1676046599977_54338350
Open/Free Access
556
پروفیسر محمد رضوان علوی
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد رضوان علوی چند روز کی شدید علالت کے بعد ۲۰؍ جنوری کو لکھنو میں انتقال کرگئے، ان کا آبائی وطن کاکوری تھا جو ضلع لکھنو کا ایک مردم خیز قصبہ ہے۔ کاکوری کا علوی خاندان علمی، دینی اور ادبی حیثیت کے ساتھ ہی دنیاوی وجاہت میں بھی ممتاز تھا، یہاں بہت سے اہل علم و کمال پیدا ہوئے۔ اردو کے مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی اور مولوی نورالحسن نیر صاحب نورالغات اسی آسمان کے مہروماہ تھے۔
پروفیسر محمد رضوان علوی کے والد ماجد مولانا مصطفےٰ حسن علوی فاضل دیوبند تھے۔ ان کا علمی و ادبی ذوق بھی پختہ تھا۔ وہ اردو کے مصنف و شاعر اور لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر تھے، رضوان صاحب بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے یہیں شعبہ عربی میں لکچرر اور پھر مدت مدید تک صدر شعبہ رہے۔ ان کے زمانے میں شعبہ نے بڑی ترقی کی اور کئی نئے کورس کا اضافہ بھی ہوا۔
رضوان صاحب یونیورسٹی کے اچھے اور کامیاب استاد تھے، انہیں طلبہ کی صحیح رہنمائی کرنے، ان میں علمی مذاق پیدا کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے سے بڑی دلچسپی تھی۔ شوقین اور ذہین طلبہ کی خاص طور پر ہمت افزائی کرتے، ان کی نگرانی میں درجنوں طلبہ نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ان کو درس و تدریس کے ساتھ تحریر و تصنیف کا بھی ملکہ تھا، اردو عربی اور انگریزی تینوں زبانوں پر قدرت تھی۔ ان کی کتابوں میں ’’علوم و فنون عہد عباسی میں‘‘ اور ’’دمشق اسلامی تہذیب کا گہوارہ‘‘ مقبول ہوئیں۔ ان کی علمی خدمات کی بنا پر صدر جمہوریہ ہند نے انہیں توصیفی سند بھی عطا کی تھی۔
لکھنو کی علمی، تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں سے بھی سروکار رکھتے تھے۔ ان میں علمی و انتظامی دونوں طرح کی صلاحیتیں تھیں، اس لئے جو کام اپنے ہاتھ میں لیتے اسے خوبی اور سلیقہ سے انجام دیتے تھے، اسلامیہ انٹر کالج لکھنو کو پروان چڑھانے میں ان کا بڑا حصہ تھا، یہ انہی کی کوششوں سے ڈگری کالج ہوا۔
فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کی تاسیس و ترقی میں ان کا خاص دخل تھا، جس کے وہ کئی برس تک چیرمین رہے، ۷۷ء۔ ۷۸ء میں میں اترپردیش اردو اکیڈمی کا ممبر اور وہ اس کے چیرمین تھے، یونیورسٹیوں کے اردو اساتذہ کو ان کا چیرمین ہونا بہت گراں گزرا اور انہوں نے ان کے اور اکیڈمی کے صدر پروفیسر معزز علی بیگ کے خلاف ایک محاذ قائم کرلیا، اس اختلاف و انتشار کی وجہ سے وہ کوئی اہم اور بڑا کام نہ کرسکے۔
علوی صاحب بڑے وجیہہ و شکیل، باوقار پرکشش، جامہ زیب اور خوش لباس تھے، مزاج میں نفاست و نظافت تھی۔ جس مجمع میں ہوتے لوگوں کا مرکز توجہ بن جاتے، حسن صورت کے ساتھ اﷲ نے حسن سیرت بھی دی تھی، خوش اخلاق، وسیع القلب اور روادار تھے، ہر مسلک و مشرب کے لوگوں سے ان کے اچھے تعلقات تھے، طبیعتاً نیک، شریف، بامروت اور دوسروں کے ہمدرد تھے، وضع دار، ملنسار اور لکھنوی تہذیب و روایات کے حامل تھے۔ خاکساری و فروتنی ان کی سرشت بن گئی تھی، غرور و تمکنت اور نمائش کا شائبہ بھی ان میں نہ تھا، اپنی ان ذاتی خوبیوں اور اچھے اوصاف کی وجہ سے بڑے مقبول اور ہر دلعزیز تھے۔
اس عاجز پر بڑی شفقت تھی۔ مجھے اپنے شعبہ کے زبانی امتحانات لینے کے لئے بلاتے، پی۔ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے اور فخرالدین علی احمد کمیٹی کو موصول ہونے والے مسودے تبصرے کے لئے اکثر بھیجتے۔
ان کی تدفین کاکوری میں ہوئی، اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۹۶ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |