Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا بدر الدین اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا بدر الدین اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338352

Access

Open/Free Access

Pages

557

آہ! بدر کامل غروب ہوگیا
افسوس اور سخت افسوس ہے کہ ۱۹؍ جون کو مولانا بدرالدین صاحب اصلاحی ناظم مدرستہ الاصلاح و دائرہ حمیدیہ رحلت فرماگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
کئی برس سے انہیں دردِ پاکی شکایت تھی، اس کے علاج کے لیے بمبئی تشریف لے گئے مگر تکلیف کم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی، آمدو رفت کا سلسلہ اور ساری سرگرمیاں منقطع ہوگئیں۔ تاہم دل و دماغ کام کررہا تھا، مشکلات اور پیچیدہ مسائل میں رہنمائی بھی فرماتے تھے۔
۱۶؍ جون کو مدرستہ الاصلاح کی مجلس انتظامیہ کا جلسہ تھا، وہیں ان کی شدید علالت کی خبر ملی ۱۸؍ جون کو عیادت کے لیے گیا تو گردش روزگار کا یہ عجیب منظر دیکھ کر بدحواس ہوگیا کہ بلبل ہزار داستاں کی طرح چہکنے، اپنی گل افشانی گفتار سے مجلس کو زعفران زار بنانے اور اپنی خطابت اور خوش بیانی سے مسحور کرنے والے کی زبان گنگ ہوگئی ہے اور میں یہ حسرت ہی لیے رہ گیا کہ ع بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر تھا۔ شاید اشارے سے کچھ کہا ہو مگر میں سمجھ نہیں سکا، ہوش و حواس بھی اچھی طرح بجا نہیں تھے۔ جسم گل کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا، واپسی میں راستے بھر اور رات کو بھی بڑی دیر تک عجیب خلش اور بے چینی رہی، یہ کرب و اضطراب اس لیے تھا کہ مدرستہ الاصلاح کے اغراض و مقاصد کا حقیقی مبلغ اور ’’فکر حمید‘‘ کا اصلی شارح و ترجمان دنیا سے رخصت ہونے والا ہے، اور اس کا کوئی بدل اور جانشین نہیں ع افسوس کہ از قبیلہ مجنوں کسے نہ ماند۔
دوسرے ہی دن ۱۲؍ بجے متوقع حادثہ کی اطلاع بھی آگئی ساڑھے پانچ بجے جنازہ اٹھا تو جم غفیر ساتھ تھا، قرب و جوار کے لوگوں، مدرستہ الاصلاح کے اساتذہ و طلبہ اور دوسرے بے شمار قدردانوں نے مدرسہ کے سب سے مایہ ناز فرزند اور علوم و معارف فراہی کے سب سے بڑے ہندوستانی واقف کار کو سپرد خاک کردیا۔
مولانا نے ابتدائی تعلیم اور فارسی کتابیں گھر پر پڑھیں، ان کی عربی تعلیم مدرستہ الاصلاح میں ہوئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی اور بعض دوسرے حضرات سے بھی کتابیں پڑھیں لیکن ان کی اصل تعلیم و تربیت علامہ شبلیؒ کے خاص شاگرد مولانا شبلی متکلم ندوی کے سایہ عاطفت میں ہوئی، مدرسہ کا ہشت سالہ کورس انہوں نے اپنی ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے چند برسوں ہی میں مکمل کرلیا۔
مولانا بدرالدین اصلاحی ایک خوش حال زمیندار گھرانے کے فرد اور اپنے والد کے بڑے چہیتے تھے، گھر میں اﷲ کا دیا سب کچھ تھا اس لیے انہوں نے ملازمت یا درس و تدریس سے ان کا وابستہ ہونا پسند نہیں کیا۔ اسی زمانے میں رنگون (برما) میں کچھ دیندار اور صاحبِ ذوق لوگوں نے ایک حلقہ قرآن قائم کیا جس کی نگرانی و رہنمائی کے لیے انہیں ایک مناسب اور خوش بیان شخص کی تلاش ہوئی تو مدرستہ الاصلاح کے ذمہ داروں کو خط لکھا، سب کی نظر انتخاب مولانا بدرالدین صاحب پر پڑی مگر ان کے والد انہیں اپنے سے جدا کرنا پسند نہیں کرتے تھے، تاہم مولانا شبلی متکلم وغیرہ کے شدید اصرار پر بادل ناخواستہ راضی ہوگئے، برما میں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور ان کے درس قرآن میں بڑا مرجوعہ ہونے لگا۔ لیکن ابھی سال بھر نہیں گذرا تھا کہ والد کی علالت کی خبر پاکر گھر واپس لوٹ آئے، والد کا وقت پورا ہوچکا تھا، ان کے بعد زمین اور جائداد کے مسائل میں ایسا الجھے کہ برما سے مسلسل خطوط آنے کے باوجود گھر چھوڑنا ممکن نہیں ہوا۔
