Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابو الحسن عبیداﷲ رحمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابو الحسن عبیداﷲ رحمانی
ARI Id

1676046599977_54338326

Access

Open/Free Access

Pages

538

شیخ الحدیث مولانا عبیداﷲ رحمانی
شیخ الحدیث مولانا ابوالحسن عبیداﷲ رحمانی ۵؍ جنوری کو رحلت فرماگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ ان کے نام سے میں بچپن ہی میں آشنا ہوگیا تھا، میرے والد مسلکاً اہل حدیث ہیں، وہ جریدۂ اہل حدیث (امرتسر) اور رسالہ محدث اور اس مسلک کے بعض دوسرے رسالوں کے خریدار تھے، محدث مولانا نذیر احمد رحمانیؒ کی ادارت میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے شایع ہوتا تھا، اس میں فتاویٰ اور مضامین مولانا عبید اﷲ رحمانی کے بھی برابر چھپتے تھے، میں ۱۹۴۷؁ء میں پرائمری درجات میں پڑھتا تھا، اس وقت ’’محدث‘‘ میری سمجھ میں کیا آتا؟ تاہم اسے پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا، ایک روز والد صاحب نے اسے الٹتے پلٹتے دیکھا تو فرمایا کہ ’’میں تمھیں اسی مدرسہ میں پڑھنے کے لیے بھیجوں گا جہاں سے ’’محدث‘‘ شایع ہوتا ہے‘‘۔ مگر افسوس
؂ آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
جس سال میں مدرستہ الاصلاح کے درجہ چہارم عربی میں پڑھتا تھا اس سال میرے درجہ میں ایک نئے طالب علم داخل ہوئے جن کی طرف ہمارے استاد مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم بڑا اعتنا کرتے تھے، جب یہ کسی تعطیل کے بعد اپنے گھر سے مدرسہ آتے تو مولانا ان کے والد کی خیریت ضرور دریافت فرماتے، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ان کا بڑا احترام کرتے تھے، اس کی وجہ سے میرے دل میں بھی ان کے والد کی عزت و عظمت کا نقش ثبت ہوگیا تھا۔ ہمارے یہ نئے رفیقِ درس مولانا عبدالرحمن مبارکپوری تھے اور ان کے والد محترم کا نام شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی تھا جو خود بہت ممتاز عالم اور سیرت البخاری کے مصنف مولانا عبدالسلام مبارکپوریؒ کے صاحبزادے اور ترمذی شریف کی مشہور و مقبول شرح تحفۃ الاحوذی کے مصنف مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نوراﷲ مرقدہٰ کے خاص تربیت یافتہ تھے، وکفیٰ بہ فخرا۔
مولوی عبدالرحمن صاحب چوتھے درجہ کے بعد ہی دوسرے مدارس میں چلے گئے اور میں مدرستہ الاصلاح میں تعلیم مکمل کر کے دارالمصنفین آگیا، اس وقت مولانا عبیداﷲ رحمانی صاحب مشکوٰۃ المصابیح کی شرح مرعاۃ المفاتیح لکھ رہے تھے، اسی دینی، علمی اور تحقیقی کام کے سلسلے میں وہ کتابیں دیکھنے کے لیے اپنے وطن مبارکپور سے کبھی کبھی دارالمصنفین بھی تشریف لاتے تھے، یہیں جب ان سے ملاقات ہوئی تو محسوس ہوا کہ میں ایک باوقار مگر نہایت خلیق و متواضع عالم و محدث اور بڑے متبع سنت اور صاحب ورع و تقویٰ بزرگ سے مل رہا ہوں۔
مولانا بڑے متبحر عالم تھے، وہ دینی علوم میں مکمل دستگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کا خاص میدان فن حدیث تھا جس کے مسائل و مباحث کی تحقیق و تدقیق میں ان کی عمر گزری تھی، مجھے بھی صاحبِ تصانیف محدثین پر کام کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً ان سے استفادہ کا موقع ملا، مولانا شمس الحق ڈیانویؒ کی تصنیف عون المعبود شرح سنن ابی داؤد کے بارے میں بعض تحقیق طلب امور کے متعلق خاص طور پر ان سے رہنمائی کا طالب ہوا جس کا ذکر میں نے اپنے ایک مضمون ’’عون المعبود کا مصنف کون ہے‘‘ میں کیاہے۔
مبارکپور میں میرے لیے کشش کا باعث مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کی ذات گرامی بھی ہے، جن کی دعوت پر اکثر وہاں جانے کا اتفاق ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بھی حضرت شیخ الحدیث کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا موقع مل جاتا تھا۔
مولانا عبیداﷲ صاحب نے فارسی کے علاوہ متوسطات تک کی عربی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار ہی سے پڑھی تھیں لیکن درسیات کی تکمیل دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں کی جس سے فراغت کے بعد ہی ان کی ذہانت داستعداد دیکھ کر شیخ عطاء الرحمن صاحب مہتمم نے ان کو دارالحدیث رحمانیہ میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور کردیا، اور جب تک یہ مدرسہ رہا وہ اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے، کئی برس بعد بنارس میں اسی کا مثنیٰ جامعہ سلفیہ قائم ہوا تو وہ اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔
درس و تدریس کے علاوہ تحریر و تصنیف سے بھی انہیں سروکار رہا، اردو اور عربی میں لکھنے پر پوری قدرت تھی، ان کی اردو تحریریں شستہ، پُر مغز اور حشوو زوائد سے پاک ہیں، گو اردو میں کم لکھتے تھے مگر جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کے وسیع علم و مطالعہ، دقتِ نظر اور استحضار کا پتہ چلتا ہے۔
مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے آخر عمر میں ضعفِ بصر کی وجہ سے تحفۃ الاحوذی کی تکمیل کے لیے مولانا عبید اﷲ صاحب کو اپنا معاون بنالیا تھا جس سے ان کو بڑا فائدہ ہوا اور ان کی نظر میں وسعت پیدا ہوئی اور غالباً اسی بنا پر انہیں بھی مشکوٰۃ المصابیح کی شرح لکھنے کا خیال ہوا ہوگا جو ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے، مگر افسوس ہے کہ یہ شرح پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی جس میں بڑا دخل ان کی خرابی صحت، پیری اور دوسرے عوارض کو تھا، ہندوستان میں مشکوٰۃ المصابیح کو بڑا حسن قبول حاصل ہوا اور یہاں کے اہلِ علم نے اس کے ساتھ بڑا اعتنا کیا، اردو فارسی اور عربی میں اس کی متعدد شرحیں لکھی گئیں، مرعاۃ المفاتیح اسی سلسلہ کی کڑی ہے جو اپنی گو ناگوں خصوصیات کی بنا پر بہت ممتاز اور قدما کی شرحوں کے ہم پایہ ہے۔
وہ علم و فضل سے زیادہ عمل، اخلاص، ﷲیت، بے نفسی، قناعت، زہد وتقویٰ اور سیرت و کردار کی پختگی میں فائق و برتر تھے، بڑی پاکیزہ، محتاط، سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے، اپنی عسرت اور پریشانی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ عجز و انکسار، خاکساری و فروتنی ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی۔ انھوں نے اپنا کام شاید ہی کسی سے لیا ہو لیکن دوسروں کی خدمت کرنے میں ان کو لطف ملتا تھا، اپنے مہمانوں کی تکریم و مدارات میں بچھے رہتے تھے، خوردوں سے بھی جس انداز سے پیش آتے تھے اس سے انہیں بڑی شرمندگی ہوتی تھی۔
اپنے مسلک میں پختگی کے باوجود دوسرے مسلک کے لوگوں کو برا بھلا نہ کہتے بلکہ انکے ذی علم اصحاب کے ادب و احترام کا پورا لحاظ رکھتے تھے، دینی حمیت کے باوجود غصہ، برہمی اور جھنجھلاہٹ کا اظہار نہ کرتے لیکن نرمی اور ملاطفت سے صحیح اور سچی بات کہہ دیتے، نہ کسی کو ان کی زبان اور ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہوگی اور نہ کسی کی شکایت اور غیبت سے انکی زبان آلودہ ہوئی ہوگی، عصبیت اور فرقہ بندی کے اس دور میں ایسے معتدل اور پختہ سیرت کے اشخاص مشکل سے ملیں گے۔
شرم و حیا کا یہ حال تھا کہ ع برہنہ نہ دیدہ تنم آفتاب۔ سخت گرمی اور خلوت میں بھی ساتر لباس زیب تن رہتا۔ بڑے نظافت پسند تھے، لباس سادہ مگر صاف پہنتے اور اپنے مکان کو بھی بہت صاف ستھرا رکھتے۔
وہ طبعاً نہایت خاموش اور گوشہ نشین قسم کے آدمی تھے، نہ بلا ضرورت بات کرتے اور نہ فضول کاموں میں وقت ضایع کرتے، جلسے جلوس، ہنگاموں اور ہر قسم کی سرگرمیوں سے الگ رہ کر صرف علمی کاموں میں مشغول رہتے، نام و نمود کا شائبہ بھی ان میں نہ تھا خود نمائی ظاہر داری اور تکلف و تصنع سے نفرت تھی، کبھی اپنے کو نمایاں اور ممتاز کرنے کا خیال بھی دل میں نہ آیا ہوگا، اسی لیے عام لوگوں کو ان کے نام سے بھی واقفیت نہیں تھی مگر ہندوستان ہی نہیں اسلامی ملکوں کے خواص کو بھی ان کے علمی کمالات کا اعتراف تھا، ان کے وطن کے ہر فرقہ و مذہب کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ چنانچہ جنازے میں آدمیوں کا جم غفیر تھا، دوسرے ضلعوں اور صوبوں کے لوگ بھی آگئے تھے۔
اس قحط الرجال میں ایسے عالم باعمل کا اُٹھ جانا نہ صرف جمعیتہ اہلحدیث بلکہ ملت اسلامیہ کا خسارہ ہے۔ گو وہ عمر طبعی کو پہنچ گئے تھے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ فن حدیث کی مشکلات و غوامض میں اب کون رہنمائی کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ علمِ دین اور حدیثِ نبویؐ کے اس خادم اور اپنے مقبول بندے کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبرِجمیل عطا فرمائے آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی۔ فروری ۱۹۹۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...