Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی
ARI Id

1676046599977_54338354

Access

Open/Free Access

Pages

563

آہ! پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی
پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی کے انتقال کی خبر یکم اگست کو ۱۲ بجے شب میں سنی تو یقین نہیں ہوا، علی الصباح جناب عبداللطیف اعظمی کو فون کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ حادثہ جاں کاہ ۳۰؍ جولائی کی شب میں پیش آیا اور ۳۱؍ کو دوپہر بعد تدفین ہوئی، میرے لیے یہ خبر ناقابل برداشت تھی، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان کے دونوں صاحبزادوں کو خطوط لکھے، اس پر بھی تاب لائے نہ بنی تو ۸؍ اگست کو دہلی ان کے دولت کدہ پر تعزیت کے لیے حاضر ہوا، لیکن اب بھی تسکین دلِ محزوں نہیں ہورہی ہے اور بے چینی اور اضطراب کا وہی عالم ہے۔
مجھ سے پوچھو نہ مزاج دل نا شاد ابھی
میرے نغموں میں ہے کچھ تلخی فریاد ابھی
ابھی ۱۸؍ جولائی کو مجلس تحقیقات و نشریات لکھنو کے جلسے میں ان سے ملاقات ہوئی تھی تو میں نے عرض کی تھی کہ اعظم گڈھ تشریف لے چلیں، پہلے تو حسب عادت مسکرائے پھر کہا ۲۰؍ کودہلی واپسی کا ریزرویشن کراچکا ہوں، میں ڈھائی بجے دن میں ان سے رخصت ہونے لگا تو یہ کہہ کر مجھے روکنا چاہا کہ ’’ارے بڑی سخت دھوپ ہے‘‘۔
ٹھہر بھی جا در ساقی پہ دو گھڑی کے لیے
تمام عمر پڑی ہے رداروی کے لیے
مگرمیں یہ اشارہ غیبی نہ سمجھ سکا کہ چند روز بعد کبھی نہ واپس ہونے والے سفر سے ان کا ریزرویشن ہوچکا ہے اور اپنی دھن میں روانہ ہوگیا، مجھے کیا خبر تھی کہ ع انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ۔ اور بس عالم ناسوت میں یہ ان سے آخری ملاقات ہے، اس کے بعد ان کا روئے روشن اور رخِ زیبا دیکھنا نصیب نہ ہوگا، اور صرف حسرت ہی حسرت رہ جائے گی۔
حیف در چشم زدن صحبتِ یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم بہار آخر شد
وہ ۲؍ مئی ۱۹۲۵؁ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن اعظم گڑھ سے متصل ضلع فیض آباد کا مشہور صنعتی قصبہ ٹانڈہ تھا، جو علمی و تعلیمی حیثیت سے بھی امتیاز رکھتا تھا، یہاں کی خانقاہوں سے چلنے والے علم و عرفان اور رشد و ہدایت کے جھونکے اعظم گڑھ کے مغربی قصبوں اور دیہاتوں میں بھی پہنچ رہے تھے، ٹانڈہ میں شیوخ و سادات کے بعض خاندان آباد تھے، جو علمی، دینی اور دنیاوی وجاھت کے مالک تھے، ضیاء الحسن فاروقی صاحب کا خاندانی تعلق فاروقی شیوخ سے تھا جس کی قرابت سادات کے خاندانوں میں بھی تھی، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے حقیقی بھتیجے مولانا وحید احمد صاحبؒ کی صاحبزادی ان کے عقد میں تھیں، ان کے خاندان میں دین داری تھی، خود فاروقی صاحب میں بھی دین داری رچ بس گئی تھی، جس میں عمر کے ساتھ برابر ترقی ہوتی رہی۔ وہ صوم و صلاۃ اور اوراد و وظائف کے پابند تھے، جماعت سے نماز پڑھتے اور صف اول میں شامل ہوتے، تہجد اور شب خیزی کے عادی تھے، صبح سویرے قرآن مجید کی تلاوت معمول میں داخل تھی، رمضان میں تراویح میں قرآن مجید سننے کا التزام تھا، ان کے خاندان کا دینی تعلق تو حضرت مدنیؒ اور ان کے خاندان سے رہا ہوگا مگر وہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ سے بیعت تھے اور خوش تھے کہ:
دامن پکڑ لیا ہے شب دراز کا
تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی، اس وقت ان کے معاشی حالات بہتر نہ تھے، کوئی اور ہوتا تو پڑھنا لکھنا چھوڑدیتا۔ مگر وہ اولوالعزم، حوصلہ مند، محنتی اور جفا کش تھے، مشقتیں اور صعوبتیں جھیل کر اور سرد و گرم حالات کا مقابلہ کرکے تعلیم مکمل کی۔
مجھے ان کے نام سے واقفیت اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہوئی، اس وقت وہ مدینہ بجنور کے شعبہ ادارت سے منسلک تھے، اسی زمانے میں میری مضمون نگاری کی ابتدا ہوئی تھی اور بعض مضامین مدینہ اور غنچہ میں بھی شائع ہوئے تھے، صاحب سلامت کی نوبت ۱۹۶۵؁ء میں آئی جب وہ دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی کی گولڈن جبلی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، اس میں انہوں نے اپنا مقالہ بھی پڑھا تھا، اس کے بعد دارالمصنفین سے ان کے روابط بڑھے اور غالباً ۶۷ء یا ۶۸ء میں وہ اس کے کتب خانے سے استفادے کے لیے یہاں آئے تو تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے، اس عرصہ میں مجھے ان کے علمی شغف اور مطالعہ میں استغراق و انہماک کا اندازہ ہوا، شام کو چائے پر مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کے ساتھ ان کی پر لطف صحبت رہتی جس میں علمی، ادبی اور سیاسی مسائل پر دلچسپ باتیں ہوتیں، میں بھی ان صحبتوں میں شریک رہتا اور علمی و ادبی نکتوں سے لطف اندوز ہوتا۔
