Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا امین احسن اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا امین احسن اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338373

Access

Open/Free Access

Pages

579

مولاناامین احسن اصلاحی
۱۶؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء کو جامعۃ الفلاح بلریا گنج میں یہ اندوہ ناک خبر سنی کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی وفات ہوگئی، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ادھر سال بھر سے اس کا کھٹکا لگا ہوا تھا کہ علم و کمال کا یہ مہر جہاں تاب غروب ہونے والا ہے۔ اور قرآن و حدیث کے بحر کا شناور اور غواص، علامہ حمید الدین فراہیؒ کا جانشین و ترجمان، ان کے علوم و معارف کا وارث و امین، حکمت قرآنی کا شارح و مبین، دین حق کا داعی و مبلغ، اسرار دین کا عارف و آشنا، شرک و توحید اور تقویٰ و نماز کا رمزو حقیقت شناس اپنے ہزاروں شاگردوں اور قدردانوں کو مغموم، اداس اور سوگوار چھوڑ کر جلد ہی سفر آخرت پر روانہ ہونے والا ہے۔
ابھی مولانا بدرالدین اصلاحی ناظم مدرستہ الاصلاح و دائرہ حمیدیہ کا غم تازہ ہی تھا کہ مدرسہ کا یہ گل سرسبد اور فکر حمید کا سب سے بڑا حامل و شیدائی بھی رخصت ہوگیا۔
کیا کہوں تاریکیٔ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
مولانا امین احسن اصلاحی صاحبؒ اعظم گڑھ شہر سے پورب میں واقع ایک گاؤن ’’بمہور‘‘ کے متوسط زمیندار گھرانے میں ۱۹۰۳؁ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد حافظ محمد مرتضےٰ صاحب ایک دیندار، متبعِ سنت اور تہجد گزار شخص تھے، وہ اپنے فرزند کو دینی تعلیم دلانا چاہتے تھے، اپنی اس تمنا کا ذکر انھوں نے اپنے ہم وطن دوست مولانا شبلی متکلم ندوی سے کیا جو علامہ شبلیؒ کے عزیز شاگرد اور مدرستہ الاصلاح سرائے میر کے منصبِ اہتمام پر فائز تھے۔ انھوں نے اسی مدرسہ میں مولانا امین احسن صاحب کا داخلہ کرادیا، جہاں انھوں نے ان سے اور دوسرے اساتذہ سے دینی علوم کی تحصیل کی، ان کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں سب سے زیادہ فیض مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی سے پہنچا۔
مولانا عبدالرحمن نگرامی ندوی بڑے لائق و فاضل تھے۔ علامہ شبلی نے انھیں جوہر قابل سمجھ کر ان کی تربیت سے بڑی دلچسپی لی۔ وہ اپنے ساتھ انھیں بعض جلسوں میں لے جاتے۔ مدرستہ الاصلاح سرائے میر کے دوسرے سالانہ اجلاس میں بھی جو ۱۹۱۰؁ء میں ہوا تھا، علامہ ان کو اپنے ہمراہ لائے وہ اس وقت بہت کم عمر تھے، ایک بچہ کی زبان سے ایسے اچھے خیالات اور ایسی سنجیدہ تقریر سن کر لوگ حیرت میں پڑ گئے، یہی تقریر ندوہ سے فراغت کے بعد سرائے میر میں ان کے آنے کی تقریب بن گئی، اور یہیں سے ان کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
’’تعلیم سے فارغ ہو کر مرحوم (مولانا نگرامی)بھی وابستگان شبلی کی جماعت میں داخل ہوگئے اور چار برس تک مدرسہ سرائے میر میں رہ کر درس و تدریس کا فرض انجام دیا، اور مدرسہ میں زیر تربیت چند اچھے لڑکے پیدا کیے جن میں سے ایک آج مولانا امین احسن کے نام سے مشہور ہیں‘‘۔ (یادِ رفتگاں)
