Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناقاضی محمد زاہد الحسینی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناقاضی محمد زاہد الحسینی
ARI Id

1676046599977_54338366

Access

Open/Free Access

Pages

574

مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی
(حافظ نثار احمد الحسینی)
یہ خبر افسوس کے ساتھ سنی گئی ہے کہ ۶؍ محرم الحرام ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۴؍ مئی ۱۹۹۷؁ء کو ممتاز عالم دین و مصنف مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحلت فرماگئے۔
قاضی صاحب کا خاندان علوم دینیہ کی خدمت میں مشہور ہے۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت باز گل مرحوم حضرت سید گیسو درازؒ کی اولاد سے تھے اور حضرت سید احمد شہیدؒ کے قافلۂ جہاد میں شامل تھے۔ بالاکوٹ کے سقوط کے بعد ہزارہ سے نقل مکانی کر کے پنجاب کے مشہور علمی خطہ علاقہ چھچھ کے موضع شمس آباد تشریف لے آئے۔ قاضی صاحبؒ کے داد قاضی نادر دینؒ اپنے وقت میں پنجابی کے مشہور شاعر اور مصلح دین تھے۔ ان کے والد مولانا مفتی قاضی غلام جیلانی مرحوم مناظر اور صاحب قلم عالمِ دین تھے۔ تقریباً پچاس اصلاحی کتابیں لکھیں۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں خانقاہ موسیٰ زئی شریفؒ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سراج الدینؒ سے مجاز طریقت تھے۔ متنبی قادیان مرزا قادیانی کا مقابلہ تحریر و تقریر اور مناظرہ سے کیا۔ ’’تیغ غلام جیلانی برگردن قادیانی‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ ۱۹۲۸؁ء میں اپنے آبائی گاؤں شمس آباد میں انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔
مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی ۶؍ ربیع الاول ۱۳۳۱؁ھ مطابق یکم فروری ۱۹۱۳؁ء بروز ہفتہ پیدا ہوئے۔ قرآن پاک اور ابتدائی عربی فارسی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی ۱۹۲۸؁ء میں شمس آباد سے مڈل پاس کیا۔ ۱۹۲۸؁ء میں آپ منیۃ المصلی اور ہدایت النحو وغیرہ ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا لیکن داغ یتیمی آپ کے شوق اور حصولِ علم کی ہمت کو کم نہ کرسکا۔ علاقہ چھچھ میں اس وقت شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولانا عبدالحئی لکھنوی کے تلاندہ موجود تھے ان سے تحصیل علم کرنے کے بعد ۱۹۳۰؁ء میں مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور وہاں کے جید اساتذہ سے استفادہ فرمایا، پھر محدث العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری سے استفادہ کے لیے ڈابھیل تشریف لے گئے، طالب علمی ہی کے زمانے میں فلسفہ کی مشہور کتاب صدرا کی شرح البدر الحل الصدر لکھی جس کی تحسین حضرت مدنی نے بھی فرمائی ہے۔
’’یہ کتاب خدا کے فضل و کرم اور مولف کی عرق ریزی اور کمالات علمیہ کی وجہ سے مستقل کتاب اور صدرا کی شرح بن گئی ہے، مجھ کو قوی امید ہے کہ اس کتاب سے شائقین علوم عقلیہ کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا‘‘۔
۱۹۳۲؁ء میں دارالعلوم دیوبند کے دورہ حدیث شریف میں داخلہ لیا اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے بخاری اور ترمذی پڑھی، حضرت مدنی کی اردو تقریر کو آپ دوران سبق ہی عربی میں قلمبند فرماتے رہے۔ مسلم شریف مولانا رسول خان ہزاروی سے، ابو داؤد شریف مولانا میاں اصغر حسین سے، طحاوی شریف مولانا محمد ابراہیم بلیاوی سے، شمائل ترمذی مولانا اعزاز علی سے اور موطا امام محمد مفتی محمد شفیع سے پڑھی۔