۱۹۷۷ء میں وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے ممبر ہوئے تو اس کے مسائل و معاملات سے انہیں ایسی دلچسپی ہوئی کہ وہ جلد ہی اس کی مجلس عاملہ کے بھی ممبر ہوگئے اور جو ذیلی کمیٹیاں تشکیل پاتیں ان کے ایک ممبر وہ بھی ضرور ہوتے تھے، بڑی پابندی سے دارالمصنفین کے جلسوں میں تشریف لاتے اور اس کو برابر یاد رکھتے، اعظم گڑھ کا کوئی آدمی ان کو مل جاتا تو اس کے اور اس کے کارکنوں کے بارے میں ضرور دریافت کرتے، وہ کسی حال میں ہوتے دارالمصنفین کا خیال ان کو ضرور رہتا۔
قید میں بھی ترے وحشی کو رہی زلف یاد
راقم الحروف کو ان کے مفید مشوروں اور وسیع تجربوں سے بڑی مدد اور رہنمائی ملتی، دارالمصنفین کے سرد و گرم حالات اور نازک اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں بڑی دماغ سوزی سے کام لیتے، اب ایسا مخلص اور ہمدرد آدمی کہاں ملے گا؟ ادھر کئی برسوں سے ان کی حیثیت دارالمصنفین کے علمی و انتظامی مشیر کی ہوگئی تھی، سال میں ایک یا دو بار وہ ضرور تشریف لاتے، ماہ ڈیڑھ ماہ قیام کرتے، اپنے علمی کاموں کے علاوہ دارالمصنفین کے رفقاء و کارکنوں کی رہبری بھی کرتے اور یہاں کا چھوٹا بڑا ہر کام شوق و دلچسپی سے انجام دیتے، اتفاق سے بابری مسجد کی شہادت کے زمانے میں وہ یہیں موجود تھے، عجیب خوف و دہشت کا ماحول تھا، ان کی وجہ سے بڑی تقویت تھی، میں نے دسمبر ۹۲ء کے معارف کا اداریہ لکھا تو کتابت کے لیے دینے سے پہلے ان کو اور رفقا کو دکھلایا، انہوں نے دو ایک جگہ حذف و ترمیم کا مشورہ دیا، مسجد کے سلسلے میں کانگریس کے رویے کے بارے میں میرے نوک قلم پر ایک شعر آگیا تھا۔ ع
مری میت پہ اب آیا ہے ظالم بال بکھراے
کہو یہ شکل جیتے جی دکھا دیتا تو کیا ہوتا
اس پر وہ بھڑک اٹھے اور دریافت کیا کس کا شعر ہے، مگر میں بتا نہ سکا۔
ان کی فراغت، علمی ترقی اور ادبی فتوحات کا دور اس وقت شروع ہوا جب وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوئے، یہاں وہ جامعہ کالج کے پرنسپل، فیکلٹی آف ہومینٹیز اینڈ لینگویجز کے ڈین، شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائرکٹر اور قائم مقام وائس چانسلر رہے، روس کا سفر کیا، رسالہ جامعہ کا دوبارہ اجرا ہوا تو عبداللطیف اعظمی صاحب کے تعاون سے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کے متعدد خاص نمبر شائع کئے جو مستقل تصنیفات سے بڑھ کر تھے، ۱۹۶۹؁ء میں ڈاکٹر سید عابد حسین کی سرکردگی میں ’’اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج سوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، اس کی طرف سے عابد صاحب کی ادارت میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ’’اسلام اور عصر جدید‘‘ اور ’’اسلام اینڈ ماڈرن ایج‘‘ کے نام سے سہ ماہی علمی رسالے نکلے، عابد صاحب کی وفات کے بعد ان دونوں رسالوں کی ادارت بھی ضیاء الحسن فاروقی صاحب کو سپرد ہوئی، اپنے شعبہ کی سربراہی کے ساتھ تین تین رسالوں کی ادارت کا بار اٹھا لینا اور اچھی طرح نباہ لینا ان کے جیسے غیر معمولی شخص ہی کا کام ہوسکتا ہے۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
اپنے شعبہ کی جانب سے انہوں نے بڑے پیمانے پر کئی سیمینار بھی کرائے، ’’فقہ اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے عنوان سے جو سیمینار ہوا تھا اس کے مضامین کا مجموعہ انہوں نے مرتب کرکے شائع کیا تھا۔
تصنیف و تالیف ان کا خاص ذوق تھا اردو اور انگریزی دونوں میں تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں، فارسی شعر و ادب کا عمدہ مذاق تھا اور اردو کے بہت اچھے، مشاق اور صاحب فکر مصنفین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
