Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا پروفیسر محمد اشرف خاں سلیمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا پروفیسر محمد اشرف خاں سلیمانی
ARI Id

1676046599977_54338344

Access

Open/Free Access

Pages

552

مولانا پروفیسر محمد اشرف خاں سلیمانی مرحوم
دارالمصنفین میں یہ خبر بھی نہایت رنج و افسوس کے ساتھ سُنی گئی کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے عاشق صادق اور ان کے مرید و خلیفہ مولانا محمد اشرف خاں ستمبر کے مہینہ میں اس دارفانی سے رخصت ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ عربی کے صدر، ایک عربی مدرسہ کے ناظم، خطیب اور مصلح و مرشد اور حضرت سید صاحب کے خاص فدائی تھے، سید صاحب کے جلوہ ہائے حسن جاناں کو انہوں نے کچھ اس طرح جذب کرلیا تھا کہ انہیں کو سب پکار اٹھیں گزر جائیں جدھر ہوکر۔ اسی لیے اپنے نام کے ساتھ نسبت سلیمانی لکھنے کا التزام کیا اور اپنی قیام گاہ کو سلیمان اکاڈمی کا نام دیکر خود کو علوم و معارف سلیمانی کا فیض عام کرنے کے لیے وقف کردیا، اس کا ثبوت ان کی کتاب ’’سلوک سلیمانی یا شاہراہ معرفت‘‘ ہے، یہ پہلے ۵۶۔۵۵؁ء میں معارف میں مضمون کی صورت میں چھپی جس کی داد اہل نظر نے دی تو اسی کو مزید تفصیل و اضافہ کے بعد کتابی شکل میں شایع کیا جس کے بارے میں مولانا دریا بادی نے لکھا کہ ’’کتاب صحیح نمونہ ماقل و دل ہے․․․․․․ سلوکِ سلیمانی بلکہ سلوک اشرفی کا ایک جامع دستور العمل․․․․․․ لطیف، سلیس، شگفتہ اور اندازہ بیان دلچسپ و پُرمزہ‘‘ ان کے اس البیلے اور شگفتہ طرز کی داد مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے یہ لکھ کردی کہ ’’مولانا اشرف خاں صاحب کا فطری جوہر کہیے یا سید صاحب کی ارادت و صحبت کا فیض کہ تحریر کی شگفتگی اور شیرینی کہیں ساتھ نہیں چھوڑتی یہ دراصل علامہ شبلی کی وہ میراث ہے جس سے نہ مولانا عبدالباری ندوی اپنی کامل اشرفیت و تقشف کے باوجود آزاد ہوسکے اور نہ سید صاحب اپنی کامل فنائیت اور طبیعت کی افسردگی کے باوجود‘‘۔
معذوری کے باوجود سید صاحب سے بے پناہ عقیدت ان کو سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے پشاور سے دو بار اعظم گڑھ کھینچ لائی، ان کو دیکھ کر یقین نہ آیا کہ اس حالت میں کوئی اتنے طویل سفر کی ہمت بھی کرسکتا ہے، ان کا نصف زیریں حصہ بالکل مفلوج تھا، پہیوں والی کرسی ہمہ وقت انکے ساتھ رہتی یا پھر ان کے شاگرد اور مسترشد ان کو گود میں لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے، اس کے باوجود انہوں نے دارالمصنفین کے در و دیوار کو اور سید صاحب کے آثار و باقیات کو جن آنکھوں سے دیکھا اور مس کیا اس کا مشاہدہ نا قابل فراموش ہے، اب وہ وہاں ہیں جہاں ان کی روح اپنے محبوب و مرشد کی روح سے ہمکنار ہے، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان پاک روحوں پر اپنے لطف عمیم کا سایہ دارز فرمائے معلوم ہوا کہ ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں کا ہجوم تھا جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، دسمبر ۱۹۹۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...