آپ کے دور طالب علمی میں ایک مرتبہ مشہور شاعر اور زمیندار کے اڈیٹر مولانا ظفر علی خان دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، ان کے اعزاز میں دارالحدیث میں تقریب استقبالیہ منعقد ہوئی۔ اساتذہ اور طلباء نے نظم و نثر میں انہیں خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر قاضی صاحب نے اپنی نظم میں مرزا قادیانی کے خلاف اکابر دیو بند کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ع انہی کی ذاتِ اقدس سے بشیر الدین نالاں ہے۔
اس نظم سے متاثر ہوکر مولانا ظفر علی خان نے فی البدیہ دیوبند کی شان میں مشہور نظم کہی جس کا پہلا شعر مندرجہ ذیل ہے:
شاد باد و شاد ذی اے سرزمین دیوبند
ہند میں تونے کیا اسلام کا پرچم بلند
صوفیانہ مسلک: قیام سہارنپور کے زمانہ میں حضرت مدنی سے عقیدت پیدا ہوگئی جو بالآخر حضرت مدنی کے دامنِ فیض سے وابستگی کا سبب بنی،، حضرت قاضی صاحب خود اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں:
’’حضرت (مدنی) کانگرس یا جمعیت العلماء کی دعوت پر سہارنپور تشریف لاتے اور درگاہ میں تقریر فرماتے۔ اسی وقت سے آئینہ دل میں حضرت کا نقش اسی طرح ثبت ہوگیا کہ آج تک باقی ہے اور انشاء اﷲ باقی رہے گا۔ مگر زیادہ قرب دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے داخلہ پر نصیب ہوا۔ کئی بار (بیعت) کی درخواست کی مگر یہی جواب ملا کہ استخارہ کرلیا جائے۔ ایک رات سید دو عالمﷺ کی طرف سے بیعت کا حکم ملا۔ وہ پورا خواب لکھ کر ارسال کردیا تو جواب فرمایا کہ ملاقات پر انشاء اﷲ بیعت کرلی جائے گی۔ آخر وہ سعادت آفرین گھڑی آگئی کہ مورخہ ۲۶؍ شعبان ۵۵؁ھ، ۱۳؍ نومبر ۳۲؁ء بروز جمعرات نماز مغرب کے بعد اسی مسجد میں چند دیگر سعادت مندوں کے ساتھ بیعت کا شرف حاصل ہوگیا‘‘۔
قاضی صاحب کی باطنی ترقیات دیکھ کر حضرت مدنی نے سلسلہ چشتیہ کے اذکارو اشغال کی تلقین کی اجازت عنایت فرما دی۔
۱۹۳۲؁ء میں جب حضرت مدنی کی زیارت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے تو وہاں سے واپسی پر حضرت مدنی نے حضرت لاہوری ۱؂ کے نام آپ کو دستی رقعہ عنایت فرمایا۔ جس میں آپ کے متعلق بھی ایک جملہ لکھا ’’علمی اور عملی حالت ماشاء اﷲ قابلِ اطمینان ہے‘‘۔ اب حضرت لاہوری کے ہاں بھی آپ کا آنا جانا شروع ہوگیا۔ ۱۹۳۹؁ء میں جب پہلی مرتبہ حجِ بیت اﷲ کو جارہے تھے تو حضرت لاہوری نے آپ کو اپنے قلمی دستخطوں سے مزین اپنا ترجمہ قرآن پاک عنایت فرمایا یہ محض ایک تحفہ نہ تھا بلکہ حضرت لاہوری نے بقول آپ کے اپنا فیض قرآنی آپ کو منتقل فرمادیا۔ ۱۹۶۱؁ء میں جب حضرت لاہوری ایبٹ آباد تشریف لائے تو ازخود فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ سلسلۂ قادریہ میں آپ کی تکمیل کرادوں‘‘۔ ابتدائی اسباق بھی تلقین فرمائے۔ ۱۵؍ مئی ۱۹۶۱؁ء ایبٹ آباد تشریف آوری پر آپ کو اپنا مجاز فرمایا۔
حضرت لاہوری نے آپ کی تصنیف معارف القرآن کی تقریظ میں لکھا۔ ’’محترم المقام حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی صاحب موجودہ دور کے ان علمائے کرام میں سے ہیں جنھیں اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے کتاب و سنت کے سمجھنے کے لیے ایک خصوصی ملکہ عطا فرمایا ہے‘‘۔
تدریسی خدمات: دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۳۲؁ء میں اپنے آبائی گاؤں شمس آباد میں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں طلبہ دور دور سے آتے تھے۔ یہاں آپ نے بخاری سے لے کر کافیہ تک علوم و فنون کی تمام کتب پڑھائیں، تعلیم و تدریس کے ساتھ علاقہ کی مذہبی ضروریات کا خیال رکھا۔ ۱۹۳۵؁ء میں کامرہ میں مشہور شیعہ مناظر شبیر احمد فاضل لکھنؤ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق کی صداقت پر مناظرہ کیا اور اسے شکست فاش دی۔ ۱۹۴۱؁ء میں مولانا اعزاز علی کے فرمانے پر ڈالواں ضلع جہلم تشریف لے گئے اور قادیانیوں کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ ۱۹۴۹؁ء میں اٹک کی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے اسی دوران جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھائی۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ارشاد پر ۱۹۵۱؁ء میں اٹک کالج میں عربی اور اسلامیات کے پروفیسر ہوئے اور ۱۹۷۲؁ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ۱۹۵۲؁ء میں مدینہ مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد زندگی کی آخری ساعتوں تک یہیں مدینہ مسجد میں علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت اور تصوف و سلوک کی خدمت اور مخلوق خدا کی رہنمائی فرمائی۔
درس قرآن مجید سے خصوصی شغف: دوسرے علمائے دیوبند کی طرح قاضی صاحب کو بھی قرآن مجید سے شغف تھا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر متعد کتابیں مرتب فرمائیں، درس قرآن مجید معمول بن گیا تھا، اس میں کبھی ناغہ نہ ہوتا، ایبٹ آباد کے قیام میں دن میں تین تین مقامات پر عرصہ تک درس دیتے رہے۔
تنظیمی اور ملی خدمات: گو آپ کا خاص مشغلہ درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور ارشاد و ہدایت تھا تاہم قومی و ملی مسائل سے بھی یک گو نہ سروکار رکھتے۔ ۱۹۳۲؁ء میں جمعیت علمائے اٹک کی بنیاد رکھی۔ جس نے گرانقدر دینی خدمات انجام دیں۔ بعض مذہبی مسائل پر علماء کے اختلاف رائے کی وجہ سے مذہبی انتشار پیدا ہوجاتا تھا۔ اس کے لیے آپ نے مجلس تنقیح فتویٰ قائم کی اور علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔
۱۹۴۷؁ء میں نواب زادہ لیاقت علی خاں کے زیر صدارت ایک اسلامی کانفرنس ہوئی جس میں آپ نے پورا حصہ لیا۔ دوسری دینی و ملی تنظیموں میں بھی حصہ لیا اور مختلف وقتوں میں ہفتہ وار اخبار اور رسالے بھی نکالے۔
تصنیفی خدمات: اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تحریر و تصنیف کا ملکہ بھی عنایت فرمایا تھا اور آپ کا ذوق بڑا متنوع تھا اس لیے مختلف موضوعات پر درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں۔
۱۵؍ اگست ۱۹۸۹؁ء کو آپ کو دل کا شدید دورہ پڑا دوبارہ پھر پڑا اور ڈاکٹروں کی ممانعت کے باوجود علمی و عملی اشغال کا سلسلہ جاری رکھتے، بالاخر وقت موعود آگیا اور عین تہجد کے وقت دو سوا دو بجے تین مرتبہ اﷲ، اﷲ، اﷲ، فرمایا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
اولادـ: اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور چار بیٹیاں عنایت فرمائیں۔ سب آپ کے حسنِ تربیت سے نیک صالح، متقی پرہیزگار اور حافظ و قاری اور عالم فاضل ہیں۔ بڑے صاحبزادے مولانا قاضی محمد ارشدالحسینی جامعہ اشرفیہ سے فاضل ہیں، منجھلے صاحبزادے مولانا قاضی محمد راشدالحسینی اور چھوٹے صاحبزادے مولانا قاضی محمد ابراہیم ثاقب الحسینی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل ہیں۔
تیرہ خوش نصیبوں کو آپ نے اپنا مجاز فرمایا جن کے اسم گرامی درج ذیل ہیں: ۱۔مولانا صاحبزادہ قاضی محمد ارشد الحسینی اٹک، ۲۔مولانا ڈاکٹر سید سعید اﷲ جان پشاور ۳۔مولانا قاری محمد سلیمان ٹیکسلا، ۴۔مولانا محمد زمان بنور، ۵۔جناب کرنل محمد جمیل کرک کوہاٹ، ۶۔مولانا مفتی محمد حسین شور کوٹ، ۷۔حافظ نثار احمد الحسینی حضرو، ۸۔حاجی عبدالعزیز ایبٹ آباد، ۹۔صاحبزادہ مولانا قاضی محمد راشدالحسینی اٹک، ۱۰۔صاحبزادہ مولانامحمد ابراہیم ثاقب الحسینی اٹک، ۱۱۔مولانا قاری غلام نبی افغانی، ۱۲۔حافظ عطاء اﷲ وہاڑی، ۱۳۔مولانا قاری محمد ادریس اسلام آباد۔ (جولائی۱۹۹۷ء)

۱؂ معارف : غالباً مولانا احمد علی لاہوری مفسر قرآن مراد ہیں۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...