Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالرحمن[امیر شریعت خامس]

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالرحمن[امیر شریعت خامس]
ARI Id

1676046599977_54338386

Access

Open/Free Access

Pages

592

امیر شریعت خامس کی رحلت
امیر شریعت خامس مولانا عبدالرحمن کی وفات ہندوستان خصوصاً بہارو اڑیسہ کے مسلمانوں کا نقصان عظیم ہے۔ قوم و ملت اپنے ایک بزرگ رہنما عالمِ دین اور عارف باﷲ سے محروم ہوگئی۔ وہ واقعی عالم باعمل اور اس دور میں زہد و اتقا، عمل و اخلاص اور اتباعِ سنت میں منفرد و یگانہ تھے۔ ان کی زندگی دین کی خدمت و اشاعت دعوت و تبلیغ ، وعظ و ارشاد، نفوس کی اصلاح و تزکیہ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود میں گزری اور ان سے بے شمار لوگوں کو فیض پہنچا۔
حضرت امیر شریعت کی علالت کا سلسلہ کئی ماہ سے چل رہا تھا، افاقہ نہ ہونے کی بنا پر مدرسہ حمیدیہ گودنا (چھپرہ) سے پھلواری شریف لائے گئے اور سجاد میموریل اسپتال کے علاج سے کسی قدر حالت بہتر ہوئی مگر پھر مرض نے شدت اختیار کرلی تو حی کلینک پٹنہ میں داخل کئے گئے مگر وقتِ موعود آگیا اور یہیں ۲۹؍ ستمبر ۹۸؁ء کو رشد و ہدایت کا یہ چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
۳۰؍ ستمبر کو ۱۱ بجے دن میں قائم مقام امیر شریعت نے پھلواری میں جنازہ کی نماز پڑھائی جس میں مختلف اضلاع کے ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی۔ اسی روز جسد مبارک مدرسہ حمیدیہ گودنا (چھپرہ) لایا گیا جہاں عصر بعد نماز جنازہ ہوئی اور متعدد اضلاع سے آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں مسجد کے قریب ان کی تدفین ہوئی۔
مولانا نے ۹۵ برس کی طویل عمر پائی، ان کی ولادت ضلع دربھنگہ کے ایک گاؤں میں ۱۹۰۳؁ء میں ہوئی تھی۔ مختلف دینی مدارس میں تعلیم پانے کے بعد مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے فضیلت کی سند لی، وہ ایک اچھے اور ذہین طالب علمی تھے، فضیلت کے امتحان میں پورے بہار میں اول آئے۔ ابتدا ہی سے طبیعت طاعت و زہد کی طرف مائل تھی، تحصیلِ علم ہی کے زمانے سے سلوک و عرفان سے مناسبت پیدا ہوگئی تھی، بالآخر ایک شیخِ وقت مولانا ریاض احمد صاحب کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اپنے شیخ و مرشد کے ایما سے ۱۹۴۲؁ء میں مدرسہ حمیدیہ گودنا میں قیام پذیر ہوگئے، جہاں درس و تدریس کے ساتھ عام لوگوں کی اصلاح و تربیت بھی فرماتے رہے۔
امارت شرعیہ سے اس کے روز تاسیس ۱۹۲۱؁ء ہی سے ان کا تعلق قائم ہوگیا تھا اس کے بانی مولانا ابوالمحاسن سجادؒ کی خدمت میں باریابی کا شرف بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی جدوجہد سے چھپرہ میں امارت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ امارت کے تنظیمی شعبہ سے ان کا ہمیشہ گہرا تعلق رہا، جس کو وہ ریڑھ کی ہڈی کہا کرتے تھے۔ مولانا عبدالرحمن صاحب اپنے پیش رو چاروں امیر شریعت کے جلسۂ انتخاب میں شریک رہے اور ان کے ہاتھوں پر بیعت کی، مولانا عبدالصمد رحمانی نائب امیر شریعت کے انتقال کے بعد اس منصب کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا اور ۱۹۹۱؁ء میں امیر شریعت رابع مولانا منت اﷲرحمانی کی وفات کے بعد وہ امارت کے اس سب سے بڑے عہدہ پر فائز کیے گئے۔ گو مولانا عبدالرحمن صاحب کی امارت کا دور سات آٹھ برس کے قلیل زمانے کو میحط ہے تاہم یہ بڑا زریں عہد تھا جس میں امارت کے مختلف شعبوں میں بڑی وسعت و ترقی ہوئی، مالی و انتظامی حیثیت سے بھی یہ دور مستحکم رہا۔ کئی اہم دینی تعلیمی اور فلاحی ادارے وجود میں آئے، سماجی خدمت، ریلیف اور راحت رسانی کے متعدد کام انجام پائے تبلیغ و دعوت دین کا کام بڑے پیمانے پر ہوا، علمی، تعلیمی اور تربیتی نظام بہتر رہا۔ بہت سے دینی مکاتب قائم ہوئے، عصری و دینی درسگاہوں کا نظام مستحکم ہوا، تکنیکی تعلیم کے شعبے کھلے۔ مولانا سجاد اسپتال کو وسعت و ترقی ملی۔ مولانا منت اﷲ رحمانی ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ، المعھدالعالی للتدریب فی القضا والافتا اور وفاق المدارس الاسلامیہ بہار وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔
مولانا ملک کی آزادی و اتحاد کی تحریک کے شیدائی بھی رہے اور جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس راہ میں ان کو بڑی صعوبتیں اور مشقتیں بھی جھیلنی پڑیں۔
راقم الحروف کو گو مولانا کی زیارت و ملاقات کی کبھی سعادت میسر نہیں آئی تاہم ان کے بعض اہل تعلق سے ان کی مقدس اور پاکیزہ زندگی، سیرت و کردار کی بلندی، ذکر و شغل اور ریاضت و مجاہدہ کی کثرت کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس سے ان کی عظمت و فضیلت کا نقشہ قلب پر مرتسم ہوگیا ہے۔ وہ بڑے ذاکر و شاغل، تہجد گزار، صوفی منش بزرگ اور نہایت متواضع اور منکسر المزاج شخص تھے، ان کی زندگی سادہ اور درویشانہ تھی، کم سخن اور نرم گو تھے، خلوت و تنہائی زیادہ پسند کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے اس مقبول بندے کی مغفرت فرمائے اور ان کے خلا کو پُر کرے، آمین۔
بہار و اڑیسہ میں امارت شرعیہ کا نظام اٹھہتر (۷۸) برس سے قائم ہے، اس سے وہاں کے مسلمانوں کو اسلامی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے میں بڑی مدد مل رہی ہے، دنیا سرائے فانی ہے، یہاں موت سے کسی کو دستگاری نہیں۔ اب اس مفید و بابرکت نظام کی سربراہی کے لیے مولانا نظام الدین صاحب کا انتخاب عمل میں آیا ہے جن کو امارت کے کاموں کا دیرینہ تجربہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے اور بہار و اڑیسہ کے مسلمانوں کو سمع و طاعت کا اظہار کرتے ہوئے پورے اتحاد، ہم آہنگی اور اخلاص سے ان کے تعاون کی توفیق دے، آمین! (’’ض‘‘، نومبر ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...