Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > قاری سید صدیق احمدباندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

قاری سید صدیق احمدباندوی
ARI Id

1676046599977_54338371

Access

Open/Free Access

Pages

578

قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی
۲۸؍ اگست ۱۹۹۷؁ء کو مشہور عالم ربانی اور مرجع خلائق بزرگ قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی نے رحلت فرمائی۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ضلع باندہ کے ایک گاؤں ہتھورا کے رہنے والے تھے جو علمی و تمدنی حیثیت سے بہت پس ماندہ تھا، انہوں نے مظاہر العلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کی اور مولانا اسعد اﷲ صاحب خلیفہ حضرت تھانویؒ سے بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت حاصل کی، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن سے قریب فتح پور میں مفتی ظہور الاسلام صاحب کے مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کے گاؤں ہتھورا اور اس کے گردونواح میں ارتداد کی لہر پھیل گئی۔ چنانچہ قاری صاحب نے اپنے گاؤں میں بڑی بے سروسامانی کے عالم میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے سرگرم عمل ہوگئے، ان کی یہ اصلاحی کوشش بارآور ہوئی اور جو خطہ ارتداد کی لپیٹ میں آچکا تھا اب وہ مرکز علم و رشد بنا ہوا ہے، جہاں دور دراز سے طلبہ اور علوم نبوت کے شائقین رختِ سفر باندھ کر آتے ہیں۔
قاری صاحب اچھے معلم و مدرس ہی نہ تھے بلکہ ایک داعی و مصلح بھی تھے، اس کی وجہ سے علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے آنے والوں کے علاوہ ہر وقت طالبین و سالکین کا جمگھٹ ان کے یہاں لگا رہتا تھا اور ہر ایک بقدرِ استعداد ان سے فیضیاب ہوتا تھا۔ مشرقی اضلاع کے لوگوں کو ان کی تذکیر و ہدایت سے خاص طور پر بڑا فائدہ ہوا۔
راقم الحروف جامعہ عربیہ ہتھورا میں حاضری کے موقع پر ان کی مشغول زندگی کا خود مشاہدہ کرچکا ہے، نماز فجر کے بعد سے ظہر تک طلبہ کی ایک جماعت ان سے سبق پڑھ کر جاتی تو خالی گھنٹے میں پچاسوں کی تعداد میں لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور یہ سلسلہ دوسرے طلبہ کی آمد تک مسلسل قائم رہتا، اسی کے ساتھ وہ ملک کے مختلف مقامات کا سفر بھی کرتے رہتے تھے، مگر اس میں بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ طلبہ کا تعلیمی نقصان نہ ہونے پائے۔
حیرت ہوتی ہے کہ ان متنوع مشاغل کے باوجود وہ لکھنے پڑھنے کے لیے کس طرح وقت نکال لیتے تھے، فن تجوید و قرأت اور علم منطق سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ چنانچہ طلبہ کی سہولت کے لیے انہوں نے ان فنون پر چند مختصر رسالے لکھے جو بعض مدارس کے نصاب میں داخل ہیں۔
قاری صاحب ہر طبقہ و جماعت میں یکساں محبوب اور ہر دلعزیز تھے، اکثر دینی درسگاہوں سے ان کو تعلق رہا اور ہر طبقہ کے علماء و مشائخ سے بھی ان کے روابط تھے، ان کی ذات مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی نفع بخش تھی، وہ بلاتفریق مذہب و ملت ہر ضرورت مند اور پریشان حال کی مدد کرتے، ان کے یہاں مسلم و غیر مسلم کی کوئی تمیز نہ تھی۔
طبعاً حلیم، نرم خو، منکسر المزاج اور سادگی پسند اور بڑے مہمان نواز تھے، خوردوں کے ساتھ شفقت و محبت اور بزرگوں کا احترام ان کی طبیعت ثانیہ تھی، شرافت، مروت اور اخلاق حسنہ کے مثالی پیکر تھے اور انہی خوبیوں کی بنا پر وہ مرجع خلائق بن گئے تھے۔ اور مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی ان کے حد درجہ گرویدہ تھے۔
مسلسل محنت و ریاضت نے قاری صاحب کو قبل از وقت بہت کمزور اور ناتواں کردیا تھا، بلڈپریشر کی شکایت اور دل کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا، ڈاکٹروں کی سخت تاکید اور ہدایت تھی کہ محنت کم کردیں، مگر ان کی روح مضطرب اور بے چین دل کو سکون کہاں مل سکتا تھا، بالآخر ۲۸؍ اگست ۱۹۹۷؁ء کو عمر بھر کی بیقراری کو قرار آگیا اور اپنی خدمات کا صلہ لینے کے لیے رب العالمین کے حضور میں جاپہنچے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اعزہ و متوسلین کو صبر کی توفیق بخشے اور ان کی قائم کردہ یادگار جامعہ عربیہ ہتھورا کو قائم و دائم رکھے، آمین۔ (’’ع ۔ع‘‘، اکتوبر ۱۹۹۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...