یہاں کے قیام کے زمانے میں انھوں نے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے زیر سایہ قرآن پاک کا فیض حاصل کیا۔ اور مشرقی اضلاع میں ان کی اصلاحی تقریریں بھی مقبول ہورہی تھیں۔ مگر جب مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے جامع مسجد کلکتہ میں مدرسہ اسلامیہ قائم کیا تو ان کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے۔ اس کے بند ہوجانے پر ۱۹۲۳؁ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ادب و تفسیر کے استاذ ہو کر آئے۔ لیکن جلد ہی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ۱۹۲۶؁ء میں عین شباب میں وفات ہوگئی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کو مولانا نگرامیؒ سے ایسا والہانہ تعلق تھا کہ ’’سچ‘‘ اخبار سے وابستگی کے زمانے میں وہ امین آباد سے روزآنہ پیدل چل کر ندوہ ان سے ملنے آجایا کرتے تھے، اس اخبار سے پہلے وہ ’’مدینہ‘‘ بجنور کے بھی ایڈیٹر رہے۔ مگر جلد ہی صحافت کا کوچہ چھوڑ دیا اور مدرستہ الاصلاح کی کشش ان کو سرائے میر کھینچ لائی جس کے بوریائے فقر پر اس وقت ترجمان القرآن مولانا حمیدالدین فراہیؒ فروکش ہوکر وہاں کے اساتذہ کو اپنے خاص نہج پر قرآن مجید کی تعلیم دے رہے تھے۔ ان کے درس سے وہ اور ان کے ہم سبق مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم نے پورا استفادہ کیا۔ ان دونوں کا شوق و رغبت اور استعداد و قابلیت دیکھ کر مولانا فراہیؒ نے بھی ان کو اپنی توجہ و عنایت کا خاص موردبنایا۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ رقمطراز ہیں:
’’اواخر عمر میں مرحوم (مولانا فراہیؒ) کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ چند مستعد طلبہ کو اپنے مذاق کے مطابق تیار کریں۔ چنانچہ کم از کم دو طالب علموں کی خاص طور سے انھوں نے دماغی تربیت کی‘‘۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے فخر و امتیاز کے لیے یہ کافی ہے کہ انھیں مولانا فراہیؒ کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا۔ اور وہی ان کے سب سے ممتاز شاگرد کی حیثیت سے مشہور ہوئے جس کا حق بھی انھوں نے خاطر خواہ طور پر ادا کیا۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا بیان ہے کہ ’’بعض مستعد طلبہ نے مولانا فراہیؒ کے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا جن میں قابل ذکر مولوی امین احسن صاحب اصلاحی ہیں۔ ہماری آئندہ توقعات ان سے بہت کچھ وابستہ ہے‘‘۔
اپنے استاذ کا نام روشن کرنے اور ان کے افکار و نظریات کی اشاعت و ترجمانی کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔ جب کسی جانب سے مولانا فراہیؒ پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ان کی حمایت کے لیے سینہ سپر ہوجاتے۔ ان کے اس قسم کے مضامین ’’الاصلاح‘‘ اور ’’معارف‘‘ دونوں میں چھپے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے استاذ علامہ فراہیؒ اور استاذ الاستاذ علامہ شبلیؒ کے خلاف غوغائے تکفیر بپا ہوا تو وہی ان مظلوم ’’امامین ہمامین‘‘ کی مدافعت اور ان کی یاد گار مدرستہ الاصلاح کو شرپسندوں سے بچانے کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے:
بیاورید گر ایں جا بود سخندانے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد
مولانا امین احسن اصلاحیؒ قرآنیات اور عربی زبان و ادب ہی کے متبحر عالم نہ تھے بلکہ اکثردینی اور جدید علوم پر بھی ان کی اچھی اور مجتہدانہ نظر تھی۔ اپنے استاذ علامہ فراہی سے قرآن مجید، ادب عربی اور نحوو بلاغت کے علاوہ فلسفۂ جدیدہ کی بھی تحصیل کی تھی۔ ان کے والد بزرگوار سلفی المسلک اور مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحبِ تحفۃ الاحوذی کے عقیدت مند اور ان کی علم پرور مجلسوں کے حاضر باش تھے، والد کی خواہش پر مولانا اصلاحی نے فن حدیث کی امہاتِ کتب ازسرِنو ان سے پڑھیں اور اس میں بڑا کمال حاصل کیا۔ وہ اپنے جن استاذوں کا اکثر تذکرہ کرتے اور جن کے وہ بہت ممنون احسان تھے ان میں مولانا فراہیؒ اور مولانا نگرامیؒ کے ساتھ مولانا مبارکپوریؒ کا نام بھی لیتے۔
