Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر خلیق احمد نظامی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر خلیق احمد نظامی
ARI Id

1676046599977_54338374

Access

Open/Free Access

Pages

584

پروفیسر خلیق احمد نظامی کی یاد میں
(پروفیسر اصغر عباسی)
’’نظامی صاحب بلند پایہ عالم اور ملک کے ممتاز مورخ اور دارالمصنفین کے رکن رکین تھے، ان پر بعض مشہور اہل قلم سے جن کو ان سے گہری واقفیت تھی، مضمون لکھنے کی فرمایش کی گئی ہے، اس مضمون میں ان کی زندگی کے ایک خاص پہلو ہی سے گفتگو کی گئی ہے‘‘۔ (ض)
خلیق احمد نظامی صاحب کے نام نامی سے میں علی گڑھ آنے سے پہلے ہی واقف ہوچکا تھا لیکن ملاقات ۱۹۶۸؁ء میں ہوئی جب راقم الحروف سرسید ہال کا طالب علم تھا اور وہ اس کے پرووسٹ مقرر ہوئے تھے۔
نظامی صاحب متوسط قد کے تھے لیکن ان کا جسم ایسا تھا کہ ہر لباس خواہ ہندوستانی ہو یا انگریزی ان پر خوب پھبتا تھا، ان کا رنگ گندمی تھا جس کی وجہ سے ان کے سفید بالوں کی جو قدرے لمبائی لیے ہوئے تھے سپیدی کا احساس بڑھ جاتا تھا۔ ان کی آنکھیں بڑی نہیں تھیں لیکن نہایت روشن تھیں جن میں ایک خاص چمک تھی، ان کے چہرے سے رعب عیاں ہوتا تھا لیکن خوف بالکل نہیں معلوم ہوتا تھا۔
نظامی صاحب مجسم علم تو تھے ہی لیکن ان کے سرتاپا عمل ہونے کا عقدہ اس وقت کھلا جب انہوں نے پہلی بار یونیورسٹی میں انتظامی عہدہ سنبھالا اور سرسید ہال میں پرووسٹ ہوکر آئے، ان کے زمانے میں ہال نے بڑی ترقی کی۔ میں اس کا عینی شاہد ہوں کہ وہ ہال کے دفتر میں حساب کا ایک ایک رجسٹر دیکھتے، مددگاروں کو انتظامات کی ایک ایک جزئی باتیں سمجھاتے انہیں راستہ بھی دکھاتے اور ایک ایک کام کی تاکید بھی کرتے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہال کے درد و دیوار سے لے کر اس کے سبزہ زار تک سب سرسبز اور شاداب ہوگئے۔ دراصل ہال کی ہمہ جہت ترقی کا راز ان کی تحلیلی اور تخیلی فکر میں تو تھا ہی، سونے پر سہاگہ ان کا کڑھا ہوا ذوق نفاست تھا جن کی وجہ سے ہال کی ہر شے چمک گئی۔ یہ ہال کا سنہرا زمانہ تھا ان کا خیال تھا کہ اقامتی ہال کے سربراہ کو صرف وقتی مسائل کو نپٹانے اور ہال کا خزانہ معمور کرنے ہی کا خیال نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے اولین ترجیح ہال کی علمی اور زندگی سے معمور فضا اور طلبہ کی ذہنی اور علمی نشوونما پر دینی چاہیے، وہ کہتے کہ بیشتر ذی استعداد اور ہونہار نوجوان مناسب اور معقول رہنمائی نہ ملنے سے مایوسی اور بے زاری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ہال سے طلبہ کا رشتہ استوار کرتے اور بتاتے کہ اس ہال کے تم کسی گوشے میں چلے جاؤ تاریخ تمہیں زندہ حقیقت معلوم ہوگی یہ ہال تاریخی کارناموں اور یادوں سے لبریز ہے، اس ہال کے مکینوں نے ماضی اور حال کے درمیان ایک پل بنا دیا تھا اور اسی ہال کے رہنے والوں نے ایک نئی مشرقیت کی طرح بھی ڈالی تھی وہ اکثر دوران گفتگو نظیری نیشا پوری کا یہ شعر پڑھتے ؂
این کعبہ را بنا نہ ببا طل نہادہ اند
صد معنی و جمال دریں گلِ نہادہ اند
شعر پڑھتے ہوئے ان پر ایک کیفیت طار ی ہوجاتی اور ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی۔ وہ ہال کے طلبہ میں اسکالر پرووسٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔
نظامی صاحب سر سید ہال کے طلبہ میں خاصے مقبول تھے، لڑکے ان کی بات ٹالتے نہیں تھے، ان کا احترام کرتے، اکثر جب نظامی صاحب ہال میں داخل ہوتے اور طلبہ جس جذبۂ اختیار شوق سے ان کا استقبال کرتے وہ مناظر اب تک بھولتے نہیں۔ طلبہ پر ان کے اثرات کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جب ایس۔کے۔بھٹناگر جو غالب کے شاگرد منشی ہرگوپال تفتہ کے خاندان سے تھے اور مشہور سائنسداں شانتی سردپ بھٹناگر کے قریبی عزیزوں میں تھے۔ انہوں نے علی گڑھ کالج کی تاریخ لکھی تھی جس میں سرسید کے حسن خیال اور حسن عمل کے ذکر کے علاوہ علی گڑھ کالج کے قیام اور اس کے یونیورسٹی میں تبدیل ہونے کی تاریخ تھی اس کتاب کا مسودہ عرصہ تک ان کے پاس پڑا رہا اور چھپنے کی کوئی سبیل نہ نکلی۔ رشید احمد صدیقی صاحب سے جب یہ بات پروفیسر خلیق احمد نظامی کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ہال کے طلبہ سے اس کتاب کی اشاعت کے لیے اپیل کی اور ایک ہفتہ کے اندر سرسید ہال کے طلبہ کے مالی تعاون سے اسکی اشاعت کا سامان مہیا ہوگیا۔
۱۶؍ اکتوبر ۱۹۶۸؁ء کی شام تھی جب سرسید ہال کے لان پر جو حد نگاہ تک یونیورسٹی کے فضلاء اور طلبہ سے بھرا ہوا تھا نظامی صاحب کا لکھا ہوا اور ان کی ہدایت میں ایک شیڈو پلے ہال کے طلبہ نے پیش کیا تھا۔ جس میں جدید ہندوستان کے معمار سرسید کی فقیدالمثال تہذیبی خدمات کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ تمثیل بہت مقبول ہوئی بار بار اسے اسٹیج کیا گیا اور بعد میں ’’سرسید ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی۔
اس زمانے میں نظامی صاحب صبح و شام اس فکر میں رہتے کہ کون سے وسائل اختیار کیے جائیں جن سے طلبہ میں سائنٹفک انداز فکر اور مہم جوئی کا جذبہ بیدار ہو، اسی مقصد کے تحت ۱۹۶۹؁ء کے یوم آزادی کے موقع پر سائنٹفک سوسائٹی کی تجدید کی گئی۔ ۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی کی تحریک کی ناکامی کے بعد جب اندھیرا اور گہرا ہوا تو سرسید نے ۱۸۶۴؁ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک چراغ روشن کردیا۔ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کی پہلی تنظیم تھی، اس کے مقاصد اور طریق کار ہماری زندگی کا فتح الباب تھے۔ اسی سوسائٹی کے کاموں کے دوران مجدد قوم نے علی گڑھ تحریک کا خواب دیکھا۔ نظامی صاحب کا خیال تھا کہ سوسائٹی کے پلیٹ فارم پر ہال کے طلبہ آپس میں تبادلہ خیال کریں گے تو فکر و نظر کے نئے نئے سانچے تیار ہوں گے۔
اس زمانے میں ہال میں علمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا سلسلہ قائم ہوگیا تھا۔ آئے دن ملک اور بیرون ملک کی اہم علمی اور تہذیبی شخصیتیں آتی رہتی تھیں، یاد آتا ہے کہ خان عبدالغفار خان بھی آئے تھے۔ وہ تقریر کے فن سے تو بے نیاز تھے لیکن ان کی باتوں کا طلبہ نے بہت اثر لیا تھا۔
نظامی صاحب کے زمانے میں ان کی کوششوں سے ہال میں سرسید میموریل لکچر کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلا سرسید یادگاری لکچر جلیل القدر عالم اور مورخ ڈاکٹر تاراچند نے دیا تھا۔ اس روز اسٹریچی ہال نور سے معمور تھا اور سیاہ شیروانیوں میں ملبوس طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریباً سوا گھنٹے تک ڈاکٹر تاراچند اپنا لکچر دیتے رہے اور باوجود اس کے کہ ہم میں سے بہت سے طالب علم ان کی بصیرت افروز باتوں اور مورخانہ ژرف نگاہی کو نہ سمجھے ہوں گے لیکن مجمع بڑا شائستہ تھا اور اب تک ذہن سے محو نہیں ہوتا۔
اسی زمانے میں سرسید سے ان کے فرزندان معنوی کا ذہنی رابطہ قائم کرنے کے لیے نظامی صاحب کا مرتب کردہ رسالہ ’’سرسید اسپیکس ٹویو‘‘ سرسید ہال کی جانب سے شایع ہوا۔ یہ رسالہ بھی بار بار چھپا۔ جب اسے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے دیکھا تو نظامی صاحب کو لکھا سرسید کے اہم خیالات کو خود انہیں کے الفاظ میں پیش کر کے آپ نے پڑھنے والوں پر احسان کیا ہے۔ میں اسے بار بار دیکھوں گا۔ نظامی صاحب کے ان کاموں سے طلبہ میں علی گڑھ کے تہذیبی نصب العین سے تعلق خاطر شروع ہوا اور اقبال کی یہ شکایت کی ’’مسلمانانِ ایشیا اب تک سرسید کی ذہنی کاوش کو سمجھنے کے قابل نہ ہوسکے ہیں‘‘۔ سرسید ہال کے طلبہ کی سطح پر کچھ کم ہونا شروع ہوئی لیکن بعد میں اس سلسلہ کی سطح وہ نہیں رہی جو نظامی صاحب کے دور میں تھی۔ علی گڑھ سرسید کی رہائش گاہ انیسویں صدی میں غالباً سب سے زیادہ طوفان آزمودہ عمارت تھی یہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا سمبل بن کر ابھری تھی، علامہ شبلیؒ کی ذہنی تربیت بھی اسی کے سائے میں ہوئی تھی، وہ ایک عرصے تک اس عمارت کے ایک حصے میں فروکش رہے تھے۔ اقبال کے استاد آرنلڈ علی گڑھ کالج کے پرنسپل تھیوڈروبک انگریزی کے مشہور صاحب قلم سروالٹرریلے بابائے اردو مولوی عبدالحق، عورتوں کی تعلیم کے سالار کارواں شیخ عبداﷲ کے علاوہ نہ جانے اور کس کس کے لیے یہ عمارت بوسہ گاہ بنی ہوئی تھی لیکن زمانے کی بوقلمونی سے یہ عمارت عرصے تک محکمہ کسٹوڈین کے قبضے میں رہی جس کی وجہ سے اس کے درد دیوار شکستہ ہوگئے اور زاغ و زغن کا مسکن بن گئی۔ نظامی صاحب کو اس کی زبوں حالی کا احساس ہوا اور انہوں نے سرسید ہال کی پردوسٹی کے دوران اس عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کا خواب دیکھا، بالآخر ان کی غیر معمولی جدوجہد کے بعد ۱۹۷۴؁ء میں اتردیش کے گورنر اور علی گڑھ کے اولڈ بوائے نواب اکبر علی خاں نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔ اس عمارت میں سرسید اکیڈمی قائم ہوئی۔ نظامی صاحب اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اس اکیڈمی کے لیے سرسید کے شایان شان ان کے پیش نظر کئی منصوبے تھے۔ انہیں اس کا بڑا ملال تھا کہ اس اکیڈمی کو انہوں نے جہاں چھوڑا تھا اس پر ایک اینٹ کا اضافہ نہ ہوسکا۔
