Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناصدر الدین اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناصدر الدین اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338389

Access

Open/Free Access

Pages

597

مولانا صدر الدین اصلاحی
افسوس ہے کہ ۱۳؍ نومبر ۱۹۹۸؁ء کو ہندو پاک کے مشہور عالم و مصنف، جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما اور مدرستہ الاصلاح کے مایہ ناز فرزند مولانا صدرالدین اصلاحی انتقال فرماگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ عرصہ سے بیمار اور موتوا قبل ان تموتوا کی تفسیر بن گئے تھے۔
ان کی ولادت ۱۹۱۶؁ء میں ہوئی، ان کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سیدھا سلطان پور سے تھا، جہاں افغانستان کے زئی قبیلہ کے پٹھان آباد ہیں، مولانا محمد شفیع بانی مدرستہ الاصلاح کا تعلق بھی اسی خاندان اور گاؤں سے تھا۔
علامہ شبلیؒ کے وطن بندول میں ان کی نانہال تھی۔ یہیں رہ کر انہوں نے بلریا گنج سے مڈل پاس کیا، پھر عربی تعلیم کے حصول کے لیے مدرستہ الاصلاح میں داخل ہوئے، طالب علمی کے زمانے میں وہ اور ان کے ایک دوست مولانا محمد عاصم اصلاحی جو ان سے ایک درجہ آگے تھے، اپنی ذہانت و صلاحیت کی وجہ سے پورے مدرسہ میں ممتاز تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد اول الذکر پٹھان کوٹ اور موخرالذکر دارالعلوم دیوبند چلے گئے مگر ان کی آمد و رفت ایک دوسرے کے ہاں ہوتی رہتی تھی، بعد میں ان کی راہیں مختلف ہوگئی تھیں، اسی لیے جب ملتے تو خوب طنز و تعریض اور فقرے بازی ہوتی، طالب علمی میں یہ دونوں حضرات اپنے استاد مولانا نجم الدین اصلاحی کے بڑے چہیتے تھے، انہوں نے اپنی کتاب ’’یادگار سلف‘‘ میں دونوں کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، مولانا صدرالدین صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ان میں سے ایک عزیز محترم مولوی صدرالدین اصلاحی سلمہ کی ذات ہے جو اپنی خداداد ذہانت اور فطری صلاحیت کے اعتبار سے (چشم بددور) آپ اپنی نظیر ہیں اور جن کی عزت و محبت میرے دل کی گہرائیوں میں ہے اور آیندہ زندگی میں عزیز موصوف سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، عزیز کے متعلق بعض اکابر نے ابتدا ہی میں مضامین وغیرہ دیکھ کر خوش آئند مستقبل کی بشارت دی تھی، چنانچہ جب ۱۹۳۷؁ء میں مدرسہ سے فارغ ہوچکے تو متکلم اسلام مولانا سید ابوالاعلی مودودی مدظلہ مدیر ترجمان القرآن کی جوہر شناس نظر نے دارالاسلام پٹھان کوٹ پنجاب بلالیا، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ علم، عمل اور زندگی کے پاک مقاصد میں کامیاب فرما کر نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام عالم اسلامی کے لیے باعث فخر بنائے‘‘۔ (ص: ۸)
آخری درجہ کے سالانہ امتحان میں حجتہ اﷲ البالغہ کا پرچہ علامہ سلیمان ندوی نے بنایا تھا، وہ مولانا صدرالدین صاحب کے جوابات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی کاپی پر ’’لایق تربیت‘‘ تحریر فرمایا۔
انہوں نے مولانا نجم الدین اصلاحی کے علاوہ مولانا شبلی متکلم ندوی، مولانا حکیم محمد احمد لہراوی، مولانا محمد سعید ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا اختر احسن اصلاحی وغیرہ سے بھی درس لیا۔
طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کے مضامین ترجمان القرآن اور دوسرے رسالوں میں چھپنے لگے تھے، یہی ان کے پٹھان کوٹ جانے کی تقریب بنے، وہاں انہوں نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی امہات کتب اور علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اﷲ صاحب کی تصنیفات کا مطالعہ بڑی محنت و جاں فشانی سے کیا اور ترجمان القرآن کے لیے بڑے معرکتہ الآراء مضامین لکھے جو بعد میں کتابی صورت میں طبع ہوئے، یہاں ان کے قیام کے زمانے میں جماعت اسلامی کی تاسیس ہوئی اور وہ اسی وقت اس کے رکن ہوئے اور تا عمر پوری استقامت کے ساتھ اس سے وابستہ رہے۔
پٹھان کوٹ کی آب و ہوا راس نہ آنے کی وجہ سے وہ رنگون (برما) تشریف لے گئے، ۱۹۴۶؁ء میں مدرستہ الاصلاح میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے، ۱۹۴۹؁ء میں امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث صاحب نے ان کو رام پور بلالیا، وہاں جانے سے قبل راقم نے سورۂ حدید تا حشر کا ترجمہ اور کلیلہ دمنہ کے بعض ابواب ان سے پڑھے، رام پور میں تعلیمی و انتظامی کاموں کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا کام بھی ان کے سپرد ہوا، پھر علی گڑھ میں جماعت کے زیر اہتمام ادارہ تصنیف و تالیف قائم ہوا تو اس کی صدارت انہیں تفویض کی گئی، اس عرصہ میں خود تصنیف و تالیف کے علاوہ بعض طلبہ کو اس کی تربیت دی اور ایک علمی و تحقیقی سہ ماہی رسالہ ’’تحقیقات اسلامی‘‘ جاری کیا۔ لیکن صحت کی خرابی سے یہاں کا قیام ترک کر کے اعظم گڑھ کے قصبہ پھول پور میں قیام پذیر ہوگئے جہاں ان کے صاحب زادے ڈاکٹر افتخار احمد پریکٹس کرتے تھے، بالآخر یہیں خاتمہ بالخیر ہوا۔
قرآن مجید پر ان کی اچھی اور گہری نظر تھی، وہ گفتگو بھی کرتے تھے تو اکثر موقع و محل کے مناسب آیتیں پڑھتے جاتے، انہیں ترجمان القرآن مولانا حمید الدین فراہی سے براہ راست استفادہ کا موقع نہیں ملا لیکن بالواسطہ ان پر ’’فکر حمید‘‘ ہی کی چھاپ تھی۔ تصنیف و تالیف کا خداداد اور فطری ملکہ تھا، ان کی تصنیفات کے نام یہ ہیں۔
معرکۂ اسلام و جاہلیت، فریضہ اقامت دین، اساس دین کی تعمیر، قرآن مجید کا تعارف، دین کا قرآنی تصور، اسلام ایک نظر میں، اسلام اور اجتماعیت، مسلمان اور امامت کبریٰ، تحریک اسلامی ہند، حقیقت نفاق، حقیقت عبودیت، اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، راہ حق کے مہلک خطرے، نکاح کے اسلامی قوانین، یکساں سول کوڈ اور مسلمان، اسلامی نظام معیشت، دین کا مطالعہ، مسلم پرسنل لا دینی و ملی نقطہ نگاہ سے، مسلمان اور دعوت اسلام، تلخیص تفہیم القرآن۔
یہ کتابیں جماعت کے علاوہ دوسرے حلقوں میں بھی پسند کی گئیں اور متعدد کے ترجمے ہندی اور دوسری ملکی زبانوں میں ہوئے، غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے میں جماعت اسلامی کو علانیہ ترجیح حاصل ہے، اس نے اپنے ضروری اور اہم لڑیچر کے ترجمے کے علاوہ ہندی اور ملک کی مختلف زبانوں میں طبع زاد کتابیں بھی شائع کی ہیں، شروع میں ہندی میں قرآن مجید کے ترجمہ کا پروگرام بنا تو مولانا صدرالدین صاحب نے اردو میں تیسیر القرآن لکھنے کا آغاز کیا جس کے کچھ حصے ان کے استاد مولانا اختر احسن اصلاحی کے ملاحظے کے بعد ماہنامہ ’’زندگی‘‘ میں شائع ہوئے مگر پھر یہ سلسلہ موقوف ہو گیا اور اس کا ہندی ترجمہ بھی نہیں چھپا۔
مولانا صدرالدین صاحب کو مدرستہ الاصلاح اور جامعتہ الفلاح سے خاص تعلق تھا، وہ ان کی انتظامی و تعلیمی مجالس کے رکن اور موخر الذکر کے ناظم بھی تھے، ان اداروں کو ان کے تجربہ، دور اندیشی، اصابت رائے اور تدبر سے بڑا فائدہ پہنچا، آخر میں جلسوں میں شرکت سے معذوری کے باوجود ان کے حالات سے باخبر اور ان کے لیے فکر مند رہتے، ان کی وفات سے یہ ادارے اپنے ایک بڑے سرپرست سے محروم ہوگئے، ان کی وفات جماعت اسلامی کا بھی ناقابل تلافی خسارہ ہے، اب جماعت میں اس پایہ کا مدبر، صاحب فراست اور ذی بصیرت عالم نظر نہیں آتا۔
مولانا تدبر و تفکر کے عادی، خاموش، سنجیدہ اور باوقار شخص تھے، جلوس، سطحی، ہنگامی اورعام دلچسپی کے کاموں سے ان کو کوئی مناسبت نہ تھی، سستی شہرت اور نام و نمود سے بیزار تھے، ان کے تعلقات بھی زیادہ وسیع نہ تھے، عام تو درکنار خاص لوگوں سے بھی زیادہ اختلاط پسند نہ کرتے کیونکہ علمی اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہی چیزیں بڑی تباہ کن ہوتی ہیں، وہ خاموشی سے علم و دین کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے تھے، تاہم متقشف اور خشک آدمی نہ تھے، اپنے ہم مذاق دوستوں سے بڑی بے تکلفی سے ملتے اور نہایت دلچسپ اور پرلطف باتیں کرتے، ایسے موقعوں پر ان کی ذہانت و ظرافت طبع کے خوب نمونے دیکھنے میں آتے۔
اﷲ تعالیٰ علم و دین کے اس خادم کی مغفرت فرمائے، ان کے اعزہ اور اہل تعلق کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، دسمبر ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...