلیمان نمبر میں بھی ان کا مضمون شامل ہے، اور ان کی جب بھی کوئی کتاب شایع ہوتی تو اسے دارالمصنفین کو ضرور بھیجتے، یہ معمول آخر تک قائم رہا، اپنی کتاب ’’عورت اور اسلامی تعلیم‘‘ کو پریس کے حوالے کرنے سے پہلے مولانا سید سلیمان ندوی کے پاس بھیج کر مشورہ و اصلاح کے طالب ہوئے، ان کے خلاف جب مولانا امداد صابری نے مقدمہ دائر کیا تو مالک رام صاحب نے نواب سائل دہلوی مرحوم کے ذریعہ سے صلح و صفائی کی پیش کش کی جس میں ان کو کامیابی ہوئی۔
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی اور جناب صباح الدین عبدالرحمن صاحبان سے ہمیشہ ان کے خوشگوار تعلقات اور برابر خط و کتابت رہی، انھوں نے نذر کے نام سے جو صحیفے شایع کیے اور خود ان کو جو صحیفہ نذر کیا گیا ان سب کی مجلسِ ارکان میں شاہ صاحب کا نام اور حصہ مقالات میں صباح احمدین صاحب کے مضامین شامل ہیں، مجھے یاد نہیں کہ پہلی مرتبہ کب میرے کان میں مالک رام صاحب کا نام پڑا لیکن فروری ۱۹۶۵؁ء میں دارالمصنفین کی گولڈن جبلی بہت دھوم سے منائی گئی جس میں اربابِ دُول کے ساتھ ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے ہوئے مشاہیر علماء و فضلاء بھی شریک ہوئے، اسی موقع پر مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے ساتھ جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی پاکیزہ صورت اور پُرکشش شخصیت نے اپنی جانب متوجہ کرلیا، مجھ پر ان کی قابلیت اور وسعتِ علم و نظر کا سکہ اس سے پہلے ہی سے بیٹھا ہوا تھا، مئی ۱۹۶۱؁ء کے معارف میں مقریزی اور ان کی خطط پر میرا ایک مضمون شائع ہوا، اس میں میں نے مقریزی کی کسی تصنیف کو غیر مطبوعہ بتایا تھا، یہ مضمون مالک رام صاحب کی نظر سے گزرا تو انھوں نے اس وقت کے اڈیٹر معارف مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کو لکھا کہ مقریزی کی یہ کتاب طبع ہوچکی ہے، شاہ صاحب نے جب ان کے گرامی نامہ کا مجھ سے تذکرہ کیا تو مجھے پسینہ آگیا مگر شاہ صاحب نے میری دلجوئی کے لیے فرمایا کہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اتنے بڑے آدمی نے تمہارا مضمون پڑھا۔
ساہتیہ اکاڈیمی سے مالک رام صاحب نے جب غبار خاطر کا محقق و محشیٰ ایڈیشن شایع کیا تو راقم نے معارف میں اس کا تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ ’’حواشی میں فاضل مرتب سے بعض اغلاط سرزد ہوگئے ہیں‘‘ اسے پڑھ کر انھوں نے پھر شاہ صاحب کو تحریر فرمایا کہ ’’اغلاط سے مبّرا ذات تو صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے، اگر ان کی نشاندہی کردی جائے تو آئندہ اڈیشن میں تصحیح کردی جائے گی، شاہ صاحب نے ان کا گرامی نامہ میرے حوالے کرتے ہوئے فرمایا‘‘ مالک رام صاحب بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں اس لیے اغلاط کی دو چار مثالیں ضرور دینی چاہیے تھی، میں نے عرض کیا کئی غلطیاں ہیں، معارف کے مختصر تبصرے میں ان کی صراحت کی گنجائش کہاں ہوتی ہے، شاہ صاحب نے فرمایا اب تم خود ان کو خط لکھو جس میں غلطیوں کی نشاندہی کردو، محترمی سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب بھی موجود تھے، انھوں نے فرمایا کہ میں بھی کچھ اغلاط کی نشاندہی کرتا ہوں، انہیں بھی اپنے خط میں شامل کرلینا اس طرح ان کے تعاون سے تقریباً ۵۰ غلطیاں قلم بند کرکے ان کی خدمت میں بھیجی گئیں جن کو ملاحظہ فرمانے کے بعد انہوں نے مجھے شکریے کا خط لکھا اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ اکثر سے مجھے اتفاق نہیں ہے لیکن جن سے اتفاق ہے آئندہ اڈیشن میں ان کے مطابق صحت کردی جائے گی۔
