Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر قیام الدین احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر قیام الدین احمد
ARI Id

1676046599977_54338391

Access

Open/Free Access

Pages

600

پروفیسر قیام الدین احمد صاحب مرحوم
(ڈاکٹر جاوید علی خاں)
پروفیسر قیام الدین احمد مرحوم ملک کے ممتاز مورخ اور مشہور عالم و محقق تھے، ۲۷؍ اگست ۱۹۹۸؁ء کو ان کا انتقال اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوا، اس وقت وہ خدا بخش لائبریری پٹنہ کے ایک سمینار کے لیے اپنا مقالہ ٹائپ کررہے تھے جو آزادی کی گولڈن جبلی تقریبات کے سلسلے میں جامعہ ہمدرد دہلی میں ہونے والا تھا۔
ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ اور انیسویں صدی کا ہندو مسلم معاشرہ ان کا خاص موضوع تھا، اس پر ان کی نظر وسیع تھی۔ بہار میں ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ نویسی کی روایت کی بنیاد شاد عظیم آبادی اور ونایک پر شاد نے ڈالی تھی جس کو سرجدوناتھ سرکار نے پروان چڑھایا اور پدم شری پروفیسر سید حسن عسکری نے نقطۂ عروج تک پہنچایا، پروفیسر قیام الدین اسی سلسلہ کی آخری کڑی تھے، ان کی وفات سے جو خلا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
ملک و قوم کی بے لوث خدمت اور آزادی وطن کی تحریک میں علمائے صادق پور کے کارنامے اظہر من الشمس ہیں، مرحوم قیام الدین کا تعلق اسی عظیم اور مقدس خانوادے سے تھا، حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک اصلاح و جہاد میں بھی اس خاندان کے بزرگوں نے بڑے جوش و خروش اور نہایت عزم و استقلال سے حصہ لیا تھا۔
مرحوم کے اجداد میں مولانا احمد اﷲ صاحب اور کئی لوگوں کو ابنالہ مقدمات کے سلسلہ میں کالے پانی کی سزا ہوئی۔ موجودہ صدی کے اوائل میں اس خاندان کے افراد کا رجحان مغربی تعلیم کی طرف ہوگیا۔ پروفیسر قیام الدین احمد صاحب کے دادا ڈاکٹر عظیم الدین احمد عربی کے مشہور فاضل اور اردو کے معروف شاعر و نقاد تھے، انہوں نے سر محمد اقبال کے ساتھ جرمنی سے پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگری لی اور پٹنہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو فارسی و عربی کے صدر رہے۔ مرحوم قیام الدین صاحب کے والد جناب علیم الدین احمد پٹنہ کالج میں تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے، ان کے عم محترم پدم شری کلیم الدین احمد جو عالمگیر شہرت کے حامل تھے، پٹنہ یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کے استاد اور اردو کے ماہر فن نقاد کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت حاصل کی، پروفیسر قیام الدین اسی عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
پروفیسر قیام الدین احمد کی ولادت ۱۹۳۰؁ء میں خواجہ کلاں پٹنہ سٹی میں ہوئی تھی انہوں نے ابتدائی تعلیم محمڈن اینگلو عربک اسکول میں حاصل کی جس کو ان ہی کے اجداد نے سرسید احمد کی تحریک سے متاثر ہوکر ۱۸۸۴؁ء میں قائم کیا تھا۔ اس اسکول میں مرحوم سید صباح الدین عبدالرحمن نے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنی وفات کے وقت قیام الدین احمد صاحب اس اسکول کی انتظامیہ کے سکریٹری بھی تھے۔
۱۹۵۰؁ء میں انہوں نے تاریخ میں ایم۔ اے کیا اور ۱۹۵۲؁ء میں بہار ایجوکیشن سروس سے وابستہ ہوئے اور کاشی پرشاد جیسوال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا۔ اس ابتدائی دور میں وہ مشہور مورخ کے۔کے دتا کے ساتھ دو اہم کتابوں کی ترتیب و تدوین میں ان کے معاون رہے (’’بایوگرافی آف کنور سنگھ اینڈ امرسنگھ اینڈ بہار تھرودی ایجیز‘‘)۔
انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع سید احمد شہید کی تحریک کو بنایا جسے بدنام کرنے کے لیے وہابی تحریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس پر ۱۹۹۲؁ء میں انہیں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا اسی زمانہ سے مرحوم سید حسن عسکری، اے۔ایس۔ آر ٹیکاز فصیح الدین بلخی اور پروفیسر رام شرن شرما جیسے مشہور عالموں سے ان کی قربت بڑھی اور انہوں نے ان سے بڑا استفادہ کیا۔ ۱۹۹۴؁ء میں اپنے استاد رام شرن شرما کے اصرار سے جو ابھی باحیات ہیں، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ سے وابستہ ہوگئے اور علمی و تحقیقی کاوشوں میں مرتے دم تک مشغول رہے ۱۹۹۲؁ء میں تدریسی کاموں سے سبکدوش ہوگئے۔ ادھر کچھ عرصہ سے وہ اور پروفیسر سریندر گوپال صاحب پٹنہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے اصرار پر دوبارہ ہفتہ میں دوبار تدریس کا کام انجام دینے لگے تھے۔
