Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر نورالحسن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر نورالحسن
ARI Id

1676046599977_54338319

Access

Open/Free Access

Pages

533

پروفیسر نورالحسن کی رحلت
ملک کے مشہور مورخ و عالم اور مغربی بنگال کے گورنر پروفیسر نورالحسن کی طبیعت عرصہ سے خراب تھی، وہ علاج کے لیے امریکہ جانے والے تھے کہ مرض میں شدت ہوگئی اور ۱۶؍ جون کو ایس۔ایس۔ایم اسپتال کلکتہ میں داخل ہوئے جہاں ۱۲؍ جولائی کو ۷۲ سال کی عمر میں رحلت فرماگئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
پروفیسر نورالحسن کا دادھیال اور نانہال کو علمی، تعلیمی اور دنیاوی حیثیت سے بڑی وجاہت حاصل تھی، ان کا اصل آبائی وطن فیض آباد تھا، ان کے والد عبدالمحسن مرحوم وہاں کے ڈپٹی کلکٹر بھی تھے، حسن خدمت کی بنا پر برطانوی حکومت نے ان کو خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ صوبائی سکریٹریٹ کے مختلف شعبوں میں جوائنٹ سکریٹری بھی رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ریاست رام پور میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوئے، پھر شیعہ سنٹرل وقف بورڈ اترپردیش کے صدر مقرر ہوئے۔ نورالحسن مرحوم کا نانہال جونپور میں تھا وہ سروزیر حسن کے نواسے اور سید علی ظہیر اور سید سجاد ظہیر وغیرہ کے حقیقی بھانجے تھے، بعد میں نانہالی اور دادھیالی عزیز لکھنؤ میں متوطن ہوگئے، یہیں ۲۶؍ دسمبر ۱۹۲۱؁ء کو نورالحسن صاحب پیدا ہوئے تھے۔
ان کی تعلیم الٰہ آباد میں ہوئی، طالب علمی کے زمانے ہی سے تقریر میں وہ اپنا جوہر دکھلانے لگے تھے، اکثر تقریری مقابلوں میں انہیں فرسٹ پرائز ملتی۔ بعد میں وہ بہت اچھے مقرر ہوئے، وہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ممبر اور الٰہ آباد یونیورسٹی یونین کے سکریٹری بھی رہے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے، ان کا خاص موضوع تاریخ تھا جس کے وہ ماہر و محقق تھے، ۱۹۵۰؁ء میں آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
مرحوم کی عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے ہوا، پہلے وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے پھر علی گڑھ اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ سائنس اور صنعتی ریسرچ کی کونسل کے نائب صدر بھی رہے، جس کی صدر مسز اندرا گاندھی تھیں۔ کونسل کی جانب سے کئی بین الاقوامی سمینار ہوئے جس میں اس غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا کہ ہندوستان میں ۱۲۰۰؁ء سے ۱۸۰۰؁ء تک سائنس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
پروفیسر صاحب کی علمی لیاقت کی طرح انتظامی صلاحیت، حب الوطنی اور سیکولر پسندی بھی مسلم تھی، اس لیے حکومت کی نظر بھی ان کی جانب اٹھی، وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے، ۱۹۷۲؁ء میں تعلیم، سماجی بہبود و ثقافت کے مرکزی وزیر مقرر ہوئے اور ۱۹۷۷؁ء تک اس منصب پر فائز رہے، اس کے بعد تین سال تک سابق سوویت یونین میں ہندوستان کے سفیر رہے، ان کی کوششوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید استوار ہوئے اور اس عرصہ میں انہوں نے روسی جمہوری ریاستوں خاص طور پر مسلم ایشیائی ریاستوں کا دورہ کیا، دو مرتبہ ہندوستانی وفد کے ایک ممبر کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور یونسکو کی جنرل کانفرنسوں میں انہیں ہندوستانی وفد کی قیادت کرنے کا موقع بھی ملا۔ آخر میں وہ مغربی بنگال کے گورنر مقرر کیے گئے اور اس حیثیت سے بہت مقبول اور نیک نام رہے، اس منصب پر دو مرتبہ فائز کیے گئے، پہلے ۸۶؁ء سے ۸۹؁ء تک اور دوبارہ ۹۰؁ء میں پھر مغربی بنگال کے گورنر ہوئے اور مرنے کے بعد ہی اس سے سبکدوش ہوئے، درمیان میں تھوڑی مدت کے لیے اڑیسہ کے گورنر بنائے گئے مگر ان کا دل کلکتہ ہی میں اٹکا ہوا تھا اور غالب کی طرح ان کی رگ و پے میں بھی اس کی محبت سرایت کیے ہوئے تھی۔
کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے ان کے تعلقات اچھے تھے اور انہوں نے ان کو ٹکراؤ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کا اعتراف مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ مسٹر جیوتی باسونے ان لفظوں میں کیا ہے:
’’وہ گورنر اور متعدد یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے ہمارے لئے ایک دانش مند مشیر تھے‘‘۔
وہ ریاست کے عوام میں گھل مل گئے تھے اور ان سے بڑی محبت کرتے تھے، عوام کے ہر طبقہ میں انہیں پسند کیا جاتا تھا، ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے مسائل اور خاص طور پر اپنی ریاست کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی سے انہیں بڑی دلچسپی تھی۔
نورالحسن مرحوم کا میلان شروع میں کمیونزم کی جانب ہوگیا تھا، اس میں اس کا بھی اثر رہا ہوگا کہ وہ طالب علمی ہی کے زمانے میں جواہر لال نہرو کے گھر برابر جاتے تھے اور لکھنؤ یونیورسٹی سے جب ان کا تعلق ہوا تو کمیونسٹ تحریک سے وابستہ متعدد اشخاص وہاں موجود تھے جن میں ان کے ماموں سجاد ظہیر بھی تھے۔ اس زمانے میں یہاں سے ایک اخبار نکلتا تھا جس کی حیثیت کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان کی تھی۔ اپنی عالی نسبی اور خاندانی امارت کے باوجود پارٹی سے ان کے اخلاص و تعلق کا یہ حال تھا کہ اخبار کی کاپیاں سائیکل کے ہینڈل پر رکھ کر فروخت کرتے تھے۔
عرصہ تک اس تحریک سے وابستہ رہنے کے باوجود خاندانی شرافت و وضعداری گھر کی تربیت اور ماحول کے اثر سے ان میں مسلمان گھرانوں کی روایات اور اودھ کی تہذیب و شائستگی کی خوبو ہمیشہ باقی رہی اور وہ اشتراکیت کو سیکولرازم اور رواداری کے قریب لانے کا کام بھی کرتے رہے اور آخر میں تو انہوں نے اس سے پوری طرح چھٹکارا پاہی لیا تھا گویا ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
کلکتہ کے جسٹس خواجہ محمد یوسف ۲۲؍ جون کو ان کی عیادت کے لیے اسپتال گئے تو ان سے تنہائی میں فرمایا کہ میں آپ کو اپنا گواہ مقرر کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ میری طرف سے شہادت دے سکیں، میرے متعلق بہت سی باتیں اُڑائی گئی ہیں کہ میں بدعقیدہ ہوں، یہ جھوٹ ہے، میں مسلم گھرانے میں پیدا ہوا، ہمیشہ مسلمان رہا، آج بھی مسلمان ہوں، اﷲ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ہے اور انشاء اﷲ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے اﷲ کے حضور حاضر ہوں گا، اس کے بعد انہوں نے باآواز بلند کلمۂ شہادت پڑھا اور پھر خواجہ صاحب سے کہا کہ آپ گواہ رہیں (آزاد ہند کلکتہ)۔
اردو زبان سے ان کو سچا عشق تھا، وہ اسی تہذیب کے پروردہ تھے، ملک میں اردو کا رواج کم ہونے سے بھی کڑھتے رہتے تھے، ان کے نزدیک یہ کسی خاص فرقہ و مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ اس کا رشتہ ملک کی قدیم تہذیب و ثقافت سے جڑا ہوا ہے، اس لیے اردو کا خاتمہ دراصل اس مشترکہ تہذیب و ثقافت کا خاتمہ ہے۔
طلبہ کی موجودہ بے راہ روی اور بدعنوانی بھی ان کے اضطراب کا باعث بنی ہوئی تھی، وہ موجودہ نظام تعلیم کی خرابیوں سے واقف تھے مگر اپنی مجبوری و بے بسی کو بھی سمجھتے تھے، اردو ہی نہیں فارسی کی تعلیم کو وہ اسی لیے ضروری خیال کرتے تھے کہ اس کے بغیر طلبہ میں شرافت، شائستگی، بھلمنساہت، انسان دوستی اور اخلاقی اقدار پیدا نہیں ہوسکتیں، ایک مرتبہ ایک طالب علم کو خاص طور پر تاکید کی کہ ’’بیٹا فارسی ضرور پڑھنا کیونکہ فارسی پڑھے بغیر اخلاق نہیں آسکتا اور اخلاق ہی زندگی کا جوہر ہے‘‘۔ اسی لیے علمی و تعلیمی مجلسوں اور اردو اداروں کی تقریبات میں معذوری اور علالت کے باوجود شریک ہونے کی کوشش کرتے اور بڑی مناسب اور برمحل تقریریں کرتے، اس طرح کی تقریروں میں وہ کارکنوں کی ہمت افزائی بھی فرماتے اور ان کی توجہ ان گوشوں کی جانب مبذول کراتے جن کو نظر انداز کردیا جاتا تھا۔