اس خط سے میرے دل میں ان کی بڑائی جاگزیں ہوگئی اورا س کے بعد ان سے برابر خط و کتابت کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ کبھی کبھی سنین وغیرہ کی تحقیق اور بعض دوسرے امور دریافت کرنے کے لیے وہ مجھ ہیچ مداں کی جانب رجوع بھی فرمانے لگے۔ ۱۹۸۲؁ء میں ہمدرد نگر نئی دہلی میں بین الاقوامی قرآن کانگریس کا انعقاد ہوا جس میں سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے ساتھ میں بھی شرکت کے لیے گیا تھا، کانگریس کے اجلاس پانچ چھ روز تک ہوتے رہے، مالک رام صاحب تقریباً روزآنہ شرکت کے لیے اپنے دولت کدہ سے جو ڈیفنس کالونی میں تھا، تشریف لایا کرتے تھے اور ان سے متعدد علمی امور و مسائل پر گفتگو رہتی ان صحبتوں سے ان کے عجز و انکسار، شرافت، شائستگی، بے تعصبی، رواداری، فراخدلی، عالمانہ شان اور تحقیقی مزاج کا اچھی طرح اندازہ ہوا۔
(مئی ۱۹۹۳ء)
(۲)
۱۹۸۶؁ء میں جناب علی جواد زیدی نے ان کی متنوع علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک یادگار صحیفہ شایع کیا، اس کے لیے غالباً انہی کے ایما سے عورت اور اسلامی تعلیم پر مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی حالانکہ ان کو علم تھا کہ اس کے بعض مندرجات سے مجھے اتفاق نہیں ہے، میں اس فرمائش کو مسترد نہیں کرسکا اور اپنے حقیر معروضات بے تکلف پیش کردیئے مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ مضمون کے معترضانہ حصے انھوں نے اور زیدی صاحب نے جوں کا توں شایع کردیا، بعد میں ان سے اس پر گفتگو ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ ہر تبصرہ نگار کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے بے کم و کاست ظاہر کرے۔ اس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں تصرف کا کسی کو حق نہیں۔
مالک رام سے میرے تعلقات بڑھے تو انہوں نے اصرار کیا کہ دلی آؤں تو ان سے مل لیا کروں یا انہیں اپنی قیام گاہ کا پتہ بتادوں تو وہ خود مل لیا کریں گے، دلی میں میرا قیام عموماً اپنے ایک عزیز کے یہاں ہوتا تھا وہاں انہیں کیا زحمت دیتا، میں نے خود ان سے ملاقات کو اپنا معمول بنالیا، اگر کبھی جلدی میں اس کا موقع نہیں ملتا اور انہیں میرے دلّی جانے کا پتہ چل جاتا تو اشارتاً اس کا ذکر کردیتے، ایک دفعہ میں اپنے بزرگ کرم فرما مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی مرحوم سے ملنے ان کی جماعت کے دفتر گیا تو وہیں سے مالک رام صاحب کو فون کیا کہ آپ جس وقت گھر پر موجود رہیں اس وقت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوجاؤں، انھوں نے دریافت کیا تم کہاں سے فون کررہے ہو، جب میں نے بتایا تو انھوں نے یہ مصرع پڑھا
؂ تری آواز مکے اور مدینے
پھر مولانا کی خدمت میں سلام پیش کرنے اور اپنے لیے دعا کی درخواست کرنے کو کہا۔ ایک دفعہ نواب مولوی عبیدالرحمن خاں شروانی مرحوم ہمدرد نگر میں جناب اوصاف علی صاحب کے یہاں سے انہیں فون کررہے تھے، میں نے نواب صاحب سے عرض کیا کہ میرا سلام پیش کردیں تو مالک رام صاحب نے فرمایاکہ صرف سلام سے کام نہیں چلے گا، ممکن ہو تو ملاقات بھی کریں۔