اسلامی علوم، عہد حاضر کی اسلامی سیاست اور اس دور کے ان مسلم رہنماؤں سے فاروقی صاحب کو خاص دلچسپی تھی جنہوں نے مفید دینی، اصلاحی اور تعلیمی خدمات انجام دیں اور جن کا مسلمانوں کی موجودہ قومی و سیاسی بیداری میں خاص حصہ رہا ہے، مذہب، تصوف اور قومی تحریک سے ان کی دلچسپی مولانا مدنیؒ کے اثر کا نتیجہ رہی ہوگی، لیکن علمی و فکری حیثیت سے وہ مولانا آزاد کے زیادہ قریب رہے، ان کے دینی و سیاسی تصورات کا رنگ ان پر آخر تک چھایا رہا، دو قومی نظریے اور بعض مسلم جماعتوں کے وہ ہمیشہ خلاف رہے اور اپنے مضامین اور تحریروں میں ان کے طرز فکر کی کجی و خامی کی نشاندہی بھی کرتے، اس سلسلہ میں ان کی کتاب ’’اسلام اور بدلتی دنیا‘‘ بڑی اہم ہے جو ان اداریوں کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے سہ ماہی اسلام و عصر جدید (اردو) کے لیے لکھے تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر حالات کی نزاکتوں اور دین کے تقاضوں پر یکساں ہے، اس میں انہوں نے عالم اسلام کے واقعات اور مسلمانوں کو درپیش دینی و سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کے نتائج و عواقب کا جائزہ لیا ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی ہی عقل و تدبر سے کام لے کر انہیں حل کرنے کی دعوت دی ہے، انہوں نے خاص طور پر بعض دینی جماعتوں اور ہندوستان اور اسلامی ملکوں کے بعض مصلحین کی علمی، فکری، دعوتی اور اصلاحی خدمات پر اس طرح بحث و تبصرہ کیا ہے کہ ان کی خوبیوں اور ان کے مفید پہلوؤں کے ساتھ ان کی خامیاں اور کوتاہیاں بھی سامنے آگئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان اور دنیائے اسلام کے بعض ملکوں میں اسلامی بیداری کے آثار اور اسلام کو مضبوط و مستحکم کرنے کی خواہش تو نمایاں ہے مگر ان میں معاشرتی و معاشی اصلاح اور سچی اسلامی زندگی کے قیام کے بنیادی کام کو نظر انداز کر کے سیاسی طاقت اور حکومتی اقتدار حاصل کرکے اسلامی قوانین نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
’’افکار و اشخاص‘‘ بھی ان کی اسی طرح کی کتاب ہے، یہ بھی مضامین کا مجموعہ ہے، اس میں سرسید، مولانا شبلی، مولانا آزاد، جمال الدین افغانی، مفتی محمدعبدہ، رشید رضا ضیا، گو کلپ اور لطف اﷲ کے اصلاحی افکار و خیالات کا تجزیہ کیا گیا ہے، وہ کچھ عرصہ کے لیے پروفیسر ڈاکٹر ذاکر حسین چیئر پر بھی رہے اور ذاکر صاحب کی مبسوط سوانح عمری لکھنے کا کام ان کے سپرد ہوا۔ یہ کام ان کے ذوق اور دلچسپی کا تھا لیکن ظاہر ہے ذاکر صاحب جیسی ہمہ گیر اور پہلودار شخصیت پر محدود وقت میں کتاب لکھنا آسان نہیں تھا مگر انہوں نے بڑی تلاش و جستجو اور محنت شاقہ سے ’’شہید جستجو‘‘ کے نام سے ان کی ایک ضخیم اور مکمل داستانِ زندگی مرتب کردی، اس کی تیاری میں انہوں نے جو غیر معمولی جانفشانی کی ہے اس کا اندازہ ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے:
’’ذاکر صاحب کی اس بایو گریفی کے تیار کرنے میں نہ معلوم کتنے ہفت خواں طے کرنے پڑے کتابیں، مضامین، ریکارڈ کئے ہوئے ابتدائیہ، انٹرویوز، ذاکر صاحب اور دوسروں کے خطوط، پرائیوٹ پیپرز اور خود ذاکر صاحب کی وہ تحریریں جن تک میری رسائی ہوسکی، بیسیوں اشخاص سے ملاقاتیں اور نہ جانے کیا کیا‘‘۔
بایوگریفی کے موجودہ معیار اور تحقیق کے لیے طریقوں کو مدنظر رکھ کر انہوں نے ذاکر صاحب کی جو وقیع اور معتبر لائف مرتب کی ہے اس سے بہتر ممکن نہیں تھی، یہ آئندہ کام کرنے والوں کے لیے مستند ماخذ کا کام دے گی۔
شہید جستجو کی ترتیب کے درمیان انہیں ذاکر صاحب کی ایک بیاض دستیاب ہوئی جس میں ان کے پسندیدہ فارسی اشعار درج تھیـ ’’نگار معنی‘‘ کے نام سے اس کا ایک اچھا انتخاب مرتب کر کے اپنے مفید مقدمہ کے ساتھ شائع کیا، اس سے دونوں حضرات کے فارسی شعر و ادب کے اچھے ذوق کا پتہ چلتا ہے۔
ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی طرف سے ۱۹۸۷؁ء میں انہوں نے ذاکر صاحب کی ۹۰ ویں سال گرہ کے موقع پر ’’ذاکر صاحب اپنے آئینہ لفظ و معنی میں‘‘ مرتب کرکے شائع کیا جو ذاکر صاحب کی بعض اہم انگریزی تحریروں کے اردو ترجموں اور بعض کامیاب اردو تحریروں اور تقریروں اور چند نہایت اہم غیر مطبوعہ خطوط کا مجموعہ ہے، مولانا عبدالماجد دریا بادی مرحوم کے نام کے خطوط کا واقعاتی پس منظر بیان کرنے کے لیے مرتب نے ’’الفت موج و کنار‘‘ کے عنوان سے دلچسپ اور پرمغز ابتدائیہ لکھا ہے۔
اسی طرح کی ایک کتاب ’’مجیب صاحب کے احوال و افکار‘‘ کے نام سے مجیب صاحب کی ۸۲ ویں سال گرہ کے موقع پر شہاب الدین انصاری اور جناب عبداللطیف اعظمی کے اشتراک سے مرتب کی تھی جس کے پہلے حصہ ’’احوال‘‘ میں ان کے اور دوسروں کے مضامین ہیں اور دوسرا حصہ ’’افکار‘‘ خود مجیب صاحب کی منتخب تحریروں کا مجموعہ ہے۔
مولانا ابوالکام آزاد سے ان کو ذہنی ہم آہنگی بھی تھی اور غیر معمولی عقیدت بھی۔ مولانا پر انہوں نے کئی فاضلانہ مقالے لکھے، آج کل وہ انگریزی میں مولانا کی سیاسی سوانح پر کام کررہے تھے، جس کی پہلی جلدپریس کے حوالے کرچکے تھے اور دوسری جلد کی تالیف میں ہمہ تن مشغول تھے۔