ایسے غیر علمی ماحول میں جہاں ہر وقت مزدوروں سے سابقہ اور آئے دن زمین اور جائداد کے جھگڑے درد سر بنے رہتے تھے علم و فن سے اشتعال اور کتب بینی اور مطالعہ کا شوق باقی رہ جانا حیرت انگیز ہے، ان سے جب جب گفتگو ہوتی تو اندازہ ہوتا کہ اکثر اہم اور ضروری چیزیں ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں۔ میں طالب علمی کے زمانے میں طلبہ کی انجمن کا سکریڑی تھا، وہ عموماً ہفتہ میں ایک بار مدرسہ ضرور تشریف لاتے تھے، آنے کے ساتھ ہی نئے رسالے اور کتابیں طلب کرتے، معارف، برہان، جامعہ، ترجمان القرآن اور صدق جدید پابندی سے پڑھتے تھے اور ان کے اچھے مضامین کی نشاندہی بھی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ جامعہ میں پرفیسر ضیاء الحسن فاروقی کا ایک مضمون ’’فرض کفایہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا اس کو بہت پسند کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ اسے ضرور پڑھو، اچھا اور فکر انگیز مقالہ ہے، کتابوں پر کہیں کہیں نوٹ اور حاشیے بھی لکھ دیتے تھے۔
ایک مرتبہ میں طالب علمی کے زمانے میں ان کے بڑے صاحبزادے کے اصرار پر ان کے دولت کدہ پر گیا، ہم لوگ پہنچے تو مولانا موجود نہیں تھے، موقع پاکر مچھلیوں کا شکار کرنے چلے گئے، رات گئے لوٹے تو مولانا لالٹین کی روشنی میں گیتا کے مطالعہ میں غرق تھے، ہم لوگوں کے آنے کی آہٹ ہوئی تو فرمایا کہ مچھلی پکی ہے، بکنے آئی تھی، میں نے گھر میں بھجوا دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد کہنے لگے گیتا میں اﷲ تعالیٰ کی صفت حکمت کا ذکر نہیں ملتا۔
علم و فن سے اشتغال ہی کی بنا پر وہ بعض رسالوں میں کبھی کبھی مضامین بھی لکھتے تھے، ۱۹۳۶؁ء میں ترجمان القرآن مولانا حمید الدین فراہیؒ کی تصنیفات اور ان کے اردو ترجمے کی اشاعت کے لئے دائرہ حمیدیہ کا قیام عمل میں آیا جس کی طرف سے الاصلاح کے نام سے ایک ماہوار علمی و تحقیقی رسالہ مولانا امین احسن اصلاحی کی ادارت میں نکلا جو گوشعلہ مستعجل کی طرح اپنی چمک دمک دکھا کر بہت جلد غائب ہوگیا تاہم اس نے مختلف موضوعات خصوصاً قرآنیات پر جو بلند پایہ اور فکر انگیز مضامین شائع کئے وہ آج بھی قرآن مجید کے طالب علموں کے مطالعہ میں آنے کے لایق ہیں۔ الاصلاح کے گنے چنے مضمون نگاروں میں ایک اہم نام مولانا بدرالدین صاحب کا بھی ہے۔ ان کے حسب ذیل مضامین اس میں شائع ہوئے۔
علامہ شبلی پر فتوائے کفر (اگست ۱۹۳۶؁ء) پاداش عمل (ستمبر ۳۶؁ء) مصدقا لمابین یدیہ [المائدۃ: ۴۶]کی صحیح تاویل (نومبر ۳۶؁ء) حروف مقطعات (اکتوبر ۱۹۳۷؁ء) لفظ آلاء کی تحقیق (نومبر ۳۷؁ء) واخر متشابھات (دسمبر ۳۷؁ء)۔
یہ سب مضامین ملک کے صاحب علم و ذوق طبقے میں بہت پسند کئے گئے، مصدقا لمابین یدیہ پر ان کا معرکتہ الآرا مضمون شائع ہوا تو ایک بزرگ مولوی حافظ سید محمد طہٰ اشرف امتھوی نے اس پر کچھ اشکالات وارد کئے، اس کے جواب میں جون و جولائی ۳۷ء میں انہوں نے بہت مدلل مضمون لکھ کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
