Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد منظور نعمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد منظور نعمانی
ARI Id

1676046599977_54338365

Access

Open/Free Access

Pages

572

مولانا محمد منظور نعمانی
گزشتہ مہینے کا معارف اشاعت کے مرحلے میں تھا کہ یہ افسوسناک خبر ملی کہ مولانا محمد منظور نعمانی ۴، ۵؍ مئی کی درمیانی شب میں انتقال فرماگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
اس قحط الرجال میں مولانا جیسے حکمت دین سے واقف صاحب فہم و بصیرت اور مدبر عالم، قوم کے درد مند مصلح اور ملت کے ہمدرد و غم گسار کا اٹھ جانا کس قدر المناک سانحہ ہے۔
مولانا ایک عالم و مصنف اور صاحب سلوک و عرفان بزرگ ہی نہ تھے بلکہ زمانے کے نبض شناس، وقت کے تقاضوں اور حالات سے باخبر اور عاقبت بیں بھی تھے جن کا عمل اس پر تھا کہ:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری
وہ مذہبی، اصلاحی، قومی، ملی، تعلیمی اور اجتماعی جدوجہد کے ہر محاذ پر سرگرم اور متحرک دکھائی دیتے تھے، انہیں مسلمانوں کی موجودہ پستی و زبوں حالی کا پوری طرح احساس بھی تھا اور وہ اس کے ازالے کے لیے نہایت فکر مند بھی رہتے تھے، آزاد ہندوستان میں جن مسائل نے مسلمانان ہند کی زندگی تلخ اور مکدر کر رکھی ہے، ان پر شور و غوغا مچانے لچھے دار باتیں اور دھواں دار تقریریں کرنے اور پُرجوش تحریریں لکھنے والے تو بہت سارے لوگ ہیں لیکن ان پر مولانا کی طرح تڑپنے، بے چین ہوجانے، درد و کرب خلش و اضطراب میں مبتلا ہونے والے بہت کم لوگ ہیں، وہ مسلمانوں کی فلاح و بہود کے لیے دعا و مناجات میں بھی مصروف رہتے تھے اور ملک کے گوشے گوشے کی خاک بھی چھانتے رہتے تھے، ان کے گریہ شب اور دعا ہائے سحر گاہی سے گھبرا کر ابلیس بھی یہ کہتا رہا ہوگا کہ ؂
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو
ایسے بیدار مغز و ہوش مند عالم کی وفات مسلمانوں کی بدنصیبی، قوم و ملت کا زیاں اور علم و دین کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مولانا محمد منظور نعمانی مراد آباد ضلع کے قصبہ سنبھل میں ۱۹۰۵؁ء میں پیدا ہوئے۔ یہیں اردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، دارالعلوم مؤ میں بھی درسیات کی تحصیل کی اور آخر کے دو سال دارالعلوم دیو بند میں گزارے۔ اس وقت مولانا انور شاہ کشمیری صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث تھے، ان سے اور دوسرے اساتذہ فن سے درس لیا، شاہ صاحب کے تلمذ پر ان کو ہمیشہ فخر رہا اور اپنے تمام اساتذہ میں ان ہی سے سب سے زیادہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ ان سے بیعت بھی ہوئے۔ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری سے بیعت اس کے بعد ہوئے تھے۔
مولانا نے تعلیم سے فراغت کے بعد چند برس تک بعض عربی مدارس میں تدریس کی خدمت انجام دی، اس زمانے میں بعض داخلی و خارجی فتنوں کا بڑا زور تھا، ان فتنوں سے اسلام کے عقیدہ توحید و رسالت کی بیخ کنی اور شرک و بدعت کے فروغ کے علاوہ علمائے دیوبند کی ذات و مسلک بھی مجروح ہورہا تھا، اس لیے مولانا طالب علمی ہی کے زمانے سے ان کی سرکوبی کی تیاری کرنے لگے تھے اور اب تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ہی ان کے خلاف محاذ آرائی میں حصہ لینا شروع کیا، چنانچہ ان کی ابتدائی زندگی بعض فرقوں کے مقابلوں اور ان سے مناظروں کے لیے وقف رہی اور اس میں وہ بڑے کامیاب رہے۔