سرسید ہال کے طلبہ سے نظامی صاحب شفقت سے پیش آتے ان کے مطالبات سنتے وہ چاہتے کہ نوجوانوں کی خفتہ صحت مند صلاحیتیں بیدار ہوں اور جب کبھی کوئی ایسی بات دیکھتے جو سرسید ہال کے طلبہ کے شایان شان نہ ہوتیں تو گرم ہوجاتے اور بار بار سرسید کا یہ جملہ دہراتے کہ ’’جدید تعلیم نے ہمارے نوجوانوں کو گھوڑے کے بجائے خچر بنا دیا ہے‘‘۔ جس درد اور برہمی سے یہ جملہ دہراتے آج بھی ذہن میں یہ جملہ گونج رہا ہے۔
نظامی صاحب کی روزمرہ زندگی میں ایک مشین کی سی باقاعدگی تھی، اسی وجہ سے انہوں نے کم و بیش پچاس کتابیں تصنیف و تالیف اور مرتب کیں تقریباً دو سو سے زاید ان کے مضامین ملک اور بیرون ملک کے وقیع جرائد میں شایع ہوئے ہیں۔ وہ سحر کے وقت بیدار ہوجاتے اور اپنے علمی کاموں میں لگ جاتے اور جب صبح کی ٹھنڈی ہوا اپنے آنے کی خبر دیتی تو وہ لمبی سیر کو نکل جاتے۔ تو وہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں والہانہ انہماک سے کام لیتے۔ انہوں نے شعبہ تاریخ کے زمانہ صدارت میں بھی ہمیشہ پہلا پیریڈ لیا۔ علی گڑھ کی پرووائس چانسلری اور وائس چانسلرشپ کے دوران بھی ان کے اس معمول میں فرق نہ آیا۔
نفاست اور لطافت نظامی صاحب کی طبیعت کا لازمی جز تھا۔ ان کا ذاتی کتب خانہ ان کے علمی شوق کے علاوہ ان کے ذوق جمال کا بھی مظہر ہے۔ انہوں نے اپنی لائبریری کو بڑے تکلف سے آراستہ کیا تھا۔ ایس معلوم ہوتا تھا کہ ان کے کتب خانے کی ہر کتاب لباسِ حریر میں ملبوس ہے، اس کے علاوہ خوشنما تاریخی تصویروں، نادر کتابوں، نایاب مخطوطات کا بڑا اچھا ذخیرہ ہے اور پھر ایسے نفیس فانوس اور خوبصورت لیمپ کہ جن پر نگاہ پڑجائے تو ہٹانے کو جی نہ چاہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اگر ان کا کتب خانہ کوئی عامی بھی دیکھ لے تو اس میں پڑھنے لکھنے کا شوق بیدار ہوجائے۔
نظامی صاحب بنیادی طور پر تاریخ کے عالم تھے اور تاریخ کے حوالے سے ان کی نظر مختلف علوم و فنون پر تھی۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ اردو کے علمی سرمائے کو خاصا مالامال کیا ہے۔ وہ شعر و ادب کا بھی کڑھا ہوا ذوق رکھتے تھے۔ اقبال کے مداح تھے کبھی موڈ میں ہوتے تو بہت ڈوب کے ان کے اشعار پڑھتے۔ ان کے کتب خانے میں اقبال پر خاصی کتابیں ہیں جن میں بعض کمیاب ہیں، انہوں نے اقبال کی بعض نادر تحریریں بھی دریافت کی تھیں۔ جن کا علم اردو دنیا کو اب تک نہیں ہے۔ ان سب کو شایع کرنے کا ان کا منصوبہ تھا۔
نظامی صاحب کو اچھے کھانے کا شوق تھا۔ وہ خوش خور تھے مگر پُر خور نہیں تھے۔ اکثر ان کے یہاں دعوتوں کا اہتمام ہوتا جس میں الوان نعمت کی نہایت نفاست اور سلیقے کے ساتھ فراوانی ہوتی۔ انہیں یونیورسٹی کے بہت سے اعلیٰ مناصب ملے، وہ شعبۂ تاریخ کے پروفیسر اور صدر رہے، ڈین اسٹوڈینٹ ویلفیئر رہے، پرووسٹ رہے، پرووائس چانسلر رہے، وائس چانسلر رہے، سرسید اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر رہے، بعد میں شام میں ہندوستان کے سفیر رہے لیکن جہاں بھی رہے شان سے اور آن بان سے رہے۔