تصوف کا ذوق انہیں وراثتاً ملا تھا، اس سے علمی و عملی وابستگی تھی، اسی مناسبت سے انہوں نے طبقہ صوفیہ کے سرخیل حضرت جنید بغدادیؒ کی شخصیت و تصوف پر بھی ایک کتاب لکھی تھی، اس کے پہلے حصہ میں ان کے حالات، تصوف و شخصیت، نظریہ توحید و صحو اور تصنیفات پر بحث کی ہے اور جنید بغدادی کی مشہور کتاب ’’معالی الہمم‘‘ میں مذکور علماء و صلحا کا حال لکھا ہے۔ اور دوسرا حصہ اس کتاب کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔
صوفیانہ مشرب سے دلچسپی کی بناپر انہوں نے فوائد الفواد کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ انگریزی میں کئی اور کتابیں بھی لکھیں۔ تعلیم کے موضوع پر بھی ان کی کتابیں ہیں۔
جس طرح ان کی شکل و صورت پاکیزہ، پرکشش اور چہرہ پرنور تھا، اسی طرح ان کے دل اور ان کی سیرت و کردار میں بھی پاکیزگی، دلکشی اور جاذبیت تھی، مہر و محبت، علم و انکسار، رحم و مروت، اخلاص و نیک نیتی اور اعتدال و سلامت روی ان کی سیرت و شخصیت کا خاص جوہر تھا، بڑے مرنجاں مرنج تھے، ہر شخص سے بڑی میٹھی اور نرم گفتگو کرتے، شکوہ، شکایت، غیبت، بدگوئی اور خود ستائی سے پرہیز کرتے، چھوٹے بڑے، ادنا و اعلا ہر ایک سے تعلق رکھتے اور سب سے بشاشت اور تپاک سے ملتے دارالمصنفین کے ایک ایک آدمی سے گھل مل گئے تھے، سب کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے اور اظہار ہمدردی کرتے۔ وقت کے بڑے پابند تھے، فضول کاموں اور خواہ مخواہ کی بحث و تکرار میں وقت ضائع نہ کرتے، ہر قسم کی دلچسپیاں ترک کردی تھیں اور صرف مفید بامقصد کاموں میں وقت صرف کرتے۔
قاعدہ و ضابطہ کے نہایت پابند تھے، اصول و قانون شکنی کو سخت ناپسند کرتے۔ جامعہ میں وہ بڑے ذمہ دارنہ عہدوں پر متمکن رہے، عزل و نصب کے اختیارات بھی ان کو حاصل تھے، اس کی اور اصول و ضابطہ پسندی کی وجہ سے ممکن ہے بعض لوگوں کو ان سے شکایتیں رہی ہوں، جو اس لیے بیجا تھیں کہ رحم و مروت ہی کی طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
ان کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے پروفیسر ریاض الرحمن خاں شیروانی نے یکم اگست کو جو گرامی نامہ مجھے تحریر فرمایا تھا وہ ان کے حالات و سوانح کا مختصر خاکہ ہے ملاحظہ ہو:
پرسوں پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی نے داغ مفارقت دیا۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ اﷲ بال بال مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ۱؂
میرے ان سے ۱۹۴۴؁ء سے روابط تھے، کلاس میں مجھ سے دو سال پیچھے تھے اور عمر میں ایک سال چھوٹے تھے، اتحاد کے رشتے گوناگوں تھے، مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی اختلاف رائے کی نوبت بہت کم آتی تھی، اس لئے یہ حادثہ ذاتی طور پر میرے لئے بہت شدید ہے۔
زمانہ طالب علمی میں ان کی مالی حالت کمزور تھی اور شادی جلدی ہوگئی تھی یعنی ۱۹۴۶؁ء میں انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد۔ جس کی وجہ سے مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا تھا، لیکن شروع سے بہت محنتی اور پابند اوقات آدمی تھے، اس لیے بڑی حد تک مالی مشکلات پر قابو پالیا تھا، رقم کی فراہمی کے لئے باربار گھر جاتے تھے اور پرائیوٹ ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے تاہم امتحان میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے تھے، بہت مرنجاں مرنج اور دھیمے مزاج کے آدمی تھے، اور اس مناسبت سے اس زمانہ میں ہم انہیں ’’گاندھی جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
۱۹۴۸؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی۔اے کرنے کے بعد الٰہ آباد چلے گئے تھے۔ جہاں ڈپلومیسی کے نام سے ایک نیا نصاب رائج ہوا تھا، اس میں ایم۔ اے کیا، لیکن جیسا کہ معلوم ہے بعد میں علمی ذوق اسلامیات میں تبدیل ہوگیا، اس مضمون میں میکگل سے دوسرا ایم۔ اے کیا اور ایم۔ اے کی ضرورت کے پیش نظر ’’دیوبند اسکول اور مطالبہ پاکستان‘‘ کے زیر عنوان مقالہ لکھا جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔
درمیان میں ’’مدینہ‘‘ بجنور اور ’’میسج‘‘ نئی دہلی کے نہایت کامیاب مدیر رہے جامعہ اسلامیہ سے وابستہ ہوجانے کے بعد جامعہ، اسلام اور عصر جدید اور اسلام اینڈ ماڈرن ایج کی ادارت بہت قابلیت سے انجام دی، جامعہ ملیہ سے ان کی وابستگی بہت متنوع تھی، جامعہ کالج کے پرنسپل بشریات کی فیکلٹی کے ڈین۔ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اور جامعہ ملیہ کے قائم مقام وائس چانسلر۔ ان کے علمی کاموں کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم پر مختلف نوعیت کے کام کئے، مولانا ابوالکام آزاد پر متعدد گراں قدر مقالات لکھے۔ آج کل انگریزی میں ان کی سیاسی سوانح لکھ رہے تھے، جس کی پہلی جلد (جو ۱۹۴۰؁ء کا احاطہ کرتی ہے)پریس میں ہے، تصوف بھی ان کی دلچسپی کا موضوع تھا اور اس پر بھی لکھتے رہے ہیں۔

