1676046599977_54338377
Open/Free Access
588
پروفیسر حبیب الحق ندوی
فروری کا معارف چھپ چکا تھا کہ پروفیسر حبیب الحق ندوی کے انتقال کی اندوہ ناک خبر ملی۔ وہ باڑھ (پٹنہ) کے سادات کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں میری طالب علمی کے زمانے میں ان کے دوچھوٹے بھائی بھی تعلیم حاصل کررہے تھے جن سے ملنے کبھی کبھی حبیب الحق صاحب بھی آجاتے تھے، وہ خود بھی یہاں زیر تعلیم رہ چکے تھے، پھر پاکستان چلے گئے اور عرصہ سے جنوبی افریقہ کی ڈربن یونیورسٹی سے وابستہ تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ سے بیعت تھے، ان سے ملنے لکھنؤ آتے رہتے تھے، اسی سلسلے میں ایک دفعہ بے سان و گمان دارالمصنفین بھی پہنچے، لکھنؤ سے اعظم گڑھ کا یہ سفر بڑا مشقت طلب رہا مگر دارالمصنفین کو دیکھتے ہی ان کی ساری کلفت دور ہوگئی، سرائمیر جانے کی خواہش کی جہاں کی سادگی اور اپنے زمانہ کے استاذوں کے ایثار و قناعت کے بڑے مداح تھے۔ ایک اور دفعہ ندوۃ العلماء میں روس کی آزاد مسلم ریاستوں کے بارے میں میں نے ان کا پُراز معلومات خطبہ سُنا تو انہیں اعظم گڑھ آنے کی دعوت دی یہاں بھی ان کی تقریر بہت پسند کی گئی جس سے ان کے علم و مطالعہ کی وسعت، حالاتِ حاضرہ سے باخبری اور ملی درد کا اندازہ ہوتا ہے۔ دارالمصنفین سے ان کو قلبی لگاؤ تھا، معارف پابندی سے پڑھتے، اس میں ان کے مضامین اور خطوط بھی شایع ہوتے تھے، اپنا سہ ماہی انگریزی رسالہ اور تمام کتابیں یہاں بھیجتے، ادھر عرصہ سے ان کا حال معلوم نہیں ہوا تھا، دفعتہ ان کے ارتحال کی خبر آگئی۔ اﷲ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور متعلقین کو صبر و شکیب بخشے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۹۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |