Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید اخلاق حسین دہلوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید اخلاق حسین دہلوی
ARI Id

1676046599977_54338335

Access

Open/Free Access

Pages

544

مولانا سید اخلاق حسین دہلوی
افسوس گزشتہ ماہ مولانا سید اخلاق حسین دہلوی کی رحلت سے علم و ادب اور دلی کی تہذیب و شرافت کا ایک روشن نقش بھی مٹ گیا۔
وہ ۱۹۰۶؁ء میں دہلی کے ایک معزز سادات عالیات کے خاندان میں پیدا ہوئے، ان کے پردادا سید علی بغدادی محمد شاہ کے زمانہ میں بغداد سے دہلی تشریف لائے، ان کے پوتے اور مرحوم کے والد ماجد محمد ابراہیم حسین کا شمار دلی کے نامور شرفاء میں ہوتا تھا، سید احمد دہلوی صاحب فرہنگ آصفیہ ان کے رشتہ کے چچا تھے اور مولانا دہلوی کے بھائی حکیم سید حسین دہلوی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دلی کی تہذیب و معاشرت کے شاید آخری کامل نمونہ تھے۔ ان کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوا۔ پہلے عرب سرائے، دلی کے شرفاء کی قابل احترام ہستی تھی، گردشِ روزگار سے جب یہ اپنے مکینوں سے خالی ہوئی تو اس کے آثار و باقیات کو سخت حالات کے باوجود ان دونوں بھائیوں نے قائم رکھنے کی سعی کی اور اس کے قبرستان و مساجد کی تولیت ان ہی کے ہاتھوں میں رہی۔
خاندان کے علمی ماحول کے اثر سے سولہ برس کی عمر ہی میں مولانا اخلاق دہلوی کے قلم سے ایک کتاب نکلی۔ کچھ عرصہ تک انہوں نے میرٹھ کے قصبہ بڑوت کے ایک کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے، اسی زمانے میں انھوں نے درسیات کا سلسلہ شروع کیا جیسے مضمون نگاری، میزان سخن، خلاصہ مصباح القوا عداد رشمیم بلاغت وغیرہ۔ اردو کالج دہلی کے طالب علموں کی سہولت کے لیے مولانا امام بخش صہبائی کی کتاب حدائق البلاغت کی تلخیص روح بلاغت کے نام سے کی، یہ سب کتابیں مقبول ہوئیں اور طلبہ کے علاوہ عام اردو خواں طبقہ کو بھی اس سے فائدہ پہنچا، مولانا کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا موضوع خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے سوانح اور مشائخ چشت کے ملفوظات ہیں۔ حضرت امیر خور و سید محمد کرمانی کی سیرالاولیاء میں الحاق و تحریف کا احساس اہل نظر کو تھا لیکن حقایق سے روشناس کرانے کی سعادت علامہ مرحوم کے حصہ میں آئی اور اہل علم نے اسے نگاہِ تحسین سے دیکھا، بعد میں انہوں نے حیات طیبہ حضرت محبوب الٰہی کے نام سے ایک کتاب لکھی جو مستند ہونے کے علاوہ مولف کے جذبہ، خلوص اور شائستہ و شستہ انداز تحریر کا نمونہ ہے، اس میں ایک جگہ انہوں نے سیرالاولیاء کے متعلق لکھا کہ ’’اسلوب بیان سبحان اﷲ کیسا سادہ پُروپکار ہے کہ داد نہیں دی جاسکتی، طرز ادا شائستہ اور بیان سلجھا ہوا ہے، روانی اور بے ساختگی سے مالا مال، مطالب کا یہ عالم ہے کہ مونہہ سے پڑے بول رہے ہیں جملے موتیاں کی لڑیاں اور لفظ ڈھلکتے ہوئے موتی ہیں ، معرفت کی رنگ آمیزی سے اسلوب کا رنگ جو چہا اٹھا ہے‘‘۔ حق یہ ہے کہ یہی تعریف ان کی کتاب پر بھی صادق آتی ہے، پوری کتاب ایسے ہی حسین اور دلکش جملوں سے آراستہ ہے۔ مثلاً ایک جگہ امیر التبلیغ مولانا محمد یوسف کے متعلق لکھا کہ ’’ـنفوذ وہبی کا یہ عالم ہے کہ کڑ سے کڑ بھی دو چار ملاقات میں گرویدہ ہوجاتا ہے‘‘۔ ایک جگہ سجادہ نشین و آستانہ نشین کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ـخلاصہ کلام یہ ہے کہ سجاد نشینی اور آستانہ نشینی میں زمین و آسمان کا فرق ہے بلکہ وہی فرق ہے جو نانی اور جانی میں ہے، سجادہ نشین فرزند جانی ہوتا ہے، دونوں میں امتیاز نہ کرنا کھلا جہل ہے‘‘۔ اس کتاب کے حواشی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو دلی کے قدیم خانوادوں کو تاریخ پر کس درجہ عبور حاصل تھا۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ’’آئینہ ملفوظات‘‘ ہے، خواجگان چشت کے ملفوظات کے متعلق جب ایک حلقہ میں یہ بحث شروع ہوئی کہ وہ جعلی و الحاقی ہیں تو وہ کبیدہ خاطر ہوئے اور پھر معارف ۷۹؁ء کی کئی قسطوں میں انھوں نے ’’مطالعہ ملفوظات خواجگان چشت کے مبادیات‘‘ کے نام سے ایک بلند پایہ تحریر سپرد قلم کی، بعد میں یہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی ان کے علم و مطالعہ حسن استدلال اور زبان و بیان کی صفائی کا یہ بہترین نمونہ ہے، خود ان کو بھی اس کا احساس تھا کہ ’’اگرچہ معاندین کے تحقیر آمیز اشتعالک پیدا کرسکتے تھے لیکن میں نے دلی کی قدیم تہذیبی روایات کو سر رشتہ ہاتھ سے چھوڑا نہیں اور ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیا، یہی آئین تصوف کا اقتضاء بھی ہے‘‘۔
آخر عمر میں انہوں نے ’’ویدک دھرم اور اسلام‘‘ کے نام سے ایک مختصر کتاب لکھی، اس میں انہوں نے ویدک دھرم کے آسمانی مذہب ہونے اور ویدوں اور شاستروں کی تاریخی و مذہبی حیثیت پر دلچسپ بحث کی، معارف میں تبصرہ کے لیے یہ کتاب آئی لیکن افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں اس پر تبصرہ نہیں آسکا۔
معارف اور دارالمصنفین کے وہ قدرداں تھے اور محبت کا تعلق رکھتے تھے، ایک بار ایک خط میں بڑی اپنائیت سے لکھا کہ ’’معارف کی کتابت و طباعت کا وہ معیار نہیں رہا جو تھا، کاتب صاحب احتیاط سے کام لیں، قلم جما کر لکھیں اور اشکال صحیح بنائیں، نوک پلک کا بھی خیال رکھیں، مشین میں صاحب روشنائی میں وارنش کی آمیزش گوارا کریں تو معیار پر آجائے گا، بقول مہدی افادی پیکر جمیل بہ لباس حریر ہی دل کو بھاتا اور لبھاتا ہے‘‘۔
اب دلی کی ٹکسالی منجھی اور صاف زبان لکھنے والے ایک ایک کر کے رخصت ہوگئے، مولانائے مرحوم ان کی آخری یاد گار تھے۔ ان کو دیکھنے والے ان کی تہذیب و شرافت، زندہ دلی اور مجسم اخلاق ہونے کے گواہ ہیں۔
۴۷ ؁ء کی غارت گری کے زمانہ میں ان کا کل اثاث البیت لٹ گیا، گھر پر غیرہی قابض ہوگئے، لیکن جس سرمایہ کے لٹنے کا غم ان کو آخر تک رہا وہ انکے بزرگوں کا اندوختہ اور صدیوں کے بیش بہا نوادر کا ذخیرہ اور ان کی زندگی کا آسرا ان کا کتب خانہ تھا، یہ ایسا برباد ہوا کہ پھر ایک پرزہ بھی دستیاب نہ ہوسکا۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی روح پر اپنے فضل و کرم کی ردائے خاص کا سایہ کرے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اکتوبر ۱۹۹۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...