Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر منظور حسین شورؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر منظور حسین شورؔ
ARI Id

1676046599977_54338340

Access

Open/Free Access

Pages

547

پروفیسر منظور حسین شورؔ 
(ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان)
شور صاحب (اﷲ بخشے) میرے دیرینہ کرم فرما تھے۔ ان کا بچپن کا نام منظور علی تھا جیسا کہ میں نے ان کے مکان پر ایک کتاب میں لکھا ہوا دیکھا تھا۔ بعد میں ان کا نام منظور حسین ہوا۔ دوھیال ایچپور کی تھی اور ننھیال اکولہ کی تھی۔ یہ دونوں شہر برار میں ہیں، وہ امراؤتی (برار) کی شہر پناہ کے ناگپوری دروازے کے قریب ایک آبادی میں جو سادات کی تھی دسمبر ۱۹۱۰؁ء میں پیدا ہوئے۔ والدضامن علی صاحب جو بعد میں کراچی آکر ۱۹۶۸؁ء میں فوت ہوئے، تھانیدار تھے۔ بہت سیدھے سادے تھے، امراؤتی میں بارہا ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا تھا، شور صاحب کی ابتدائی تعلیم امراؤتی ہی کے محمڈن اسکول میں ہوئی، اس زمانے میں میٹرک کی گیارہویں جماعت ہوا کرتی تھی، یہ اسکول جس کا نام اب تبدیل کردیا گیا ہے مال ٹیکری کے قریب ہے۔ اور اب اس ٹیکری پر شیوا جی کا مجسمہ نصب کردیا گیا ہے۔ شور صاحب نے ۱۹۲۸؁ء میں وہاں سے میٹرک پاس کیا۔ پھر علی گڑھ تشریف لے گئے۔ وہاں میرس ہوسٹل میں ان کا قیام تھا۔ ناگپور کے مونس حسین ان کے خاص دوست تھے، علی گڑھ کے انٹرمیڈیٹ کالج میں اس وقت نویں دسویں گیارہویں اور بارہویں جماعتیں تھیں، میرس ہوسٹل، ارون سرکل یانیوسرکل کے چار ہوسٹلوں میں سے ایک تھا۔ اس کے علاوہ منٹو سرکل میں ان طلبہ کے لیے چار ہوسٹل تھے اور وہاں دو ہوسٹلوں (اے۔بی) میں تعلیم بھی ہوا کرتی تھی۔ ڈے اسکالر اور سیمی بورڈ ان کے علاوہ تھے۔ مولانا احسن مارہروی مرحوم کی وجہ سے طلبہ میں شعر و شاعری کا ذوق زیادہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ طرحی مشاعرے بھی منعقد کراتے تھے اور کل ہند مشاعرے بھی انہی کے دم سے قائم ہوئے تھے۔ شور صاحب کی شاعری کا شور اسی زمانے میں ہوا اور مولانا مرحوم ان کی شاعری سے بہت خوش تھے۔ اس زمانے میں شور صاحب کی یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔
دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے ہم فریبِ زندگی میں آ گئے
نظم بھی اسی زمانے میں انہوں نے شروع کی تھی اور اکثر شعر گوئی میں مصروف رہتے تھے ۱۹۳۰؁ء میں انہوں نے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ پھر بی اے اور ایم اے (فارسی) نیز ایل ایل بی کے زمانے میں وہ کچی بارک میں رہنے لگے تھے، اسی کو پختہ ہونے کے بعد S.M.EAST ہوسٹل کہا جاتا تھا، اسی ہوسٹل میں ریاست ریواں کے اختر حسین نظامی (جو بعد میں تاریخ کے پروفیسر ہوئے) اور سیہور (ضلع جبل پور، کے غلام احمد انصاری بھی شور صاحب کے احباب میں سے تھے ۱۹۳۴؁ء کے شروع میں سی پی گورنمنٹ کے ہوم منسٹر رگھوندرا راؤ کے ساتھ ناگپور کے نواب صدیق علی خاں مرحوم علی گڑھ تشریف لائے تو وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے ان کی دعوت کی اور سی پی دبرار کے طلبہ کو بھی مدعو کیا۔ شور صاحب اور تامدار خان صاحب ان طلبہ میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔
۱۹۳۴؁ء ہی میں شور صاحب نے ایم اے فائنل (فارسی) کا امتحان دیا۔ اسٹریچی ہال میں امتحان تھا اور ساتھ ہی بی اے فارسی کا امتحان بھی وہیں تھا۔ ایم اے کے پرچے کا رنگ نیلا ہوتا تھا اور بی اے کے پرچے کا رنگ سبز ہوتا تھا۔ ایم اے کے پرچے میں اخلاق جلالی اور چہار مقالہ کے اقتباسات ترجمہ و تشریح کے لیے تھے اور انہی دونوں کتابوں کے کچھ اقتباسات بی اے کے پرچے میں بھی تھے۔ شور صاحب نے بی اے کا پرچہ لے لیا اور تین گھنٹے تک اسی کو حل کرتے رہے، وقت ختم ہونے پر غلام احمد مدنی صاحب کے ساتھ راقم الحروف بھی شور صاحب کے پرچے کے متعلق پوچھنے گیا، ان کے ہاتھ میں بی اے کا پرچہ تھا، ہم سب گھبرا گئے کہ اب کیا ہوگا غلام احمد مدنی صاحب فوراً اپنے والد نواب محمد اسمٰعیل خاں صاحب کے پاس دوڑتے گئے۔ نواب صاحب اس زمانے میں وہاں ٹریزرر (خازن) تھے۔ وہ بنفس نفیس تشریف لائے اور شور صاحب کو ہال کے اندر لے جا کر ایم اے کا پرچہ دیا، کھانا کھلایا تسلی دی۔ اس طرح انہوں نے ایم اے کا پہلا پرچہ حل کیا۔
۱۹۳۴؁ء میں شور صاحب ایم اے (فارسی) پاس کر کے وطن پہنچے۔ اس وقت کسی کالج میں جگہ خالی نہیں تھی۔ اس لیے ناگ پور کے انجمن اسلامیہ اسکول میں مدرس ہوگئے اور قریب ۳ سال تک وہیں رہے۔ اسی زمانے میں انہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے ایک ایم اے اور پاس کیا۔ راقم الحروف ان سے ایک سال پیچھے تھا۔ ۱۹۲۵؁ء میں فارسی میں اور ۱۹۳۶؁ء میں اردو میں (ایل ایل بی بھی) علی گڑھ سے ایم اے پاس کر کے اپنے وطن جبل پور واپس ہوا۔ چند ماہ کے بعد پبلک سروس کمیشن نے کنگ ایڈورڈ کالج امراؤتی (برار) میں اردو کے استاد کے لیے اشتہار دیا۔ اس زمانے میں ۲۵ سال عمر کی سخت قید تھی کمیشن نے انٹرویو کے لیے مجھے طلب کیا لیکن شور صاحب کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو طلب نہیں کیا ۱؂ جولائی ۱۹۳۷؁ء میں میرا تقرر ہوگیا۔ پھر جب کانگریس کی ڈھائی سالہ حکومت قائم ہوئی تو شور صاحب کے والد صاحب کے ایک دوست ڈاکٹر پٹ وردھن ۲؂ کی کوشش سے ۱۹۳۸؁ء میں ان کو Morris College میں فارسی کا لکچرر بنادیا گیا۔
راقم الحروف کنگ ایڈورڈ کالج میں تھا۔ قریب ڈھائی سال کے بعد ناگپور یونیورسٹی نے مجھے صدر شعبۂ اردو بنادیا۔ پھر جب ۱۹۴۳؁ء میں سید رفیع الدین صاحب مارس کالج میں عربی کے لکچرر ہوئے تو شور صاحب کے ساتھ ہم لوگ ’’اتحاد ثلاثہ‘‘ کی حیثیت سے یونیورسٹی کے مرہٹہ اور ہندی کے دو گروپ کے لیے Balancing Power بن گئے اور اﷲ کی شان کہ دونوں گروپ ہم لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ۱۹۴۴؁ء میں شور صاحب کا تبادلہ مارس کالج ناگپور سے کنگ ایڈورڈ کالج ہوگیا۔ وہاں کالج کے ایک بنگلے میں ان کا قیام تھا۔ اپنے والد صاحب سے ملنے کے لیے وہ شہر گئے ہوئے تھے۔ بچے بھی ساتھ تھے چوروں نے موقع پا کر تمام قیمتی سامان غائب کردیا اور بڑے اطمینان کے ساتھ کھانا پکایا اور چائے بنا کر پیتے رہے۔ بڑا افسوس ہوا۔
