Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا نجم الدین اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا نجم الدین اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338334

Access

Open/Free Access

Pages

543

مولانا نجم الدین اصلاحی
۱۴؍ اگست کو حافظ مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی نے تقریباً ۹۴ برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
انھوں نے اپنے جدبزرگوار ملاقدرت علی مرحوم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنے گاؤں ہی کے ایک دوسرے بزرگ حافظ عبدالرحیم مرحوم کی خدمت میں رہ کر قرآن مجید حفظ کیا، مزید تعلیم مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں ہوئی، اس وقت مدرسہ میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحبِ تدبر قرآن اور مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم سابق مہتمم مدرسۃ الاصلاح بھی زیر تعلیم تھے۔ فارسی میں مولانا نجم الدین صاحب کی اچھی اور پختہ استعداد ان کے ہم وطن مولوی محمد مصطفےٰ صاحب کے فیض تلمذ کا نتیجہ تھی۔ جو مدرسۃ الاصلاح میں فارسی کے بہت اچھے اور لائق معلم تھے۔ اس زمانے میں مولانا شبلی متکلم ندوی مدرسۃ الاصلاح سرائمیر کے مہتمم تھے، وہ علامہ شبلیؒ کے تلمیذ رشید اور اس مجلس اخوان الصفاء کے ایک رکن تھے جو علامہ مرحوم کی وفات کے بعد ان کے ناتمام کاموں کی تکمیل کے لیے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ مولانا شبلی متکلم معقولات اور اسرار شریعت کی کتابوں کا درس اس شان سے دیتے تھے کہ طلبہ کو مطالب بخوبی ذہن نشین ہوجاتے تھے۔ مدرسہ کا معیارِ تعلیم بلند اور بہتر بنانے کے لیے ان کو دوبارہ مدرسہ کی خدمت کی زحمت دی گئی تو بڑھاپے میں بھی ان کے درس کا وہی رنگ رہا، اس کی شہادت مولانا نجم الدین صاحب نے اس طرح دی کہ وہ چپکے سے جنگلے کے پاس جاکر درس سنا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی، مولانا حکیم محمد لہراوی اور دوسرے اساتذہ سے بھی درسیات کی تکمیل کی، ۱۹۱۷؁ء میں جب مولانا حمیدالدین فراہیؒ دارالعلوم حیدرآباد کی پرنسپلی سے استعفا دے کر مدرسۃ الاصلاح کے بوریائے فقر پر فروکش ہوئے تو وہ اپنے نہج پر یہاں کے اساتذہ اور منتہی طلبہ کو قرآن مجید پڑھاتے تھے، مولانا نجم الدین صاحب ان کے درس میں شریک ہوتے اور حافظ ہونے کی بنا پر قرأت بھی کرتے تھے۔ اس وقت اس نواح کے ممتاز اور نامور عالم مولانا ماجد علی مانوی جونپوری کے درس حدیث کی بڑی شہرت تھی، مولانا نجم الدین صاحب اس سے فیضیاب ہوئے۔
رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے مدرسۃ الاصلاح میں تدریس کی خدمت انجام دی، وہ ہونہار اور ذہین طلبہ کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے تھے، جماعت اسلامی کے مشہور اہل قلم مولانا صدرالدین اصلاحی کی تربیت میں ان کا بڑا ہاتھ تھا، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی سابق امیر جماعت اسلامی ہند نے بھی ان سے بعض کتابیں پڑھی تھیں۔
۱۹۴۳؁ء میں وہ سدھاری اعظم گڑھ تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہورہے، مگر ۱۹۷۱؁ء میں کبرسنی کی وجہ سے وہ اپنے گھر ہی پر رہنے لگے۔
مولانا نجم الدین صاحب کا گھرانہ دیندار تھا اور خود ان کا رجحان بھی شروع سے صلحا و اتقیا کی جانب تھا، ان کے بچپن اور جوانی میں مولانا سید محمد امین نصیر آبادی اپنے اصلاحی و تبلیغی مشن کے سلسلے میں اعظم گڑھ تشریف لاتے تھے اور یہاں کے قصبوں اور دیہاتوں میں ان کا وعظ ہوتا تھا، اس کی وجہ سے یہاں ان کے ہزاروں معتقدین و مریدین تھے، راجہ پور سکروران کا خاص تبلیغی مرکز تھا اور وہ یہاں کئی کئی روز قیام کرتے تھے، مولانا نجم الدین صاحب ان کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ ’’یادگار سلف‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی جس کے پڑھنے سے آج بھی ایمانی حرارت پیدا ہوتی ہے، مولانا سید امین صاحب کی ذات گرامی ان کے لیے اس بنا پر بھی نہایت پرکشش تھی کہ وہ حضرت سید احمد شہیدؒ کے دودمان عالی سے تعلق رکھتے تھے جس کے ہرہر فرد سے وہ غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے، اپنی یہ کتاب اسی مقدس خانوادہ علم و ارشاد کے ایک قابل احترام بزرگ مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی ندوی سابق ناظم ندوۃ العلماء کے نام سے معنون کی تھی، مولانا سیدابوالحسن علی ندوی سے جو ان سے سن و سال میں چھوٹے تھے عقیدت و احترام کا یہی معاملہ تھا، مولانا بھی ان کا بڑا اکرام کرتے تھے اور اعظم گڑھ تشریف لاتے تو ان کے گھر بھی جاتے۔