دارالمصنفین سے جو شغف تھا اور اس کے کاموں میں جو عملی دلچسپی

لیتے تھے اس سے آپ مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔

غم گین: ریاض الرحمن شروانی
اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی۔ ستمبر ۱۹۹۶ء)

۱؂ آمین، (معارف)
پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی مرحوم
(عبداللطیف اعظمی)
’’پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی پر میرا حقیر مضمون پہلے شائع ہوچکا ہے، جناب عبداللطیف اعظمی نے جامعہ کے تعلق سے ان کے بارے میں جو معلومات بیان کئے ہیں ان کا میرے مضمون میں ذکر نہیں تھا‘‘۔ (ض)
پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی مرحوم میرے مخلص اور بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے عالم کی سند حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۶؁ء میں میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درجہ خاص میں داخلہ لیا۔ یہ درجہ خاص عربی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے مخصوص تھا، تاکہ وہ ایف اے اور بی اے کے امتحانات میں شرکت کے لیے ضروری علوم حاصل کرسکیں۔ چونکہ ندوے کے نصاب میں جدید علوم پہلے سے داخل تھے اس لیے کم سے کم مدت میں ۱۹۴۱؁ء میں میں نے بی اے کرلیا۔ اس کے بعد اسی سال ستمبر میں جامعہ کے ایک تصنیفی اور اشاعتی ادارہ مکتبہ جامعہ کے شعبہ تصنیف و تالیف میں بحیثیت انچارج میرا تقرر ہوگیا۔ اس کے بعد جامعہ کے مختلف اداروں میں کام کرتا رہا۔ ۱۹۴۸؁ء میں جب شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوکر علی گڑھ چلے گئے تو نائب شیخ الجامعہ پروفیسر محمد مجیب صاحب نے شیخ الجامعہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ۱۹۵۵؁ء میں انہوں نے مجھے اپنا پرنسپل مددگار مقرر کیا۔ ۱۹۷۲؁ء میں شیخ الجامعہ کے سکریٹری کی جگہ خالی ہوئی تو اس عہدے پر میرا تقرر ہوگیا۔ ۱۹۷۹؁ء تک میں اس عہدے پر کام کرتا رہا، یہاں تک کہ حسب قاعدہ میں ریٹائر ہوگیا۔ شیخ الجامعہ صاحب نے بطور خاص دو ڈھائی سال کی ایک ساتھ میری خدمات میں توسیع منظور کی۔ اسی زمانے میں جب شیخ الجامعہ کے سکریٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا تو جناب انوار قدوائی صاحب شیخ الجامعہ کی حیثیت سے تشریف لائے۔ ابھی تھوڑی ہی مدت میں نے قدوائی صاحب کے ساتھ کام کیا تھا کہ جامعہ کالج کے پرنسپل اور ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی ڈائرکٹر پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ تم دفتر شیخ الجامعہ میں وقت کیوں ضائع کررہے ہو تمہاری اصل جگہ ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ میں ہے۔ واقعی میرے لیے وہاں کوئی خاص کام نہیں تھا اس لیے خوشی سے تیار ہوگیا۔ چنانچہ ان کی کوشش سے میری خدمات ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ میں منتقل ہوگئیں اور اسسٹنٹ ایڈیٹوریل کی حیثیت سے ۱۹۷۹؁ء میں میں وہاں کام کرنے لگا۔ وہاں کا کام میری پسند اور ذوق کا تھا اور میرے ساتھ ضیاء صاحب کا سلوک قابل تعریف تھا۔وہ میری کتنی عزت اور کتنا احترام کرتے تھے اس کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ جب اردو میں ان کی دونوں کتابیں شائع ہوئیں تو انہیں مجھے عنایت کرتے ہوئے پہلی کتاب: شہید جستجو پر لکھا: ’’محب مکرم جناب عبداللطیف اعظمی کی خدمت میں ہدیۂ مولف‘‘۔ دستخط کے نیچے تاریخ ہے: ۲۸-۴-۸۳ دوسری کتاب مولانا ابوالکلام آزاد پر لکھا: ’’برادر بزرگ جناب عبداللطیف اعظمی کی خدمت میں خلوص و محبت کے جذبے کے ساتھ‘‘۔ دستخط کے نیچے تاریخ ہے: ۴-۳-۹۵۔
نیز مجھے ہر طرح کی آزادی تھی جو جامعہ کا طرہ امتیاز ہے، جس کا میں شروع سے عادی رہا ہوں۔ صرف ایک بات سے میں پریشان تھا۔ وہ یہ کہ ماہنامہ جامعہ کی ترتیب و اشاعت کی وجہ سے قید ہوکر رہ گیا تھا۔ اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ دہلی سے باہر جاسکوں اور مختلف علمی و ادبی حلقوں میں کچھ وقت گزار سکوں اور دوست احباب کی صحبتوں سے لطف اٹھا سکوں۔ نیز مجھے تصنیف و تالیف سے جو غیر معمولی دلچسپی تھی اس کے لیے ذرا بھی وقت نہیں ملتا تھا۔ اس کمی کو میں اس طرح پوری کرتا تھا کہ ماہنامہ جامعہ کے خصوصی شمارے نکالتا اور ان کی زائد کاپیاں چھپواتا اور انہیں اپنے نام سے کتابی صورت میں شائع کرتا۔ مگر یہ بات ضیاء صاحب کو پسند نہیں تھی۔ لیکن میری وجہ سے خاموش رہتے۔