سرسید ہال کے قیام کے زمانے ہی سے نظامی صاحب راقم الحروف سے بڑی محبت و شفقت سے پیش آتے۔ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف دیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں ان کا مرتب کردہ سرسید البم بھی ہے جو خاصا گراں ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان کی شفقت کریمانہ کی شاید یہ وجہ رہی ہو کہ ہم دونوں سر سید کی تاریخ آفریں خدمات اور ان کی سیرت اور شخصیت کا بڑا احترام کرتے۔ میں سرسید ہال کا ان کے زمانے میں ایک جونیر طالب علم تھا۔ سینیر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے مجھے اپنی انگریزی کتاب ’’سید احمد خاں‘‘ اردو میں منتقل کرنے کے لیے دی اور انہیں کی ایما سے اس کتاب کو حکومت ہند نے شایع کیا۔ اس اردو کتاب کے کئی کئی ہزار کے کئی ایڈیشن نکلے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب نے میری زندگی کا رخ متعین کردیا۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی برصغیر کے سر آمد مورخین میں ہیں۔ ان کے علمی کاموں کی وجہ سے علمی دنیا میں علی گڑھ یونیورسٹی کا نام روشن ہوا۔ ان کے علمی اور تاریخی کارناموں پر تنقید اور تبصرہ کا یہ موقع نہیں ہے لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ انہوں نے ہندوستان کے دور وسطیٰ کی تاریخ کو کھنگالا اور مختلف واقعات اور کوائف سے اس دور کے مزاج اور انداز فکر کو اس طرح مصفا کیا کہ وہ موجودہ دور کے آئینے میں دکھائی دینے لگا۔ دورِ وسطیٰ کی تاریخ کے سلسلے میں انہوں نے خاصا دقیع سرمایہ چھوڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی تحریریں سرمہ اہل نظر بنی ہوئی ہیں۔
علی گڑھ میں نظامی صاحب کا وسیع و عریض دولت خانہ میرے غریب خانے سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے اس لیے اکثر ایسا ہوتا کہ جمعہ کی نماز کے بعد ہم دونوں مسجد سے ساتھ نکلتے اور باتیں کرتے راقم ان کے دولت سرا کے دروازے تک جاتا۔ ۵ دسمبر جمعہ کا دن تھا میری ملاقات مسجد میں ان سے حسب معمول ہوئی میں ان کے ساتھ ان کے آستانے تک گیا، قدرت نے ان کو توانائی کا جو خزانہ ودیعت کیا تھا وہ اس روز بھی موجود تھا، وہی بلند آہنگی، رفتار میں سرعتِ زندگی سے لبریز باتیں کچھ دیر ان کے دروازے پر ہم باتیں کرتے رہے، میں نے ان سے مصافحہ کیا اور رخصت ہوا۔ شام کو معلوم ہوا کہ یکایک قلب کی حرکت بند ہوجانے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ یقین نہیں آیا۔ پھر تیس سال کی ملاقاتوں کی تصویر یکے بعد دیگرے آنے لگیں۔
۶؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء کی شام کو جب سورج لحظہ بہ لحظہ اوٹ میں چھپ رہا تھا اور ماتمی جلوس نظامی صاحب کے جسدخاکی کو آخری آرام گاہ کی طرف لے جارہا تھا ہزارہا آدمیوں کی دعاؤں کے ساتھ یونیورسٹی کے قبرستان میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا اور اسی کے ساتھ سرسید کا ایک شیدائی علی گڑھ کی علمی زندگی کی آبرو اور ہندوستان کے دور وسطیٰ کی تاریخ کا آفتاب بھی غروب ہوگیا کل ۱۲؍ دسمبر اور جمعہ کا روز تھا، میری آنکھیں انہیں مسجد کی صفوں میں تلاش کرتی رہیں:
پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباً زیر زمیں میرؔ ہے آرام بہت
( جنوری ۱۹۹۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...