کالج میں ہر سال بڑے پیمانے پر ادبی موضوع پر مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ کالج کے اساتذہ اور شہر کے وکلاء بھی حصہ لیتے تھے۔ سالانہ مشاعرہ بھی منعقد ہوتا تھا۔ باہر سے کسی بڑے شاعر کو دعوت دی جاتی تھی۔ کالج کے طلبہ بھی معمول کے مطابق کچھ اپنی غزلیں کچھ غیر معروف شعراء کی غزلوں میں اپنا تخلص ڈال کر سُنایا کرتے تھے۔ لوگ حسب معمول بغیر سمجھے ہوئے واہ واہ واہ کرتے تھے۔ لیکن اچھا خاصہ اجتماع ہوجاتا تھا۔ پھر شور صاحب کے آجانے سے اس اجتماع میں اضافہ ہونے لگا۔ وہاں دسمبر کے آخری ہفتے میں قدیم اور موجودہ طلبہ بھی جمع ہوتے تھے وہ Reunion Days کہلاتے تھے۔ مختلف کھیلوں اور تقریبوں میں وہ سب شرکت کرتے تھے اور مختلف زبانوں میں تقریریں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یعنی ہندی، اردو، مرہٹی اور سنسکرت میں طلبہ تقریر کرتے تھے۔ شور صاحب سے کہا گیا کہ فارسی میں طلبہ سے تقریر کرائیں۔ وہ فکر مند ہوئے۔ میں نے کہا کہ آپ کچھ فکر نہ کریں۔ میں انتظام کیے دیتا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ تقریروں کے لیے جج صاحبان ایسے ہوں گے جو عربی اور فارسی سے بالکل نابلد ہوں گے۔ میں نے طلبہ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ تم کو قرآن پاک کی کتنی کتنی سورتیں یاد ہیں؟ چار پانچ طلبہ ایسے تھے جن کو دس دس بارہ بارہ سورتیں یاد تھیں، میں نے کہا کہ ہال میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر سورتیں پڑھ دینا۔ جج صاحبان آئے۔ طلبہ نے اسی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر سب کو خطاب کرتے ہوئے سورتیں پڑھنی شروع کیں۔ تمام سامعین ہنستے رہے اور قہقہوں سے ہال گونج اٹھا۔ جج صاحباں مجھے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے۔ میں نے کہا کہ بعد میں بتاؤں گا۔ بہر حال ان طلبہ کو انعامات ملے اور جج صاحبان نے ان کی ’’فاضلانہ‘‘ تقریروں پر داد بھی دی۔
۱۹۴۷؁ء میں مجھے کنگ ایڈورڈ کالج سے مارس کالج ناگپور بھیج دیا گیا، تقسیم ہند سے جو قیامت برپا ہوئی وہ چنگیز اور ہلاکو کی سفاکی سے بھی زیادہ ہوگی، بے شمار جانیں بھینٹ چڑھ گئیں۔ پشتہاپشت کی میراث یک لخت چھوڑنی پڑی۔ سی پی اور برار میں تباہی کم ہوئی تھی، لیکن دوسری جگہوں کے خونچکاں واقعات سن کر وہاں کے مسلمان بھی خائف ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں اس صوبے کو چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ بہت سے لوگ حیدرآباد (دکن) چلے گئے۔ وہاں ان کی معاش کے ذرائع بہم پہنچائے گئے اور وہاں کے امرا نے مہاجروں کے قیام و طعام کا بہت معقول انتظام کیا۔ جو لوگ پاکستان آنا چاہتے تھے وہ بمبئی پہنچنے لگے۔ وہاں کے مسلمانوں نے بھی دل کھول کر مہمان نوازی کی اور ہر طرح کا آرام پہنچایا۔ راقم الحروف کے دو بچے بڑے بھائی صاحب کے ساتھ کراچی آچکے تھے۔ اس لیے مجھے بھی کالج سے رخصت لے کر (اہلیہ اور شیر خوار بچے کے ساتھ) کراچی کا رخ کرنا پڑا، ۷؍ نومبر کو وہاں پہنچا ۲۴؍ نومبر کو بچہ فوت ہوگیا اور ۲۸؍ نومبر کو اس کی والدہ بھی چل بسیں۔ ناگپور سے پروفیسر رفیع الدین صاحب نے مجھے لکھا کہ واپس ناگپور آجاؤ اور مارچ تک کام کر کے اپریل سے تین ماہ کی تعطیل میں کراچی چلے جانا۔ ان کے اصرار پر دسمبر میں ہوائی جہاز سے بمبئی پہنچا اور وہاں سے ریل میں ناگپور پہنچ گیا۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں جو چھٹیاں ہوئیں تو میں حیدرآباد (دکن) چلا گیا۔ وہاں میرے بہت سے اعزا تھے۔ ایک دن بازار سے گزرا تو وہاں شور صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں ان کو جگہ مل گئی تھی۔ لیکن بقول ان کے ’’وہاں میں نے ابھی پڑھایا بھی نہیں تھا، ایک سیشن پورا کہ fall ہوگیا‘‘۔ ۳؂ یہ ۱۹۴۹؁ء کا واقعہ ہے سقوط حیدرآباد کے بعد وہ امراؤتی واپس آئے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد کراچی پہنچ گئے۔ وہاں کوئی مناسب جگہ نہیں تھی تو پرنسپل تاج محمد خیال نے زمیندار کالج گجرات میں ان کو فارسی کا سینئر لکچرر مقرر کرادیا۔ قریب ڈیڑھ سال کے بعد اسلامیہ کالج لائل پور فیصل آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر (فارسی)مقرر ہوئے، ۱۹۵۱؁ء میں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے پاس کیا اور فیصل آباد کے کالج میں انگریزی بھی پڑھائی۔ ایک سال کے بعد ۱۹۵۲؁ء میں گورنمنٹ کالج لائل پور میں فارسی کے پروفیسر بنادیے گئے۔ لیکن ۱۹۶۱؁ء میں جب اس کالج میں ایم اے (اردو) کا شعبہ قائم ہوا تو اردو اور فارسی کے شعبے میں صدر بنادیے گئے اور ۱۹۶۹؁ء میں ریٹائر ہو کر کراچی واپس آگئے۔ ۲؍ جولائی ۱۹۹۴؁ء کو ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا اور پانچ دن کے بعد۷؍ جولائی کو ان کی وفات ہوئی۔ شور صاحب جب گجرات اور فیصل آباد میں تھے تو حیدرآباد کے مشاعروں میں شرکت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ یہاں حافظ مبارک علی مرحوم کے مکان میں ان کا قیام رہتا تھا لیکن مجھ سے ملنے کے لیے یونیورسٹی میں ضرور قدم رنجہ فرماتے تھے۔ ۴؂
یہاں تک تو ان کے عام حالات عرض کیے گئے۔ ان کے بچپن اور نو عمری کی چند باتیں بھی عرض کرنا بے محل نہ ہوگا۔ وہ بہت نازک اندام اور نازک مزاج تھے۔ ذرا میں خوش اور ذرا میں ناراض ہوجاتے تھے۔ اپنے بچپن کے دوست عبدالرحمن خالدی (جو بعد میں علی گڑھ میں کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہوئے) اور علاؤالدین قاضی (جو بعد میں امراؤتی کے مشہور وکیل ہوئے) ان سے دور ہوگئے تھے۔ کالج میں بھی پروفیسر سنہا (جونیر) ان سے گھبراتا تھا۔ وہ نہایت خلوص اور محبت سے باتیں کرتے کرتے شعر گوئی میں استغراق کی وجہ سے ایک دم خاموش ہوجاتے تھے۔ عزیزی ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ۱۹۸۴؁ء میں ان کے متعلق لکھا تھا کہ ’’پروفیسر منظور حسین شور اپنی شخصیت اور زندگی کی ظاہری صورتوں میں نہ صرف اپنے گردوپیش سے بلکہ کبھی کبھی اپنی ذات و صفات سے بھی لاتعلق سے معلوم ہوتے ہیں، وہ کسی عالم میں بھی ہوں عموماً اپنے ہی عالم میں رہتے ہیں۔ چنانچہ بھری محفل میں اکثر تنہا نظر آتے ہیں․․․․․․‘‘
شور صاحب نے بچپن ہی میں شاعری (بلکہ عاشقی) شروع کی تھی، موسیقی بھی سیکھی تھی۔ خوب لکھتے تھے اور خوب پڑھتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مشاعروں میں وہ کئی کئی گھنٹے اپنا کلام زبانی سُناتے تھے۔ ملک کے مختلف شہروں کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور نیاز فتح پوری کے رسالۂ نگار کے لیے اپنی غزلیں اور نظمیں برابر بھیجا کرتے تھے۔ ان کے کلام کے مجموعے یہ ہیں۔
