Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناقاضی اطہر مبارکپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناقاضی اطہر مبارکپوری
ARI Id

1676046599977_54338353

Access

Open/Free Access

Pages

560

مولانا قاضی اطہر مبار کپوری
گذشتہ مہینہ سفر میں جب مولانا قاضی اطہر مبار کپوری کے انتقال کی خبر ملی تو بڑا دھکا لگا، مجھے ان کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محرومی کا ہمیشہ بہت ملال رہے گا۔
اعظم گڑھ کے متعدد علماء کو بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی خود مبارکپور کے جو اعظم گڑھ کا مشہور قصبہ اور علم و تعلیم اور صنعت و حرفت کا بڑا مرکز ہے، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور مولانا عبیداﷲ رحمانی شارح مشکوٰۃ المصابیح کا آوازہ شہرت عالم اسلام میں بلند ہے، انہی لوگوں کی صف میں مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے بھی اپنی جگہ بنالی تھی، مگر افسوس کہ دست اجل نے انہیں ہم سے چھین لیا، یہ بڑا علمی سانحہ ہے اور قاضی صاحب کا خلا پر ہونا آسان نہیں۔
ان کی ولادت ۱۹۱۶؁ء میں ہوئی، ان کے نانا مولانا احمد حسین رسولپوری عربی زبان و ادب کے ماہر اور صاحب تصانیف کثیرہ تھے، قاضی صاحب نے ان کا عربی دیوان مرتب کر کے شائع کیا تھا، انہوں نے عرصہ دراز تک ڈھاکہ میں مسند درس کو رونق بخشی۔ انہی سے قاضی صاحب نے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں تھیں پھر مبارکپور کے مشہور مدرسہ جامعہ احیاء العلوم میں درسیات کی تکمیل کی اور جامعہ قاسمیہ مراد آباد میں مولانا فخرالدین، مولانا سید محمد میاں اور مولانا سید اسماعیل سنبھلی سے صحاح ستہ کا درس لیا۔
طالب علمی کے زمانے میں ان کو شعر و سخن سے دلچسپی تھی، اور خود بھی سخن فرماتے تھے، یہ تحریک آزادی کے شباب کا زمانہ تھا، قاضی صاحب کو سیاست اور ہنگامہ آرا قومی جدوجہد سے کبھی سرو کار نہیں رہا، تاہم آزادی کا جادو ہر شخص پر چل گیا تھا، قاضی صاحب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، مبارکپور میں ہر قسم کے مذہبی و سیاسی جلسے برابر ہوتے تھے جن کے لیے وہ نظمیں کہتے تھے، مگر قدرت نے ان کو اس سے اعلاو ارفع کاموں کے لیے پیدا کیا تھا، جب علم و فن سے ان کا اشتغال بڑھا تو شاعری کا کوچہ خود بخود چھوٹ گیا۔
صغرسنی ہی سے مضمون نگاری بھی کرنے لگے تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہوئے، آزادی سے پہلے زمزم لاہور سے نکلتا تھا جو اس دور کا مشہور قوم پرور اخبار تھا، قاضی صاحب اس کے اور دوسرے اخباروں کے شعبہ ادارت سے منسلک رہے، یہاں ’’زندہ دلان پنجاب‘‘ کی صحبت میسر آئی جس سے زبان کے نوک پلک درست کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور لکھنا پڑھنا ہی زندگی کا معمول بن گیا۔
ملک کی تقسیم کے بعد انہوں نے بمبئی کا رخ کیا جو ہندوستان کا سب سے بڑا اور مشہور تجارتی شہر ہے، لوگ یہاں مادی منفعتوں کی طلب اور اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے آتے ہیں لیکن قاضی صاحب اپنے علم و فن کی دوکان سجانے کے لیے یہاں آئے تھے۔
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ
یہی ہنگامہ خیز شہر ان کی علمی، قلمی اور تصنیفی جولان گاہ بنا، اس کے ایک حجرہ میں بیٹھ کر انہوں نے اپنے علم و ہنر کا تازہ جہاں آباد کیا شب و روز مطالعہ میں مستغرق رہتے، نہ اپنے آرام و راحت کا خیال، نہ کھانے پینے کی پروا، نہ سونے جاگنے اور اٹھنے بیٹھنے کا کوئی وقت، بمبئی کے ہنگاموں اور لوگوں کے ملنے جلنے سے محترزرہ کر صرف علم کی خدمت و اشاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا اور علم کے لئے اپنے وجود کو گھلا ڈالنا آسان نہ تھا مگر انہوں نے یہ سب کر دکھایا اور ع پئے علم جوں شمع باید گداخت کا نمونہ پیش کیا۔ جس کا آج کل کے آرام طلب اور تن آسان لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
یہاں بھی صحافت ہی سے وابستہ رہے، مختلف اخباروں میں مخصوص کالم لکھتے رہے، انقلاب میں کالم لکھنے کا سلسلہ بمبئی چھوڑنے کے بعد بھی جاری رہا، یہاں انجمن اسلام کے اسکولوں میں طلبہ کو دینیات کا درس بھی دیا انجمن خدام النبی نے جب البلاغ کے نام سے ایک علمی، دینی اور حج سے متعلق معلوماتی رسالہ نکالا تو گو اس پر دوسرے لوگوں کے نام بھی ہوتے تھے، مگر اصلاً اس کی ترتیب و ادارت کا کام وہی تنہا انجام دیتے تھے، اور اس کے اکثر مضامین بھی انہی کے قلم سے ہوتے تھے، اس کے ایک مستقل کالم ’مطالعات و تعلیقات‘ میں اپنے مہینہ بھر کے مطالعہ کا نچوڑ پیش کرتے تھے، جس کے بعض مفید حصے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ ۱۹۵۵؁ء میں انہوں نے البلاغ کا ایک خاص شمارہ تعلیمی نمبر نکالا جو ایک علمی دستاویز بن گیا اور بہت پسند کیا گیا۔
وہ بڑے زود نویس تھے، اس زمانے میں بھی ان کی بعض کتابیں اور رسالے شائع ہوئے مگر شروع میں ان پر صحافت کا رنگ غالب تھا، بمبئی میں جب علمی انہماک بڑھا اور تحقیق و جستجو کے عادی ہوئے تو ان کا طرز تحریر بھی بدلا اور تحریر میں بھی پختگی پیدا ہوگئی، وہ علامہ شبلی مرحوم کے ہمیشہ عقیدت مند رہے، ان کے نزدیک اردو انشا پردازی کا بہترین اور اعلاترین نمونہ انہی کا طرز تحریر تھا، اس لیے انہوں نے اسی انداز انشا کی تقلید کی۔ اسی زمانے میں معارف میں ان کے علمی و تحقیقی مضامین نکلنے لگے جس کا سلسلہ مدۃالعمر قائم رہا۔
۱۹۵۸؁ء میں ان کی کتاب رجال السندوالھند شائع ہوئی تو ملک و بیرون ملک کے علمی حلقوں میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی، یہ ساتویں صدی سے قبل ہندوستانی و سندھی اصحابِ علم و کمال کا تذکرہ ہے، ۱۹۷۸؁ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن بڑے اضافوں کے ساتھ دو حصوں میں شائع ہوا پہلے حصہ میں ان اشخاص کا تذکرہ جو یا تو ہندو سندھ میں پیدا ہوئے اور یہیں وفات پائی یا جن کا اصل تعلق اس سرزمین سے تھا مگر ان کی ولادت اور سکونت باہر رہی، دوسرے حصہ میں باہر سے یہاں آکر واپس چلے جانے یا باہر سے آکر یہاں قیام پذیر اور یہیں کی خاک کا پیوند ہونے والوں کا تذکرہ ہے، سیر، تاریخ، رجال، تراجم اور طبقات کی سینکڑوں کتابوں کو کنگھال کر یہ معلومات جمع کئے گئے ہیں، اس طرح یہ کتاب ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی تاریخ اور عربی طبقات و تراجم میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔
بمبئی میں انہوں نے اپنی تصنیفی زندگی کا باقاعدہ نظام بنایا تو ہندوستان کے ابتدائی قدیم عہد کی اسلامی تاریخ ان کا خاص موضوع بن گیا۔ دراصل اردو میں سب سے پہلے علامہ شبلی نے اپنے بعض مضامین میں اس موضوع پر بحث کی، پھر مولانا سید سلیمان ندوی نے عرب و ہند کے تعلقات اور عربوں کی جہاز رانی لکھ کر اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے راہ ہموار کردی، دارالمصنفین کی کتاب ’’تاریخ سندھ‘‘ اور ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے، قاضی صاحب نے اس موضوع کو اپنایا تو اس کو مزید وسعت دی جس سے اس کے بعض نئے گوشے اور پہلو سامنے آئے، اس سلسلہ کی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
