Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا شاہ عون احمد قادری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا شاہ عون احمد قادری
ARI Id

1676046599977_54338382

Access

Open/Free Access

Pages

591

مولانا شاہ عون احمد قادری
مولانا شاہ عون احمد قادری کی وفات کی خبر تاخیر سے ملی، ان کا تعلق پھلواری کے ایک مشہور علمی و دینی خانوادے سے تھا۔ ہندوستان کے جو مراکز اور خانقاہیں ہدایت و ارشاد اور سلوک و عرفان کے ساتھ ہی علم و فضل میں بھی شہرت و امتیاز رکھتی ہیں، ان میں ایک خانقاہ مجیبیہ بھی ہے، جس کے مولانا شاہ عون احمد ایک بزرگ اور باوقار حامل شریعت و طریقت اور ممتاز عالم و فقیہ تھے، وہ جہاں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کا فریضہ انجام دیتے تھے اور اس کے لیے ملک و بیرون ملک کے سفر بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے مریدین اور معتقدین کا وسیع حلقہ تھا، وہاں مسلم تنظیموں اور مسلم اداروں سے بھی وابستہ رہتے تھے اور مسلمانانِ ہند کی مشترکہ ملی و اجتماعی جدوجہد میں بھی حصہ لیتے تھے۔
جمعیۃ علمائے ہند سے برابر ان کا تعلق رہا، عرصہ تک وہ جمعیۃ علمائے بہار کے صدر اور مرکزی جمعیۃ علماء کے نائب صدر رہے، مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تھے، فقہ وافتا میں امتیاز کی وجہ سے امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے قاضی رہے اور برسوں قضا کی خدمت انجام دی، کئی مقامی علمی و تعلیمی اداروں کے علاوہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بھی رکن تھے۔
شاہ صاحب نے اجمیر کے مدرسہ معینیہ میں تعلیم کی تکمیل کی، اس سے پہلے فرنگی محل لکھنو میں بھی تحصیل علم کرچکے تھے، ان کے اساتذہ میں معقولات و درسیات کے مشہور فاضل مولانا حکیم محمد شریف مصطفےٰ آبادی، اعظم گڑھی بھی تھے جو ان کے جدامجد مولانا شاہ بدرالدین کے مرید خاص تھے، مولانا عون احمد صاحب کو اپنے عم بزرگوار مولانا شاہ محی الدین قادری امیر شریعت ثانی صوبہ بہار و اڑیسہ سے بیعت و خلافت ملی تھی۔
مولانا عون احمد کو قوت بیان کی طرح قوت تحریر بھی عطا ہوئی تھی۔ جب خانقاہ مجیبیہ کا رسالہ ’’المجیب‘‘ شائع ہوتا تھا تو اس میں ان کے دینی و اصلاحی مضامین اور تحریریں بھی چھپتی تھیں، اپنے مرشد و مربی مولانا شاہ محی الدین قادری کے سوانح ’’محی الملت والدین‘‘ کے نام سے لکھے تھے، ایک اور کتاب ’’نعمت کبریٰ‘‘ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات دائمی کو ثابت کیا ہے، شعر و شاعری سے بھی مناسبت تھی، فارسی کے اچھے شاعر تھے۔
خانقاہ مجیبیہ کے بزرگوں کا تعلق دارالمصنفین سے بھی تھا اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تعلیم پھلواری میں بھی ہوئی تھی۔ یہاں کے لوگوں سے ان کے اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے خاص مراسم تھے، بنارس، اعظم گڑھ اور عظمت گڑھ وغیرہ میں مولانا عون احمد صاحب کے مریدین کی بڑی تعداد تھی، ان کی تربیت و تزکیہ کے لیے جب تشریف لاتے تو دارالمصنفین میں بھی قدم رنجہ فرماتے، اپنے ایک صاحبزادے مولوی شاہ نصر احمد کو تصنیف و تالیف کی تربیت حاصل کرنے کے لیے یہاں بھیجا جو بڑے سنجیدہ، شائستہ، سعادت مند، حلیم اور صالح نوجوان اور اپنے والد بزرگوار کی تربیت کا نمونہ تھے، معارف میں ان کا ایک مضمون کئی قسطوں میں امام الحرمین پر نکلا تو اہل علم نے اسے بہت پسند کیا، مگر عین جوانی میں وفات پاگئے، ہم لوگ تعزیت کے لیے گئے تو شاہ عون احمد صاحب صبا و شکور کی عملی تفسیر بنے ہوئے تھے، دراصل ان کی ذات شرافت، حسن خلق، لطف وشفقت، مہمان نوازی، خاکساری، سادگی، اخلاص، نیکی، دینداری اور زہدواتقا کا بے مثال نمونہ تھی۔
ادھر کئی برس سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی، معذوری بڑھتی جاتی تھی بالآخر ۶؍ اپریل کو داعی اجل کا پیام آگیا، اﷲ تعالیٰ علم و دین کے اس خادم اور پیکرحلم و شرافت کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبرجمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مئی ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...