Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا انعام الحسن کاندھلوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا انعام الحسن کاندھلوی
ARI Id

1676046599977_54338342

Access

Open/Free Access

Pages

550

مولانا انعام الحسن کاندھلوی مرحوم
امیرالتبلیغ مولانا انعام الحسن کاندھلوی شنبہ ۱۰؍ جون بروز عاشورہ محرم اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
اس دور قحط الرجال میں ان کی وفات قوم و ملت کا بڑا جانکاہ حادثہ ہے، وہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر کی مردم خیز بستی کے صدیقی شیوخ کے اس مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس میں کئی پشتوں سے اہل علم و فضل اور اصحاب رشد و ہدایت پیدا ہوتے رہے ہیں، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نامور و محبوب شاگرد مفتی الہٰی بخش اسی خاندان کے جد امجد تھے، اس خانوادے کے افراد حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد و احیائے اسلام میں بھی پیش پیش رہ چکے ہیں، علم و عمل کی اسی جامعیت اور بلند نظر و علوئے ہمت کی خاندانی روایت نے اس خاندان کو مولانا محمد الیاسؒ اور ان کے صاحبزادے مولانا محمد یوسفؒ کے سے داعیان حق بخشے جو اسلام کی تبلیغ و اشاعت، خلوص و ﷲیت اور تقویٰ و بے نفسی میں نمونہ سلف صالحین تھے۔
مولانا انعام الحسن صاحب مرحوم نے مولانا محمد الیاسؒ کے دامن عاطفت میں تربیت پائی، ان کے والد مولوی اکرام الحسن صاحب مرحوم نے جو مولانا الیاسؒ کے حقیقی بھانجے تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی سند حاصل کی تھی، وہ ایک کامیاب وکیل تھے، لیکن اس پیشہ کو ترک کر کے انہوں نے مدرسہ مظاہر العلوم کی خدمت کو اپنا مشغلہ بنالیا، مولانا انعام الحسن صاحب ان کے اکلوتے صاحبزادے تھے یہ ۱۹۱۸؁ء میں پیدا ہوئے اور خاندانی روایت کے مطابق پہلے کمسنی ہی میں قرآن مجید حفظ کیا اور اسی کمسنی میں وہ اپنے والد کے ہمراہ دلی، مولانا الیاسؒ کی خدمت میں آگئے، اپنے مربی سے مشکوٰۃ اور مولانا احتشام الحسن کاندھلوی مولف حالات مشائخ کاندھلہ سے جلالین پڑھی، پھر مظاہر العلوم کے اساتذہ خصوصاً شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا سے صحاح اربعہ کا درس لیا، مولانا محمد یوسفؒ شروع سے ان کے ہم درس رہے، مظاہر العلوم سے واپسی کے بعد دونوں حضرات نے صحاح ستہ کی باقی کتابیں ابن ماجہ اور نسائی نیز اور کتب حادیث مولانا محمد الیاسؒ سے پڑھیں، جن سے بیعت و دارادت کا تعلق بھی تھا۔ مظاہر العلوم کی طالب علمی کے زمانے ہی میں دونوں رفیقان درس کی شادی شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کی صاحبزادیوں سے ہوئی۔
مولانا انعام الحسن صاحب دلی میں بنگلہ والی مسجد کے مدرسہ میں تدرس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ اپنے مربی و مرشد کی تحریک اصلاح و تبلیغ سے وابستہ رہے، مولانا محمد الیاسؒ جب دیار عرب میں اپنی تحریک کو وسعت دینے کی غرض سے ۱۹۳۷؁ء میں سفر حج پر روانہ ہوئے تو ان کے مختصر قافلہ میں یہ بھی شامل تھے، مولانا الیاس صاحب کو ان کی صلاحیت و اہلیت پر اس قدر اعتماد تھا کہ وفات کے وقت انہوں نے جن چند حضرات کے نام امارت کے لیے تجویز کیے ان میں مولانا انعام الحسن کا نام بھی تھا، ان کی معاملہ فہمی اور اصابت رائے کے سب ہی لوگ معترف تھے اسی لیے مولانا محمد یوسفؒ صاحب جب جماعت کے امیر منتخب ہوئے تو وہ ان کے مشوروں سے پورا فائدہ اٹھاتے رہے اور تبلیغی اسفار میں بھی انہیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور جب آخر میں مولانا یوسفؒ نے پاکستان کا سفر کیا جو ان کا سفرِ آخرت بھی ثابت ہوا تب بھی مولانا انعام صاحب ان کے ساتھ تھے، مرض الموت میں مولانا یوسفؒ نے فرمایا کہ ’’بھائی ہماری منزل تو پوری ہوچکی‘‘ یہ سن کر مولانا انعام الحسن صاحب نے فرمایا کہ ’’ابھی کہاں ابھی تو آپ کو چین، روس، امریکہ وغیرہ میں اسلام پھیلانا ہے‘‘۔ اس پر مولانا یوسفؒ نے کہا کہ ’’پالیسی مکمل ہوچکی، اب کرنے والے کرتے رہیں گے‘‘۔ ممکن ہے یہ اشارہ غیبی رہا ہو کہ اب یہ بڑی ذمہ داری ان پر آنے والی ہے جو کوئی آسان کام نہیں تھا، مگر اس عالمگیر تحریک کی قیادت کے لیے جو علمی و عملی اوصاف و کمالات ناگزیر تھے وہ مولانا انعام صاحب میں بھی بدرجہ اتم موجود تھے اسی لیے مولانا یوسفؒ صاحب کی جانشینی اور تبلیغی جماعت کی امارت کے لیے لوگوں کی نظر ان ہی کی جانب اٹھی اور وہ تیس سال تک اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے، ایک زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ ’’جماعت کا دل اگر مولانا یوسفؒ ہیں تو دماغ مولانا انعام الحسن صاحب ہیں‘‘۔ مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ان کے دل میں بھی درد و سوز تڑپ اور بے چینی کی ہی لہریں موجزن تھیں جو سیرت یوسفی کا طغرائے امتیاز تھیں، چنانچہ انہوں نے اپنی امارت کے زمانہ میں جماعت کو اس کی خصوصیات و روایات پر قائم رکھتے ہوئے اسے اس عالمی مقام پر پہنچا دیا جو تحریک کے بانی اور ان کے خلف الصدق کے تصور و خیال میں رہا ہوگا، وہ مولانا یوسفؒ کے ہم زلف تو پہلے ہی سے تھے مگر تحریک کو وسعت و ترقی دیکر ان کے ہم سر بھی ہوگئے۔
ٍ ان کے سانحہ انتقال پر ہم ان کی اسی تلقین کو یاد کریں گے جو انہوں نے مولانا محمد یوسفؒ کے انتقال پر کی تھی کہ ’’ان کا ہمارے درمیان سے اُٹھ جانا ظاہری طور پر صورت پریشانی ہے، لیکن حق تعالیٰ شانہ پر اعتماد اور حضورﷺ کے دین کی محبت ان ظاہری صورتوں کا نعم البدل اور بدل حقیقی ہے‘‘۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر پر رحمتوں کی بارش فرمائے اور ان کے صاحبزادۂ و الاتبار مولوی زبیرالحسن اور دوسرے متعلقین وپس ماندگان نیز پوری ملت کو صبر و رضا کی توفیق دے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جولائی ۱۹۹۵ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...