Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > بدر الدین طیب جی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

بدر الدین طیب جی
ARI Id

1676046599977_54338348

Access

Open/Free Access

Pages

553

بدرالدین طیب جی
یہ خبر نہایت رنج و غم سے سنی جائے گی کہ ۲۸؍ دسمبر کو بدرالدین فیض حسن طیب جی نے نئی دہلی کی اپنی رہائش گاہ میں داعی اجل کو لبیک کہا، ان کا تعلق بمبئی کے ایک متمول خاندان اور سلیمانی بوہرہ جماعت سے تھا، یہ خاندان گجرات کے ساحلی علاقے کامبے سے منتقل ہوکر انیسویں صدی کے اوائل میں بمبئی میں آباد ہوا، بدرالدین طیب جی (۱۹۰۶؁ء۔ ۱۸۴۴؁ء) نے اس خاندان کی عظمت و وقار میں بڑا اضافہ کیا، وہ بمبئی ہائی کورٹ کے جج بمبئی لیجلسٹیو کونسل کے ممبر، انجمن اسلام بمبئی ایسوسی ایشن اور انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں تھے، ۱۸۸۷؁ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا تیسرا اجلاس مدراس میں ہوا تو انہوں نے اس کی صدارت کی، غرض وہ اپنی اصلاحی، تعلیمی، سیاسی اور قومی خدمات کی بناء پر ملک کے ہر فرقہ و مذہب میں مشہور و مقبول تھے۔
بدرالدین فیض حسن طیب جی انہی نامور دادا کے نامور پوتے تھے، ان کی ولادت ۱۹۰۷؁ء میں ہوئی، سینٹ زیوینر کالج بمبئی کے بعد وہ حصول علم کے لئے آکسفورڈ گئے ۱۹۳۲؁ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے اور مختلف عہدوں پر فائر رہنے کے بعد ۱۹۶۷؁ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے، وہ ایک کامیاب اور نیک نام آئی۔سی۔ایس افسر تھے۔ وزارت خارجہ اور کامن ویلتھ کے سکریٹری اور انڈونیشیا، بیلجیم، جرمنی، ایران اور جاپان وغیرہ میں ہندوستان کے سفیر بھی رہے۔
۱۹۶۲؁ء میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ یہ بڑا نازک اور سخت بحران کا دور تھا مگر طیب جی نے تین برس تک یہ عظیم اور بھاری ذمہ داری بڑے تدبر اور ہوش مندی سے انجام دی، وہ بڑے معاملہ فہم، اصول و ضابطہ کے پابند تھے، اپنی سخت گیری، نظم و ضبط کی پابندی اور یونیورسٹی میں گوناگوں اصلاحات کی وجہ سے وہ عام مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ طلبہ میں بھی مقبول تھے، چنانچہ طلبہ نے بڑے جذباتی انداز سے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن سے انہیں رخصت کیا اور کئی بار ان کی گاڑی روک لی، اس کے بعد بھی جب وہ علی گڑھ آتے تو طلبہ ان سے بہت عقیدت و محبت سے ملتے، ایک دفعہ وہ کسی تقریب میں شرکت کے لیے یہاں تشریف لائے تو کنیڈی ہال سے باہر نکلنے پر طلبہ نے انہیں اس طرح گھیر لیا کہ ان کی صاحبزادی جو ان کے ساتھ تھیں، ان سے جدا ہوگئیں اور تلاش کے بعد ملیں۔ وائس چانسلر کی حیثیت سے ان کی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس وقت کے مدیر معارف مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم نے یہ شذرہ تحریر فرمایا:
’’مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نئے وائس چانسلر مسٹر بدرالدین طیب جی توقع سے زیادہ یونیورسٹی کے لیے مفید ثابت ہورہے ہیں، چند دنوں کے اندر انہوں نے جو اصلاحات کی ہیں اور آئندہ جو اصلاحات اور علمی و تعلیمی منصوبے ان کے پیش نظر ہیں، ان سے نہ صرف یونیورسٹی کا تعلیمی معیار بلند ہوجائے گا بلکہ وہ اسلامیات اور علمی تحقیقات کا بھی بڑا مرکز بن جائے گی اور پورے ملک میں اس کا علمی و تعلیمی وقار قائم ہوجائے گا، مسلم یونیورسٹی محض شاندار عمارتوں، وسیع سبزہ زاروں، خوش نما کوٹھیوں، خوش لباس طلبہ اور جامہ زیب پروفیسروں کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی اصلی روح علمی و تعلیمی اور اس کی امتیازی خصوصیت اس کی اسلامیت ہے اور یہ امر قابل اطمینان ہے کہ وائس چانسلر صاحب کی نظر ان سب پہلوؤں کی جانب ہے وہ اس کی اسلامیت کے اظہار سے گھبراتے نہیں، بلکہ اپنی تقریروں میں برملا اس کا اعلان کرتے ہیں اور اس کو قائم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے توقع ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں یونیورسٹی میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اور وہ جس غلط راستہ پر جارہی تھی، اس کی پوری اصلاح و تلافی ہوجائے گی اور وہ ملک و وطن اور دین و ملت سے متعلق اپنے فرائض بھی پوری طرح ادا کرے گی‘‘۔ (معارف، مئی ۶۳؁ء، ص ۳۲۴ عدد ۵، جلد ۹۱)
طیب جی ایک آئی۔سی۔ایس افسر اور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ہونے کے علاوہ اچھے عالم، مصنف اور دانشور بھی تھے، ان کا مطالعہ وسیع تھا اور انگریزی زبان پر انہیں غیر معمولی قدرت تھی، انہوں نے کئی کتابیں بھی یادگار چھوڑی ہیں جن میں ایک ان کی خودنوشت سوانح عمری بھی ہے، جو اس لحاظ سے بڑی دلچسپ اور پر از معلومات ہے کہ یہ ان کے عہد کے معاشرتی و سیاسی حالات کا مرقع ہے، ان کی دوسری تصنیفات بھی بلند پایہ ہیں۔
طیب جی کی پرورش و پرداخت جس ماحول میں ہوئی تھی، اس پر مغربیت چھائی ہوئی تھی۔ ان کی تعلیم بھی آکسفورڈ میں ہوئی اور وہ مدۃالعمراعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اس لیے ان پر بھی مغربی تہذیب و تمدن کا زیادہ اثر تھا۔ وہ بڑے رعب داب کے آدمی تھے اور افسرانہ آن بان سے رہتے تھے۔
اپنے خاندان کی طرح یہ بھی فرقہ وارانہ سیاست اور مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کے ہمیشہ مخالف اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کے حامی رہے، سیکولرازم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ان کا عقیدہ مستحکم تھا اسی لیے اپنے ہم پیشہ دوسرے افسروں کی روش کے برخلاف ان کے دل میں ہندوستان چھوڑنے کا خیال بھی نہیں آیا۔
بدرالدین طیب جی عوام سے زیادہ خواص کے آدمی تھے، اس لیے عملی سیاست کے جھمیلوں سے دور رہتے۔ تاہم اپنے خاندان کی طرح کانگریس کی حمایت اور قوم پروری کو اپنا شعار بنائے رہے، لیکن جب پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد کانگریس میں خود غرض اور فرقہ پرست عناصر کا غلبہ ہوگیا تو ان کو کانگریس سے بڑی مایوسی ہوئی، اسی زمانے میں وہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم کے قریب ہوگئے تھے اور مسلم مجلس کے لیے انہوں نے شمالی ہند کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور خود بھی حیدرآباد سے پارلیمنٹ کے لیے امیدوار ہوئے مگر کامیاب نہیں ہوئے جس کے بعد وہ سیاست سے بہت دل برداشتہ ہوگئے اور ڈاکٹر فریدی مرحوم کے اصرار کے باوجود اس میں آنا پسند نہیں کیا۔
بدرالدین طیب جی اپنی نیکی، شرافت، خاندانی وجاہت، ذاتی خوبیوں اور انتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے بہت ممتاز تھے، ان کی وفات ایک بڑا قومی و ملی حادثہ ہے، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۱۹۹۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...