نگار لکھنو اور صدق جدید لکھنو بھی ان کی قلمی جولان گاہ رہے ہیں، موخرالذکر میں اکثر مراسلے شائع ہوتے تھے، مولانا کا ادبی ذوق بھی اچھا اور رچا ہوا تھا، خصوصاً فارسی کا مذاق بلند تھا، وہ سخن فہم تو تھے ہی۔ میرا خیال ہے کہ مشق سخن بھی کی ہوگی۔ ابتداء میں وہ اپنا نام بدرؔ ہی لکھتے تھے۔
مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم اپنی وفات کے وقت اپنے استاذ مولانا فراہیؒ کے علمی متروکات اور مسودات مولانا بدرالدین اصلاحی کو سپرد کرگئے تھے، اس بیش بہا متاع کی نہ صرف یہ کہ انہوں نے حفاظت کی بلکہ ہمیشہ اس کی ترتیب و اشاعت کے لئے فکر مند بھی رہے، انہوں نے مولانا کی متعدد مطبوعہ کتابوں کو جو دستیاب نہ تھیں، دوبارہ طبع کرایا اور کئی غیر مطبوعہ تصنیفات کو اپنے فاضلانہ عربی مقدمے کے ساتھ شائع کیا، ان کے فارسی کلام کو بھی ازسرنو شائع کیا اور اس پر فارسی زبان میں بیش قیمت مقدمہ تحریر کیا۔
ان کے محققانہ اردو مضامین اور عربی و فارسی کے عالمانہ مقدمے دیکھ کر کوئی شخص یہ باور نہیں کرے گا کہ وہ ایک گاؤں کے علم و ادب کش ماحول میں جہاں نہ کتابیں میسر تھیں اور نہ کوئی کتب خانہ تھا، بیٹھ کر لکھے گئے ہیں۔
تقریر و خطابت کا ملکہ خداداد تھا، جو لوگ ان کے اس جوہر سے واقف تھے وہ بڑے اصرار سے انہیں تقریر کے لیے مدعو کرتے تھے لیکن اپنی کم آمیزی اور طبعی بے نیازی کی وجہ سے وہ اکثر لوگوں کو ٹال دیتے تھے، تاہم حکیم محمد اسحاق صاحب مرحوم، مولوی حاجی عین الحق صاحب مرحوم، جناب شوکت سلطان مرحوم سابق پرنسپل شبلی کالج، مولوی عبدالرزاق مرحوم بکھرا اور بعض دیہاتوں کے خاص اہل تعلق کا اصرار کبھی کبھی ان کے انکار پر غالب آجاتا تو پھر ان کی گل افشانی گفتار دیدنی ہوتی۔ راقم کو کئی بار ان کی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا، مدرسہ کے ایک جلسہ میں جس کے تین اجلاس ہوئے اصل اور تنہا مقرر وہی تھے، رات کے جلسے میں تقریباً چار گھنٹے تک مسلسل نہایت مربوط، مدلل اور عالمانہ تقریر کرتے رہے، نہ خیالات کے تموج میں کبھی فرق آیا اور نہ الفاظ کا خزانہ کبھی خالی ہوتا دکھائی دیا۔
ان کی گفتگو بھی بڑی موثر، دل نشین اور دل پذیر ہوتی، بات کرتے تو خیال ہوتا کہ : ؂ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
ان کو کسی کے سامنے گفتگو کرنے میں کبھی جھجھک نہیں ہوتی، بحث و مباحثہ میں ان سے پیش پانا ناممکن تھا، کوئی کتنی ہی شدید مخالفت پر آمادہ ہوتا اور بعض لوگ بڑی برہمی سے بہت نامناسب لب و لہجہ میں اعتراضات کرتے مگر وہ ضبط و تحمل کا پیکر بن جاتے اور بڑی خندہ جبینی اور متانت سے ایک ایک بات کا مدلل جواب دے کر انہیں مطمئن اور ٹھنڈا کردیتے، ایک مرتبہ بعض لوگوں نے دائرہ حمیدہ اور مدرسہ کے تعلق سے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کو ان کی جانب سے کچھ بدظن کردیا تھا، شاہ صاحب نے سرائے میر جاکر جب ان سے رودر رو باتیں کیں تو ہر طرح مطمئن ہوگئے۔
حقیقت یہ ہے کہ قدرت ان پر جس قدر فیاض تھی، اسی قدر وہ بے نیاز واقع ہوئے تھے، مجھے ہمیشہ اس کا ملال رہے گا کہ ان کی غیر معمولی علمی و دماغی قابلیت سے دنیا کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا اگر انہوں نے اپنے اعلیٰ دل و دماغ اور حیرت انگیز لیاقت و صلاحیت سے کام لیا ہوتا تو مولانا حمید الدین فراہیؒ کا خزانہ علم و فکر اور متاع گرانمایہ اس کس مپرسی کی حالت میں نہ ہوتی۔