نبض دوراں (۱۹۵۹؁ء)، دیوارابد (۱۹۶۹؁ء)، یہ مجموعہ انہوں نے راقم الحروف کے نام (اقبال کے ایک شعر کے ساتھ) معنون کیا تھا۔ سواد سیم تنان (۱۹۸۳؁ء)، صلیب انقلاب (۱۹۸۵؁ء)، میرے معبود (طویل نظم ۱۹۸۴؁ء)۔
زیر طبع مجموعے:
حشر مرتب (غزلیات)، ذہن و ضمیر (رباعیات)، ۵؂ انگشت نیل (تنقید)، افکار و اعصار (نثری ادب)، اندر کا آدمی (نفسیاتی مضامین)․․․․․․․
اﷲ بخشے عجیب خوبیاں تھیں․․․․․․․
ان کا ایک ہی خط محفوظ رہ گیا ہے۔ اس کا عکس پیش کیا جاتا ہے۔
۹۱۷؍ ۲۴ فیڈرل بی ایریا، کراچی
۳۰؍ دسمبر ۱۹۸۴؁ء
برادر محترم ڈاکٹر صاحب زاد الطافکم
اسلام علیکم!
ماسٹر عثمان صاحب کی وساطت سے نگارش عالیہ ’’ہمارا علم و ادب‘‘ کی ایک جلد موصول ہوئی، ایک شخص نے میرے مطبوعہ تین شعری مجموعات سے جمالیاتی مزاج کی منظومات کو ایک جگہ جمع کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ اس کتاب میں آتش کی جوانی سے لے کر کل تک جمالیاتی مزاج کی نظمیں بڑی تعداد میں ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں، ہر چند یہ نگارش اس قابل نہیں کہ آپ کو پیش کی جائے، تاہم ع ہر کہ خواند دعا طمع دارم کہتے ہوئے ’’سوادسیم تناں‘‘ کی ایک جلد ارسال خدمت کررہا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کو صحت اور درازی عمر عطا فرمائے، آمین۔ آپ کا بھائی، منظور حسین شورؔ
( فروری ۱۹۹۵ء)

۱؂
+گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد)میں شور صاحب ۱۹۶۹؁ء میں (یعنی ۶۰ سال کی عمر میں) ریٹائر ہوئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سرٹیفیکٹ میں ان کی عمر کیا رہی ہوگی۔
۲؂
)شور صاحب نے کسی موقع پر اشتارے وکیل کو اپنا ہمدرد کہا ہے طلوعِ افکار کے مخاطبے میں نسیان کی وجہ سے کئی باتیں انہوں نے صحیح نہیں کہیں۔ اس وکیل نے مسلمانوں کے خلاف مرہٹوں کی فوج ۱۹۳۹؁ء میں تیار کی۔ اس کا سردار خود بنا۔ گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس کی بیوی نے اس کی پوجا کی اور اسے رخصت کیا۔ دور سے ایک مسلمان بڑے میاں نے رسی کی منجنیق سے ایک پتھراس کی ناک پر رسید کیا تو وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی فوج بھاگ گئی۔
۳؂
Mطلوع افکار، کراچی، جولائی ۱۹۹۴؁ء، ص ۱۷
۴؂
راقم الحروف کراچی آکر ۱۹۴۸؁ء میں اسلامیہ کالج میں اور ۱۹۵۰؁ء سے ۱۹۵۶؁ء تک اردو کالج میں (اور یونیورسٹی کی بھی ایم اے کلاس) پڑھاتا رہا۔ پھر ۱۹۵۶؁ء سے ۱۹۷۲؁ء تک سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہا۔ ریٹائر ہونے کے بعد چار سال کی توسیع ملازمت بھی ہوئی۔
۵؂
ýمحترم ڈاکٹر مختار الدین احمد صاحب نے ہماری زبان (دہلی ۱۵ نومبر ۱۹۹۴؁ء) میں ’’کچھ داغ اور بجھے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شایع کیا ہے جس میں شور مرحوم کی تصانیف کا بھی ذکر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذہن و ضمیر ان کی آخری کتاب ہے جو ۱۹۹۱؁ء میں شایع ہوگئی ہے۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...