Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شیخ عبدالعزیز بن باز

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شیخ عبدالعزیز بن باز
ARI Id

1676046599977_54338394

Access

Open/Free Access

Pages

603

شیخ عبدالعزیز بن باز
گزشتہ ماہ علامہ شیح عبدالعزیز بن عبدﷲ بن باز نے ۸۸ برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، انا ﷲوانا الیہ راجعون۔ وہ مملکت سعودیہ کے جلیل القدر عالم، مفتی اعظم، علمائے کبار کی سپریم کونسل نیز دارالافتاء اور مجلس بحوث علمیہ کے سربراہ رابطہ عالم اسلامی، الجمع الفقہی الاسلامی اور اس نوع کی متعدد عالمی سطح کی علمی و تحقیقی، دعوتی اور فلاحی انجمنوں اور اداروں کے اساسی رکن تھے۔ دارالمصنفین میں شیخ کی وفات کی خبر بڑے رنج و غم سے سنی گئی اور تغریت کے لیے برقیہ بھی بھیجا گیا۔
شیخ عبدالعزیز بن باز کتاب و سنت کے متبحر عالم، تقویٰ و طہارت، ﷲیت اور سادگی اور خلوص و خدمت کا مجسم پیکر تھے، ان کی وفات دنیائے اسلام کا بڑا سانحہ ہے اس سے پیدا ہونے والا خلا پُر نہیں ہوسکتا۔ ولکنہ بنیان قوم تھدما۔
شیخ ابن باز نہایت کم عمری میں آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئے، مگر اپنی غیر معمولی علمی و فقہی بصیرت کی بنا پر مملکت سعودیہ کے اہم مذہبی مناصب پر فائز ہوئے الجامعتہ الاسلامیہ ( مدینہ یونیورسٹی) کے پہلے وائس چانسلر کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہوا۔ مملکت کے مفتی عالم شیخ محمد ابراہیم کے انتقال کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے۔
مملکت سعودیہ میں ان کو غیر معمولی عزت و احترام حاصل تھا، سربراہان مملکت بھی ان کے ساتھ نہایت عزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے۔ ان کے جنازہ میں فرماں روائے مملکت شاہ فہد، اعیان مملکت اور شاہی خانوادہ کے علاوہ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
غرباء پروری اور مہمان نوازی ان کی گھٹی میں تھی، ان کی قیام گاہ پر ہمیشہ مہمانوں اور ضرورت مندوں کا جمگھٹ لگا رہتا اور وہ نہایت بشاشت کے ساتھ ان کی میزبانی کرتے اور حاجت روائی کرتے تھے، راقم الحروف کو صرف ایک مرتبہ ان سے مسجد نبوی میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وضع قطع اور لباس کی سادگی سے قرن اول کے مسلمانوں کا نمونہ معلوم ہوتے تھے۔
شیخ ابن باز مدۃالعمر مملکت سعودیہ کے حدود سے باہر نہیں نکلے۔ مگر پورے عالم اسلام کے حوادث و مسائل سے باخبر رہتے تھے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہتے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں کوئی فاسد عقیدہ رونما ہوتا یا کوئی فتنہ سر اٹھاتا تو وہ اس کی بیخ کنی کے لیے کمربستہ ہوجاتے اور اتمام حجت کی ہر ممکن کوشش کرتے، چنانچہ ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت کے المیہ اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے معاملات پر آواز بلند کرتے اور حکومت اور عام لوگوں کے جارحانہ رویے پر اپنے رنج و الم کا اظہار فرماتے، ان کی اسلامی خدمات کے اعتراف میں عالم اسلام کا عظیم ایوارڈ ’’جائزۃ الملک فیصل‘‘ ان کو پیش کیا گیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق تقریباً بیس لاکھ مسلمانوں نے ان کے جنازہ میں شرکت کی، مسجد حرام میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور قبرستان العدل میں تدفین ہوئی، علامہ ابن قیم کا جنازہ بھی اسی شان سے اٹھا تھا اور اس وقت کے ابن تیمیہ کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔
اﷲ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور مملکت سعودیہ کو ان کا بدل عطا فرمائے، آمین۔ (عارف عمری، جون ۱۹۹۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...