Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شہاب الدین دسنوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شہاب الدین دسنوی
ARI Id

1676046599977_54338381

Access

Open/Free Access

Pages

589

آہ! سید شہاب الدین دسنوی!
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی میں اس کے معتمد جناب سید شہاب الدین دسنوی کی وفات کی خبر نہایت رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی۔ ۱۰؍ اپریل کو ان کے صاحبزادے جناب امتیاز دسنوی کا یہ تار آیا کہ ’’میرے ابا جان ۳۰؍ مارچ کو انتقال فرماگئے‘‘۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ اس کی مزید تصدیق اور تعزیت کے لیے اسی روز ان کے گھر فون کیا گیا۔ اپریل کا معارف عیدالاضحی کی وجہ سے پہلے ہی لکھا اور مرتب کیا جاچکا تھا۔ اس لیے اس میں اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع دینے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔
وہ ۶؍ جولائی ۱۹۱۳؁ء کو بہار کے مردم خیز گاؤں دسنہ میں پیدا ہوئے، شرفا و سادات کی یہی بستی علامہ شبلیؒ کے بے تکلف دوست شاہ تجمل حسین، ان کے خاص عقیدت مند مولوی عبدالحکیم اور شاگرد رشید مولانا سید سلیمان ندوی کا بھی وطن تھی اور دارالمصنفین کے وابستگان میں مولوی سیدابوظفر ندوی، پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن بھی اسی سرزمین کے لعل و گہر تھے۔
سید شہاب الدین دسنوی صاحب کی ابتدائی تعلیم دسنہ کے مدرسہ الاصلاح میں ہوئی، مونگیر سے میٹرک کیا۔ وہاں ان کے والد بزرگوار جناب سید ارادت حسین صاحب سرکاری ملازم تھے، بہار نیشنل کالج پٹنہ سے انٹرمیڈیٹ اور سینٹ زیوئرس کالج کلکتہ سے بی۔ایس۔سی کیا، اس وقت ان کے ماموں سید نجیب اشرف صاحب اسمٰعیل کالج بمبئی میں اردو کے لکچرر تھے، ان کے ایک صاحبزادے کو ٹائیفائڈ ہوگیا تو انہوں نے ان کی تیمارداری کے لیے تار دے کر اپنے بھانجے کو بمبئی بلایا، یہ بمبئی گئے تو پھر وہیں کے ہورہے اور اپنا علم و ہنر اور لیاقت و قابلیت سب اسے نثار کردیا، پہلے انجمن اسلام ہائی اسکول میں ٹیچر پھر اس کے پرنسپل ہوئے اور آٹھ نو برس بعد صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل ہوگئے اور عرصہ دراز تک انجمن کے اعزازی جنرل سکریٹری رہے، صابو صدیق کی ازسرنو تنظیم کرکے اسے زیادہ مفید اور موثر بنانے کی جدوجہد کرتے رہے، ان کے زیر اہتمام ۱۹۶۱؁ء میں اس کی سلور جبلی دھوم دھام سے منائی گئی۔ غرض ان کی محنت، کارگزاری، خوش انتظامی اور سلیقہ مندی نے ان اداروں کو بڑا متحرک اور انہیں بہت نیک نام بنادیا تھا۔ ۱۹۶۱؁ء میں حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے منتخب اساتذہ کو نیشنل ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیاتو مہاراشٹر کی فہرست میں مسلمانوں میں تنہا ان کا نام تھا۔ اس کے ۵۰۰ روپے انہوں نے انجمن ہی کو نذر کردیئے تھے، کیونکہ اسی کی بدولت یہ اعزاز ملا تھا، ۱۹۸۶؁ء میں انجمن کی صدسالہ تقریب کے موقع پر اس کی تاریخ لکھنے کا کام انہیں سپرد ہوا، جس کے وہ بڑے واقف کار تھے۔