مولانا نجم الدین صاحب دارالمصنفین سے بھی بڑا تعلق رکھتے تھے، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود علی ندوی اور تمام رفقائے دارالمصنفین سے ان کے اچھے تعلقات تھے، مولانا سید سلیمان ندوی کے علم و فضل کے بڑے معترف تھے، جب تک قوت رہی برابر دارالمصنفین تشریف لاتے رہے، انتقال سے چند برس پہلے مجھے خط لکھا کہ تم سے ملنے کا بہت جی چاہتا ہے لیکن میرے پیروں میں طاقت نہیں رہی، میں حاضر ہوا تو بڑی محبت و شفقت سے پیش آئے اور دو تین گھنٹوں کی صحبت میں ماضی کے اوراق الٹتے رہے۔
اس صدی کی چوتھی دہائی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے متکلمانہ اور دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے موثر مضامین نے بھی ان کو اپنی جانب مائل کیا، مولانا نے انہی کی دعوت پر سرائمیر کا سفر کیا اور ان کے گھر بھی تشریف لے گئے، اسی زمانے میں انھوں نے دلائل السنن و الآثار کے نام سے ایک اہم مضمون لکھا جو مولانا مودودی کے رسالہ ترجمان القرآن کے کئی نمبروں میں شائع ہوا اور بعد میں کتابی صورت میں بھی چھپا لیکن رفتہ رفتہ مولانا سے ان کے تعلقات کم ہوتے گئے اور وہ ان کی جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہنے لگے۔
مولانا نجم الدین صاحب کی عقیدت و نیاز کا اصل مرکز مولانا حمید الدین فراہیؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی تھے، جن کو تدین و تقویٰ اور سیرت و اخلاق میں وہ صحابہ کرام کا نمونہ کہتے تھے، اول الذکر ان کے استاد تھے اور ان کے زہدواتقا کی طرح علم و فضل کے بھی بڑے معترف تھے اور موخرالذکر سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا، ان دونوں بزرگوں کا ذکر کرتے تو ان پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی، ایک مرتبہ کہنے لگے ان دونوں سے زیادہ پاکیزہ اور حسین زندگی نہیں دیکھی۔
مولانا مدنی پر ان کے متعدد مضامین شائع ہوئے اور انھوں نے کئی برسوں کی محنت شاقہ کے بعد ان کے مکاتیب جمع کرکے اپنے مفید حواشی کے ساتھ چار جلدوں میں شائع کیا جو ان کا بڑا کارنامہ ہے، چند برس پہلے ان کی آخری کتاب ’’سیرت شیخ الاسلام‘‘ چھپی تھی، مولانا مدنی کی یادگار میں دیوبند سے ’’ماہنامہ تذکرہ‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کی ادارت انہی کو سپرد کی گئی۔
مولانا مدنی ؒبھی اپنے مسترشد کو بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی دعوت پر راجہ پور سکرور تشریف لاتے اور اہل قریہ اور قرب و جوار کے لوگوں کو مستفیض فرماتے، مولانا ہی کے ایما سے حکومت نے ان کا ماہانہ وظیفہ جاری کردیا تھا، وہ کہتے تھے کہ مجھے جب کبھی سدھاری چھوڑنے کا خیال ہوتا تو حضرت کا اشارہ نہ پاکر اپنا ارادہ تبدیل کردیتا تھا، یہ دعائے مدنی کا فیض ہے کہ اﷲ نے اس اچھے حال میں کردیا۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی ان کو خاص تعلق رہا، اور ان کے ایما سے مولانا روم کی رباعیات کا ایک انتخاب شائع کیا جس کے شروع میں ان کے حالات بھی فارسی میں لکھے تھے۔
ان کی بعض کتابیں رسائل و ذرائع کی کمی کی بنا پر تکمیل و اشاعت سے محروم رہیں، دلائل القرآن کے بعض حصے برہان دہلی میں شائع ہوئے، وہ تفسیر ابن جریر کا ملتقط بھی شائع کرنا چاہتے تھے، جس کا کچھ حصہ مجلہ الحج مکہ میں چھپا تھا، لیکن غالباً مکمل نہیں ہوسکا، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ استاذ امام مولانا فراہیؒ نے فرمایا تھا کہ تفسیر ابن جریر سے اگر ’’اولیٰ الاقوال عندی‘‘ کو جمع کردیا جائے تو ایک بہترین تفسیر ہوجائے گی۔
مولانا نجم الدین صاحب مدۃالعمر علم و دین کی خدمت اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، ان کی زندگی سادہ اور فقیرانہ تھی، صبر و قناعت کے خوگر اور حرص وطمع سے دور رہتے، دینی حمیت کی وجہ سے غیر مشروع اعمال و اشغال پر برہم ہوجاتے۔ جن چیزوں کو صحیح سمجھتے تھے ان کا اظہار بے باکی سے کردیتے اور حکمت و مصلحت اور موقع و محل کی پروانہ کرتے، زود رنج تھے، اختلاف رائے کو انگیز نہیں کرسکتے تھے۔ مزاج میں شدت و انتہاپسندی اور طبیعت میں طیش و اشتعال تھا اس لیے غصے میں بے قابو ہوجاتے اور اعتدال پر قائم نہیں رہتے، جو کچھ زبان پر آتا یہاں تک کہ ناروا اور ناگفتنی بھی کہہ دیتے تھے، تحریر بھی بے اعتدالی سے خالی نہیں ہوتی تھی، اس لیے اکثر لوگوں سے ان کی ان بن ہوجاتی تھی مگر خود ان کا غصہ دیرپا نہ ہوتا تھا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور بشری لغزشوں کو معاف کرے۔ (ضیاء الدین اصلاحی، ستمبر ۱۹۹۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...