ایک صورت حال اور میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ وہ یہ کہ قدوائی صاحب بنیادی طور پر کسی کی ملازمت میں توسیع کے سخت خلاف تھے۔ وہ کسی کو ایک دن کی بھی توسیع منظور نہ کرتے اور یہاں یہ حال تھا کہ میری سال بہ سال توسیع ہوتی رہتی تھی، میری ضروریات یا خوشنودی میں نہیں بلکہ ضیاء صاحب اپنی مجبوری میں کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ میں جو ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہوں وہ کوئی اور شخص انجام نہیں دے سکتا۔ مجھے معلوم نہیں کہ شیخ الجامعہ صاحب کو وہ کیا لکھتے تھے مگر اس کا مجھے احساس تھا کہ یہ مسلسل توسیع ان کو سخت ناپسند ہے۔ اس لیے میرے اصرار پر ضیاء صاحب نے مختلف اخبارات میں دو مرتبہ میری جگہ کے لیے اشتہارات شائع کروائے، ان کے جواب میں متعدد امیدوار آئے مگر سلکشن کمیٹی میں جب انہوں نے کام کی نوعیت اور تفصیلات سنیں تو اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ضیاء صاحب مجھ سے فرماتے تھے کہ تم اپنی جگہ کے لیے کسی شخص کو تیار کرلو تو جاسکتے ہو۔ اتفاق سے ایک دوست نے ایک صاحب کی سفارش کی کہ میں انہیں اپنے کاموں میں شریک کرلوں۔ وہ صاحب جامعہ کے شعبہ تاریخ میں ایم اے کا امتحان دے رہے تھے، نیز ان کی اردو اور فارسی کے ادب پر گہری نظر تھی۔ علاوہ ازیں کتابت و طباعت کا بھی اچھا تجربہ تھا۔ اس پر مجھے بے حد خوشی ہوئی اور جونہی وہ امتحان سے فارغ ہوئے نتیجے کا انتظار کئے بغیر اپنی جگہ پر ان کا تقرر کروا کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور خوشی خوشی وہاں سے رخصت ہوگیا۔
میرے اورمرحوم کے باہمی تعلقات میں ایک اہم پہلو ایسا ہے جو رواروی میں نظر انداز ہوگیا۔ وہ یہ کہ جب وہ کالج کے پرنسپل تھے اور خاکسار شیخ الجامعہ کا سکریٹری تو اکثر میں ان کے ان بلوں پر اعتراض کیا کرتا تھا جن کی ادائیگی اس بجٹ سے ہوتی تھی جو شیخ الجامعہ کے اختیار میں تھا۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں افسران جامعہ کو سرکاری ضروریات کے لیے صرف شیخ الجامعہ کی کار تھی جو راقم الحروف کے اختیار میں تھی۔ اس کی وجہ سے بہت سے افسران جامعہ کو مجھ سے شدید شکایات تھیں۔ ان میں ضیاء الحسن فاروقی مرحوم بھی شامل تھے۔ یہ دور کتنی ابتلا و آزمائش کا تھا اس کا اندازہ آج کے زمانے میں نہیں کیا جاسکتا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ شیخ الجامعہ پروفیسر مجیب صاحب کو مجھ پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے لوگوں کی شکایات کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اس کا اندازہ آپ ایک مثال سے کرسکتے ہیں۔ کار کے سلسلے میں بیگم مجیب کو بھی مجھ سے سخت شکایت تھی۔ دراصل وہ ایسی نیک اور بے ہمہ اور باہمہ تھیں کہ انھیں کار کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ مگر ان کی ایک بڑی بہن تھیں جو ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ وہ معمولی معمولی کام کے لیے اکثر کار کا مطالبہ کیا کرتی تھیں۔ اس طرح دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ میں حتی الوسع ٹال مٹول کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ مجیب صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ بیگم صاحبہ سے میں آپ کی کتنی حمایت کیا کرتا ہوں۔ وہ جب بھی کار مانگیں آپ ان کو دے دیا کیجئے اور میرے نام اس کا بل بنوا دیجئے جو میری تنخواہ سے ادا ہوجائے گا۔ میں نے انتہائی ادب سے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی کتنی تنخواہ ہے اور کٹ کٹا کر کتنی ملتی ہے، اگر یہ سختی میں نہ کروں تو یہ رقم بھی آپ کو نہ ملے گی۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ خود بیگم صاحبہ کو کار کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی ورنہ میں ان کی ضروریات کو کسی نہ کسی طرح پورا کردیتا۔ یہ دوسرے لوگ ہیں جو ان کی نیکی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر وہ بالکل خاموش ہوگئے۔
مذکورہ بالا تحریر کو لکھتے وقت نہ جانے کیوں اپنے وطن کے مقبول ترین اور عظیم ترین شاعر حضرت اقبال سہیل مرحوم کا حسب ذیل شعر باربار یاد آتا رہا۔ آپ بھی سنیے!