اسی سلسلے میں انہیں اپنے مخالفوں کے نظریات کے ابطال کے لیے ایک علمی و دینی ماہنامہ رسالہ نکالنے کا خیال بھی آیا جو محرم ۱۳۵۳؁ھ؍ ۱۹۳۴؁ء سے اب تک ان کے انتقال کے بعد بھی الفرقان کے نام سے برابر شایع ہورہا ہے اور وہ ملک کا مشہور علمی، دینی اور اصلاحی رسالہ خیال کیا جاتا ہے۔
مولانا کی یہ جرات و ہمت بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے شروع میں رسالہ ایسی جگہ سے شایع کیا جو ان کے حریفوں کا خاص مرکز تھی۔ ان کی مہم جو اور حوصلہ پسند طبیعت کو ہمیشہ اپنی سرگرمی عمل کے لیے نئے میدانوں اور خوب سے خوب تر راہوں کی تلاش و جستجو رہتی تھی، عمر کی پختگی اور بعض تجربوں کے بعد جب وہ مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی دینی تحریک سے متوسل ہوگئے تو مسلمانوں کی اصلاح کے اس محدود تصور پر قائع نہیں رہ سکے جس کی بنا پر بعض طبقوں کی اعتقادی و عملی غلطیوں کی بحث و تمحیص اور ان کے افراط و تفریط کی تغلیط و تردید الفرقان کا خاص موضوع بن گیا تھا بلکہ یہی دینی دعوت ان کے دل و دماغ پر چھا گئی اور وہ ان کی زندگی اور ان کے اعمال کا خاص محور اور الفرقان کی اصل دعوت بن گئی۔
الفرقان کے متعدد خاص نمبر بھی شایع ہوئے جو بہت مقبول ہوئے لیکن حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اﷲ پر اس کے خاص نمبر بڑی اہمیت و منفعت کے حامل ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی ان مایہ ناز ہستیوں اور عظیم داعیوں کے اصلاحی و تجدیدی کارناموں اور ان کی دعوت و تعلیم کو جس بہتر انداز میں ان میں پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ اور صاحب الفرقان کا عظیم الشان کارنامہ ہے، اس کے حج نمبر سے حاجیوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔
تبلیغی و دعوتی اسفار اور الفرقان کی ادارت کے ساتھ ساتھ مولانا ہمیشہ تصنیف و تالیف میں بھی مشغول رہتے جس کا انہیں اچھا ذوق، خاص سلیقہ اور خدداد ملکہ تھا، اردو کے بہت اچھے اہل قلم تھے۔ ان کی تحریریں نہایت سلیس، شگفتہ اور رواں ہوتی ہیں۔ جن کی زبان آسان اور بڑی عام فہم ہوتی اور پیش کرنے کا انداز اتنا موثر اور دلنشیں ہوتا تھا کہ عام آدمی کو بھی ان کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی، وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے تھے اس پر ان کی مکمل گرفت ہوتی تھی اس لیے اپنے مدعا و مقصود کو کسی ایچ پیچ کے بغیر اچھی طرح واضح کردیتے تھے۔
مولانا کی چھوٹی بڑی بے شمار تصنیفات ہیں اور وہ سب اس قدر مقبول ہوئیں کہ ان کے درجنوں ایڈیشن بھی نکلے اور ملک کی مختلف زبانوں کے علاوہ انگریزی اور عربی وغیرہ میں ترجمے بھی ہوئے، ان کی جن کتابوں کا فیض بہت عام ہوا ان کا تذکرہ کردینا مناسب ہوگا۔
اسلام کیا ہے؟ یہ کتاب ۱۹۴۷؁ء کے بعد کے خاص حالات میں لکھی گئی ہے، اس میں ایک عام مسلمان کے لیے مکمل دین کو آسان اور موثر دعوتی زبان میں پیش کیا ہے تاکہ یہ رسالہ مسلمانوں کے لیے رجوع الی اﷲ کا ذریعہ بنے اور غیر مسلموں میں بھی اسلام کی اصل صورت واضح ہوجائے۔
