Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر غلام محمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر غلام محمد
ARI Id

1676046599977_54338327

Access

Open/Free Access

Pages

539

ڈاکٹر غلام محمد
مشہور صاحب علم و قلم پروفیسر محمد اسلم پنجاب یونیورسٹی (لاہور) کے گرامی نامہ سے مولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے انتقال کی اندوہ ناک خبر ملی، ان کا وطن حیدرآباد دکن تھا اور وہ جامعہ عثمانیہ کے گریجویٹ تھے، تقسیم کے بعد کراچی تشریف لے گئے اور بالآخر اسی کی خاک کا پیوند ہوئے۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ کی رہنمائی میں تصوف و سلوک کے مراحل طے کئے اور خود علم و عرفان اور شریعت و طریقت کے جامع ہوگئے، اپنے مرشد عالی مقام سے ان کو والہانہ تعلق تھا، اس کا ثبوت ان کی تصنیف ’’تذکرۂ سلیمان‘‘ اور وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً حضرت سید صاحبؒ پر وہ لکھتے رہے ہیں، ان سے فرط تعلق کی بنا پر انہیں دارالمصنفین سے بھی عشق تھا اور وہ برابر اس کی بقا و تحفظ کے لیے دعا فرماتے تھے، انہی کی کوشش سے ان کے ایک مسترشد جناب محمد یحییٰ صاحب نے پاکستان میں معارف کی ترسیل کی ذمہ داری قبول فرمائی۔
راقم کو ان سے ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن گذشتہ دس بارہ سال سے مراسلت کا سلسلہ قائم تھا۔ جس کا باعث بھی حضرت سید صاحبؒ کی ذات گرامی ہوئی۔
۸۳۔۱۹۸۲؁ء میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر راقم نے بہار اردو اکاڈمی کے سیمینار کے لئے سیرۃالنبیؐ جلد سوم پر ایک مضمون لکھا، اس کے تتمہ میں اس جلد پر کیے گئے اعتراضات کے جواب میں خاص طور پر معجزات کے تعلق سے ایک مشہور عالم و محدث کی ایرادات زیر بحث آئی تھیں، اس پر فرنگی محل کے ایک بزرگ کو کسی قدر ناگواری ہوئی تھی مگر مولانا غلام محمد صاحب نے اسے ملاخطہ فرمانے کے بعد مجھے پہلی مرتبہ خط لکھا کہ ’’آپ نے اہل ندوہ اور حضرت سیدی و مولائی کے وابستگان دامن کی جانب سے فرض کفایہ ادا کردیا‘‘۔ میں نے معارف میں مولانا آزاد اور ربوبیت الٰہی اور بابری مسجد کے انہدام پر جو شذرات لکھے ان کی تحسین فرما کر بھی حوصلہ افزائی فرمائی۔
مرحوم کا علم و مطالعہ وسیع تھا، فلسفہ و تصوف کے علاوہ تفسیر و قرآنیات پر بھی اچھی نظر تھی، اردو بہت سلیس لکھتے اور تحریر ماقل و مادل ہوتی، سچے عالم کی طرح خطا و تقصیر کے اعتراف میں انہیں تامل اور تنقید و اعتراض پر کبیدگی نہیں ہوتی تھی، اپریل ۹۳؁ء کے معارف میں ان کی کتاب ’’رموز سورۂ یوسف‘‘ کے تبصرے میں اس کی بعض فروگزاشتوں کی جانب توجہ دلائی تو پہلے مولانا ڈاکٹر عبداﷲ عباس ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃالعلما نے اپنے گرامی نامہ میں اس کی تحسین فرمائی پھر خود صاحبِ تصنیف نے اپنی فروگذاشتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اظہار تشکر فرمایا۔
پروفیسر محمد اسلم کا گرامی نامہ قدرے طویل ہے اس لیے اس کے بعض اقتباسات ہی کی نقل پر اکتفا کیا جاتا ہے:
جناب من زید مجد کم، سلام مسنون!
۱۸؍ دسمبر کو ہم پر قیامت گزر گئی۔ بزم اشرفؒ کا ایک روشن چراغ بجھ گیا یعنی ہمارے مخدوم و محترم ڈاکٹر غلام محمد صاحب اس روز علی الصبح کراچی میں امراضِ قلب کے ہسپتال میں انتقال فرما گئے، اسی شام ہزاروں عقیدت مندوں نے ان کا جسد خاکی پنجابی سوداگران کے قبرستان مسمیٰ بہ شفیق پورہ میں سپرد خاک کردیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ گذشتہ ماہ جولائی میں کراچی میں ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں ڈاکٹر سید سلمان ندوی کراچی تشریف لائے ہوئے تھے، انھوں نے چند احباب کو رات کے کھانے پر مدعو کیا، ان میں میرے علاوہ قبلہ ڈاکٹر غلام محمد مرحوم بھی تھے، تین گھنٹے خوب محفل جمی اس کے بعد سلمان صاحب ہمیں اپنی قیام گاہوں تک پہنچانے گئے۔ دو تین روز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے عشاء سے قبل مجھے اپنے دولت کدہ پر بلایا، نو بجے روہیل کھنڈ سوسائٹی لے گئے، ایک مکان کی چھت پر فرش بچھا ہوا تھا۔ اندازاً تیس (۳۰) بتیس (۳۲) افراد وہاں موجود تھے، ڈاکٹر صاحب نے نماز کے بعد پون گھنٹے تک ذکر کرایا۔ اس کے بعد کھانے کا اہتمام تھا، میں ان کے برابر بیٹھا ہوا تھا، موصوف اپنے دست مبارک سے میری پلیٹ میں بریانی ڈالتے رہے، کھانے کئی قسم کے تھے لیکن انھوں نے مجھے صرف بریانی ہی کھلائی، کھانے سے فراغت کے بعد دعا ہوئی اور مرحوم مجھے میری قیام گاہ پر چھوڑنے آئے۔
میں نے اپنی کتاب ’’سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کا ذوق موسیقی‘‘ ڈرتے ڈرتے ان کی خدمت اقدس میں ارسال کی، انھوں نے کتاب کے مندرجات کی دل کھول کر تعریف فرمائی اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ ایک زمانے میں انہیں بھی اس موضوع سے دلچسپی رہی ہے، ڈاکٹر صاحب اپنے گھر میں ہومیوپیتھک مطب چلاتے تھے، میں نے ایک روز عرض کیا کہ اس میں کیا راز ہے کہ حضرت تھانوی نوراﷲ مرقدہ کے کئی خلفاء اور آگے ان کے خلفاء اور مریدین ہومیوپیتھ ہیں، کراچی میں حضرت عبدالحئی عارفی بڑے کامیاب ہومیوپیتھ ڈاکٹر تھے۔ مجذوبؔ بھی غالباً اس فن سے واقف تھے، کیا حضرت تھانوی نے بھی اس طریقۂ علاج سے استفادہ کیا ہے۔ فرمانے لگے کہ ہاں ایک بار جب حضرت تھانوی دوا لینے لگے تو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ اس میں نشہ آور اجزا بھی ملائے جاتے ہیں۔ اس پر فرمایا ’’میاں! ہم اتنے پرہیز گار کہاں ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے وہ پُڑیا منھ میں انڈیل لی۔ خود سید سلیمان ندوی مرحوم کراچی میں حضرت عبدالحئی عارفی کے زیر علاج رہے تھے۔
ڈاکٹر غلام محمد صاحب چھوٹوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ خط کے لفافے پر مرحوم نام کے ساتھ جو القاب لکھتے انہیں پڑھ کر مجھے شرم آجاتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب سول سیکریٹریٹ کراچی کی مسجد میں خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرماتے تھے، اکثر پڑھے لکھے لوگ وہیں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ افسوس کہ میں کراچی جا کر بھی کبھی ان کا خطبہ نہ سن سکا۔ والسلام، غم زدہ، محمد اسلم
مولانا کے مسترشد خاص جناب محمد یحییٰ صاحب کی حالت اس حادثہ کی وجہ سے اس قابل نہیں تھی کہ فوراً خط لکھتے۔ یکم جنوری کا لکھا ہوا ان کا والا نامہ ۱۵؍ جنوری کو ملا، وہ علالت و وفات کی تفصیل بیان کرنے کے بعد آخر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کیا عرض کروں؟ قیامت گزر گئی․․․․․․ اس احقر کا تعلق حضرت اقدس سے اٹھارہ (۱۸) برس سے تھا، حضرت والا کی جدائی کے صدمہ کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ غم اور دکھ دے رہا ہے․․․․․․ میرے دردِ دل کو آپ یقینا محسوس فرمائیں گے کیونکہ آپ سے تعارف کا ذریعہ بھی تو شیخ محروم ہی تھے، دفتر پابندی سے نہیں آرہا تھا، آج ذرا ہمت ہوئی ہے تو آپ کو خط لکھ رہا ہوں، آپ سے درخواست ہے کہ حضرت اقدس کے لیے خصوصی دعا فرمائیں آمین، فقط محمد یحییٰ‘‘۔
اﷲ تعالیٰ اپنے اس صاحب علم و معرفت بندے کو جنت الفردوس نصیب کرے اور اعزہ و متوسلین کے غم کو زائل فرمائے آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۱۹۹۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...