نکہت گل کی طرح عمر بسر کی اقبال

Aراحت اغیار کو دی آپ پریشان ہوکر
اس مختصر گزارش کے بعد انتہائی اجمال کے ساتھ مرحوم ضیاء الرحمن فاروقی صاحب کے بارے میں ان کی پرسنل فائل سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ جن کی خوبی یہ ہے کہ یہ خود ان کے قلم کے مرہونِ منت ہیں۔ گویا ایک طرح سے ان کی حیثیت خود نوشت حالات زندگی کی ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ تاریخ وار ہیں۔ ایک وضاحت اور کردوں کہ ان خطوط یا مراسلات میں شیخ الجامعہ کو ان کے عہدے کے نام سے خطاب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ کسی کا نام شامل نہیں ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ جامعہ میں ان کا تقرر پروفیسر محمد مجیب مرحوم کے عہد میں ہوا تھا۔ ان کے بعد شیخ الجامعہ کی حیثیت سے پروفیسر مسعود حسین خان تشریف لائے، پھر جناب انور جمال قدوائی صاحب۔ ان ہی کے زمانے میں ضیاء صاحب ریٹائر ہوئے۔
زیر تذکرہ اقتباسات سے پہلے ضیاء صاحب مرحوم کے مختصر ترین الفاظ میں ان کا سوانحی خاکہ ملاحظہ ہو:
۱۔ ۲؍ مئی ۱۹۲۵؁ء کو ٹانڈہ (ضلع فیض آباد۔ یوپی) میں پیدا ہوئے۔
۲۔ ۱۹۴۴؁ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔
۳۔ ۱۹۴۸؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈیویزن میں ایم اے کیا۔ خصوصی مضامین ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سیاسیات تھے۔
۴۔ ۲۱؍ مئی ۱۹۵۰؁ء کو سہ روزہ مدینہ (بجنور۔ یوپی) کی مجلس ادارت میں شامل ہوئے اور ۲۸؍ جون ۱۹۵۳؁ء تک اس میں کام کیا۔
۵۔ اس کے بعد جمعیۃ علمائے ہند دہلی کی جانب سے انگریزی میں ایک ہفتہ وار اخبار دی میسج شائع ہوا تو سہ روزہ مدینہ چھوڑ کر اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔
۶۔ اسی زمانے میں جامعہ ملیہ میں ایک جگہ نکلی تو ۲۵؍ جولائی ۱۹۵۳؁ء کو اس جگہ کے لیے شیخ الجامعہ پروفیسر مجیب کو ضیا صاحب نے لکھا: ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کالج کو تاریخ و سیاسیات کے ایک استاد کی ضرورت ہے۔ میں اس جگہ کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہوں۔ تاریخ و سیاسیات میرے خاص مضمون رہے ہیں۔ شیخ الجامعہ صاحب نے موصوف کی اس درخواست کو منظور کرلیا۔
۷۔ مرحوم راک فیلر فاؤنڈیشن کناڈا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے تشریف لے گئے۔
۸۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۵۹؁ء کو موصوف نے شیخ الجامعہ صاحب کو اطلاع دی کہ میں کناڈا میں اپنی تعلیم ختم کرکے واپس آگیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آج ۲۴؍ نومبر ۱۹۵۹؁ء سے کالج میں اپنا کام شروع کردوں۔ براہ کرم مجھے اس کی اجازت دی جائے، حسب قاعدہ اجازت دی گئی۔
۹۔ ۲۲؍ اگست ۱۹۶۳؁ء کو ضیاء صاحب نے جامعہ کالج کے پرنسپل کے عہدے کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔
۱۰۔ ۶؍ جولائی ۱۹۷۲؁ء کو ضیاء الحسن فاروقی صاحب نے اپنے مراسلے میں شیخ الجامعہ صاحب کو لکھا کہ: ’’میں نے اپنی انتظامی ذمہ داریوں کے باوجود اپنی مجوزہ کتاب: مسلم ایجوکیشنل سسٹم ان انڈیا (بزبان انگریزی) کا مواد جمع کرلیا ہے۔ مجھے محض لکھنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کام کے لیے مجھے سب بی ٹیکل (Sabbitical) رخصت منظور کی جائے۔ حسب قاعدہ منظور کی گئی‘‘۔ (موصوف کی مطبوعہ کتابوں میں یا ان کے مسودات میں اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں ہے، اعظمی)
۱۱۔ یکم جولائی ۱۹۸۵؁ء کو فاروقی صاحب ریٹائر ہوگئے۔ مگر ری امپلائمنٹ کے تحت تین سال کی مدت ملازمت میں مزید اضافہ ہوا۔
۱۲۔ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۸۸؁ء کو میں نے اپنی آنکھوں کی بینائی کی کمزوری اور موتیابند کی وجہ سے آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کی تھی اور یہ عرض کیا تھا کہ مجھے یکم نومبر ۱۹۸۸؁ء سے ذاکر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی اعزازی ڈائرکٹری اور ماہنامہ جامعہ۔ اسلام اور عصر جدید اور اسلام اینڈ دی موڈرن ایج کی ایڈیٹری کی خدمت سے سبکدوش فرمایا جائے۔ آپ نے میری معذوری کے پیش نظر میری اس تجویز سے اتفاق فرمایا تھا۔ شیخ الجامعہ صاحب نے موصوف کی جمع شدہ رخصت استحقاتی ۲۸ یوم کے ساتھ موصوف کو سبکدوش فرمایا۔