مولانا فراہیؒ کے انتقال کے بعد ان کے افکار و تصانیف کی اشاعت کے لیے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی سربراہی میں دائرۂ حمیدیہ قائم ہوا جس نے مولانا کی عربی تصانیف کے متون اور ان کے سلیس و شگفتہ اردو ترجمے شائع کیے۔ یہ ترجمے مولانا اصلاحی نے اتنی خوبی اور قابلیت سے کیے ہیں کہ ان پر اصل کا دھوکا ہوتا ہے۔ دائرۂ حمیدیہ کی طرف سے ان کی ادارت میں ایک بلند پایہ علمی ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘ بھی جاری ہوا۔ مگر ناقدری کی بنا پریہ چار برس ہی میں بند ہوگیا۔ تاہم اس میں قرآنیات پر ایسے محققانہ مضامین شائع ہوئے کہ آج تک لبِ ساقی پر یہ مکرر صدا جاری ہے۔
؂ کون ہوتا ہے حریفِ مے مردافگن عشق
جس زمانے میں وہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور رہ کر مولانا فراہیؒ کی تصنیفات کی ترتیب و اشاعت اور اپنی بعض کتابوں کی تحریر و تسوید میں مشغول تھے اسی زمانے میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے دعوتی و انقلابی مضامین اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی موثر و دلنشین متکلمانہ تحریروں کا غلغلہ بلند ہوا جن سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے علاوہ وہ علماء بھی متاثر ہوئے جو وقت کے تقاضوں اور زمانے کے حالات سے کسی قدر باخبر تھے، لیکن مولانا امین احسن اصلاحی نے شروع میں ان کا کوئی اثر قبول نہیں کیا، کیونکہ ان پر اس وقت تک اپنے استاذ مولانا عبدالرحمن نگرامیؒ کے زیر اثر ترکِ موالات اور تحریکِ خلافت اور مولانا ابوالکلام آزاد اور مولاناسید حسین احمد مدنیؒ کے سیاسی خیالات کا اثر تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود جس فکر کے حامل تھے اس کے اپنے خاص تقاضے اور مطالبے تھے۔ اس کے ساتھ دوسرے افکار اور تحریکوں کا میل نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی لیے غالباً وہ اس سے قریب نہیں ہوسکے، مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ پر ’’الاصلاح‘‘ کے کئی نمبروں میں تنقید لکھی۔
جب مولانا مودویؒ نے اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کے لیے بعض جگہوں کا سفر کیا تو وہ سرائے میر بھی تشریف لائے اور بالآخر فکر حمید کے سب سے بڑے داعی و شارح بھی ان کے مکمل ہم نوا ہوگئے، اور وہ وقت بھی آپہنچا کہ استاد کا آستانہ چھوڑ کر پٹھان کوٹ جو اس زمانے میں مولانا مودویؒ کا مرکز و مستقر تھا، جا پہنچے۔ جب مدرستہ الاصلاح کے حدود سے وہ باہر نکل رہے ہوں گے تو کارکنانِ قضاو قدرنے یہ صدا ضرور بلند کی ہوگی کہ ’’تیری شان ان مشاغل سے بالاتر ہے‘‘۔
اے تماشا گاہِ عالم روئے تو
تو کجا بہرِ تماشا می روی
مگر ایسے جوش کے عالم میں ہوش کی باتوں پر کون کان دھرتا ہے جلد ہی انھوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت میں اپنی سب سے اہم اور نمایاں جگہ بنالی۔ ترجمان القرآن پر نام تو مولانا مودودیؒ کا ہوتا تھا لیکن عملاً وہی اس کے مدیر ہوگئے تھے۔ اسی لیے جب ملک تقسیم ہوا تو جماعت کا نظام سنبھالنے اور اس کی امارت و سربراہی کا بار اٹھانے کے لیے مولانا مودویؒ نے انھیں ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے بہر حال مدرستہ الاصلاح میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن تقسیم کے بعدایسی قیامت برپا ہوئی اور فسادات کی آگ اتنی سخت بھڑک اٹھی کہ جوجہاں تھا وہیں دم بخود رہ گیا۔ مولانا امین احسن صاحبؒ بھی لاہور سے سرائے میر کے خرابے میں چراغ آرزو جلانے تشریف نہیں لاسکے۔
