Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عثمان احمد قاسمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عثمان احمد قاسمی
ARI Id

1676046599977_54338375

Access

Open/Free Access

Pages

586

آہ ! مولانا عثمان احمد قاسمی چل بسے
۴؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ کو راقم الحروف کے ایک کرم فرما اور دارالمصنفین کے ہمدرد مولانا عثمان احمد قاسمی اﷲ کو پیارے ہوگئے، اس کی اطلاع موصوف کے حقیقی بھانجے ڈاکٹر محمد اسامہ کے ایک خط سے ہوئی جو انتقال کے دو ہفتے بعد ملا، یہ خبر سخت تکلیف دہ تھی اور جنازہ کی شرکت سے محرومی کا تو ہمیشہ ملال رہے گا۔
شاہ گنج اور جونپور کے وسط میں پختہ سڑک کے قریب ہی غوری النسل لوگوں کی مشہور بستی پسری ان کا آبائی وطن تھا۔ ان کے جدامجد حضرت سلطان شاہ، ٹانڈہ کے مشہور صاحبِ دل بزرگ حضرت چاند شاہ کے اجل خلفاء میں تھے جو نقشبندی سلسلے سے منسلک تھے اور فیض آباد ہی نہیں اعظم گڑھ، جونپور اور سلطانپور وغیرہ کے لوگوں کو بھی ان سے بڑا فیض پہنچا۔
پسری کا یہ خاندان علمی، دینی اور دنیاوی لحاظ سے فائق تھا۔ مولانا عثمان احمد قاسمی کے جدبزرگوار کے حسبِ ذیل تین صاحبزادے تھے، مولانا عبدلغفور صاحب، مولانا دین محمد صاحب، مولانا شاہ سعید احمد صاحب، موخرالذکر کے پانچوں بیٹے دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، ان میں بڑے مولانا جمیل احمد فخرِ خاندان تھے اور سب سے چھوٹے یہی مولانا عثمان احمد تھے، مولانا دین محمد صاحب بھی عالم، اچھے استاد اور نہایت باغ و بہار شخص تھے، یہ مولانا ابوالعرفان ندوی سابق مہتمم دارالعلوم ندوۃالعلماء کے پدر بزرگوار تھے، علم و دین کی اشاعت ان کی زندگی کا خاص مشغلہ تھا، جونپور کی اٹالہ مسجد کا مدرسہ ان کے اہتمام کے زمانے میں بڑی رونق پر تھا۔
مولانا دین محمد صاحب کی جدوجہد سے شاہ گنج کی جامع مسجد میں بھی ایک دینی مدرسہ بدرالاسلام کے نام سے قائم ہوا، جس کے وہی سارے انتظامات اور تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے مگر جب ان کے برادر زادہ اور خویش مولانا جمیل احمد صاحب دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے تو مدرسہ کا اہتمام تعلیمی نگرانی اور جامع مسجد کی امامت ان کے سپرد ہوگئی، اور مولانا دین محمد صاحب مدرسہ کے مالی استحکام کی طرف متوجہ ہوگئے، مولانا جمیل احمد نے اس علاقہ میں بڑی عزت، شہرت اور نیک نامی حاصل کی۔ ان کے اخلاص، عزم، استقلال، جوش عمل اور حسنِ تدبر کی وجہ سے مدرسہ کو بڑی ترقی ہوئی، ابھی تک مسجد ہی تعلیم گاہ کا کام دیتی تھی، انہوں نے اس کی شاندار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی اور متوسطات تک اسباق کا سلسلہ جاری کیا۔ ہر سال کئی کئی طالب علم دورۂ حدیث اور تکمیل کے لیے دارالعلوم دیوبند جانے لگے۔
مولانا عثمان احمد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، پھر اسی مدرسہ میں داخل ہو کر اپنے برادر بزرگ مولانا جمیل احمد صاحب کی خاص نگرانی میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے اور ۱۹۵۳؁ء میں تکمیل کے لیے دارالعلوم دیو بند تشریف لے گئے اور مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے مشہور اساتذہ سے کسب فیض کیا، مولانا جمیل احمد صاحب بھی حضرت مدنیؒ کے ارشد تلامذہ میں تھے اور ان سے بیعت بھی تھے، اس پورے خاندان کو ان سے بڑا انس اور خاص تعلق تھا۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد مولانا عثمان احمد اپنے مربی اور سرپرست بھائی کی رہنمائی میں مدرسہ بدرالاسلام میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے۔
۱۹۶۳؁ء میں مولانا جمیل احمد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے اور مولانا عثمان کے بڑے بھائی مولانا احمد کو ان کی جان نشینی کا شرف حاصل ہوا تو مولانا عثمان ان کے خاص دست و بازو بنے اور جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو مدرسہ کی ساری ذمہ داریاں مولانا عثمان کے کاندھوں پر آگئیں، انہوں نے اپنی ہمت، جانفشانی اور تدبر سے مدرسہ کو بڑی خوش اسلوبی سے چلایا اور اس کے رکھ رکھاؤ میں کسی طرح کا فرق نہیں آنے دیا۔ انہوں نے مدرسہ کو ترقی و استحکام بھی بخشا اور فیض جمیل لائبریری کی تاسیس بھی کی، بازار میں علمی کتاب گھر قائم کیا تا کہ لوگوں کو سستے دام پر کتابیں فراہم کرسکیں۔
مولانا جمیل احمد صاحب کے زمانے ہی سے مدرسہ میں علماء و مشائخ کی آمد و رفت برابر رہتی تھی، دارالعلوم دیوبند اور جمعیتہ علمائے ہند کے اکثر اکابر یہاں تشریف لاتے رہے ہیں اور جن لوگوں کو آنے کا موقع نہ رہتا اور مولانا کو اطلاع ہوجاتی تو وہ خود اپنے اساتذہ و طلبہ کو لے کر اسٹیشن پہنچ جاتے اور ملاقات کرتے، مولانا عثمان صاحب نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا، اس طرح مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا قاری طیب، مولانا حفظ الرحمن، مولانا سید محمد میاں، مولانا اسعد مدنی وغیرہ سب یہاں تشریف لاچکے ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ بھی دارالمصنفین تشریف لاتے تو کچھ دیر مدرسہ میں قیام فرماتے اور اب کئی برس سے پیرانہ سالی کی بنا پر یہاں استراحت فرمانا ان کا معمول ہوگیا ہے، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی بھی اپنے وطن ردولی اور لکھنؤ وغیرہ جاتے آتے مدرسہ میں قیام کر کے بڑا سکون محسوس کرتے، خود اس ناچیز کو بھی اس کا اتفاق کئی بار ہوا ہے۔
اخلاص، استغنا، سیرچشمی، مخلصانہ اور بے غرض خدمت اس خاندان کی نمایاں خصوصیت تھی، مولانا عثمان احمد میں بھی یہ خوبیاں بدرجہ تم پائی جاتی تھیں، بڑے مزاج شناس تھے، سب کے ساتھ حسبِ حال اچھا برتاؤ کرتے، فرق مراتب اور دوسروں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھتے تھے، ان کے سب بھائیوں میں باہم جو خلوص، یگانگت، شیفتگی اور سچی محبت تھی اس کے نمونے اب بالکل دیکھنے کو نہیں ملتے۔
شعر و سخن سے دلچسپی اور اس کا ستھرا ذوق بھی اس خاندان کا امتیاز تھا، مولانا جمیل احمد صاحب کے بعد مولانا عثمان احمد میں یہ وصف زیادہ بڑھا ہوا تھا، انہوں نے بڑی موزوں طبیعت پائی تھی، مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ بات بات میں ارتجالاً بہت برمحل اور موقع کے مناسب شعر کہتے تھے، اساتذہ کے بکثرت اشعار یاد تھے اور دور جدید کے شعراء کا کلام بھی ان کی نظر سے گزرتا رہتا تھا، اپنی مجلسوں کو قدیم و جدید شعراء کا کلام سنا کر زعفران زار بنادیتے تھے۔ میں بھی ایک دفعہ رات کے کھانے میں شریک تھا کھانے کے درمیان اور اس کے بعد دیر تک شعر و شاعری کا سلسلہ چلتا رہا، وہ اشعار سنانے کے ساتھ ہی ان کا پس منظر بھی بیان کرتے جاتے تھے، جنگ عظیم کے زمانے میں اتحادیوں کی پسپائی سے خیال ہونے لگا تھا کہ ہندوستان بھی اب تب زد میں آجائے گا، اسی موقع کا کہا ہوا نذیر بنارسی کا یہ شعر سُنایا ؂
برق گرے گراکرے، چمن جلے چلا کرے
جس کا چمن میں کچھ نہ ہو فکر چمن وہ کیا کرے
اردو نثر لکھنے کا اچھا سلیقہ تھا، اپنے برادر اکبر کے حالات و کمالات پر ’’ذکر جمیل‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔ ان کا مجموعہ کلام ’’فکر جمیل‘‘ کے نام سے شایع کیا، مدرسہ بدرالاسلام کی تاریخ لکھی، گو ان کا سارا وقت درس و تدریس اور مدرسہ کے انصرام میں صرف ہوتا تھا، تاہم لکھنے پڑھنے کا ذوق فطری تھا، چھوٹی بڑی ایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں جن میں بعض مکاتب کے نصاب میں داخل ہیں۔
دارالمصنفین سے والہانہ تعلق تھا، معارف کے بڑے قدرداں تھے، اس کا مطالعہ پابندی سے کرتے، شاہ معین الدین احمد صاحب سے عقیدت مندانہ تعلق تھا، شاہ صاحب بھی ان سے بڑے لطف و شفقت کا معاملہ فرماتے تھے، اس عاجز سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ اب عرصہ سے بیماری کی وجہ سے کہیں آنا جانا موقوف ہوگیا تھا تو اپنے عزیز شاگرد عبدالمعبود نادان بستوی کو برابر بھیج کر تعلق و محبت کا اظہار فرماتے رہتے تھے۔ دو برس قبل ان پر شدید قلبی دورہ پڑا مجھے معلوم ہوا تو عیادت کے لیے حاضر ہوا، اس وقت جس تپاک اور گرم جوشی سے ملے تھے اس کی یاد ابھی تک قائم ہے، میں نے اپنی بچی کے عقد میں بلایا تو بیماری کی وجہ سے خود نہیں تشریف لاسکے مگر اپنے ایک صاحبزادے کو بچی کے لیے مترجم قرآن مجید دے کر بھیجا۔
وہ تو چلے گئے مگر لطف و محبت کی بے شمار یادیں چھوڑ گئے، اب عمر بھر یہی کہتے رہنا ہے:
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
پس ماندگان میں اہلیہ تین صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ہیں، اﷲ تعالیٰ ان سب کا غم زائل کرے اور مولانا کو ان کی نیکیوں اور خوبیوں کے سبب جنت الفردوس عطا کرے، آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...