۱۳۔ مرحوم کی چھوٹی موٹی کتابوں کی تعداد ویسے تو بہت سی ہیں مگر ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ مضمون کی ہے۔ اردو میں ان کی اہم کتابیں صرف دو ہیں۔ پہلی شہید جستجو۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جوحجم اور معیار دونوں لحاظ سے ان چند کتابوں میں سے ہے جو آزادی کے بعد کی مطبوعات میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مطبوعہ اگست ۱۹۸۸؁ء۔ حجم ۶۰۷ صفحات۔ اس کو لکھ کر مرحوم نے اپنی مطبوعات کی کمی کی تلافی کردی۔ دوسری مولانا ابوالکلام آزاد۔ فکرونظر کی چند جہتیں۔ یہ مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ مطبوعہ: دسمبر ۱۹۹۴؁ء۔ حجم ۱۵۵ صفحات۔ انگریزی میں میری معلومات کے مطابق مرحوم کی دو کتابیں ہیں، پہلی: ’’دی دیوبند اسکول اینڈ دی ڈیمانڈ فار پاکستان‘‘۔ مطبوعہ: ۱۹۶۳؁ء۔ کتابی سائز پر حجم صرف ۱۴۵ صفحات۔ دوسری حضرت نظام الدین اولیاء کے مشہور ملفوظات: فوائد الفواد کا انگریزی ترجمہ جسے موصوف نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد ترجمہ کیا اور شائع کروایا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح حیات پر انگریزی میں ایک کتاب اپنی وفات سے پہلے موصوف نے مکمل کرلی تھی۔ جو ان کے ارشاد کے مطابق اس وقت ناشر کے پاس ہے جو امید ہے کہ انشاء اﷲ جلد چھپ جائے گی۔ چونکہ مولانا ابوالکلام آزاد ہم دونوں کے مشترک موضوع ہیں اس لیے وہ اکثر مجھ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ مولانائے مرحوم پر اب تک برصغیر ہندوپاک میں جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں یہ کتاب ان میں سب سے بہتر ہوگی۔
اولاد کے لحاظ سے بھی مرحوم بڑے خوش قسمت تھے۔ کل چار اولاد ہیں۔ دو لڑکے اور دو لڑکیاں۔ خدا کے فضل سے سب کی سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ ڈاکٹر عمادالحسن آزاد فاروقی، جامعہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر حسین انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی ڈائرکٹر اور ماہنامہ جامعہ کے علاوہ ان تمام رسائل کے مدیر جن کے ان کے والد مرحوم تھے۔
۲۔ ڈاکٹر علاء الحسن آباد، سائنٹسٹ سنٹرانسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ اسٹمیک پلانٹ، لکھنؤ۔
۳۔ ڈاکٹر مسز عطیہ روحی، بی۔یو۔ایم۔ایس علیگ۔ مقیم چاندپور (یوپی)۔
۴۔ ڈاکٹر مسز عارفہ عرفی، علیگ۔ گولڈ میڈلسٹ۔ مقیم فیض آباد (یوپی)۔
( دسمبر ۱۹۹۶ء)

تصحیح:ـ دسمبر ۱۹۹۶؁ء کے معارف میں پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی مرحوم سے متعلق عبدالطیف اعظمی صاحب کے مضمون میں بعض تسامحات جگہ پاگئے ہیں۔
۱۔ ضیاء صاحب نے ۱۹۴۸؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم، اے نہیں بی اے کیا تھا۔ ایم،اے انہوں نے ۱۹۵۰؁ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سیاسیات وہیں ان کے مضامین تھے۔
۲۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عبدالغفار خاں چیئر اور ذاکر حسین چیئر قائم ہوئیں تو ضیاء صاحب کا تقرر ذاکر حسین چیئر پر ہوا اور وہ دو سال اس پر فائز رہے۔ عبدالغفار خاں چیئر پر محترمہ قرۃالعین حیدر کا تقرر ہوا تھا۔
۳۔ ضیاء صاحب نے انگریزی میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جو سوانح لکھی ہے اور اس وقت زیر اشاعت ہے وہ مکمل نہیں ہے بلکہ پہلی جلد ہے جو مولانا کی ۱۹۴۰؁ء تک زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسری جلد لکھنے سے قبل افسوس ہے کہ ضیاء صاحب کی وفات ہوگئی۔
نیازمند: ریاض الرحمن خاں شروانی (جنوری ۱۹۹۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...