اس سال انجمن ترقی اردو ہند نے جنوری میں ان کا یوم ولادت منانے کا پروگرام بنایا تھا، ڈاکٹر خلیق انجم نے مجھے اس میں شریک ہونے اور ان پر کوئی مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی، میرے لیے یہ بڑے فخر و سعادت کی بات تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کا پہلے خط آیا کہ اب پروگرام فروری میں ہوگا پھر ملک کے حالات کی وجہ سے اس وقت بھی اسے ملتوی کرنا پڑا، ’’محقق و ماہر غالبیات مالک رام‘‘ کے عنوان سے میں مقالہ تیار کرچکا تھا، خیال تھا کہ اسے مالک رام صاحب کے پاس ملاخطہ کے لیے بھیج دوں مگر چند مہینے حیص بیص میں گزر گئے اور مالک رام صاحب اپنے مالک و داتا کے پاس پہنچ گئے، دنیا کی زندگی بھی کتنی ناپائدار ہے۔
ایک مرتبہ جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب دہلی کے کسی سمینار میں شریک ہوکر دارالمصنفین واپس آئے تو شاہ معین الدین صاحب سے اس کی روداد بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مالک رام صاحب نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ میں نے اپنے مضمون میں آپ کے جدا مجد کی خبر لی ہے، اس پر صباح الدین صاحب مرحوم کو بڑی ناگواری تھی اور اس کی وجہ سے مجھ پر بھی بہت دنوں تک یہ اثر رہا کہ مولانا شبلی کے بعض معاندین کی طرح انہیں بھی ان سے عناد ہے لیکن جب ان سے تعلقات ہوئے تو محسوس ہوا کہ بعض امور میں اختلاف کے باوجود وہ مولانا کے پورے عظمت شناس ہیں، دراصل مالک رام صحیح معنوں میں عالم تھے اس لیے وہ دوسروں سے علمی اختلاف بھی رکھتے تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ ان کے قدرداں اور عظمت شناس نہیں تھے، درست نہیں ہے۔
تنقید اور نکتہ چینی کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، اچھے اچھے لوگ ایسے موقع پر چراغ پا ہوجاتے ہیں لیکن مالک رام صاحب کو میں نے اس معاملہ میں بڑا عالی ظرف پایا، ان سے اگر اختلاف کیا جاتا تھا تو اپنی عالمانہ شان اور تحقیقی مزاج کی بنا پر وہ کبھی اس کا برا نہیں مانتے تھے، بڑے مصنفین کی طرح ان کی شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس پر اعتراضات نہ کیے گئے ہوں، قاضی عبدالودود وغیرہ سے لے کر ہر درجہ کے لوگوں نے ان سے جاوبیجا اختلاف کیا ہے مگر وہ اس پرچیں برجبیں نہیں ہوئے، اعتراض درست ہوتا تو معترض کے شکر گذار ہوتے اور فوراً اسے قبول کرلیتے لیکن غلط اعتراض کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کرتے، اپنی کتاب ’’تلا مذہ غالب‘‘ پر ہونے والی تنقیدوں کا ذکر کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں:
’’ان ۲۵ برسوں میں تلامذۂ غالب سے متعلق بہت کچھ لکھا گیاہے، اس کتاب سے متعلق بھی اور بعض شاگردوں سے متعلق انفرادی طور پر بھی ان میں سب سے مفید اور مفصل مضمون ڈاکڑ حنیف نقوی (بنارس ہندو یونیورسٹی) کا تھا، میں نے کم و بیش سب مضامین سے استفادہ کیا ہے اور میں ان اصحاب کا احسان مند ہوں، اگرچہ افسوس ہے کہ ان کے سب مشورے قبول نہ کرسکا‘‘۔
