Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338343

Access

Open/Free Access

Pages

551

مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندوی مرحوم
پاکستان سے یہ افسوسناک خبر بہت تاخیر سے ملی کہ مولانا محمد اسحق سندیلوی ندوی کا نوے ۹۰ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی تعلیم مدرسہ فرقانیہ اور دارالعلوم ندوۃالعلماء میں ہوئی، عرصہ تک وہ دارالعلوم میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، جب مولانا محمد اویس نگرامی ندوی، ندوہ کے شیخ التفسیر تھے اس وقت مولانا سندیلوی شیخ الحدیث تھے اور ان دونوں جید اساتذۂ فن کی موجودگی ندوہ میں قران السعدین کا منظر پیش کرتی تھی، وہ ندوہ کے مہتمم بھی رہے اور وہاں کی مجلس اشاعت اور تحقیقات شرعیہ کے ناظم بھی۔
درس و تدریس کے ساتھ ان کا تصنیفی ذوق اور تحریری مذاق اعلیٰ درجہ کا تھا، تاریخ وفقہ اسلامی پر ان کی نظر وسیع و عمیق تھی، ۱۹۴۷؁ء سے قبل مسلم لیگ کے ذمہ داروں کو خیال ہوا کہ متوقع اسلامی حکومت کا ایک قانون اساسی، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جائے تو اس کے لیے یو پی مسلم لیگ نے نظام اسلامی کے نام سے ایک مجلس کی تشکیل کی جس کے ارکان میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا آزاد سبحانی جیسے جید علماء شامل تھے، مجلس کے روح رواں حضرت سید صاحب کی جو ہر شناس نظر اس اسلامی قانون کے خاکہ و دستور کی ترتیب و تیاری کے لیے مولانا اسحق سندیلوی ہی پررکی، جنھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک ضخیم کتاب تیار کی جو بعد میں دارالمصنفین سے اسلام کا سیاسی نظام، کے نام سے شایع ہوکر مقبول ہوئی اس میں انہوں نے نظریہ خلافت، قانون، حکومت، خلیفہ، مجلس تشریعی، رعایا، بیت المال، افتا، احتساب، حرب و دفاع، صوبائی حکومتیں، خارجی معاملات پر دور جدید کے سیاق و سباق میں فاضلانہ بحث کی اور سیاست کے غیر اسلامی نظریات کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی عالمانہ تبصرہ کیا۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ مولانا دریا بادی کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ تحقیق، تفصیل و جامعیت کے لحاظ سے اس وقت اپنی نظیر وہ آپ ہی ہے، یہ کتاب کلامی و فقہی دونوں حیثیتوں کی حامل ہے لیکن فقہی پہلو زیادہ غالب ہے جس سے مولانا کو زیادہ شغف تھا۔ تحقیقات شرعیہ کی نظامت کے زمانے میں انہوں نے انشورنس اور رویت ہلال جیسے مسائل پر دعوتِ فکر دی اور کئی رسالے شایع کیے، ان کے مضامین ملک کے مختلف دینی و علمی رسائل میں بھی شائع ہوتے رہے۔ پاکستان تشریف لے جانے کے بعد کراچی کو وطن ثانی بنایا، کچھ مدت تک مولانا یوسف بنوری کے مدرسہ میں درس دیا، لیکن قلم سے ان کا رشتہ آخر تک برقرار رہا، چند مہینے قبل ان کی مشہور کتاب ’’اظہار حقیقت‘‘ کے تین حصے معارف میں تبصرہ کے لیے موصول ہوئے، ان کی یہ کتاب خلافت و ملوکیت کے رد میں شایع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی جس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس کتاب میں انہوں نے مشاجرات صحابہؓ اور حضرت عثمان و علی و معاویہ رضی اﷲ عنہم اور حادثہ جمل و صفین کے بعض پہلوؤں کی وضاحت نہایت دیدہ ریزی و دیدہ وری سے کی، علامہ خمینی کے انقلاب ایران کے بعد انہوں نے خلافت و ملوکیت کے چند مباحث کا ازسرنو جائزہ لے کر اس کی تیسری جلد بھی مرتب کی۔ قادیانیت اور سبائیت کے ردو ابطال کے لیے بھی ان کا قلم وقف رہتا تھا اور اس سے ان کی اسلامی حمیت اور حضرات صحابہ کرامؓ سے غیر معمولی عقیدت و عظمت کی عکاسی ہوتی ہے، ان کتابوں کے علاوہ متعدد علمی رسائل لکھے، عربی اور انگریزی پر بھی دسترس تھی اور ان زبانوں میں بھی ان کی بعض کتابیں شایع ہوئیں، ان کو حضرت مولانا تھانوی سے بیعت و ارادت کا شرف بھی حاصل تھا اور مولانا عبدالشکور صاحب سے بھی خاص عقیدت تھی، شاہ وصی اﷲ صاحب سے بھی بڑا تعلق رکھتے تھے، ان بزرگوں کا اثر ان کے خیالات اور زندگی سے عیاں تھا۔
ذاتی لحاظ سے وہ شرافت اور مکارم اخلاق کا نمونہ تھے، ان کی پُروقار شخصیت، دلنواز گفتگو، متبسم چہرہ اور نرم لب و لہجہ ندوہ کے ہر طالب علم کے لیے سرچشمۂ لطف و کرم تھا، ندوہ میں ان کی موجودگی کا خاص احساس وہاں کی مسجد میں ان کی امامت سے ہوتا تھا، وہ سند یافتہ قاری تھے، فجر کی نماز میں جب وہ پُر سوز و معتدل آواز میں تلاوت کرتے تو اس میں محض تجوید کا فن نہیں ہوتا بلکہ اس شبنم کی ٹھنڈک اور تازگی کا احساس ہوتا ہے جو لالہ کے جگر کو خنکی بخشتی ہے۔ ان کے تقویٰ و ﷲیت کا چرچا آج بھی ان کے شاگردوں کی زبان پر ہے، ان کے باطن کا نور ان کے ظاہر سے بھی جھلکتا تھا، دراز قد کے ساتھ ان کی کشیدہ قامتی اور ان کا سُرخ و سفید چہرہ اور اس پر دلآویز زلفوں کی لٹ ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہے گی، اﷲ تعالیٰ علم و دین کے اس خادم کو بلند درجات سے سرفراز فرمائے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، دسمبر ۱۹۹۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...