پاکستان بننے کے بعد وہاں جماعت کی طرف سے اسلامی نظام کا مطالبہ بڑے زور و شور سے بلند ہوا۔ اس کی وجہ سے مولانا مودودیؒ، مولانا اصلاحیؒ اور دوسرے سرکردہ قائدین کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ پھر انتخابات کا مرحلہ آیا۔ جس میں جماعت نے پوری سرگرمی سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو مولانا اصلاحی اور ان کے بعض رفقاء نے محسوس کیا کہ اب جماعت کی ساری توجہ حصولِ اقتدار کی جانب مرکوز ہوگئی ہے اور وہ اصلاح و دعوت اور افراد سازی کے اپنے اصل موقف سے منحرف ہوگئی ہے۔ بہر حال یہ اور اسی طرح کے بعض دوسرے اختلافات کی بنا پر وہ اس جماعت سے علیحدہ ہوگئے جس کے برسوں سے سب سے اہم اور برتر رکن تھے جس کے لیے اپنی ساری قوت و توانائی اور ذہنی و دماغی قابلیت و صلاحیت صرف کردی تھے۔
جماعت سے علیحدگی کے بعد مولانا امین احسن صاحب نے حلقۂ تدبر قرآن قائم کیا جس کی اطلاع جب ان کے بعض قدیم کرم فرماؤں مولانا عبدالباری ندوی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی وغیرہ کو ہوئی تو انھوں نے اس پر بڑی مسرت ظاہر کی۔ اس کے زیر اہتمام انھوں نے بعض ذی استعداد طلبہ اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن مجید و احادیث نبویؐ کا درس دینا شروع کیا اور اپنے خیالات و مقاصد کے اظہار و اشاعت کے لیے رسالہ ’’میثاق‘‘ جاری کیا۔ بعد میں اس رسالے پر ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر اسرار احمد قابض ہوگئے۔
جماعت سے الگ ہونے پر انھیں یک سوئی میسر ہوگئی تھی اس لیے وہ اپنے اصل اور بنیادی کام کی طرف متوجہ ہوئے اور قرآن مجید کی جس میں برسوں سے غور و خوض ان کی زندگی کا سب سے محبوب مشغلہ تھا، تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے لکھنی شروع کی جو ’’میثاق‘‘ میں بالاقساط شائع ہوئی اور پھر نو جلدوں میں کتابی صورت میں چھپی۔ اردو میں یہ اپنی نوعیت کی منفرد تفسیر تھی اس لیے بہت مقبول ہوئی۔ پاکستان میں اس کے کئی ایڈیشن نکلے۔ اور ہندوستان میں بھی یہ تاج کمپنی دہلی سے چھپ گئی ہے اور ہر جگہ دستیاب ہے۔
مولانا حمید الدین فراہیؒ نے اواخر قرآن کی بعض مختصر سورتوں کی تفسیر لکھی تھی، باقی سورتوں کے متعلق کچھ نوٹ اور متفرق اشارات ہی لکھ سکے تھے۔ ضرورت تھی اور عرصہ سے مولانا فراہیؒ کے قدردانوں کا اصرار بھی تھا کہ ان کے اصول و متعینہ خطوط کے مطابق مکمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی جائے۔ ظاہر ہے یہ کام مولانا کے تلامذہ میں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ انھوں نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا جو واقعتہً ان کا بڑا کارنامہ اور ع ایں کا راز تو آمد و مرداں چنیں کنند کے مصداق ہے۔ مولانا شاہ معین الدین ندوی تحریر فرماتے ہیں:
’’ہمارے فاضل دوست مولانا امین احسن صاحب اصلاحی، ترجمان القرآن مولانا حمید الدین فراہیؒ کے ارشد تلامذہ میں ہیں۔ تفسیر کے درس و تعلیم میں انھوں نے تمام تر ان ہی سے استفادہ اور برسوں خود بھی اس پر غور و فکر کیا ہے۔ اس لیے ان کو تفسیر لکھنے کا حق تھا اور حق یہ ہے کہ انھوں نے اس کا پورا حق ادا کیا ہے۔ اور بڑی دقت و وسعت نظر اور ایمانی جذبہ سے یہ تفسیر لکھی گئی ہے جو ان کی برسوں کی محنت اور غور و فکر کا نتیجہ اور ہر حیثیت سے جامع و مکمل ہے․․․․․․ اور مصنف کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس سے اردو تفسیر کے ذخیرہ میں بیش بہا اضافہ ہوا اور وہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کے مطالعہ کے لائق ہے‘‘۔ (معارف عدد ۳، جلد ۱۰۴، ستمبر ۱۹۶۹؁ء)