ان میں قوم و ملت کا درد تھا اس لیے ان کی زبوں حالی پر بے چین رہتے تھے خاص طور پر مسلمانوں کی علمی و اقتصادی پس ماندگی اور ان کے موجودہ ابتر حالات کا انہیں ملال رہتا تھا، وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ملک کے دوسرے طبقوں کے دوش بدوش اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں حصہ لینا چاہئے اور وہ جس منصب پر فائز ہوں اسے محنت اور ذمہ داری سے انجام دیں تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مسلمان بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں، ملک میں سیاست اور اخلاق کے گرتے ہوئے معیار سے وہ بہت زیادہ کبیدہ خاطر رہتے تھے، موجودہ سیاست کو وہ کوئلے کی دوکان کہتے تھے کہ جو اس میں گیا اس کے کالک لگ گئی۔ انہوں نے اپنے کو اس کی آلودگی سے بچائے رکھنے کی پوری کوشش کی۔
پروفیسر نورالحسن مرحوم ایک باغ و بہار، خوش مزاج، خوش گفتار اور خوش اخلاق شخص تھے۔ ہر شخص کے لیے ان کے دل میں شفقت و محبت کا جذبہ موجزن رہتا تھا، اپنے عمدہ برتاؤ اور اچھے سلوک سے وہ لوگوں کا دل جیت لیتے تھے اور کبھی کسی کو کسی طرح کی شکایت کا موقع نہیں دیتے تھے، ان میں عجب و غرور اور خود نمائی نہ تھی، سچائی، خلوص، ایمانداری، حقیقت پسندی اور غیر جانبداری کو اپنا وطیرہ بنالیا تھا، وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے، اگر انہیں کسی سے اختلاف بھی ہوتا تو اس پر نہ ناگواری ظاہر کرتے اور نہ اس سے اپنی بات زبردستی منواتے، لیکن اپنی رائے و ثوق و اعتماد سے ضرور بیان کردیتے، لوگوں کی خوبیوں کی جہاں داد دیتے وہاں ان کی غلطیوں کی جانب بھی مناسب انداز میں اس کو متوجہ کردیتے، ہر شخص سے نباہ کرلینے کا سلیقہ انہیں معلوم تھا، بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے عزیزوں، اہل تعلق اور پڑوسیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جن میں امیر و غریب دونوں طرح کے لوگ ہوتے تھے، دراصل وہ بڑے شائستہ، وضعدار اور ملنسار شخص تھے اور ان کی زندگی لکھنوی نفاست و شرافت اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا نمونہ تھی۔
مہمان نوازی میں ان کو لطف ملتا تھا، گورنر ہاؤس میں اکثر پُرتکلف دعوتیں کرتے، رمضان میں بالالتزام افطار پر لوگوں کو مدعو کرتے، گورنر ہاؤس کی بالائی منزل پر مغرب کی اذان و نماز کا اہتمام ہوتا، افطار میں وہاں کے مسلم ملازمین بھی سب کے ساتھ افطار کرتے، عیدالاضحی کے دن خاص احباب کو قربانی کا گوشت بھجواتے، خود بھی کھانے کے شوقین تھے، ان کا خاص باورچی لکھنؤ کا تھا، کھانے کے انواع و اقسام کے بارے میں ان کے معلومات وسیع تھے۔
ان میں عصبیت، تنگ نظری اور جانبداری نہ تھی، مسلمانوں کے اختلاف، تخرب اور فرقہ آرائی کو ناپسند کرتے تھے، خود شیعہ تھے لیکن سنیوں اور غیر مسلموں سے بھی ان کے اچھے تعلقات تھے اور سب کا احترام کرتے تھے، اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی سنیوں سے کی تھی۔
وہ ایک بڑے عالم اور اہل علم کے قدرداں تھے، ان کی تحقیق اور تلاش، جستجو اور علم کی طلب و تحصیل کا سلسلہ آخر دم تک قائم رہا، وہ ہمیشہ اپنے کو طالب علم ہی سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہی آدمی عالم ہے جو طلب علم میں مصروف رہے، ان کی مجلس اہل علم و اصحاب کمال سے معمور ہوتی تھی، ان کی دعوتوں میں ان لوگوں کی موجودگی ضروری تھی۔ علم سے ان کی دلچسپی کا یہ حال تھا کہ جب روس کے سفیر ہوئے تو مسلم ایشیائی ریاستوں کا دورہ کیا اور وہاں کے کتب خانے کنگھالے، عہدِ وسطیٰ کے فارسی مسودوں کا بغور مطالعہ کیا اور اپنے ساتھ ان کی فوٹو کاپیاں لائے، بعض کو ایڈٹ کر کے شایع بھی کرنا چاہتے تھے مگر سرکاری مشغولیتوں کی وجہ سے اس کا موقع نہیں ملا۔
صحت کی خرابی کے باوجود علمی پروگرام میں حصہ لیتے، ایران سوسائٹی کے سرپرست تھے، اس کی تقریبات میں موجود رہتے، ایشیاٹک سوسائٹی کو بہتر بنانے میں بھی دلچسپی لی، مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم سے خاص عقیدت تھی، مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیز کے قیام کا سہرا انہی کے سر بند ھتا ہے۔
موجودہ قحط الرجال میں ایسے عالم، مدبر اور منتظم شخص کا اٹھ جانا ایک قومی نقصان ہے، اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کے ساتھ رحم و شفقت کا معاملہ کرے۔ (ضیاء الدین اصلاحی۔ اگست ۱۹۹۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...