علامہ شبلیؒ کی طرح بعض لوگوں نے ان کی بھی خوبیوں کو نظر انداز کرکے صرف لغزشوں اور فروگزاشتوں ہی کی طرف اپنی توجہ مبذول کی، بہاں تک کہ ان کے خلاف ایک کتاب بھی شائع کی گئی مگر مالک رام صاحب کو نہ اس سے کوئی پریشانی ہوئی اور نہ انھوں نے ایسے لوگو ں کی شکایت سے اپنی زبان آلودہ کی، علی جواد زیدی صاحب نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"علامہ شبلیؒ کی طرح مالک رام کے لیے بھی یہ شرف مخصوص ہوا کہ ان کے مثبت اکتسابات کے مقابلے میں ان کی لغزشوں اور فرد گذاشتوں کی طرف زیادہ توجہ کی گئی اور ایک خاصی کتاب وجود میں آگئی، مجھے یقین ہے کہ انہیں اس احساس سے تسکین ہوئی ہوگی کہ ایسے شرف اچھے ادیبوں اور محققوں کی قسمت ہی میں لکھ دیے گئے ہیں، آزاد اور شبلیؒ کے پرستاروں سے زیادہ اسے کون محسوس کرسکتا ہے کہ اعتراضات کی مسلسل بوچھاڑ کا مخاطب بننے کے لیے بھی بلند پائیگی کی راہوں سے گزرنا پڑتا ہے‘‘۔
مالک رام صاحب حسن صورت و حسن سیرت کے جامع تھے، وہ وجیہہ و شکیل اور جامہ زیب بھی تھے اور خلیق، ملنسار، متواضع، وسیع المشرب اور انسان دوست بھی، ان کا دل شرافت، مروت، ہمدردی اور خلوص و محبت کا گہوارہ تھا، ان کی زندگی تکلف سے بری اور نمود و نمائش سے خالی تھی، حرص و طمع کے بجائے قناعت پسند تھے، بڑے سرکاری افسر اور اردو کے صف اول کے اہل قلم میں بھی ممتاز ہونے کے باوجود ان میں نہ غرور تھا نہ تمکنت، جھوٹ اور مکاری سے نفرت، وعدے کے سچے اور پکے تھے، بڑے اصول پسند تھے، بے اصولی کو پسند نہیں کرتے تھے، خود بھی قاعدے اور ضابطے کی پابندی کرتے اور دوسروں سے بھی اسی کی توقع رکھتے، ہمیشہ مستعد اور چاق و چوبند رہتے، ہر وقت اپنے کام میں منہمک اور دھن میں مست رہتے، نہ کبھی فضول باتوں اور لایعنی کاموں میں اپنا وقت ضایع کرتے اور نہ دوسروں کی شکوہ شکایت اور غیبت کرتے، اسی اصول پسندی اور وقت کی قدر کرنے کے نتیجہ میں انھوں نے کمیت و کیفیت دونوں اعتبار سے گوناگوں علمی و تحقیقی کام انجام دیتے ہے۔
مالک رام صاحب نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی، کسی سے بغض و کینہ نہیں رکھتے، اپنے مخالفین کے معاملہ میں بھی عفو و درگزر سے کام لیتے، کبھی غضب و اشتعال میں آکر صبر و ضبط، نرمی اور اعتدال پسندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے، صلح کل ان کا مزاج تھا، دوسروں کے درمیان بھی صلح و آشتی کرادیتے، اپنے سے چھوٹے لوگوں پر بھی شفقت فرماتے اور برابر ان کی حوصلہ افزائی کرتے، ان میں ضد اور ہٹ دھرمی نہیں تھی، اپنی کسی غلطی پر اصرار نہیں کرتے، جو لوگ ان کی غلطیوں سے انہیں مطلع کرتے ان کے احسان مند ہوتے۔
ان سے کوئی غلط کام کرانا آسان نہ تھا وہ نہ کسی کی حق تلفی کرتے اور نہ بیجا رو رعایت کرتے، صاف گوئی اور دو ٹوک بات کہنے کے عادی تھے، دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ان سے کلکتے کی کسی بڑی کمپنی کے مالک کے امپورٹ لائیسنس کے لیے جناب دوار کاداس شعلہؔ نے سفارش کی، مالک رام صاحب کی نظر میں کمپنی کے مالک واقعی اس کے مستحق تھے اس لیے انھوں نے ان کا کام کردیا، کچھ عرصے کے بعد انھوں نے اپنے ایک نمائندے کے ذریعہ دوارکا داس کے پاس چھ ۶ بڑے کوزے رس گلوں کے بھجوائے اور کہا کہ کچھ مالک رام صاحب کو بھی پہنچادیے جائیں، دوارکا داس ایک کوزہ لے کر مالک رام کے پاس گئے، ان کو جب صورت حال کا علم ہوا تو انھوں نے رس گلے لینے سے انکار کردیا اور کہا ان صاحب سے میرا کوئی واسطہ نہیں، میں نے ان کا کام اس لیے کیا تھا کہ وہ مستحق تھے اگر وہ واقعی مستحق نہ ہوتے تو میں صاف کہہ دیتا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں، اگر اس قسم کے مستحق لوگ اور بھی تمھارے پاس آئیں تو بلاتکلف انہیں میرے پاس بھیج دو، ان کی جو خدمت مجھ سے ممکن ہوگی ضرور کروں گا ۔