یہ صحیح ہے کہ ’’تدبر قرآن‘‘ میں مولانا فراہیؒ کے اصولِ تفسیر مدنظر رکھے گئے ہیں اور اس میں ان کے افکار و خیالات سے مکمل استفادہ بھی کیا گیا ہے، اسی لیے اسے فراہی اسکول کی مستند تفسیر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، مگر اصلاً یہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی محنت و جانفشانی، برسوں کے مطالعہ و تحقیق اور مسلسل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اور اس میں کہیں کہیں انھوں نے صراحتہً اپنے استاذ سے اختلاف بھی کیا ہے۔
میثاق کے بعد ان کی نگرانی اور ان کے خاص فیض یافتہ جناب خالد مسعود صاحب کی ادارت میں رسالہ ’’تدبر‘‘ نکلا جو ابھی تک نکل رہا ہے۔ مولانا اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ مکمل کرچکے تو ’’تدبر حدیث‘‘ کی تکمیل میں لگ گئے۔ موطا امام مالک اور صحیح بخاری کی حدیثوں کی شرح و ترجمانی سے متعلق حصے رسالہ ’’تدبر‘‘ میں شائع ہورہے ہیں۔ تدبر حدیث کا یہ سلسلہ بھی مولانا کے زریں کارناموں میں ہے۔
جو لوگ تقلید پر قانع اور قدماء کی روش پر چلنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور فنون و علوم اسلامیہ کے معروضی اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کے عادی نہیں ہیں، یا جو لوگ اپنے مزعومہ متفقہ عقائد و خیالات کے خلاف نہ کوئی سنجیدہ اور معقول بات سننے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ اپنے حلقوں کے سوا کسی اور حلقہ کی کوئی بات اپنے کانوں میں پڑنے دینا چاہتے ہیں، ان کے لیے مولانا کی تفسیر، تشریح احادیث اور بعض تصنیفات کے کچھ مقامات نامانوس اور ناقابل قبول ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں نے اس قسم کے بعض مسائل کو لے کر حسبِ عادت شور و غوغا بھی مچایا، مگر مولانا اجماعِ عام کے ان کے دعوے سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اپنے اس خیال کو پوری جرأت کے ساتھ پیش کرتے رہے جسے وہ صحیح اور کتاب و سنت کے مطابق سمجھتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی جیسے بلند پایہ محقق، وسیع النظر عالم اور قرآن و حدیث کے ماہر سے جمہور کے تمام خیالات و آرا کی پابندی کا مطالبہ کرنا اور نہ کرنے پر سب و شتم اور تکفیر و تضلیل کا محاذ گرم کردینا بڑی زیادتی اور انتہائی تنگ نظری ہے۔ ہر دور کے نابغۂ روزگار علماء کے یہاں مجتہدانہ خیالات اور تفردات ملتے ہیں۔ ان کی بنا پر انھیں مطعون کرنا اور ان پر کفر و زندقہ کا الزام عائد کرنا علمی کم مائیگی اور عدم تدبر کا نتیجہ ہے۔ متقدمین اور دور حاضرمیں بھی ایسے متعدد علماء گزرے ہیں جن کی سطح اپنے معاصرین سے بلند تھی اس لیے وہ اپنے عہد کے مزعومات اور تقلیدی رجحانات کا ساتھ نہیں دے سکے۔ اس لیے ابنائے زمانہ کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنے۔ حالانکہ ایسے موقع پر بے صبری اور عجلت کے بجائے توقف و تامل اہل حق اور اصحاب علم کا شیوہ رہا ہے۔
مولانا امین احسن صاحب کی رگ وپے میں علامہ شبلیؒ کی صہبائے علم و ادب رقص کررہی تھی۔ اور وہ ان کے طرز تحریر کو اردو انشاء پردازی کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھتے تھے۔ ان کی تحریروں کی رعنائی اور دلکشی اور دلآویزی کا یہی سبب ہے لیکن اب ان کی پختگی اور مشاقی سے ان کا اپنا الگ اور جداگانہ رنگ و آہنگ بھی ہوگیا تھا، جس میں سادگی کے باوجود پُرکاری ہوتی تھی۔ طبقۂ علماء میں ایسی صاف، شُستہ، سلیس، شگفتہ اور رواں اردو لکھنے والے کہاں ملیں گے۔ ان کو عربی لکھنے پر بھی قدرت تھی۔ ’’الضیاء‘‘ (لکھنؤ) میں ان کے بعض عربی مضامین شائع ہوئے۔