مولانا بدرالدین صاحب کی خدمت کا خاص میدان مدرستہ الاصلاح تھا، اس کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، اس کے لیے انہوں نے جس ایثار و قربانی سے کام لیا اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ مولانا فراہیؒ کے چھوٹے بھائی اور ناظم مدرسہ مولوی حاجی رشید الدین انصاری نے اپنی معذوری اور پیرانہ سالی کی بنا پر جب اپنی معاونت اور نیابت کے لیے ان کا انتخاب کیا تو یہ مدرسہ کا بڑا بحرانی دور تھا، اس کی مالی حالت اس قدر سقیم ہوگئی تھی کہ نہ اساتذہ کو تنخواہیں ملتی تھیں اور نہ طلبہ کو کھانا ملتا تھا، مولانا سید سلیمان ندوی نے مولانا مسعود عالم ندوی کے نام اپنے ایک مکتوب میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’مدرسہ سرائے میر اور جون پور گیا تھا، کل واپس آیا ہوں، سرائے میر سخت مالی مشکلات میں ہے آٹھ ہزار کا مقروض ہے‘‘ (مکاتیب سلیمان ص۱۵۶) لیکن مولانا بدرالدین مرحوم نے جب نائب ناظم کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو ان کی مسلسل محنت، خوش انتظامی اور حسن تدبر سے مدرسہ کے تمام قرض ادا ہوگئے، مطبخ اور دفتر کی خراب حالت درست ہوگئی، اساتذہ اور کارکنوں کو ماہ بہ ماہ تنخواہیں اور طلبہ کو وقت سے کھانا ملنے لگا، تعلیم و تربیت کا نظام بہتر ہوگیا اور مدرسہ مالی حیثیت سے بھی مستحکم ہوگیا، حاجی صاحب کے انتقال کے بعد ناظم کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا، اس وقت سے ایک دو برس چھوڑ کر انتقال کے وقت تک وہی اس منصب پر فائز رہے۔ گویا وہ ایک کامیاب ناظم تھے اور انہوں نے مدرسہ کو بڑی ترقی و وسعت دی اور اس کی شہرت، عظمت، وقار اور استحکام میں اضافہ بھی کیا تاہم جب انہوں نے مدرسہ کا نظم و نسق درست کرنے کے لیے اصلاحات شروع کیں، ڈھیلے ڈھالے نظام کو چست کرنا چاہا اور مدرسہ کے اصول و مقصد اور مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھا تو بعض لوگ اس کی زد میں آئے اور ان کا ذاتی مفاد بھی متاثر ہوا، اس کی وجہ سے ان کو سخت شکایتیں پیدا ہوئیں اور وہ مدرسہ کو بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہوئے مگر اﷲ تعالیٰ کی مدد سے مولانا ہر بحران سے مدرسہ کو نکالنے میں کامیاب رہے، انہوں نے ہرقسم کی زحمت اور تکلیف خود برداشت کی مگر اپنے بزرگوں کی اس یاد گار پر کوئی آنچ نہیں آنے دی، برابر اس کی حفاظت اور پاسبانی کرتے رہے، ان کے بزرگ، احباب اور رفقا ایک ایک کر کے مدرسہ کو چھوڑتے گئے، یہاں تک کہ ایک قافلہ سالار کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی کے قلم سے یہ شکایتی جملہ نکل گیا ’’افسوس ہے کہ مجامع کے مقابلہ میں مدارس کی افادی حیثیت پر نظر نہیں پڑتی‘‘ (مکاتیب سلیمان ص:۱۵۷) مگر انہوں نے اور مولانا اختر احسن اصلاحی نے مدرسہ کی خدمت کا جو عہد و پیمان باندھا تھا، اسے عمر بھر نباہا، مولانا اختر احسن اصلاحی کی وفات کے بعد وہ گو اکیلے رہ گئے تھے مگر زندگی بھر مدرسہ کی عزت و آبرو بنے رہے۔
