Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حکیم محمد سعید

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حکیم محمد سعید
ARI Id

1676046599977_54338388

Access

Open/Free Access

Pages

594

حکیم محمد سعید
حافظ حکیم محمد سعید کے وحشیانہ اور بے رحمانہ قتل پر کون ہے جو تڑپا اور بے قرار نہ ہوا ہوگا، وہ بین الاقوامی شخص، مملکتِ خداداد کے ہمدرد و مسیحا، پاکستان کے معمار، اس کا مقدر چمکانے اور بنانے کے لیے فکر مند، ہمدرد فاؤنڈیشن کے سربراہ اور مدینتہ الحکمت کے بانی، عالم، مصنف، مدبر، عالی دماغ، سچے اور پکے مسلمان، قوم و ملت کے بے لوث خادم، مخالف ہوا میں طب کا چراغ روشن کرنے، علم کو فروغ دینے، حکمت و محبت کا خزانہ لُٹانے والے، غریبوں اور مصیبت زدوں کے درد و غم میں شریک، پہلو میں درد مند دل رکھنے، پاکستان کے تشویش انگیز حالات سے بے چین اور پریشان رہنے والے کو چند دقیقوں میں جن لوگوں نے موت کے گھاٹ اُتارا وہ بڑے خوں خوار، درندہ صفت اور انسانوں کے بھیس میں وحوش سے بھی بدتر لوگ تھے۔ آخر اس فرشتہ صفت، پاک دل، پاک باز، رحم و مروت کے پیکر، مجسم شرافت اور اخلاقی خوبیوں سے منور انسان کا قصور کیا تھا، ذوق مرحوم کے شاگرد محمد مظفر خاں گرمؔ رامپوری کا وہ قطعۂ تاریخ وفات یاد آگیا جو نواب شمس الدین خاں مرحوم کو پھانسی دیے جانے پر کہا گیا تھا ؂
یہ دست درازیِ ستم کس سے بیاں ہو
بے جرم و گنہ مسند نواب کو الٹا
تاریخ معمے میں نئی طرز سے لکھ، گرمؔ!
کیا چرخ نے ’’نوابی سہراب‘‘ کو الٹا
جو مملکت اُس اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھی جو سراپا امن و سلامتی ہے اور جس کے آئین میں خون خرابہ اور قتل و دہشت گردی کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے ماننے والے (مسلم) ساری دنیا کے لیے سراپا رحمت ہوئے ہیں، آج وہی مملکت جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے، کراچی مقتل میں تبدیل ہوگیا ہے، پاکستان کے گلی کوچوں میں خونِ مسلم کی ارزانی ہے، وہاں کے در و دیوار سے تشدد و دہشت گردی پھوٹی پڑ رہی ہے، امن چین عنقا ہوگیا ہے، پُرامن شہریوں کی جان پر بن آئی ہے، خوف و دہشت کا یہ حال ہے کہ دن میں بھی لوگ اپنے گھروں سے نہیں نکلتے ؂
این چہ شوریست کہ درعہد قمرمی بینم
ہمہ آفاق پُر از فتنہ و شرمی بینم
شروع ہی سے پاکستان میں انتشار، جارحیت اور سفاکی کی جو باد سموم چل رہی ہے اب اتنی تیزو تند ہوگئی ہے کہ حکیم محمد سعید جیسے شریف النفس اور بے ضرر انسان کو بھی خاک کے مانند اُڑا لے گئی، لیاقت علی خاں سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک کتنے بے گناہ لوگ اسی کی نذر ہوچکے۔ اپنے محسنوں اور بے گناہ شہریوں کو تہہ تیغ کردینا اگر کسی قوم کا معمول بن جائے تو وہ کس طرح اپنی آزادی کو باقی رکھ سکے گی اور خود کب تک محفوظ رہے گی۔