مولانا کی قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھا اور تصنیفی زندگی کی بسم اﷲ کلمہ لاالہ اﷲ کی تشریح سے ہوئی، پہلے حقیقت شرک لکھی۔ پھر حقیقت توحید، باقی تصنیفات کے نام یہ ہیں، حقیقت نماز، حقیقت تقویٰ، اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل، تدوین قانونِ اسلامی، تزکیۂ نفس، دعوتِ دین اور اس کا طریقۂ کار، قرآن میں پردے کے حکام، مبادی تدبر قرآن، مبادی تدبر حدیث، مولانا حمیدالدین فراہیؒ، اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام، عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ ، فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں، تفہیمِ دین، مقالات اصلاحی (جلد اول)۔
ان مستقل تصنیفات کے علاوہ مولانا فراہیؒ کی متعدد تصنیفات و رسائل کا اردو ترجمہ کیا۔ آخر میں تدبر قرآن کی نو جلدیں لکھیں اور تدبر حدیث پر کام کرہی رہے تھے کہ پیام اجل آگیا، ع خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا۔
مولانا نے بڑی مشغول علمی زندگی گزاری، انھوں نے طویل عمر پائی جو درس و تدریس، تصنیف و تالیف، اشاعتِ علم اور خدمتِ دین کے لیے وقف رہی، مدرستہ الاصلاح میں درس و تدریس کا جو مشغلہ شروع کیا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں تاعمر جاری رہا۔
مجھے ان سے ملاقات کا شرف صرف ایک بار اس وقت حاصل ہوا جب وہ اپنے والد کی علالت کی خبر سن کر ۱۹۵۲؁ء میں ہندوستان اپنے آبائی وطن تشریف لائے تھے مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہوچکا تھا، اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات بہت کشیدہ تھے، پھر ان کا تعلق جس جماعت سے تھا اس کی وجہ سے انھیں گاؤں سے کہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، میں ان سے وہیں ملنے گیا تو بڑے لطف و محبت سے پیش آئے۔ میرے بڑے بھائی مولوی قمرالدین اصلاحی کے بارے میں دریافت کیا جن کا قلمی و ادبی نام قمر اعظمی ہے اور جن کو انھوں نے پڑھایا تھا۔ جب بھائی کے بارے میں انھیں معلوم ہوا کہ ان کا مشغلہ علمی نہیں ہے تو انھیں بڑا افسوس ہوا اور میرے ذریعہ سے انھیں یہ پیغام بھیجا کہ آخر ان کے علم، ان کی ذہانت و صلاحیت سے ان کی قوم و ملت اور ملک کو کیا فائدہ پہنچا۔
میری موجودگی میں مغرب کے بعد ان سے ملنے کے لیے مولانا قاضی اطہر مبارکپوری اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ آئے اور عشاء سے پہلے واپس جانے لگے تو مولانا نے فرمایا کہ اس وقت رات میں کیوں جارہے ہیں؟ قاضی صاحب نے کہا! ہم لوگ قریب کے ہیں۔ ابھی پہنچ جائیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ قریب کے لوگوں کو ہی روکا جاتا ہے، قاضی صاحب نے ہنس کر کہا، نہیں! اجازت دیجئے ہم لوگ بس نیاز حاصل کرنے آئے تھے، مولانا نے فرمایا: اجی حضرت! میں تو خود ہی نیاز مند ہوں۔
میری ان سے یہی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ البتہ ان سے کبھی کبھی خط و کتابت رہتی تھی۔ ’’میثاق‘‘ کے لیے ان کی طلب پر میں نے چند مضامین لکھے، وہ میرے عزیز بھی ہوگئے تھے۔ ان کے ایک سگے پوتے عزیزی ابو ریحان جو افسوس ہے کہ دادری کے ہوائی حادثہ میں ۱۲؍ نومبر ۱۹۹۶؁ء کو جاں بحق ہوگئے ان سے میری لڑکی شاہین منسوب تھی، میں نے جب اپنی طرف سے اس رشتہ اور مولانا بدرالدین اصلاحی مرحوم کے نکاح پڑھانے کی انھیں اطلاع دی تو اس پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ تمھارا خط بہت مختصر تھا، اب جب خط لکھو تو دارالمصنفین اور مدرستہ الاصلاح کا مفصل حال لکھو اور دونوں جگہ میرے جو ملنے اور جاننے والے لوگ موجود ہیں ان کا ذکر کرو۔ اور ان سے میرا سلام کہو، چنانچہ تعمیل حکم میں جب میں نے بڑا مفصل خط لکھا تو بہت خوش ہوئے اور جواب میں تحریر فرمایا کہ دراصل میں اسی طرح کا خط چاہتا تھا۔ اسی گرامی نامہ میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر وہاں آؤں، چاہے میرے جاننے والے ہوں یا نہ ہوں، مدرستہ الاصلاح کے در و دیوار تو ہوں گے، ان ہی سے لپٹ کر اچھی طرح رولوں گا‘‘۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں مدرستہ الاصلاح سے جو ان کے استاذ کی یادگار ہے کتنا جذباتی تعلق تھا اور وہ اس کی ترقی و استحکام کے کس قدر آرزو مند رہتے تھے۔ وہ پاکستان میں ضرور تھے، لیکن ان کا دل یہاں اور یہاں کے لوگوں میں بھی اٹکا رہتا تھا، اور جب یہاں کے کسی شخص کو پاجاتے تھے تو فرطِ تعلق سے لپٹ جاتے تھے اور جو جو یاد آتا سب کا حال دریافت فرماتے۔
راقم کے ایک استاذ مولوی قمرالزمان صاحب اصلاحی مرحوم جو مولانا امین احسن صاحب کے عزیز تھے جس سال حج بیت اﷲ کے لیے تشریف لے گئے اسی سال مولانا اصلاحی بھی پاکستان سے حج کے لیے آئے ہوئے تھے، وہ ان سے ملنے گئے تو ان کے پاس کئی ملکوں کے اہم اور معزز اشخاص بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان کو دیکھتے ہی باغ باغ ہوگئے اور ان کی ساری توجہ کا مرکزیہی ہوگئے۔
جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم ایک دفعہ ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو اعزاز میں ایک بڑی لمبی اور شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ سید صاحب فرماتے تھے کہ مجھے ایسی پُرتکلف اور شاندار دعوت کھانے کا اتفاق بہت کم ہوا تھا۔ وہ مولانا اصلاحی کے گرم جوشی سے ملنے اور خلوص و محبت کا اکثر ذکر فرماتے اور کہتے کہ جو لوگ ان کی یہاں موجودگی کے وقت دارالمصنفین کے کسی شعبہ سے وابستہ تھے ان سب کا نام لے کر ایک ایک شخص کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔
دراصل دارالمصنفین سے بھی ان کو بڑا تعلق تھا، مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالسلام ندوی سے ملاقات کے لیے یہاں برابر آتے رہتے تھے اور خود سید صاحب بھی سرائے میر برابر تشریف لے جاتے تھے، اور مولانا امین احسن صاحبؒ کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔
مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی ان کے عزیز شاگرد ہیں۔ ایک دفعہ ان کے بڑے صاحبزادے حکیم محمد فیاض صاحب پاکستان گئے اور ان سے ملے تو بڑی پذیرائی کی اور کہنے لگے مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، اگر کبھی بمبئی کے راستہ سے آیا تو تمھارے یہاں قیام کروں گا اور دہلی سے آنے پر عبداللطیف اعظمی صاحب کے یہاں قیام کروں گا۔ یہ بھی ان کے چہیتے شاگرد ہیں۔
مولانا امین احسن صاحبؒ کھانے پینے کے جتنے شوقین تھے اس سے زیادہ دوسروں کو کھلا کر انھیں خوشی ہوتی تھی۔ ان کے یہاں اکثر دعوتیں ہوتی تھیں۔ اعظم گڑھ میں حکیم محمد اسحاق صاحب اپنی حذاقتِ فن، شرافت نفس اور جامع صفات حسنہ ہونے کی بنا پر ہر طبقہ میں بہت مقبول و محبوب تھے۔ مدرستہ الاصلاح اور اس کے ذمہ داروں سے بھی ان کے اچھے تعلقات تھے۔
مولانا امین احسن صاحبؒ ان کے بڑے بے تکلف اور خاص دوست تھے، حکیم صاحب کے نورتنوں میں مشہور شاعر جناب یحییٰ اعظم اور دارالمصنفین کے رفقاء و وابستگان بھی تھے۔
ان سب کو مولانا اصلاحی سال میں دو مرتبہ اپنے دولت خانے پر مدعو کرتے۔ ایک تو جاڑے میں، جب ہرے مٹر اور گنا تیار ہوتا۔ اور دوسرے آموں کے موسم میں حکیم صاحب کا سفر عموماً کشتی سے ہوتا تھا۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کو بھی ان دعوتوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا تھا۔
