Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر خواجہ احمد فاروقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر خواجہ احمد فاروقی
ARI Id

1676046599977_54338349

Access

Open/Free Access

Pages

554

پروفیسر خواجہ احمد فاروقی
جنوری کا معارف مرتب ہوچکا تھا کہ یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ اردو کے مشہور محقق و نقاد صف اول کے ادیب اور صاحب طرز انشاء پرداز پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ۳۱؍ دسمبر کو رحلت فرماگئے۔ اِنا ﷲ وَاِنا اِلیہ رَاجِعونْ۔
خواجہ صاحب کا خاندان علم و فضل اور سلوک و تصوف میں ممتاز تھا، انھیں انگریزی تعلیم دلائی گئی مگر اس کے باوجود بھی وہ شرافت، وضع داری اور اپنی دیرینہ خاندانی روایات کے حامل تھے۔
۱۹۱۷؁ء میں وہ بچھراؤں ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے، ۱۹۲۷؁ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ہردوئی کی پانچویں جماعت میں داخلہ لیا، یہاں ان کے والد سررشتہ دار تھے، ۱۹۳۲؁ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے میرٹھ کالج میں داخل ہوئے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد معلمی کے پیشہ سے وابستہ ہوئے جس کا آغاز مسلم یونیورسٹی اسکول میں کیمسٹری کے استاد کی حیثیت سے کیا، پھر بعض کالجوں سے وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۴۶؁ء میں دہلی کے اینگلو عربک کالج میں اردو کے لکچرر ہوئے، جس کے بعد دہلی ہی میں بودوباش اختیار کرلی، خود رقمطراز ہیں:
’’اس وقت سے کہ چالیس سال ہوگئے ہیں، دلی کاروڑا ہوں اور یہ دلی کی گلیاں کسی طرح نہیں چھٹتیں‘‘۔
حزیں از پائے رہ پیما بسے سرگشتگی دیدم
سرشوریدہ بربالین آسایش رسید ایں جا
۱۹۴۸؁ء میں دلی میں چاروں طرف آتش زنی، غارتگری اور قتل عام مچا ہوا تھا اور موج خوں سروں سے گزر رہی تھی، مگر خواجہ صاحب اس قلزم خون کے شناور بنے رہے۔
وہ بچپن ہی میں مطالعہ اور کتب بینی کے عادی ہوگئے تھے اور تقریر و تحریر کی مشق بھی شروع کردی تھی، ہردوئی ہائی اسکول میں جب زیر تعلیم تھے تو غنچہ (بجنور) اور پھول (لاہور) کے لیے مضامین لکھتے رہتے تھے۔ اسی زمانے میں اپنے ایک ہم جماعت کے اشتراک سے ایک قلمی رسالہ ’’نوبہار‘‘ بھی نکالا۔ میرٹھ کالج انگریزی میگزین کے لیے بھی مضامین لکھے اور اس کے اڈیٹر اور کالج کی لٹریری ایسوسی ایشن کے سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔
مضامین کی اشاعت سے حوصلہ بڑھا تو یہ تمنا بھی ہوئی کہ مشہور اور بڑے رسالوں میں بھی مضامین شائع ہوں، جوبر آئی اور عالمگیر (لاہور) میں ان کا ایک مضمون ’’مشرق اور مغرب کے طریقۂ ازدواج‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ ان کا پہلا باقاعدہ مضمون ۱۹۳۹؁ء کے نگار میں چھپا، اس کے بعد وہ اس میں اور سہ ماہی اردو میں برابر مضامین لکھنے لگے، ۱۹۴۱؁ء سے ان کی توجہ تنقید کے آداب و اصول سمجھنے اور انتقادی مضامین لکھنے کی جانب ہوگئی اور نگار و اردو کے علاوہ نقوش (لاہور)، ہمایوں (لاہور)، جامعہ (دہلی)، برہان (دہلی)، کتابی دنیا (دہلی)، آج کل (دہلی)، معارف (اعظم گڑھ) اور شاعر (بمبئی) وغیرہ بھی ان کے ادبی تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی و سوانحی مضامین سے مزین ہوئے۔
خواجہ صاحب کا اصل کارنامہ ان کی تصنیفات ہیں جن کی فہرست طویل ہے اور ان کے موضوعات بھی متنوع ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر و ادب، تنقید و تحقیق، تاریخ و سوانح اور خاکہ نگاری کے میدان میں اپنے جوہر خوب دکھائے ہیں، ان کی بلند پایہ تصنیفات سے سرسری گزر جانا مناسب نہیں، اگر موقع ملا تو ان پر ان کے شایان شان ریویو کیا جائے گا۔
