Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر رشید الظفر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر رشید الظفر
ARI Id

1676046599977_54338337

Access

Open/Free Access

Pages

545

پروفیسر رشید الظفر مرحوم
گزشتہ ماہ یہ افسوسناک خبر ملی کہ جامعہ ہمدرد دہلی کے لائق وائس چانسلر پروفیسر رشید الظفر کا انتقال ایک حادثہ میں ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ سعودی عرب کے سفر پر تھے، جہاں ریاض اور ظہران کی شاہراہ پر ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور اس طرح یہ سفر ان کے لیے سفرِ آخرت بن گیا۔
وہ مسلم یونیورسٹی کے قابل فخر طالب علم تھے، ان کے والد پروفیسر حفیظ الرحمن بھی اسی یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ممتاز اساتذہ میں تھے، انہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، خاص مضمون اسٹرکچرل انجینئرنگ تھا، اس میں بیرون ملک کی دانش گاہوں سے بھی استفادہ کیا اور اعلیٰ سندیں حاصل کیں، معلم و متعلم کی حیثیت سے ان کی زندگی قابل رشک اور مثالی رہی، صرف ۳۱ سال کی عمر میں وہ مسلم یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے پروفیسر ہوگئے، بعد میں انہوں نے اس موضوع پر بین الاقوامی شہرت و مقبولیت حاصل کی، چنانچہ ظہران کی پیٹرولیم یونیورسٹی میں جہاں عالم اسلام کے ممتاز ترین ماہرین فن کو یکجا کرنے کی سعی کی جاتی ہے ان کا بحیثیت پروفیسر تقرر ہوا اور وہاں انہوں نے برسوں نہایت خوبی سے تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیے، چند برس قبل جب دہلی میں ہمدرد یونیورسٹی کی شکل میں محترم جناب حکیم عبدالحمید دہلوی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا تو حکیم صاحب کی جو ہرشناس نگاہ ان پر پڑی اور وہ اس جامعہ کی وائس چانسلری کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اپنی جانکاہی و جاں سوزی، خاموش خدمت اور مسلسل جہد و عمل سے نہایت قلیل مدت ہی میں بڑی نیک نامی حاصل کی، اپنی مادر علمی مسلم یونیورسٹی کے اعلیٰ مقاصد سے ہمیشہ خاص ربط و تعلق رکھا اور جب بھی اس پر کوئی آنچ آئی تو وہ سینہ سپر ہوگئے، ۷۲؁ء میں مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے جب اس کے بنیادی کردار کو ختم کرنے کی سازش کی گئی تو انہوں نے نہایت وقا و پامردی سے اس کی مخالفت کی، پاداش میں وہ زیر عتاب بھی آئے لیکن بالآخر کامیاب و کامران ہوئے، دوسرے معاملات میں بھی ان کا یہی حال تھا، انہوں نے ذاتی مفاد و حصول منفعت کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو قربان کرنا کبھی پسند نہیں کیا مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے برابر سرگرم عمل رہتے تھے اور اس سلسلہ میں ہر تعلیمی و علمی ادارہ کے متعلق باخبر اور فکر مند رہتے تھے۔
دارالمصنفین کے قدرداں تھے، اس ادارہ سے جناب حکیم عبدالحمید کے دیرینہ تعلق اور اس کے مسائل سے ان کے شغف کی وجہ سے بھی وہ یہاں کے ذمہ داروں سے نہایت خلوص و محبت سے پیش آتے، ایک مرتبہ اس کو دیکھنے لیے تشریف لائے تو بہت مسرور ہوئے۔
بڑے عہدوں پر فائز ہونے، بین الاقوامی شہرت کے حامل ہونے اور بے شمار علمی اعزازات پانے کے باوجود وہ علمی پندار اور احساس تفوق میں مبتلا نہ ہوئے، ان کے حسن اخلاق، جذبہ ایثار و ہمدردی اور پاکیزہ نفسی کا تاثر ہی دلوں پر قائم ہوتا رہا، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو قبول فرمائیں اور اپنے جوار رحمت کی نعمت سے سرفراز فرمائیں۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، دسمبر ۱۹۹۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...