Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حیات اﷲ انصاری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حیات اﷲ انصاری
ARI Id

1676046599977_54338393

Access

Open/Free Access

Pages

602

حیات اﷲ انصاری
افسوس ہے کہ ۱۸؍ فروری کو جناب حیات اﷲ انصاری کا انتقال ہوگیا، وہ مشہور صحافی ادیب، افسانہ نگار اور اردو تحریک کے رہنما تھے، ۱۹۱۱؁ء میں ان کی ولادت لکھنؤ میں ہوئی، فرنگی محل کے مشہور علمی و دینی خانوادے سے ان کا تعلق تھا، یہیں کے مدرسہ نظامیہ میں فارسی و عربی پڑھی اور درسیات کی تکمیل کی، اپنے والد مولانا وحیداﷲ کے انتقال کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب کیا۔ انٹرنس پاس کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی۔اے کیا۔
۳۷ء میں کانگریس کا ہفت روزہ اخبار ’’ہندوستان‘‘ ان کی ادبی و صحافتی سرگرمیوں کی جولان گاہ بنا۔ اب تو اس کا نام بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں لیکن اس وقت کے اکثر ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات اس میں چھپتی تھیں، یہ ۱۹۴۲؁ء کے ہنگامی دور میں بند ہوگیا اور ۱۹۴۵؁ء میں ’’قومی آواز‘‘ جاری ہوا تو اس کی ادارت حیات اﷲ صاحب نے اس طرح سنبھالی کہ وہ اور قومی آواز لازم ملزوم سمجھے جانے لگے، وہ اس کے بانی مدیر تھے، انہوں نے اس کا معیار و وقار بہت بلند کیا اور اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں، اس کے ذریعہ انہوں نے اردو اور مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی خدمت انجام دی اور ہندو مسلم فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی بھی لڑی۔ قومی آواز کی بدولت بہت سے لوگ اچھے صحافی بن گئے، ۳۰ برس بعد ۷۵؁ء میں وہ ریٹائر ہوئے، ان کے بعد بھی یہ اخبار نکلتا رہا، مگر اب ساقی تو موجود ہیں لیکن آں قدح بشکست قومی آواز سے الگ ہونے کے بعد بھی ان کو صحافت کا چسکا لگا رہا، کچھ عرصہ تک دہلی سے ہفتہ روزہ ’’سب ساتھ‘‘ نکالا۔
اردو شروع ہی سے ان کی دلچسپی اور سرگرمی کا محور رہی، وہ زندگی بھر اس کے فروغ، اس کی ترقی اور تعلیم و اشاعت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں انہوں نے اردو میں تقریر کی مہم چلائی اردو اڈیٹرس کانفرنس کے قیام اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل میں ان کا حصہ رہا، ۴۷؁ء کے بعد اردو پر بڑا سخت وقت آیا، اس زمانے میں قاضی عبدالغفار اور قاضی محمد عدیل عباسی کے دوش بدوش وہ بھی اردو کی قانونی اور دستوری لڑائی کے لیے اس کے ہر اول دستہ میں شامل رہے۔ آزادی سے پہلے پرانے لکھنؤ میں زور شور سے ’’تعلیم بالغان‘‘ کا کام شروع کیا اور آزادی کے بعد بالغوں کو ۱۰ روز میں اردو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لیے حیات اﷲ قاعدہ یعنیـ ’’دس دن میں اردو‘‘ تیار کیا، اسی سلسلے میں ’’دس دن میں ہندی‘‘ بھی لکھی۔ اس سے اردو والوں کو ہندی سیکھنے میں بڑی آسانی ہوئی۔
حیات اﷲ صاحب نے کچھ عرصہ گاندھی جی کے ساتھ سیوا گرام آشرم میں گزارا، وہاں بھی لوگوں کو اردو تعلیم دی، گاندھی جی کی واردھا اسکیم کے تحت اردو لیٹرسی تحریک کی بنیاد رکھی تاکہ کم وقت اور کم پیسے میں گھر گھر میں اردو کا رواج ہو۔ پرائمری اسکولوں میں اردو پڑھانے کا سلسلہ بند کردیا گیا تو انہوں نے ایک ہزار سے زیادہ مقدمے قائم کئے، اس کی وجہ سے پھر ان میں اردو پڑھائی جانے لگی۔ پرائمری سے ایم۔ اے تک اردو نصاب تیار کرنے اور اردو ٹرینڈ ٹیچر کی کمی پوری کرنے کے لیے بھی ان کی کوششیں بار آور ہوئیں۔