قیام الدین صاحب کو تحریر و تصنیف کا اچھا سلیقہ تھا، انہوں نے ایک درجن سے زیادہ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں بعض کو انہوں نے ایڈٹ کیا ہے اور بعض ترجمے ہیں۔ ان کے مضامین کی تعداد ۱۵۰ سے متجاوز ہوگی جو زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں۔ ان کے اردو مقالے اور مضامین پٹنہ کے مشہور رسالۂ معاصر، میں طبع ہوئے ہیں۔ یہ مقالے وہابی تحریک، ہندو مسلم معاشرہ بہار کے علاقائی تاریخ عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی تاریخ و ثقافت، تحریک آزادی، تاریخی دستاویز، قلمی نسخے، شخصیات اور دیگر موضوعات سے متعلق ہیں۔ ان کی تلاش و جستجو سے بہار کی کتنی نایاب اور مفقود کتابیں منظر عام پر آئیں۔ دربھنگہ اور تبیاراج کے قیام کے متعلق اہم ترین دستاویز اور فرامین بھی شائع کیے۔ چند ماہ قبل انہوں نے نالندہ ضلع میں ہلسا کے قریب واقع اساڑھی میں سولہویں صدی کے بادشاہ اکبر کے ایک ہمعصر صوفی بزرگ شاہ سلطان کے مزار کو دریافت کیا تھا۔ اسی کے قریب واقع تلہاڑہ میں انہوں نے ایک سنگی مسجد کی تاریخی حیثیت کو نمایاں کیا اس انکشاف کے بارے میں راقم کو پچھلی ملاقات میں تفصیل سے بتایا تھا۔ یہ مسجد بہار کی قدیم ترین مسجد ہے۔ اس کی تعمیر بختیار خلجی کی آمد کے زمانے میں ہوئی تھی۔
ان کی اہم ترین کتاب ’’وہابی موومنٹ آف انڈیا‘‘ ہے۔ دوسری اہم کتاب ’’کارپس آف عربک اینڈ پرشین انسکرپشن آف بہار‘‘ ہے۔ دیگر کتابوں میں قومی تحریک کے اہم قائد بیرسٹر مظہرالحق کی سوانح عمری انہوں نے لکھی۔ البیرونی کی شہرۂ آفاق تصنیف کتاب الہند کو ایڈٹ کیا، چند اہم تواریخ کی کتابوں کا انہوں نے اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ مثلاً سید نورالحسن کی کتاب ’’سم تھاٹس آف ایگریرین ریلیشن ان مغل انڈیا‘‘ اور پروفیسر محمد حبیب و خلیق احمد نظامی کی ایڈٹ کی ہوئی معروف کتاب ’’دی دلی سلطنت‘‘۔
آل انڈیا ریڈیو سے انگریزی، ہندی اور اردو میں ان کی تقریریں اور مقالے برابر نشر ہوتے رہتے تھے۔ دوردرشن (رانچی)کے چوپال پروگرام میں قومی یکجہتی کے موضوع پر انہوں نے اپنے خیالات ظاہر کیے۔ ایس۔کے۔سنہا (موجودہ گورنر آسام) کے ساتھ انہوں نے پاٹ لی پتر سے پٹنہ تک دستاویزی فلم بنائی جو ۱۹۹۷؁ء کے پاٹلی پتر مہوتسو میں دکھائی گئی۔ وہابی تحریک پر بھی ایک دستاویزی فلم بنائی جو عنقریب پیش ہونے والی ہے۔
پروفیسر قیام الدین مختلف مذاکروں، سمیناروں اور علمی مباحثوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے، مئی ۱۹۸۵؁ء میں وہ اسلام اور عیسائیت کے مابین بین الاقوامی مکالمہ میں بھی شامل ہوئے تھے اور اس موقع پر روم میں انہوں نے پوپ جان دوم سے بھی ملاقات کی تھی۔
پروفیسر قیام الدین مختلف سرکاری، نیم سرکاری اداروں، انجمنوں اور اکیڈمیوں کے رکن تھے۔ بعض کے سکریٹری اور سرپرست بھی تھے، ان میں ساہتیہ اکیڈمی (نئی دلی) پبلیکیشن ڈیویژن (بھارت سرکار) بیورو فار انفارمیشن آف اردو (بھارت سرکار) N.C.E.R.T (این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی نئی دلی) انڈین ہسٹوریکل ریویو، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ، بہار اتہاس پریشد، خدا بخش لائبریری شامل ہیں وہ چند صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے رکن بھی تھے۔
راقم کو ایسے قابل ولایق دانشور سے تلمذ کا شرف حاصل ہے جس پر اس کو ہمیشہ ناز رہے گا، ان کو ۱۹۷۲؁ء سے ۱۹۷۳؁ء سے بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، ان کی عظیم عالمانہ اور محققانہ شخصیت ان کے چہرے سے ہی عیاں ہوتی تھی، وہ نہایت ہی کم سخن لیکن اصول و ضابطے کے بڑے پابند تھے۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو دوسرے شعبوں کے طلباء بھی اکثر ان کے لکچر سُننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ وقت کے نہایت ہی پابند تھے۔ میں جب بھی ان سے ملنے جاتا اس بات کا خاص لحاظ رکھتا تھا۔ علمی مباحثوں اور جلسوں میں ان کا انداز بیان ہمیشہ پُر لطف اور متین ہوتا تھا، وہ کوزے میں سمندر کو سمو دیتے تھے، ہمارے استاد محترم پروفیسر سمنت نیوگی موجودہ صدر شعبہ تاریخ پٹنہ یونیورسٹی ایسے موقع پر اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’او مائی گاڈ! ہی از سمپل اکسیلنٹ‘‘۔
بہت سے انگریز پروفیسر بھی ان کی اس خصوصیت کی تعریف کرتے تھے میں نے انہیں کی نگرانی میں اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری مکمل کی، اس کے موضوع ’’اردو تاریخ نویسی‘‘ پر کافی خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ (اناﷲ وانا الیہ راجعون) اور ان سے بہت کچھ حاصل کرنے کی تمنا دل ہی میں رہ گئی۔ ( دسمبر ۱۹۹۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...