خواجہ صاحب عمر بھر گیسوئے اردو کوتابدار کرتے رہے، ان کی خدمات اور کاوشوں کے دائرہ میں تحریر و تصنیف کی طرح درس و افادہ بھی شامل ہے، بلکہ اس میدان میں شائد ہی اردو کا کوئی استاد ان سے گوئے سبقت لے گیا ہو، وہ اردو کے معلم اور صاحب قلم ہی نہیں تھے بلکہ اس کی خدمت کا پرجوش ولولہ بھی رکھتے تھے، ۱۹۴۷؁ء میں اردو کے سب سے بڑے مرکز دہلی میں اردو تعلیم کا تقریباً خاتمہ ہورہا تھا کہ خواجہ صاحب غیب سے برآمد ہوئے اور اردو تعلیم کو فروغ دینے کے لیے پوری طرح جٹ گئے، جب دلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی زمامِ کاران کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اس کی عظمت میں چار چاند لگادیا اور اعلیٰ سطح تک اردو تعلیم کا باقاعدہ انتظام کرایا، اس زمانے میں اردو، فارسی اور عربی کا شعبہ مشترک تھا، انہوں نے تینوں کے شعبے الگ کرائے اور شعبہ اردو کو بھی دو حصوں میں کردیا، ایک حصہ اردوکی تعلیم و تدریس کے لئے مخصوص ہوگیا اور دوسرا تصنیف و تالیف اور نشر و اشاعت کا مرکز بن گیا جس سے بہت سی نادر و نایاب کتابیں شائع ہوئیں اور ’’اردوئے معلی‘‘ کے نام سے ایک معیاری اور بلندپایہ سہ ماہی رسالہ نکلا جس کے بہت سے یادگار اور جریدہ عالمِ اردو پر ثبت رہنے والے خاص نمبر شائع ہوئے۔ اس طرح شعبہ اردو کو خواجہ صاحب نے اپنے خون جگر اور افکارِ تازہ سے جو تب و تاب اور توانائی و درخشانی بخشی وہ شپرۂ چشم ہی سے اوجھل رہ سکتی ہے۔
خواجہ صاحب کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا دائرہ دہلی یونیورسٹی ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں شعبہ ہائے اردو کے قیام وتوسیع میں ان کا براہ راست یا بالواسطہ حصہ رہا ہے اور یہ بات تو ان کے اولیات میں شمار کیے جانے کے لائق ہے کہ وہ اردو کے سفیر بن کر ہندوستان کے باہر دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں گئے اور وہاں اردو تعلیم کا انتظام کیا۔
خواجہ صاحب کے حسنات اردو میں افراد کی تربیت اور مردم سازی بھی شامل ہے، ان کے فیض تربیت سے اردو کے اچھے استادوں، اہل قلم اور خدمت گزاروں کی ایک ٹیم تیار ہوئی۔
دراصل خواجہ صاحب فطری ادیب و انشا پرداز تھے اس لیے ان کی کوئی تحریر حسن ولالہ کاری، ادب و انشا کی رعنائی و دلفریبی اور انداز بیان کی لطافت و دلکشی سے خالی نہیں ہوتی، شعرالعجم کے مصنف کو یہ حسرت تھی کہ ’’کاش مہدی افادی کے جیسی دو چار سطریں لکھنا انہیں بھی آجائے، میں نے بھی ایک بار اپنی اسی حسرت کا خواجہ صاحب سے ذکر کیا تھا کہ کاش آپ کے جیسی دو چار سطریں لکھنا مجھے بھی آجائے۔
خواجہ صاحب کی تحریروں کی خوبصورتی، نفاست، شوکت و عظمت میں ان کی ریاضت ان کے غور و فکر بلکہ خون جگر کو بڑا دخل تھا، وہ کوئی کام عجلت میں کرنے کے عادی نہیں تھے بلکہ اس پر سوچنا اور غوروفکر کرنا ضروری سمجھتے تھے، اس سوچ میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے، ان کے لیے لکھنا ایک مرکزی نقطے کی تلاش یا ایک لے اور ایک سر کے دریافت کرنے کے مترادف تھا اور جب ان کے کام کا آغاز ہوجاتا تو اس کے کرنے میں خاص خوشی محسوس ہوتی، پہلا مسودہ جلد تیار ہوجاتا لیکن اس کے بعد آرائش اصلاح میں کئی کئی مہینے لگ جاتے خود رقمطراز ہیں:
’’میں اپنی تحریروں سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا، ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے اور ’’چیزے فزوں کند‘‘ کا مطالبہ باقی رہتا ہے․․․․․ میر تقی میر پر میں نے بے اندازہ محنت کی ہے، لیکن اب بھی جی چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ لکھی جائے‘‘۔
ان کی سحرطرازی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان کو اردو فارسی کی طرح انگریزی پر بھی عبور تھا اور ان سب زبانوں کے حسن و دلکشی کو انہوں نے اپنی تحریروں میں سمولیا تھا، اسی لیے ان کے اسلوب میں قدیم و جدید کی آمیزش ہے، پروفیسر خلیق احمد نظامی رقمطراز ہیں ’’ان کے وہاں فارسی کی رنگینی، انگریزی کی پرکاری اور اردو کی سادگی اور گھلاوٹ موجود ہے جو دل پر اثر کرتی ہے‘‘۔
خواجہ صاحب نے اردو کے لئے بڑی قربانی دی، اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس کا صلہ بھی دیا اور اردوکی بدولت وہ بڑے بڑے انعام و کرام سے نوازے گئے، اردو کی بے چارگی اورمظلومی کے اس دور میں ان کے جیسے اردو نواز کا اٹھ جانا ایک حادثہ جانکاہ ہے، اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۱۹۹۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...