مرکزی و ریاستی انجمن ترقی اردو سے ان کا خاص تعلق تھا، ریاستی انجمن تو ان کی اور ان کی بیگم سلطانہ حیات ہی کی نسبت سے جانی جاتی تھی، وہ مرکزی حکومت کے ترقی اردو بورڈ کے چیئرمین بھی رہے، اترپردیش میں اردو کو علاقائی زبان تسلیم کرانے کے لیے انہوں نے دستخطی مہم چلائی اور ۲۰ لاکھ دستخط جمع کر کے صدر جمہوریہ کو پیش کیا۔
ان کے افسانے برصغیر کے معیاری رسالوں میں چھپتے تھے جن کے کئی مجموعے شایع ہوئے، ان کے ناول بھی مقبول ہوئے ’’لہو کے پھول‘‘ ان کا بڑا ضخیم ناول ہے۔ ان کو ان کی گوناگوں خدمات کی بنا پر مختلف اعزاز بھی عطا کئے گئے، حال ہی میں ہریانہ اردو اکادمی نے ایک لاکھ روپے پر مشتمل ’’حالی ایوارڈ‘‘ دیا تھا۔
سیاست ان کی گھٹی میں داخل تھی، آزادی کی تحریک اور کانگریس سے ان کی عملی وابستگی تھی، رفیع احمد قدوائی، جواہرلال نہرو اور گاندھی جی سے بڑے قریب تھے، نیشنلزم، سوشلزم اور گاندھیائی تصورات کی ان پر گہری چھاپ تھی اور وہ عمر بھر ان نظریات کی تبلیغ کرتے رہے، کئی برس تک یوپی لیجسلیٹو کونسل کے اور دوبار راجیہ سبھا کے ممبر رہے، کئی ملکوں کا سفر بھی کیا۔
وہ ایک مذہبی گھرانے کے فرد تھے اور مذہبی تعلیم بھی حاصل کی تھی، ان کی تحریروں کے منطقیانہ انداز اور طریقۂ استدلال سے بھی معقولات کے اچھے فاضل ہونے کا پتہ چلتا ہے، لیکن شروع میں ان کا رجحان کمیونزم کی طرف ہوگیا تھا اور وہ مذہب سے بھی برگشتہ ہوگئے تھے، بعد میں کمیونزم سے منحرف اور خدا کے قائل ہوگئے تھے مگر اس وقت بھی نیشنلزم اور گاندھی جی کے افکار ان کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے، مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی کے شدید مخالف تھے، متعدد ممتاز علماء سے ان کا ہمیشہ اختلاف رہا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی سے اکثر نوک جھونک رہتی، حیات اﷲ صاحب کے ناول ’’لہو کے پھول‘‘ خصوصاً اسکی ضخامت پر مولانا کا تبصرہ اور قومی آواز سے ان کے ریٹائر ہونے پر مولانا کا نوٹ اب بھی لوگوں کے ذہن میں ہوگا جس کا عنوان یہ مصرعہ تھا:
لذت عشق گئی غیر کے مرجانے سے
حیات اﷲ صاحب لکھنؤ کے دلکش تہذیبی رکھ رکھاؤ کا نمونہ تھے، ہمیشہ لکھنوی لباس زیب تن ہوتا تھا، لیکن لکھنو کی شاعری کے زیادہ معتقد نہیں تھے، البتہ میر انیس کا لوہا مانتے تھے، یہاں کی مشہور ’’شیعہ سنی کشمکش‘‘ سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا، وہ دونوں فرقوں کے اکابر کا احترام کرتے تھے اور دونوں کی تقریبات میں مدعو کئے جاتے تھے۔
مرحوم بڑے اچھے صحافی اور بہت مشاق اہل قلم تھے، اس کا اور ان کی طویل اردو خدمات کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی تھا۔ ان کی وفات اردو دنیا کا بڑا سانحہ ہے، دارالمصنفین اور شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان سے لطف و کرم کا معاملہ کرے۔ آمین !! (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۹۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...