دوسروں کا کام کردینے میں انہیں بڑی لذت ملتی تھی، ایک مرتبہ میں دلی گیا اور ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوا تو برسبیل تذکرہ کہا کہ اس دفعہ میں نے صرف اپنے لڑکے محمد طارق کے داخلہ کے لیے سفر کیا، مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ وہ اس کام میں کسی قسم کا دخل دیں گے اور میرا تعاون کریں گے مگر انھوں نے اپنے امکان بھر ہر طرح مدد کی اور بڑی دلچسپی لی۔
بڑے منکسر المزاج اور وضعدار شخص تھے حق دوستی نبھانے کے لیے خود طرح طرح کی تکلیفیں براداشت کرتے، دلّی کی ایک اردو کانفرنس میں دوارکا داس کولے کر گئے، مالک رام کے پاس دعوت نامہ موجود تھا، وہ چاہتے تو اسٹیج پر فروکش ہوتے مگر دوارکا داس کے پاس دعوت نامہ نہیں تھا، اگر یہ کسی کو اشارہ کردیتے تو انہیں بھی دعوت نامہ مل جاتا مگر مالک رام صاحب نے یہ احسان لینا گوارہ نہیں کیا، اور دوارکا داس کی مروت میں جاڑے کے دنوں میں کھلی جگہ گھاس پر بیٹھ کر ٹھنڈک کھاتے رہے۔
مالک رام صاحب کی انسان دوستی کی راہ میں ہند و مسلمان کی تفریق حائل نہیں ہوتی تھی، جناب محمد باقر سابق پرنسپل یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور ان کے بچپن کے بے تکلف دوست تھے، دونوں ایک دوسرے کے گھر برابر آیا جایا کرتے تھے، مالک رام صاحب کے ڈی اے وی کالج لاہور میں داخلہ لینے کے بعد باقر صاحب لاہور جاتے تو وہ انہیں زبردستی اپنے ہوسٹل میں لے آتے، حالانکہ ان دنوں کالج کے ہوسٹل میں کسی مسلمان کو ٹھہرانا سنگین جرم تھا مگر مالک رام صاحب خطرہ مول لے کر انہیں اپنے ساتھ ٹھہراتے، اتفاق سے ایک دفعہ وہ ہوسٹل میں بیمار ہوگئے تو مالک رام صاحب نے ہندو ڈاکٹر سے ان کا غلط نام بتاکر دوا لی، اگر کہیں یہ راز فاش ہوجاتا تو مالک رام صاحب کو ہوسٹل خالی کرنا پڑتا۔
مذاہب کے تقابلی مطالعہ نے مالک رام کو بڑا وسیع نظر بنادیا تھا اور وہ ہر مذہب و ملت اور ہر طبقہ و مشرب کے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھتے تھے، اپنی رواداری اور بے تعصبی کی بنا پر انھوں نے اسلام اور اسلامی علوم مسائل کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اعتدال و انصاف کو ملحوظ رکھا ہے اور اسلام کی جن خوبیوں اور صداقتوں کو محسوس کیا ہے، انہیں بے خوف و خطر بیان کیا ہے، ان کی طبیعت اور مزاج پر اسلام کا بڑا اثر تھا اور وہ اس کی اکثر تعلیمات کے مداح تھے، انھوں نے اپنے صاحبزادوں کے نام آفتاب و سلمان اور ایک صاحبزادی کا نام بشریٰ رکھا تھا، حقیقت کا علم تو خدا کو ہے لیکن ایک دفعہ وہ مجھ سے کہنے لگے بعض لوگ مجھے قادیانی اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، خیر مجھے بھی اﷲ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری بخشش کرے گا۔ وہ ہماری قدیم شرافت، و ضعداری اور ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا ایک دلکش نمونہ تھے، ان خوبیوں کے لوگ عنقا ہوگئے ہیں:
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نمایاں ہوتا ہے
(ضیاء الدین اصلاحی، جون ۱۹۹۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...