عرب و ہند عہد رسالت میں، ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں، اسلامی ہند کی عظمت رفتہ، خلافت راشدہ اور ہندوستان، خلافت امویہ اور ہندوستان، خلافت عباسیہ اور ہندوستان۔
گویہ ساری کتابیں ایک ہی طرز کی ہیں مگر قاضی صاحب کی محنت و کاوش سے میر انیس کے بقول ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ع
اک پھول کا مضمون ہو تو سو طرح سے باندھوں
یہ ساری کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کے عربی ترجمے بھی شائع ہوئے، بعض کتابوں کا ترجمہ مصر کے ڈاکٹر عبدالعزیز عزت عبدالجلیل نے کیا ہے۔
ہندوستان میں پورب کا علاقہ جو پہلے سرکار جون پور میں شامل تھا بڑا زرخیز اور شیراز ہند کہلاتا ہے، شرقی سلاطین کی علوم و معارف پروری نے اس کے ہر قریہ کو فردوس کے مانند اور ہر قصبہ کو شیراز و اصفہان کا ہم سر بنا دیا تھا، قاضی صاحب نے دیار پورب کی علمی تاریخ کو بھی اپنا موضوع بنایا اور یہاں کے قعر گمنامی میں پہنچ جانے والے علما کو اس سے نکالا، مضامین کے علاوہ اس موضوع پر ان کی کتابیں ’’دیار پورب میں علم و علما‘‘ اور ’’تذکرہ علمائے مبارکپور‘‘ بھی اہم ہیں۔ تدوین سیر و مغازی، مآثر و معارف اور بنات اسلام کی علمی خدمات بھی بڑی کدو کاوش کا نتیجہ ہیں۔
ان کی ایک کتاب ’’علی و حسین‘‘ بھی ہے جو جناب محمود احمد عباسی کی کتاب ’’خلافت معاویہ و یزید‘‘ کا جواب ہے، اس میں قاضی صاحب نے دکھایا ہے کہ عباسی صاحب نے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے یا تو کمزور تاریخی روایتوں کا سہارا لیا ہے یا روایتوں میں کتر بیونت کی ہے، یہ خیال بجاہے لیکن دوسری طرف حضرت معاویہ و یزید بلکہ بنی امیہ کے مثالب میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ بھی ضعف، وہن اور نکارت سے خالی نہیں ہیں، ضرورت ہے کہ کوئی صاحب علم و نظر اس دور کی دونوں طرح کی روایات کی چھان پھٹک کرکے دودھ اور پانی کو الگ الگ کردے، ہمارے خیال میں ہمارے فاضل دوست پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی ندوی یہ کام بہتر انداز سے کرسکتے ہیں۔
قاضی صاحب نے ان دو نادر و نایاب کتابوں کے متون تحقیق و تحشیہ کے بعد شائع کئے ہیں۔
جواہر الحدیث فی علم حدیث الرسول اور دیوان احمد (قاضی صاحب کے نانا کا کلام) ان کی کئی کتابیں شائع ہونے سے رہ گئی ہیں، ان میں ’’مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر پیشہ میں علم و علما‘‘ بڑی اہم اور اچھوتی ہے۔
جب بمبئی چھوڑ کر اپنے وطن میں فروکش ہوئے تو مختلف اداروں نے ان کو اپنے یہاں بلانا چاہا مگر کبرسنی اور عائلی زندگی کے لطف و لذت کو چھوڑ کر کہیں جانا پسند نہیں کیا، تاہم دارالمصنفین کا اعزازی رفیق اور اس کی وقف کمیٹی کا ممبر بننا قبول کرلیا۔ ماہنامہ برہان دہلی کے اعزازی مدیر ا ور شیخ الہند اکیڈمی کے ڈائرکٹر بھی ہوگئے تھے۔ جہاں سے ان کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ وہ بہت سے علمی و تعلیمی اداروں کے ممبر بھی تھے، جن میں دارالعلوم تاج المساجد بھوپال، دارالعلوم ندوۃالعلما لکھنو اور دارالعلوم دیوبند قابل ذکر ہیں۔