مولانا اصلاحیؒ بڑے پُرکشش، وجیہ و شکیل، جامہ زیب، بارعب اور نظافت پسند شخص تھے۔ انھیں صفائی بہت پسند تھی، کبھی ان کے جسم پر میلے کچلے کپڑے نہیں دیکھے گئے۔ لباس سفید پہنتے تھے جس پر کہیں داغ دھبہ نہیں ہوتا تھا۔ لباس ہی کی طرح ان کا کمرہ بھی چمکتا اور جگمگاتا رہتا تھا، ان کی پڑھنے لکھنے کی میز بہت مرتب اور صاف ہوتی۔ ان کی ہر ہر چیز سے حسن، نفاست اور سلیقہ مندی ظاہر ہوتی تھی اور کہیں سے بدذوقی اور بے ڈھنگے پن کا پتہ نہیں چلتا تھا۔
ان میں حد درجہ غیرت، خودداری، استغنا اور بے نیازی تھی کبھی کسی کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ جس پایہ اور رتبہ کے شخص تھے، چاہتے تو ہر بڑا عہدہ اور اعزاز ان کو مل سکتا تھا، لیکن ان کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی، ان کا قیام رحمن پورہ میں تھا۔ جس کی حیثیت ایک گاؤں جیسی تھی، صدر ضیاء الحق مرحوم نے بہت چاہا کہ ان کے لیے لاہور یا جس بڑے شہر میں وہ پسند کریں اچھا مکان تعمیر کرادیں۔ مگر وہ اس کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔
وہ عام لوگوں سے بڑی تواضع اور انکسار سے پیش آتے تھے لیکن امراء اور ذی جاہ و حشمت اشخاص سے کبھی جھک کر نہیں ملتے۔ طبیعت شاہانہ پائی تھی ہمیشہ اچھی اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے تھے کوئی ادنیٰ اور معمولی چیز ان کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں تھی، ہمیشہ سیکنڈ اور فرسٹ کلاس میں سفر کرتے، تانگے پر اکیلے سوار ہوتے، کشادہ دست تھے، پس انداز کرنے کی کبھی عادت نہیں رہی جو پاس ہوتا بے دریغ خرچ کر ڈالتے، سائل کو اپنی حیثیت سے زیادہ دیتے تھے حرص و ہوس کا کوئی شائبہ بھی انہیں نہیں تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کو جن اعلیٰ و برتر مقاصد کے لیے پیدا کیا تھا انھی میں شب و روز منہمک رہتے، گھر گرہستی کے کاموں سے کوئی سروکار نہ رکھتے۔ ان کی ضرورتوں کا سامان ان کے عزیز اور احباب مہیا کرتے تھے جن سے کہا کرتے کہ انتم اعلم بامور دنیاکم۔
جب کسی پر غصہ آتا اور بہت برہم ہوجاتے تو بعض اوقات کچھ سخت سست اور ناگفتنی بھی کہہ جاتے لیکن جلد ہی ان کا غصہ فرو ہوجاتا، کسی سے کینہ کدورت نہ رکھتے۔
مولانا امین احسنؒ اصلاحی کو تحریر کی طرح تقریر کا بھی خدادا ملکہ تھا۔ ان کا یہ جوہر طالب علمی ہی کے زمانے میں کھل گیا تھا، مولانا عبدالرحمن نگرامی کی صحبت میں اسے مزید ترقی ہوئی، وہ خلافت اور مولانا مدنی کے ساتھ جمعیۃ کے جلسوں میں شریک ہوتے اور اپنی جادو بیانی کا سکہ جمادیتے بعض ثقہ مشاہدین نے مجھے بتایا کہ ان کی تقریروں کے سامنے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تقریریں پھیکی ہوجاتی تھیں۔
جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو اس حلقہ کے سب سے بڑے مقرر وہی تھے۔ وہ کئی کئی گھنٹے تک بولتے مگر تسلسل اور حسن بیان میں فرق نہیں آتا، وہ مدرستہ الاصلاح کے توگل سرسبد تھے ہی حق یہ ہے کہ پورے برصغیر میں اس پایہ کے عالم، خطیب اور مصنف کم ہی لوگ ہوں گے ان کی کتابوں کی تعداد بعض مصنفین کے مولفات و رسائل کی طرح چاہے سینکڑوں نہ ہوں لیکن جن لوگوں کی کمیت کے بجائے کیفیت پر بھی نظر رہتی ہے وہ یہی کہیں گے:
بغاث الطیرا کثرھا فراخا
وام الصقر مقلاۃ نزور
مولانا امین احسن اصلاحی کی موت علم و دین کا بڑا خسارہ ہے جس کی تلافی کا بظاہر امکان نہیں، ان کے بعض تلامذہ خصوصاً جناب خالد مسعود صاحب سے ہماری بڑی توقعات و ابستہ ہیں، ان سے گزارش ہے کہ مولانا نے جو مشن برپا کیا تھا اسے جاری رکھیں۔
اﷲ تعالیٰ علم و دین کے اس خادم کی مغفرت فرمائے اور عزیزوں اور اہل تعلق کو صبر جمیل مرحمت فرمائے۔ اللھم صبب علیہ شآبیب رحمتک و برد مضجعہ واجعل الجنۃ مثواہ۔
(ضیاء الدین اصلاحی۔ جنوری ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...