دین و شریعت: اس کا موضوع بھی وہی ہے مگر یہ کسی قدر اونچی سطح کے لیے لکھی گئی ہے۔
قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟ اس میں قرآن مجید کی عمومی دعوت کا خلاصہ بڑے موثر اور دل نشین انداز اور آسان و عام فہم زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔
آپ حج کیسے کریں؟ اس کو لکھنے کا دو خاص مقصد تھا، ایک تو یہ کہ معمولی خواندہ آدمی کو بھی حج کے مناسک و ارکان ادا کرنے میں سہولت ہو، دوسرا مقصد یہ تھا کہ حج کے اعمال کو ادا کرنے کے وقت جن دینی جذبات سے حاجی کو سرشار ہونا چاہیے ان کی تحریک کا سامان کیا جائے۔ ان مقاصد کے لحاظ سے یہ کتاب بہت کامیاب ہوئی۔
آسان حج: اس میں وہی مضمون مزید مختصر اور آسان کرکے لکھا گیا ہے، راقم کو حج بیت اﷲ کے سلسلے میں مولانا کے ان رسالوں سے بڑا فائدہ پہنچا۔
کلمہ طیبہ کی حقیقت: اس میں کلمہ کی حقیقت و مفہوم بہت سادہ اور آسان زبان اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
نماز کی حقیقت: اس میں آسان زبان اور دل نشیں انداز میں نماز کی روح بتائی گئی ہے، یہ رسالہ بھی بہت نفع بخش ہے۔
معارف الحدیث: یہ مولانا کی سب سے اہم اور مفید کتاب ہے جو اردو کے علمی و حدیثی ذخیرہ میں ایک بہت قیمتی اضافہ ہے، اس کو بڑی شہرت و قبولیت نصیب ہوئی، اس کی سات جلدیں خود مولانا نے مرتب کر کے شایع کی ہیں۔ آٹھویں جلد ان کے برادر زادہ مولوی محمد ذکریا استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو مرتب کررہے ہیں، یہ کتاب دور حاضر کے خاص حالات اور ایک عام پڑھے لکھے شخص کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے، یہ دراصل حدیث نبوی کے ضخیم دفتر سے ایک انتخاب ہے جو ترجمے کے ساتھ ایسی سادہ اور مختصر تشریح پر مبنی ہے جس سے حدیث کا اصل مغز و مدعا اچھی طرح ذہن نشین ہوگیا ہے اور یہ کتاب انسان کی عملی و روحانی ترقی و اصلاح کا ذریعہ بھی بن گئی ہے، گو اس میں فنی مسائل اور مہمات امور سے براہ راست تعرض نہیں کیا گیا ہے، تاہم اس سے احادیث کی بہت سی علمی و فنی گرہیں صاف طور پر حل ہوگئی ہیں، حدیثوں کے فقہی پہلو اور فقہا کے اختلافات کا تذکرہ بقدر ضرورت اس طرح کیا گیا ہے کہ افتراق باہمی کے رجحان کی ہمت شکنی ہو۔ اس لحاظ سے یہ کتاب اہل علم اور طلبہ حدیث کے لیے بھی بہت کارآمد ہے۔ ان کتابوں سے مسلمانوں کو بڑی رہنمائی اور تقویت ملی اور ان کی حیثیت دراصل صدقہ جاریہ کی ہے۔
مولانا کا شمار اس عہد کے ممتاز صف اول کے علماء میں ہوتا تھا، دینی علوم میں ان کو بڑا رسوخ اور پختگی حاصل تھی۔ تفسیر، فقہ، کلام اور کتب معقولات پر ان کی وسیع اور گہری نظر تھی۔ لیکن حدیث سے ان کو زیادہ شغف اور مناسبت تھی جس کی تحصیل ہندوستان کے مشہور و نامور اور نابغہ روزگار محدث مولانا محمد انور شاہ کشمیری سے کی تھی اور کئی برس تک خود بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کتب حدیث کا درس دیا، ان کی کتاب معارف الحدیث بھی حدیث میں ان کی ژرف نگاہی کا ثبوت ہے۔
