Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر محمد اسلم

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر محمد اسلم
ARI Id

1676046599977_54338390

Access

Open/Free Access

Pages

599

پروفیسر محمد اسلم مرحوم
یہاں بڑی تاخیر سے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق استاد پروفیسر محمد اسلم ۶؍ اکتوبر کو اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ان کا خاص موضوع تاریخ ہند تھا، عہد سلطنت و دور مغلیہ کے حکمرانوں اور اس عہد کے مشائخ کے متعلق ان کے مقالات اور کتابوں کو علمی و تحقیقی حلقوں میں قدر و ستایش سے دیکھا گیا اور ان کی بڑی پذیرائی بھی ہوئی۔
طالب علمی کے زمانہ سے ہی تاریخ سے ان کو خاص لگاؤ رہا، پنجاب یونیورسٹی سے اسی مضمون میں انہوں نے ایم۔ اے کیا، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے علاوہ انہوں نے برطانیہ میں ڈرہم، مانچسٹر اور کیمبرج یونیورسٹیوں سے بھی اکتساب علمی کیا۔ لاہور میں ڈاکٹریٹ کے لیے انہوں نے شاہجہاں کی مذہبی پالیسی کا عنوان منتخب کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل سے پہلے ان کو یورپ جانے کا موقع ملا جس کی وجہ سے غالباً یہ مقالہ مکمل نہ ہوسکا۔
ان کی تحریری صلاحیتوں سے متاثر ہوکر شیخ محمد اکرام نے ان کو تحقیقی مضامین لکھنے پر آمادہ کیا، ۱۹۶۷؁ء سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو برصغیر کے اکثر ممتاز رسائل و مجلات میں ان کی تحریریں شایع ہوتی رہیں، خاص طور پر رسالہ برہان دہلی کے صفحات پر ان کی نگارشات کثرت سے نظر آتی ہیں جن میں مقالات، تنقید و تقریظ اور تعزیتی مضامین وغیرہ شامل ہیں۔ معارف میں بھی ان کے کئی مضامین چھپے، دین الٰہی اور اس کا پس منظر، شاہان مغلیہ کا ذوق موسیقی، مسلمانوں کی جغرافیائی خدمات، فتوحات فیروز شاہی، مسجد قبا سے تاج محل تک، عربوں کے عہد میں سندھ میں علم و ادب، ہیر وارث شاہ کی تاریخی اہمیت، سلاطین دہلی، ہندو تہذیب اور ادب اور داراشکوہ کے مذہبی رجحانات وغیرہ مقالات سے ان کی وسعتِ مطالعہ، ذوق تحقیق، دقتِ نظر اور تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے، دین الٰہی اور اس کا پس منظر جب کتابی شکل میں شائع ہوئی تو ان کے استاد اور تاریخ کے مشہور معلم پروفیسر شیخ عبدالرشید نے لکھا کہ اس سے زیادہ مستند کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔ یہ کلمات محض حوصلہ افزائی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں، اس کتاب کی تالیف میں ایسے محظوطات سے بھی استفادہ کیا گیا تھا جو محققین کی نظروں سے اب تک پوشیدہ تھے۔
تذکرۂ مشائخ اور مطالعۂ ملفوظات میں انہوں نے پروفیسر خلیق احمد نظامی کا تتبع کیا اور درر نظامی، حضرت مجدد الف ثانی اور جہانگیر، ملفوظاتِ خواجہ بندہ نواز گیسودراز، خواجہ محمد ہاشم کشمی، داتا گنج بخش کی لاہور میں آمد جیسے وقیع، بلند پایہ اور پراز معلومات مقالات سپرد قلم کئے، ان مضامین کے مجموعے انہوں نے لاہور میں اپنے قائم کردہ ادارہ ندوۃ المصنفین سے ’’تاریخی مقالات‘‘ اور ’’سرمایۂ عمر‘‘ کے نام سے شایع کئے، ان کی دیگر تصنیفات میں شیخ احمد سرہندی، شاہ فتح اﷲ شیرازی، تاریخ پاک و ہند، تاریخ پاکستان اور دنیائے اسلام بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ فضل اﷲ روز بہان اصفہانی