شنبہ ۱۷؍ اکتوبر کو حافظ حکیم محمد سعید فجر کی نماز کے بعد حسب معمول آرام باغ کراچی کے اپنے مطب میں تشریف لے گئے تو اندھا دھند ان پر فائرنگ ہونے لگی اور وہ اپنے دو ساتھیوں سمیت شہید کردیے گئے۔ وہ روزے سے تھے، ہر شنبہ و یکشنبہ کو روزہ رکھنا ان کا معمول تھا، یہ خبر سُنتے ہی سکتہ میں آگیا اور حکیم صاحب کا سراپا نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید مدظلہٰ جو لقمان وقت اور کوہِ ضبط و تحمل ہیں اور دوسرے عزیزوں کی تعزیت کس طرح کی جائے۔ حافظ حکیم محمد سعید کا آبائی وطن دہلی مرحوم تھا، یہیں ۹؍ جنوری ۱۹۲۰؁ء کو پیدا ہوئے وہ اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے اور ابھی طفل خورد سال ہی تھے کہ ۲۲؍ جون ۱۹۲۲؁ء کو ان کے والد بزرگوار حافظ حکیم عبدالمجید صاحب سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، ان کی پرورش و پرواخت ان کی والدہ ماجدہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے بڑی توجہ اور دلسوزی سے کی جو ان سے عمر میں ۱۳ سال بڑے تھے، حکیم محمد سعید اس کا اعتراف بڑی احسان مندی اور فخر سے کرتے تھے، اپنی والدہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہم سب کی ذمہ داری ابتداً ہماری آپا (والدہ مرحومہ) پر رہی اور انہیں کی تربیت نے ہمیں وہ بنادیا جو آج ہم ہیں، یہ خاتونِ محترم رابعہ ہندی تھیں․․․․․ ابا جان سے انہوں نے تربیت اولاد کا گُر سیکھا تھا اور اس کا انتہائی صحیح استعمال کیا، انہوں نے کبھی اخلاق کی کسی کوتاہی کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا، اس بات میں وہ بڑی سخت گیر تھیں․․․․․ توازن ان کا ہنر تھا، وہ اس توازن اور عدل کی وجہ سے پورے خاندان پر حکمراں تھیں، اگر ان میں عظمتیں اور صلاحیتیں نہ ہوتیں تو اباجان کے انتقال کے بعد ہمدرد باقی کہاں رہ سکتا تھا، اباجان کی زندگی میں ہمدرد کے لیے آپا مرحومہ نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے․․․․․ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی آپا کی کوئی دوسری مثال آج تک نہیں دیکھی ہے‘‘۔
اپنے ’’بھائی جان‘‘ کے تاعمر ممنون اور نیاز مندرہے، اپنے کو ان کی تربیت کو ثمرہ سمجھتے تھے ان کے سامنے بہت مودب رہتے، جب وہ دارالمصنفین تشریف لائے اور حکیم عبدالحمید صاحب قبلہ کے کمرہ میں ان کی چار پائی بھی بچھائی گئی، تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھائی صاحب کے ساتھ کیسے رہوں گا، ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’عظمت ہمدرد کے لیے حکیم عبدالحمید نے ایک بڑا کام یہ بھی کیا کہ مجھے انسان و ہمدرد بنادیا، انہوں نے سرمایہ اسے قرار دیا کہ ہمدرد کے لیے ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو ہمدرد کو ہر حال میں سربلند اور سرفراز کرسکیں اور اس کو بقائے دوام دے سکیں میں ان کا چھوٹا بھائی ضرور ہوں لیکن انہوں نے مجھے انسان سمجھا اور انسان کی تمام خوبیاں مجھ میں پیدا کرنے کے لیے خود بڑی سے بڑی قربانی دے دی۔ اس اعتبار سے میرا رواں رواں ان کے زیر احسان ہے‘‘۔
وہ ساڑھے چھ برس کی عمر میں قرآن کریم ختم کرچکے تھے اور نوسال کی عمر میں اس کے حافظ بھی ہوگئے تھے۔ اردو مادری زبان تھی، تیرہ برس کی عمر میں عربی فارسی سیکھ چکے تھے، سن نے اور تجاوز کیا تو انگریزی کی شُد بُد بھی ہوگئی تھی۔
حکیم صاحب نے چودہ برس کی عمر تک پوری دلچسپی اور انہماک سے علم کی تحصیل کی اور کبھی پڑھنے لکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی مگر کھیل کود میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مرغ بازی، کبوتر بازی، گھوڑ سواری، موٹر سائیکل دوڑ، گلی ڈنڈے، شطرنج، فٹ بال، کشتی رانی، پہاڑوں پر چڑھنے، اکھاڑوں اور دنگلوں میں کشتی لڑنے کا بڑا شوق ہوگیا تھا مگر حکیم عبدالحمید صاحب نے اس موڑ پر ان سے سوال کیا کہ ’’اب کھیلنا ہے یا مزید کچھ پڑھ لکھ کر ہمدرد کے لیے کام کرنا ہے‘‘ اس سے چوکنا ہو کر انہوں نے تمام کھیل کود فی الفور بند کردیے، ان کا رجحان طبع صحافت کی جانب تھا تاکہ اس میدان کی بے راہ روی دور کر کے کچھ نئے نقش قدم قائم کریں مگر ان کے بھائی جان کا فیصلہ تھا کہ ’’خاندان میں ہمدرد کا مقام اور مشن خدمت خلق بذریعہ طب ہے، لہٰذا تعلیم طب لازم ہے‘‘ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر کے انہوں نے ۱۹۳۶؁ء میں طبیہ کالج دہلی میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۹؁ء میں اس سے فارغ ہوئے۔
تحصیل طب کے زمانے ہی سے وہ اپنے بھائی جان کی رہنمائی میں ہمدرد کے کاموں کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ ابتدائی مرحلے میں دواخانے میں عطاروں کی مدد گاری پھر عطاری، نسخہ بندی اور دواشناسی کی تربیت حاصل کی، دوا سازی کی تربیت کے لیے بھٹیوں میں لکڑیاں اور کوئلے جھونکے، ہمدرد کی ڈاک، پارسل، پیکٹ تیار کرنے کی تربیت ان کاموں کو انجام دینے والوں سے لی۔ طبیہ کالج سے فراغت کے بعد وہ صبح سے شام تک ہمدرد کے مختلف دفاتر اور شعبوں میں کام کرتے اور شام کو اسی دواخانے میں بیٹھ کر مطب کرتے تھے، جہاں عطاری کی تربیت حاصل کی تھی۔
ان مراحل سے گزرنے کے بعد ان کے بھائی جان نے بتدریج انہیں اختیارات منتقل کرنا شروع کیا اور ۱۹۴۱؁ء میں انہیں سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا، اب وہ رات دن کام کرتے تھے، چھ مہینے تک ہمدرد کی عمارت کے باہر نہیں نکلے، اس طرح بقول انکے میری پوزیشن یہ تھی کہ ادارۂ ہمدرد کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جہاں میں انتہائی مہارت سے کام نہیں کرسکتا ہوں۔ دواؤں کی پیکنگ میں جب بیٹھتا تو بڑے سے بڑے ماہر کارکن کو ہرا دیتا تھا، ہمدرد صحت ایک لاکھ چھپتا تھا، ہمدرد صحت کی ریپ کرنے بیٹھتا تو بڑے سے بڑے دفتری مجھ سے ہار مان جاتے تھے، اردو ٹائپ کرنے بیٹھتا تو طوفان میل بن جاتا تھا․․․․․․ ان کاموں میں اگر میں نے شکست کبھی کھائی ہے تو صرف بھائی جان قبلہ سے، وہ خود ہمدرد کا ہر کام اسی طرح کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں‘‘۔
۱۹۴۱؁ء میں ان کا شعور پختہ اور ذہن بالغ ہوگیا تھا اور وہ صنعت و تجارت کے اصول سے جو دیانت و اخلاق میں مضمر ہے واقف ہوگئے تھے جس سے ان کے بھائی جان نے انہیں دور نہ ہونے دیا۔
۱۹۳۷؁ء ہی سے ہمدرد صحت کی ادارت بھی ان کو تفویض کی جاچکی تھی جس سے ان کے بھائی جان کو عشق تھا اور جو اس سے پہلے اس کے مدیر بھی رہے تھے، مگر حکیم محمد سعید نے ۱۹۴۱؁ء میں اسے مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے کر چار چاند لگا دیا۔ ۱۹۴۷؁ء میں عارضی طور سے وہ بند ہوگیا مگر ۱۹۴۸؁ء میں انہوں نے کراچی سے اسے جاری کیا۔
۱۹۴۰؁ء سے ۱۹۴۷؁ء تک حکیم محمد سعید اپنے بھائی جان کی سرکردگی میں ہمدرد کی عظمتوں میں اضافہ کرتے رہے، ان کا عزم یہ تھا کہ وہ فن طب کی آواز دنیا بھر میں پہنچا دیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان کی حکومت کا وہ دل سے احترام نہ کرسکیں گے، اس لیے دیانت و امانت کا تقاضا سمجھ کر وہ ۹ جنوری ۱۹۴۸؁ء کو دلی کی گلیاں چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، ان کے جانے کا سب سے زیادہ ملال ان کے بھائی جان کو تھا جنھیں دلاسا دیتے ہوئے حکیم محمد سعید کے شفیق استاد قاضی سجاد حسین صاحب نے فرمایا ’’حکیم صاحب آپ آزردہ نہ ہوں، جب پاکستان میں مشکلات کے پہاڑ ٹوٹیں گے تو میاں سعید ضرور آجائیں گے‘‘ شفیق استاد کے یہ جملے ان کے لیے چیلنج بن گئے، بڑی بے سروسامانی اور فلاکت کے باوجود وہ کراچی میں ہمدرد کا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہوگئے، حکیم عبدالحمید نے ۱۹۳۵؁ء میں انہیں حفاظت طب اور ہمدرد کے لیے کام کرنے کی جو ذمہ داری سپرد کی تھی اسے کراچی پہنچ کر پوری ذمہ داری سے انجام دینے کا تہیہ کیا، ان کا خود بیان ہے کہ ’’پاکستان کا ہمدرد اس انداز سے شروع ہوا کہ میں ۹؍ جنوری ۱۹۴۸؁ء سے جون ۱۹۴۸؁ء تک کراچی کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا اور دو وقت کھانے کو نہ تھا، لیکن ان کی مسلسل تگ و دو، عزم و حوصلہ اور غیر معمولی قوت عمل نے ہندوستان کے ہمدرد کی طرح پاکستان کے ہمدرد کو بھی عالمی شہرت کا حامل اور طبی و اسلامی تحقیقات کا عظیم الشان ادارہ بنادیا‘‘۔
حکیم محمد سعید نے طب کے احیاء و ترقی اور دنیا بھر میں اس کی آواز پہنچانے کے لیے دنیا بھر کے اتنے سفر کیے کہ لوگ کہتے تھے کہ ان کے برابر ہوائی اور بحری و بری سفر تاریخ میں کسی طبیب نے نہیں کیا ہے، وہ اپنی تحریروں میں اپنے سفر کی کثرت کا بار بار ذکر کرتے ہیں:
’’گزشتہ کم از کم دس سال سے میری زندگی کا یہ عالم ہے کہ نچلا نہیں بیٹھا ہوں رات دن سفر میں ہوں صبح پاکستان میں ہوں تو دن کو جرمنی میں، شام کو پیرس میں۔ میں کبھی لندن میں ہوتا ہوں کبھی واشنگٹن میں، شام کو اگر ماسکو میں اٹھتا ہوں تو صبح تہران میں داخل ہوتا ہوں، ابھی میکسیکو میں ہوں تو دوسرے دن پورٹ اوف اسپین میں۔ نیویارک سے اڑا تو صبح میڈرڈ میں داخل ہوگیا کبھی بغداد اور مکہ، مدینہ میں ہوں تو اس سے اگلے دن حلب اور دمشق میں یا بغداد میں‘‘۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’اب یہ حال ہے کہ میں ایک مہنے میں کئی کئی سفر کرتا ہوں، لاکھوں میل جاتا ہوں، دنیا کا کونا کونا میں نے چھان لیا ہے۔ دنیا کو کف دست بنا کر رکھ دیا ہے‘‘۔
یہ سارے سفر وہ لطف و تفریح کے بجائے اپنے عظیم طبی مقصد اور مقدس مشن کی تکمیل کے لیے کرتے تھے۔ لکھتے ہیں ’’مگرمیں نے ہر سفر احیائے طب کے مقصد عظیم کے لیے کیا ہے اور بھائی جان کے فیصلے کے عین احترام میں کیا ہے اور بالآخر میں نے اپنے مشن میں جو درحقیقت میرے عظیم بھائی کا مشن ہے، کامیابی حاصل کرلی۔ آج دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں کی خبر میں نے نہ لی ہو اور جہاں طب پر تحقیقی کام نہ ہورہا ہو، الحمدﷲ‘‘۔
سال گزشہ میں فن لینڈ میں ایک کشتی لے کر کوئی آٹھ دن وہاں کے ہزار ہا جزیروں میں گھومتا رہا، تلاش یہ تھی کہ بڑے بڑے شہروں سے دور دراز جزیروں میں گم انسان اپنا علاج کن جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں، پھر بلغاریہ پہنچا تاکہ وہاں مفردات کے تحقیقی کام کو دیکھوں، ماسکو گیا کہ وہاں سرطان اور جڑی بوٹیوں پر کام ہورہا ہے، واشنگٹن میں اس موضوع کا جائزہ لیا۔
۱۹۵۲؁ء اور ۱۹۵۶؁ء میں انہوں نے اپنے بھائی جان کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ کے ملکوں کے بھی مطالعاتی اور تجرباتی سفر کیئے ۱۹۵۶؁ء کا سفر کثیر المقاصد تھا، یورپ میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ طب و سائنس میں اس نے کیا پیش رفت کی ہے، دوا سازی میں کیا انقلابی کام ہورہے ہیں، علمی سطح پر اہل علم و ادب کس انداز سے مصروف کار ہیں، عبادت گاہوں کا مقام یورپ میں کیا ہے وغیرہ۔ ان کے کثرتِ سفر اور مقاصد سفر کے بارے میں ان کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۱۹۷۰؁ء سے ۱۹۸۰؁ء تک میں نے دنیا کے اکثر ممالک کا مطالعاتی سفر کیا ہے، ان سفروں کی تعداد اتنی ہے کہ میں خود بھی یاد نہیں کرسکتا۔ میں نے ان سفروں میں خصوصیت کے ساتھ سائنس کے میدانوں میں شخصی روابط پیدا کیے ہیں اور ان کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے، میرے اکثر و بیشتر سفر طب کے لیے ہوئے ہیں جس کے احیاء و ترقی کی ذمہ داری ۱۹۳۵؁ء میں بھائی جان نے مجھے سونپ دی تھی اور میں نے اس ذمہ داری کو انتہائی حد تک پورا کرکے بھائی جان کے سامنے سرخ روئی حاصل کرنے کا فخر حاصل کیاہے، یورپ میں طب کو تسلیم کرانے اور موضوع فکر بنانے اور آخرکار عالمی ادارہ صحت سے طب کو تسلیم کرانے میں، میں نے دس سال مسلسل جدوجہد کی ہے، میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے فن طب اور صحت عالم کے لیے ایسا کام کردیا ہے جس کے اثرات دور رس ہوں گے، انشاء اﷲ العزیز الحکیم‘‘۔
شریعت و طریقت کی اصل روح خدمت ہے، حکیم عبدالحمید کی طرح حکیم محمد سعید کی زندگی کا یہی مشن تھا، اس کے لیے انہوں نے میدان طب و حکمت میں قدم رکھا تھا اور اپنی سعی بلیغ سے اسے نئی زندگی دے کر عالمی سطح پر اسے باوقار بنا دیا، لیکن ان کی سرگرمیاں ہمدرد فاؤنڈیشن اور مدینتہ الحکمت اور ان کے مختلف و متعدد شعبوں کے قیام تک ہی محدود نہیں تھیں وہ ایک عالم، دانشور اور صاحب کمال مصنف بھی تھے، اردو اور انگریزی میں بے شمار کتب ان کی یادگار ہیں۔ کم لوگوں کو تحریر و تقریر دونوں کا ملکہ ہوتا ہے۔ حکیم صاحب میں تقریر و خطابت کا ملکہ خداداد تھا ۔ وہ اردو، عربی اور انگریزی زبانوں سے واقف تھے اور سب میں دل پذیر اور موثر تقریریں کرتے تھے۔
حکیم صاحب کی طبیعت میں بڑی بوقلمونی اور عجیب رنگارنگی تھی، ایک طرف تو وہ احیائے طب کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے اور اس کے لیے ملک ملک کی خاک چھانتے رہتے تھے، مگر ان کی یہ جہاں گردی اور بادیہ پیمائی اور ہمہ تن مشغولیت قلم و قرطاس اور تصنیف و تالیف میں مانع نہ بنتی، انہوں نے سینکڑوں کتابیں لکھیں جن میں کئی سفرنامے ہیں۔ ۱۹۳۶؁ء ہی سے روزنامچہ لکھنے کا معمول تھا، ہمدرد صحت کی ادارت کی ذمہ داری اس پر مستزاد، نونہال کی ادارت ان کے معتمد جناب مسعود احمد برکاتی کے سپرد تھی مگر اس کے صفحات پر بھی وہ موجود ہوتے، ہر شمارے میں پاکستان کے نونہالوں کو جاگنے اور جگانے کی تلقین بھی وہی کرتے تھے، افسوس ہے کہ ایسے جاگنے اور جگانے والے کو بھی بے رحموں نے ہمیشہ کے لیے سلادیا۔
حکیم صاحب ایک فولادی انسان تھے جو برابر متنوع اور مختلف قسم کے کام کرتے رہتے تھے، وہ کبھی کام کرنے سے نہ تھکتے اور نہ گھبراتے تھے۔ بڑے اصول پسند اور مرتب شخص تھے، کھانے پینے کے معاملے میں نہایت محتاط تھے، ان کے مستعد، چاق و چوبند، کارگزار صحت مند اور تندرست ہونے کا سبب یہی تھا۔ اوقات و معمولات کے پابند تھے اسی لیے ان کے کاموں میں بڑی برکت ہوئی اور قدرت نے ان سے مختلف النوع کام لیے، ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ایک بار میں بھائی جان کے ساتھ تھانہ بھون گیا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے قدموں میں بیٹھنے کا شرف حاصل کیا۔ ان کے بارے میں سُنا تھا کہ وہ اس قدر پابند اوقات ہیں کہ لوگ انکے آنے جانے پر اپنی گھڑیاں ملالیتے ہیں، میں نے یہ بات گرہ میں باندھی، پھر جب سے میں عملی زندگی میں داخل ہوا ہوں تو اب میرا یہ حال ہے کہ میری نقل و حرکت پر لوگ واقعی اپنی گھڑی درست کرلیتے ہیں، یہ بھائی جان محترم کی اعلیٰ تربیت کا ثمرہ ہے اور میں نے اس سے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘‘۔
حکیم صاحب بڑے پاک طینت، شریف النفس، پاکیزہ صورت اور پاکیزہ سیرت تھے، دیانت، امانت اور راست بازی ان کی سرشت تھی، خوش خلق، وضع دار، ملنسار، اور تکلف سے بری تھے، نہایت ہنس مُکھ اور باغ و بہار شخص تھے، لوگوں سے تپاک اور گرم جوشی سے ملتے، بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے، جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم سے مخلصانہ تعلقات تھے،ان کی محبت انہیں دارالمصنفین بھی کھنچ لائی، ان کے بھائی جان حکیم عبدالحمید صاحب اس کے رکن رکین ہیں، اس لیے بھی اس سے بڑا تعلق رکھتے اور اپنی ایک ایک کتاب یہاں بھیجتے تھے، یہیں ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی، پھر ہمدرد نگر کے ایک بین الاقوامی سمینار میں ملا تو دیکھتے ہی پہچان گئے، سمینار کئی روز تک چلتا رہا، جب جب ملاقات ہوتی تو سلام میں سبقت لے جاتے، بڑی دل جوئی کرتے، باتیں اتنی دلچسپ کرتے کہ افسردہ اور ملول شخص بھی خوش ہوجاتا۔ حرص و ہوس زر، زمین و جائداد کی محبت کبھی ان کے دل میں گھر نہیں بناسکی، کراچی میں انہوں نے اپنے لیے ایک انچ زمین نہ بنائی، بڑے پختہ عزم و ارادے کے انسان تھے جس کام کو ٹھان لیتے وہ کرکے چھوڑتے ؂
اذاھم القی بین عینیہ عزمہ
ونکب عن ذکر العراقب جانبا
ان میں غرور، گھمنڈ اور پندار نام کو بھی نہ تھا، وہ بڑی شہرت و عظمت کے مالک تھے، ان کو بڑے سے بڑے اعزاز ملتے رہے، پاکستان کے ممتاز ترین ایوارڈ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازے گئے، سندھ کے گورنر ہوئے اور صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کے مشیر بنے مگر کبھی نہ آپے سے باہر ہوئے اور نہ ان میں رعونت و تمکنت پیدا ہوئی، بلکہ جتنا بڑا عہدہ ملتا وہ ان کے انکسار اور فروتنی میں اور اضافہ کردیتا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی بخشش فرمائے اور ان پر اپنے رحم و کرم کی بارش کرے۔ آمین!! (ضیاء الدین اصلاحی، نومبر ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...