مولانا بدرالدین صاحب بڑے خلیق، متواضع، ملنسار، خوش مزاج اور باغ و بہار شخص تھے، افسردہ سے افسردہ آدمی بھی ان کے پاس پہنچ کر ہشاش بشاش ہوجاتا اور اپنے غم و اندوہ کو بھول جاتا، صبر حلم اور ضبط و تحمل کا پیکر تھے، انتقام پر عفو و درگذر کو ترجیح دیتے، بڑے سے بڑے غم کو پی جانا ان کی عادت ثانیہ تھی، سخت مشکلات اور مسائل میں گھرے ہوتے مگر چہرے بشرے سے اپنی پریشانی ظاہر نہ ہونے دیتے، غصہ ہونا اور برہم ہونا جانتے ہی نہیں تھے، سخت کلامی اور دشنام سن کر بھی آزردہ اور چیں بہ جبیں نہ ہوتے، بڑے مہمان نواز اور وانی لعبد الضیف مادام نازلا کے مصداق تھے، علو، گھمنڈ اور پندار کی ذرا بھی خوبو نہ تھی۔
وہ مدرستہ الاصلاح اور دائرہ حمیدیہ کے واقعی بدر کامل تھے جس کے غروب ہونے سے وہاں تاریکی چھاگئی ہے، اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں ان کے درجات و مراتب بلند فرمائے، آمین! (ضیاء الدین اصلاحی،جولائی ۱۹۹۶ء)

مولانا بدرالدین اصلاحی سے ایک ملاقات
(رفیق احمد انصاری)
مولانا بدرالدین اصلاحی ناظم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کی مردم خیز اور علم پرور سرزمین کے ایک مایہ ناز فرد تھے، وہ ۱۹؍ جون ۱۹۹۶؁ء کو اس دنیا سے کوچ کرگئے، انَّاﷲِ وَاِنَّا اِلیہ رَاجعُونَ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے، آمین۔
تین سال قبل شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج میں انٹرویو دینے کی غرض سے اعظم گڑھ جانے کا موقع ہا تھ آیا۔ عرصہ سے اس مرکز علم و ادب کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ انٹرویو سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دو دوستوں (طارق ایوب اور انیس الرحمن) کے ساتھ مدرسۃ الاصلاح پہنچا وہاں اساتذہ کرام سے ملا۔ اس کے بعد مولانا نجم الدین اصلاحی کے مستقر پر حاضری دی جو کہ علامہ حمیدالدین فراہیؒ کے شاگردِ رشید تھے مولانا سے کافی دیر تک گفتگو کرکے میں اپنی علمی پیاس بجھاتا رہا۔ اس کے بعد مولانا بدرالدین اصلاحی صاحب سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں اپنے دونوں دوستوں کے ہمراہ موضع نیاوج جہاں مولانا کی رہائش تھی روانہ ہوا۔ مولانا طویل علالت کے باعث بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہم لوگ سلام کرکے بغل میں پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ مولانا بستر سے اٹھنا چاہتے تھے میں نے چاہا کہ ان کو اٹھنے کے لیے سہارا دوں مگر انہوں نے بڑی بے تکلفی سے منع کردیا۔ کہنے لگے رہنے دیجئے۔ ’’اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے‘‘۔ یہ حکیمانہ جملہ میرے قلب و ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا اور زندگی کے ہر لمحے میں مشعل راہ ثابت ہوا۔ مولانا نے بہت ہی پرتکلف ناشتہ کا انتظام کروایا اور جب تک ناشتہ ختم نہ ہوگیا بار بار کھانے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ ہم لوگ تقریباً تین گھنٹے تک مولانا کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ ہم کو ایک لمحہ کے لیے بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ اس وقت مولانا کے ہاتھ میں ’’خطبات اصلاحی‘‘ کا ایک نسخہ تھا جس کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ میں نے مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق کچھ دریافت کیا۔ ان کا نام میری زبان پر آیا ہی تھا کہ مولانا کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے ہندوستان سے ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ آج تک پر نہیں کیا جاسکا ہے اور جو دھکا مجھے لگا ہے اس کے اظہار کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔ پھر کچھ بھرائی ہوئی آواز سے کہنے لگے میں مولانا مودودیؒ کو کبھی معاف نہیں کروں گا وہ انہیں اچک لے گئے․․․․․․ اس پر کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی تھوڑی دیر بعد میں نے ایک سوال کیا کہ مولانا یہ بتائیے کہ دور جدید میں نئے اذہان کے لیے قرآن کی کون سی تفسیر زیادہ مناسب رہے گی جو تریاق ثابت ہو۔ مولانا خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد گویا ہوئے، کہنے لگے صاحبزادے تم نے مشکل سوال کردیا ہے اور پھر خاموش ہوگئے۔
میں نے علامہ حمیدالدین فراہیؒ کے متعلق گفتگو شروع کی تو معلوم ہوا کہ مولانا فکر فراہی کے رمزشناس ہیں جبکہ ان کی تحریر کو سمجھنا جوئے شیرلانا ہے۔ پھر میں نے مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم کا نام لیا تو مولانا بے قابو ہوگئے۔ رقت طاری ہوئی اپنے استاذ سے ایک شاگرد کی اس قدر والہانہ محبت میں نے پہلی بار دیکھی تھی۔
مولانا بدرالدین ایک شریف النفس اور مسلم الطبع انسان تھے وہ نہایت ذہین صاحب علم اور عبقری شخص تھے، قرآن و حدیث، فقہ اور تاریخ پر اچھی نظر تھی، سادگی اور منکسرالمزاجی میں بے مثال تھے۔ ان کے سادہ طرز گفتگو سے ان کے علم کا اندازہ نہیں ہوتا تھا، مگر جب کسی مسئلہ پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے تو دلائل و براہین کا انبار لگادیتے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
ان جیسے صاحب فضل و کمال ذہین و ذی استعداد شخص کے لیے عظمت و شہرت حاصل کرلینانا ممکن نہ تھا مگر انہوں نے گوشہ گمنامی ہی میں پڑے رہنے کو پسند کیا، ممکن ہے استاذ امام علامہ فراہی کا یہ قطعہ ان کے پیش نظر رہا ہو:
گوئند کہ گمنام بدن از جامی است
آوارزہ د نام جوکہ خوش غیر جامی است
درپیش فراہی اے نکو اندیشاں
ایں جستن نام بدترین بدنامی است
ترجمہ: لوگوں کے خیال میں گمنام رہنا بحث کی بات ہے، شہرت و ناموری تلاش کرو کہ آدمی کی خوش ایجابی یہی ہے۔ فراہی کے نزدیک تو اے بہی خوا ہو یہ ناموری کی خواہش بدترین بدنامی ہے۔
مولانا کی شخصیت بہار آفریں اور اتنی دلآویز تھی کہ لوگ چند لمحے میں ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے وہ اپنی ظرافت و شگفتہ مزاجی اور رعنائی بیان سے لوگوں کو مسحور کرلیتے جب ہم لوگ مولانا کے پاس سے رخصت ہونے لگے تو وہ آبدیدہ ہوگئے، علالت و معذوری کے باوجود ایک چھڑی کے سہارے کافی دور تک بھیجنے آئے، اپنا دست شفقت میرے سرپر رکھا اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔ مجھے مولانا سے گہری الفت و انسیت پیدا ہوگئی تھی،جو ان کی پرکشش سیرت اور مشفقانہ رویہ کی بنا پر تھی۔ مولانا کی بصیرت افروز اور مشفقانہ باتوں کو میں ان کی زندگی میں باربار یاد کرتا رہا ہوں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد مولانا کے ساتھ بیتے ہوئے لمحے نظروں کے سامنے گردش کرنے لگے ہیں:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
( ستمبر ۱۹۹۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...