قاضی صاحب کی بے لوث علمی خدمت اور غیر معمولی جاں فشانی کی بنا پر انہیں علمی و دینی وجاہت کی طرح دنیاوی وجاہت اور مادی فارغ البالی بھی حاصل ہوئی۔ ان کی عربی خدمات اور علمی و تحقیقی کاموں کے اعتراف کے طور پر سابق صدر جمہوریہ ہند گیانی ذیل سنگھ نے انہیں توصیفی سند عطا کی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان گئے تو وہاں بھی علمی خدمات کی بنا پر انعام و اکرام سے نوازے گئے، قاضی صاحب نے سندھ پر جو قابل قدر کام کیا ہے اس کی بدولت وہاں ان کی پانچ کتابوں کے افتتاح کی تقریب ہوئی جس کی صدارت اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ نے کی اور ’’محسن سندھ‘‘ کا خطاب بھی دیا۔
قاضی صاحب بڑے متواضع ، منکسر المزاج اور خلیق تھے، وہ خلوص و محبت اور درد مندی کا پیکر تھے۔ لوگوں کی حاجت روائی اور ان کے کام کردینے میں ان کو لذت ملتی تھی۔ کسی کو ضرر پہچانا یا ایذا دینا ان کا شیوہ نہ تھا۔ ان کی زندگی بڑی سادہ اور ہر قسم کے تکلف و تصنع سے بری تھی، اپنی وضع قطع اور ملنے جلنے کے انداز سے اپنی عظمت اور بڑائی ظاہر نہ ہونے دیتے، طبیعت میں غیرت و خودداری تھی، کسی کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کرتے تھے، وہ کسی کے عہدہ و منصب اور جاہ و تمول سے نہ کبھی مرعوب ہوتے اور نہ اس سے دب کر اور جھک کر ملتے، اہل علم کی بڑی قدر کرتے، ان کے سامنے مصنوعی اور خود ساختہ بڑوں کو ہیچ و حقیر خیال کرتے، علم کی توہین کسی حال میں نہ ہونے دیتے، اصحاب علم کو دولت مندوں اور امراء کی خوشامد کرتے دیکھتے تو غضب ناک ہوجاتے، بڑے صاف گوتھے، ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا، لاگ لپٹ، رو رعایت، ظاہرداری اور مصلحت پسندی انہیں نہیں آتی تھی، ناگوار باتوں اور غلط کاموں کو دیکھ کر چپ رہنے یا چشم پوشی کرلینے کو پسند نہ کرتے تھے اور صحیح بات بے جھجھک بر ملا کہہ دیتے تھے۔
حرص و آز اور تملق سے نفرت تھی، غرور و تمکنت اور رعونت و نخوت کا کوئی شائبہ بھی ان میں نہ تھا، وہ خودستائی اور خود نمائی کے بالکل عادی نہ تھے، کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے ان کی فضیلت و برتری ظاہر ہوتی، ان کی دینداری ریا و نمائش سے خالی تھی، وہ نام و نمود کے بجائے خاموش خدمت کو پسند کرتے۔
ہر ایک سے بشاشت اور گرم جوشی سے ملتے، ان کا آئینہ دل بغض اور کینہ و کدورت سے زنگ آلود نہ تھا، تعصب، تنگ نظری اور جماعتی عصبیت کو سخت ناپسند کرتے تھے، ہر گروہ و مسلک کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، ان کے جنازہ میں بڑا اژدھام تھا جس میں ہر مسلک و مشرب اور ہر فرقہ و گروہ کے لوگ شامل تھے۔ اپنے خوردوں سے بھی نہایت بے تکلفی سے ملتے اور محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے معمولی اور ادنیٰ کاموں کی داد دیتے، اپنے بزرگوں اور برابر کے لوگوں سے ہمیشہ عزت و اکرام کا معاملہ کرتے بڑے مہمان نواز تھے علماء کو اکثر اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے اور جب وہ پہنچ جاتے تو ان کو بڑی خوشی ہوتی اور خوب خاطر مدارات کرتے۔
اﷲ تعالیٰ علم و دین کے اس خادم کی مغفرت فرمائے اور اعزہ و متوسلین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین! (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۱۹۹۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...