ان میں بڑی قوت عمل تھی اور وہ اچھی تنظیمی صلاحیت کے مالک تھے، پروگرام اور منصوبوں کی تشکیل، جلسوں کے ایجنڈے، نظام الاوقات کی ترتیب اور اداروں کے بجٹ بنانے وغیرہ کے ماہر تھے، ان کا یہ جوہر طالب علمی ہی کے زمانے سے کھلنے لگا تھا۔ پٹنہ بی۔این کالج میں ’’بزم اردو‘‘ قائم کی اور ایک اچھا اور بڑا مشاعرہ کرایا، اسی زمانے سے تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سینٹ زیوئرس کالج کلکتہ میں اردو لٹریری سوسائٹی قائم کی جس کے ماتحت تحریری و تقریری مقابلے کراتے، کلکتہ میں مسلمانوں کے ادبی و ثقافتی مرکز مسلم انسٹی ٹیوٹ کے اورینٹل سیکشن کے ناظم ہوئے اور اس کے جلسہ میلاد میں مولانا ابوالکلام آزاد کو تقریر کے لیے مدعو کیا۔ ان کی باقاعدہ عملی زندگی اور سرگرمیوں کا آغاز بمبئی میں ہوا، یہاں کی اکثر ادبی و ثقافتی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اکثر ادبی، تعلیمی اور ثقافتی کمیٹیوں کے رکن بھی تھے اور اپنی تنظیمی اور منصوبہ سازی کی صلاحیت کی وجہ سے نیم مردہ اداروں اور تحریکوں میں جان ڈال دیتے تھے، تعلیم بالغان کی غیرسرکاری کمیٹی کے وہ ۱۹۵۳؁ء میں ممبر ہوئے تو مدرسین کے سامنے بالغوں کی نفسیات اور طریقہ تعلیم پر لکچر دینے اور وقتاً فوقتاً کلاسوں کا معائنہ کرنے کا کام ان کو سپرد ہوا، اس کے لیے اردو کا قاعدہ لکھا، ایک پندرہ روزہ اخبار ’’رہبر‘‘ بھی اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے جاری ہوا، جس کی عملاً ادارت انہوں نے اپنے رفیق کار عبدالرزاق قریشی مرحوم کے تعاون سے انجام دی۔ ۵۹؁ء میں ریاستی حکومت نے ٹکنکل اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کے گریڈ اور ان کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے وہ چیرمین تھے، آزادی کے بعد جمعیۃ علمائے ہند کے زیر اہتمام مولانا حفظ الرحمن صاحب نے بمبئی میں آل انڈیا تعلیمی کنونشن کرایا تو اس میں بھی پیش پیش رہے، جمعیۃ کے کل ہند اجلاس سورت میں بھی شریک ہوئے اور مفید تجویزیں پیش کیں، بمبئی کی انتخابی اورسیاسی سرگرمیوں سے بھی سروکار رکھتے، انجمن کے عہدہ دار ہونے کے وجہ سے کسی خاص پارٹی سے وابستہ ہونا ان کے لیے ممکن نہیں تھا تاہم اچھے اور مناسب امیدواروں کی انتخابی مہم کی ساری ذمہ داری اپنے سرلے لیتے تھے۔ ایک بار وہ خود بھی بمبئی میونسپل کارپوریشن کے ایک ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے اور کامیاب ہوئے، دوبارہ پھر انتخابی دنگل میں کودے اور پورے پانچ برسوں کے لیے ممبر منتخب ہوئے، اس عرصہ میں کارپوریشن کی تعلیمی کمیٹی اور ریسرچ یونٹ کے ممبر کی حیثیت سے مفید خدمات انجام دیں۔
ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ ان کے کانوں میں دارالمصنفین کا نام گونجنے لگا تھا، مولانا سید سلیمان ندوی ناظم دارالمصنفین اور ان کے ماموں سید نجیب اشرف ندوی کے علاوہ ان کے ہم وطن، مولانا سید ابوظفر ندوی اور سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب اس سے وابستہ تھے، سید صاحب کے خواجہ تاشوں میں مولانا عبدالسلام ندوی اور مولوی مسعود علی ندوی بھی خاص موقعوں پر دسنہ جایا کرتے تھے اس لیے دارالمصنفین سے ان کو بڑا تعلیمی لگاؤ تھا اور کبھی کبھی یہاں تشریف بھی لاتے تھے، بعد میں وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے بڑے سرگرم ممبر بھی ہوگئے، ان کی اور بعض دوسرے قدردانوں کی دعوت پر سید صاحب نے بمبئی میں ’’عربوں کی جہاز رانی‘‘ پر لکچر دیا۔ ۱۹۶۵؁ء میں دارالمصنفین کی گولڈن جوبلی منائی گئی، اس کے اخراجات کی فراہمی کے لیے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی اور سید صباح الدین عبدالرحمن صاحبان نے بمبئی کا سفر کیا تو انہوں نے اور خصوصاً منشی عبدالعزیز انصاری رکن دارالمصنفین نے اس وفد کی بڑی پذیرائی کی۔ ۷۲؁ء میں دارالمصنفین کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے اس کا جلسہ انتظامیہ بمبئی میں ہوا، اس موقع پر بھی ان کی اور منشی جی مرحوم کی کوششوں سے متعدد حضرات دارالمصنفین کے لائف ممبربنے، شہاب صاحب انجمن سے سبکدوش ہوئے تو صباح الدین صاحب نے چاہا کہ وہ دارالمصنفین کے انتظامی امور کو سنبھال لیں، ان کی زندگی میں تو وہ اس کے لیے اپنے کو فارغ نہیں کرسکے مگر ان کی وفات کے بعد ۸۷؁ء میں وہ اس کے انتظامی امور کے معتمد مقرر ہوئے تو چندے دن یہاں قیام کیا مگر جلد ہی اپنی پیرانہ سالی اور خانگی ضرورتوں کی وجہ سے جناب عبدالمنان ہلالی کو اپنا قائم مقام بناکر پٹنہ چلے گئے، ادھر کئی برس سے ان کی معذوری اتنی بڑھ گئی تھی کہ سفر کرنا ممکن نہ تھا، اس لیے دارالمصنفین کے جلسوں میں شریک ہونا اور اعظم گڑھ آنا جانا موقوف ہوگیا تھا۔ تاہم خط و کتابت اور فون سے ہم لوگوں کا رابطہ قائم رہتا اور ہم ان کے تجربوں، مشوروں اور ہدایات سے فائدہ اٹھاتے، ان کی موجودگی بڑی تقویت کا باعث اور سہارا تھی، افسوس اب یہ سہارا بھی ختم ہوگیا۔
ان کی دلچسپی اور سرگرمی کا ایک میدان انجمن ترقی اردو بھی تھا، اس کی وجہ سے وہ پوری اردو دنیا میں روشناس تھے، ان کی اور بعض دوسرے مخلصین کی کوشش سے ۱۹۴۴؁ء میں انجمن کی شاخ بمبئی میں قائم ہوئی جس کے وہ جنرل سکریٹری چنے گئے، انہوں نے انجمن کو سرگرم بنانے کے لیے اردو کانفرنس اور آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد کرایا، ۱۹۵۱؁ء میں انجمن ترقی اردو ہند کا دفتر علی گڑھ میں تھا اور قاضی عبدالغفار مرحوم اس کے سکریٹری تھے، اسی زمانے میں ان کا اس سے تعلق ہوا، وہ اس کے حیاتی رکن اور متعدد ذیلی کمیٹیوں کے ممبر تھے۔ انجمن کے موجودہ جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم کے وہ خاص دست راست تھے۔ مالیاتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے وہی انجمن کا سالانہ بجٹ بناکر مجلس عام میں پیش کرتے، ۱۹۸۳؁ء میں وہ اس کے نائب صدر ہوئے، انجمن سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ اس کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے اور کبھی ناغہ نہیں کرتے۔
انہوں نے کئی بیرونی ملکوں کی سیاحت بھی کی، کہیں لکچر دینے اور کہیں مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو کیے گئے، ۱۹۵۲؁ء میں امریکا کا تعلیمی سفر کیا، واشنگٹن جاتے ہوئے طہران، قاہرہ، ایتھنس، روم، سوئزرلینڈ، پیرس، لندن اور نیویارک کی بھی سیاحت کی۔ ۷۹؁ء میں آسٹریلیا گئے اور میلبورن میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر کچھ لکچر دیئے، اسی ضمن میں میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات و عربی میں بھی اسلام پر لکچر دیا۔ ۸۵؁ء میں ترکی کا سفر کیا اور استنبول کے ایک سمینار میں مقالہ لکھا، اپنے بعض اعزہ، اکلوتی بہن اور بیٹی سے ملنے پاکستان گئے، ۱۹۷۰؁ء میں حج و زیارت کے لیے حرمین شریفین میں حاضری دی۔
بمبئی کو خیرباد کہہ کر دسنوی صاحب مستقل رہائش کے لیے پٹنہ آئے تو یہاں کی تعلیمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا لازمی جز ہوگئے، میں خدا بخش لائبریری پٹنہ کے سیمیناروں میں جاتا تو وہاں ان سے ضرور ملاقات ہوتی، بہار اردو اکاڈمی کے وائس چیرمین ہوئے تو دسمبر ۸۴؁ء میں فخر بہار علامہ سید سلیمان ندوی پر ایک اچھا اور باوقار سیمینار کرایا، بعض دوسرے ادیبوں اور شاعروں پر بھی سیمینار کرائے، اس سے کچھ پہلے انہوں نے حکیم عبدالحمید صاحب متولی ہمدرد دواخانہ کی خواہش پر ہمدرد کے ایڈمنسٹریر کی ذمہ داری قبول کرکے اس کی خدمت کی۔