کی سلوک الملوک کا انہوں نے مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ کے نام سے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا، ان کی ایک اور اہم کتاب وفیاتِ مشاہیر پاکستان کو مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے ۱۹۹۰؁ء میں اہتمام سے شایع کیا، یہ ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷؁ء سے ۱۴؍ اگست ۱۹۸۷؁ء تک وفات پانے والے مشاہیر کا مفصل اشاریہ ہے، یہ کتاب اصلاً وفیات نگاری و آثار شناسی کی اس روایت کی تجدید ہے، جس کی ابتدا اردو میں آثار الصنادید کے ذریعہ سر سید احمد خاں نے کی تھی، پروفیسر محمد اسلم مرحوم کے ذوق تاریخ نے آثار شناسی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور انوکھی تحقیقی کاوش کی جانب ان کو متوجہ کیا، چنانچہ انہوں نے مشاہیر کے مزاروں کے الواح و کتبات کی نقل حاصل کرنے کا اہتمام کیا اور جب الواح الصنادید کے نام سے ان کی یہ کاوش برہان و معارف کے صفحات پر منتقل ہوئی تو قدردانوں کے لیے یہ دلچسپی اور افادیت کا سامان ثابت ہوئی، اندازہ ہوتا ہے کہ الواع مزار سے ان کا یہ شغف شروع سے تھا، کیوں کہ ۱۹۶۸؁ء میں جب وہ برہان پور میں شیخ محمد ہاشم کشمی کے مزار پر گئے تھے تو اس وقت بھی لوح مزار کی عبارت نقل کرلی تھی، الواح الصنادید کے حصول کے شوق کے نتیجہ میں خفتگانِ خاک لاہور اور خفتگانِ کراچی جیسی کتابیں تیار ہوئیں، جو اب جدید فن رجال و تذکرہ اعلام میں مستند مرجع و ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان کی تمام تحریرو ں میں سب سے نمایاں خوبی تلاش و تحقیق میں سخت محنت اور اصل مصادر تک رسائی ہے، اس راہ میں انہوں نے یورپ اور برصغیر کے اکثر کتب خانوں سے براہ راست استفادہ کیا، ہندوستان وہ کئی بار آئے ۱۹۶۷؁ء میں علی گڑھ آئے تو صاحب برہان مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم کی صاحبزادی سے عقد ہوا، ان کا تعلق پنجاب کے ایک معزز خاندان سے تھا، اپنے جد امجد حاجی عمر الدین آف پھلور کے لیے انہوں نے اپنا مجموعۂ مضامین ’’سرمایہ عمر‘‘ کے نام سے نذر کیا، ان کے والد چودھری طفیل محمد بھی نیک نام و شریف بزرگ تھے، خود بھی خاکِ پنجاب کے طبعی حسن و صحت کا نمونہ تھے، ظاہر کے مانند باطن بھی محاسن سے آراستہ تھا، سادہ دل اور تکلفات سے عاری تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ ’’ہم لوگ پنجاب کے رہنے والے ہیں اس لیے تکلفات میں نہیں پڑتے‘‘ پنجاب یونیورسٹی سے وظیفہ یابی کے بعد سرسید سوسائٹی سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس کے ترجمان رسالہ تہذیب الاخلاق لاہور کے مدیر بھی ہوگئے تھے۔
دارالمصنفین سے تعلق رکھتے تھے، اپنی کتابیں معارف میں تبصرہ کے لیے ضرور بھجواتے، جناب شیخ نذیر حسین صاحب مدیر اردو انسائکلوپیڈیا آف اسلام کے خطوط سے ان کی خیریت مل جاتی تھی، مگر ادھر عرصہ سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی تھی، ان کی اولاد میں فواد زفر کا نام معلوم ہوسکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے تمام پس ماندگان کو صبر و رضا کی توفیق دے اور ان کی نیکیوں کو قبول فرما کر اعلیٰ مدارج سے سرفراز فرمائے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، دسمبر ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...