کم لوگوں کو تحریر و تقریر دونوں پر قدرت ہوتی ہے، مگر مولانا کو تقریر کی بھی اچھی مشق تھی، مناظروں میں ان کی کامیابی میں اس کو بھی بڑا دخل تھا، تبلیغی جماعت کے اجتماعات اور دوسری ملی و دینی تحریکوں میں بھی وہ اپنی تقریروں کی اثر انگیزی اور دل پذیری کی بنا پر مدعو کیے جاتے تھے، آخر میں وہ مختصر تقریریں کرنے کے عادی ہوگئے تھے، راقم کو ایک مرتبہ انجمن تعلیمات دین کے جلسہ میں ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا جو مختصر ہونے کے باوجود واضح، مدلل اور دل نشین تھی۔
مولانا قوم، ملک اور ملت کے مسائل سے کبھی بے تعلق اور بیگانہ نہیں رہے تقسیم کے بعد مسلمانوں کو جس بحران اور پیچیدگی کا سامنا کرنا اور آئے دن جن نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑا ان کے حل کے لیے جو مخلصانہ کوششیں اور تدبیریں ہوئیں، ان میں ان کا بھی بڑا عمل دخل رہا۔ ۵۹ء میں دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کا قیام عمل میں آیا تو جو سرکردہ علماء اس میں پیش پیش رہے اور اس کے لیے مختلف جگہوں کے انہوں نے دورے کیے ان میں یہ بھی تھے اور آخر تک اس سے ان کا گہرا تعلق رہا۔
اس زمانے میں انہوں نے اپنے بعض رفقاء کے تعاون سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تاکہ آئے دن کے فسادات کے نتیجے میں مسلمانوں میں جو مایوسی انتشار، پست ہمتی اور احساس کمتری پیدا ہورہا تھا اسے ختم کر کے ان کی صحیح رہنمائی کی جائے ہفت روزہ ندئے ملت کا اجرا اسی احساس کا نتیجہ تھا جس نے بڑی حد تک مسلمانوں کو قوت، جرأت اور ہمت عطا کی، اب بھی یہ اخبار ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی کی سرکردگی میں نکل رہا ہے، اور مفید خدمت انجام دے رہا ہے۔
۱۹۶۴؁ء میں جمشید پور اور راوڑ کیلا وغیرہ کے فسادات نے ملت کے درد مندوں کو گہری تشویش اور سخت اضطراب میں مبتلا کردیا، اس کے نتیجہ میں ڈاکٹر سید محمود کی رہنمائی میں مسلم مجلس مشاورت قائم ہوئی۔ اس کے قیام میں مولانا منظور صاحب کا بھی مکمل تعاون رہا اس کے وفود میں شامل ہوکر انہوں نے بھی ملک کے اکثر مقامات کا دورہ کیا جس سے بڑی اچھی فضا بنی مگر بدقسمتی سے یہ اتحاد بہت عرصہ تک برقرار نہ رہ سکا۔ اس کی وجہ سے ڈاکٹر سید محمود بہت ملول و متفکر ہوئے، ایک مرتبہ انہوں نے اس صورت حال کا درد و حسرت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے بعض حضرات کے رویے کی شکایت کی مگر مولانا منظور نعمانی اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کی سیاسی بصیرت، اصابت رائے اور معاملہ فہمی کا اعتراف کیا۔
۱۹۷۲؁ء میں مسلم پرسنل لابورڈ کی تشکیل میں بھی وہ شریک رہے اور اس کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور اپنی تحریروں اور الفرقان کے ذریعہ اس تحریک میں جان و قوت پیدا کی۔
مولانا حالاتِ حاضرہ اور گرد و پیش کے واقعات سے پوری طرح باخبر رہتے، اخباروں کا مطالعہ پابندی سے کرتے، سیاسی اشخاص اور ملی رہنماؤں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی ان کے یہاں رہتا، وہ مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کے لیے انگریزی اخبار کی اشاعت ضروری سمجھتے تھے اور اس کے لیے اپنی جیسی کوشش بھی کی مگر ابھی تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔
مولانا ہندوستان کے دو سب سے بڑے اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃالعلماء لکھنو کے رکن رکین تھے اور بعض نازک موقعوں پر ان کی خداداد ذہانت و صلاحیت اور بروقت قوت فیصلہ سے ان تعلیم گاہوں کے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے میں بڑی مدد ملی۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے بھی ممبر تھے اور جب تک ان کی صحت اچھی رہی اس کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے اور اسی بہانے حج و عمرہ اور زیارت حرمین کا ثواب بھی لوٹتے رہے۔
دارالمصنفین سے بھی مولانا کا تعلق تھا، مولانا سید سلیمان ندوی سے بعض مسائل میں استفسارات کرتے، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم سے بھی ان کا مخلصانہ ربط و تعلق تھا، اس کے موجودہ صدر محترم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے تو وہ ’’رفیق مکرم‘‘ ہی تھے، الفرقان نے شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کاندھلوی پر اپنا خاص نمبر شایع کرنے کا اعلان کیا تو اس خاکسار نے بھی حضرت سے عقیدت کی بنا پر ایک مضمون اس میں اشاعت کے لیے بھیجا جس کی وصولی کی رسید فوراً دیتے ہوئے مولانا نعمانی نے مضمون کی تحسین فرمائی جو میرے لیے مایہ فخر ہے۔
مولانا نے بڑی مصروف و مشغول زندگی گزاری، وہ مدۃالعمر دین و ملت کی خدمت و سربلندی اور مسلمانانِ ہند کی اصلاح و رہنمائی کا فرض انجام دیتے رہے، مولانا زہد وتقویٰ حسنِ سیرت اور خوش خلقی سے متصف تھے، طبیعت میں درد مندی اور قلب میں رقت تھی، سریع الحس تھے اس لیے واقعات و حالات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے۔ دینی مسائل میں ان کا ذہن کھلا ہوا تھا، جزئیات میں متوسع تھے، شرعی امور میں تشدد و تصلب کے بجائے سہولت تخفیف و عافیت پیدا کرنے کو بہتر سمجھتے تھے۔
اس دور کے اکثر اکابر علماء و مشائخ سے ان کے تعلقات تھے اور وہ بالالتزام ان کے یہاں حاضری دیتے تھے۔ ان کی سبق آموز زندگی کے واقعات و حالات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے اور انہیں قلم بند کرکے دوسروں کو بھی ان سے مستفید ہونے کا موقع دیتے۔ اس ضمن میں ان کی یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ جن اکابر کی وہ بڑی عزت اور خاص احترام کرتے تھے ان کی کمزوریوں اور کمیوں پر بھی ان کی نظر پڑتی تھی اور کسی نہ کسی پیرایے میں بے جھجھک وہ اس کا اظہار بھی کردیتے تھے، اس طرح یا تو وہ بزرگ اپنی کمی و کوتاہی کی اصلاح و تلافی فرمالیتے یا اگر خود مولانا کو کسی وجہ سے غلط فہمی ہوگئی ہوتی تو وہ دور ہوجاتی اور ان کی تسلی و تشفی کا سامان ہوجاتا۔
مولانا کی سیرت کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ وہ جس کام کو ٹھیک اور بہتر سمجھتے تھے اس میں تن من دھن سے لگ جاتے لیکن جیسے ہی اس کی غلطی ان پر منکشف ہوتی وہ اس سے فوراً اور بے تکلف کنارہ کش ہوجاتے، اس میں نہ انہیں اپنی سبکی کی پروا ہوتی اور نہ اپنے قدیم رفیقوں اور دوستوں کی خفگی کا خیال ہوتا۔
پچھلے دس برسوں سے وہ علیل تھے، بالآخر وقت موعود آگیا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر و شکیب عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جون ۱۹۹۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...