دسنوی صاحب کا زیادہ وقت علمی و تعلیمی کاموں کی نگرانی اور تعلیم گاہوں اور اداروں کے انتظام و انصرام میں گزرا، اس لیے انہیں تصنیف و تالیف کا موقع کم ملا لیکن علم و مطالعہ سے شغف اور تقریر و تحریر کا اچھا سلیقہ تھا، وقتاً فوقتاً اردو اور انگریزی اخباروں میں مضامین لکھتے، درس و تدریس کے پیشہ سے وابستگی کی وجہ سے انہوں نے چند درسی کتابیں لکھیں، جن میں ’’بچوں کا قاعدہ‘‘ اور ’’ہمارا دین‘‘ بہت مقبول ہیں، یہ کتابیں بڑی محنت اور دماغ سوزی سے لکھی گئی ہیں۔ اول الذکر مہاراشٹر کے پرائمری اسکولوں میں داخل نصاب تھی اور موخرالذکر کو ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی نے شائع کیا اور مراٹھی اور گجراتی میں اس کے ترجمے ہوئے۔ کانجی دوارکاداس نے ہندوستان کی جنگ آزادی پر انگریزی میں دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی تھی، دسنوی صاحب نے اس کے ان حصوں کو بہت مربوط طریقے سے یکجا کرکے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ جو محمد علی جناح سے متعلق تھے، ’’کیمیا کی کہانی‘‘ اور ’’آئن اسٹائن کی کہانی‘‘ معلومات افزا اور عام فہم کتابیں ہیں۔ ’’شبلی معاندانہ تنقید کی روشنی میں‘‘ لکھ کر انھوں نے شبلوی ہونے کا حق ادا کیا ہے، انجمن کے سو سال، سیرت لکچر (انگریزی) کے علاوہ ’’دیدہ وشنیدہ‘‘ کے نام سے اپنے خود نوشت حالات لکھے ہیں جو دلچسپ اور سبق آموز ہیں، ان کے چھ افسانوں کا مجموعہ ’’پہلو بہ پہلو‘‘ بھی چھپا ہے، ان میں سے اکثر کتابوں پر ایوارڈ بھی مل چکا ہے، وہ بڑی سلیس، شگفتہ اور حشو و زوائد سے پاک اردو لکھتے تھے۔
شہاب الدین صاحب ایک باغ و بہار اور مرنجان مرنج شخص تھے، شکل و صورت بڑی پاکیزہ تھی، نکلتاقد، گورا رنگ، پہلی ہی نظر میں آدمی ان سے متاثر ہوجاتا، گفتگو بہت میٹھے بہت نرم اوردھیمے لہجے میں کرتے اور اس میں بڑی تاثیر اور جاذبیت ہوتی، تحریر و تقریر دونوں میں اپنا مدعا بڑی خوبصورتی اور سلیقہ سے پیش کرتے، جلسوں اور میٹنگوں میں اپنے خیالات نپے تلے انداز میں مناسب طور سے رکھتے، انہیں دوسروں کو متاثر کرنے اور اپنی باتیں منوا لینے کا خاص ملکہ تھا، وہ بااصول آدمی تھے، اس معاملہ میں رورعایت نہ کرتے، اس کی اور ذمہ دار عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے ان کے بعض ماتحتوں کو ان سے شکایت رہتی تھی، ان کی نشست و برخواست ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ رہتی تھی۔ مذہبی لوگوں کی طرح ادیبوں، شاعروں اور ترقی پسندوں سے بھی گھلے ملے رہتے تھے، چنانچہ مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم لکھتے ہیں، ’’یہ شہاب صاحب آدمی بڑے کار گزار ہیں اور ہر طبقہ میں صاحب رسوخ ادھر آرٹ نوازوں میں شامل، ادھر ہم دقیانوسی سے واصل۔ باما شراب خودوبہ زابد نماز کرد کو اپنا دستور العمل بنائے‘‘، بعض خشک اور متقشف لوگوں کو ان کی یہ رعنائی خیال پسند نہیں تھی اور وہ ان پر نکتہ چینی کرتے تھے، ان کا مذہبی مطالعہ وسیع تھا، دینی لٹریچر اور قرآن مجید کے اردو اور انگریزی ترجمے ہمیشہ ان کے مطالعہ میں رہتے تھے، اکثر ان مسائل پر سوالات اور گفتگو بھی کرتے تھے، صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند تھے، حج بیت اﷲ کی سعادت بھی میسر آئی تھی، مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے بڑے مداح تھے، مولانا حفظ الرحمن صاحب سے بھی قربت تھی اور مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے بڑے غالی معتقد تھے، ان میں بڑا ضبط و تحمل بھی تھا۔ اپنے اوپر تنقید کو برداشت کرلیتے، کوئی سخت سست کہتا تب بھی غضب ناک اور مشتعل نہ ہوتے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور بشری لغزشوں سے درگزر کرے، آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، مئی ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...