Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حکیم عبدالحمید

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حکیم عبدالحمید
ARI Id

1676046599977_54338398

Access

Open/Free Access

Pages

606

عبدالحمید، حکیم
’’ملک و ملت کا مسیحا نہیں رہا‘‘
بالآخر وہی ہوا جس کا کھٹکا مہینوں سے لگا تھا اور اس مسیحا نفس نے اپنی جان جان آفریں کو سپرد کردی، جس کی مسیحائی سے لاکھوں نے زندگی پائی تھی، حق یہ ہے کہ حکیم عبدالحمید کی وفات پر بھی وہی الفاظ دہرائے جائیں جو مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی وفات پر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے تحریر فرمائے تھے حکیم صاحب کی وفات خاندان کا ماتم نہیں، دلی کا ماتم نہیں، قوم کا ماتم ہے، فضل و کمال کا ماتم ہے، اخلاق و شرافت کا ماتم ہے، سنجیدگی و متانت کا ماتم ہے، عقل و رزانت کا ماتم ہے، آزادی و حریت کا ماتم ہے، اخلاق و ایثار کا ماتم ہے، ہندوستان اور مسلمانان ہند کے طالع و بخت کا ماتم ہے۔
؂ مرثیہ ہے ایک کا اور نوحہ ساری قوم کا
حکیم عبدالحمید کا دائرہ فیض و خدمت بہت وسیع تھا، ان سے پورا ملک مستفیض ہورہا تھا۔ ہمدرد کی دوائیں سکہ رائج الوقت کی طرح گھر گھر پھیلی ہوئی ہیں اس لیے آج سب ہی اس محسن اعظم کی جدائی پر اشک بار اور ماتم کناں ہیں۔
؂ عمت فواضلہ فعم مصابہ
حکیم صاحب جس بدنصیب ملت کے فرد فرید تھے اس میں بڑا قحط الرجال ہے، وہ تنہا اپنی ذات سے ایک انجمن، ایک ادارہ، ایک جماعت اور ایک قوم تھے، ان جیسے پیکر صدق و اخلاص اور سراپا خدمت و عمل کا اٹھ جانا عجب سانحہ اور ملت اسلامیہ کا زبردست خسارہ ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی تلافی کیسے ہوگی اور اس غم کا مداوا کیا ہوگا۔ بلا شبہ وہ اس عہد کے مسیح الملک، ابن سینا اور رازی تھے۔
حکیم عبدالحمید کا خاندان تجارت پیشہ تھا۔ یہ چینی ترکستان کے شہر کا شغر سے پشاور، ملتان، دہلی، پانی پت اور پیلی بھیت ہوتا ہوا ان کے دادا کے زمانے میں دہلی میں آباد ہوا، حکیم صاحب کے پدر بزرگوار حکیم عبدالمجید کی ولادت پیلی بھیت میں ہوئی تھی مگر پرورش و پرداخت دہلی میں ہوئی، بڑی مشکلات جھیلنے کے بعد وہ ہمدرد کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن ابھی چالیس ہی کے پیٹے میں تھے اور ہمدرد کو بلند دواخانہ بنانے کی جدوجہد کررہے تھے کہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۲۲؁ء کو ان کا وقت آخر آگیا، ان کے بڑے صاحب زادے عبدالحمید اس وقت ۱۴ سال کے تھے اور طبیہ کالج میں زیر تعلیم تھے، یہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۰۸؁ء کو پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت فضا ڈاکٹر اقبال کے ان شعروں سے گونج اٹھی ہوگی۔
نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد
فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور
خود گرے خود شکنے ، خود نگرے پیدا شد
والد کی وفات کے بعد نہایت روح فرسا اور ولولہ شکن حالات کا سامنا کرنا پرا مگر انہوں نے جلد ہی حالات پر قابو پالیا اور اپنی ساری قوت و توانائی صرف کرکے ہمدرد کو بام عروج پر پہنچا دیا اور ان کی فطری اور خداداد صلاحیتوں نے اسے والد کے تصور خیال سے بھی بہت آگے بڑھا دیا۔
حکیم عبدالحمید کی یاد گار اگر تنہا ہمدرد دواخانہ ہی ہوتا تو وہ ان کی عظمت، شہرت، نیک نامی اور ہندوستانی قوم کے فخر کے لیے کافی ہوتا مگر ان کی ہمت عالی نے دریا بھی قبول نہیں کیا اور ان کی قوت پرواز نے ستاروں سے آگے اور جہاں بھی تلاش کرلیے۔ چنانچہ ہمدرد وقف لیبورٹریز دہلی کے ماتحت مختلف سوسائٹیاں اور انسٹی ٹیوٹ قائم کردئے۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈ میڈیکل ریسرچ، ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن انڈیا، ہمدرد طبی کالج، مجیدیہ ہسپتال، ہمدرد کالج آف فارمیسی، جامعہ ہمدرد، غالب اکیڈمی، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ سینٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف فیڈرل اسٹڈیز، بزنس اینڈ امپلائمنٹ بیورو، ہمدرد ایجوکیشنل سوسائٹی، ہمدرد پرائمری اسکول، ہمدرد پبلک اسکول، ہمدرد اسٹڈی سرکل، رابعہ گرلس اسکول، رفیدہ نرسنگ اسکول، ہمدرد کوچنگ سینٹر وغیرہ ان کی کوہ کنی اور خار اشگافی نے تغلق آباد کے کھنڈروں پر ایک نیا جہاں آباد کردیا، یہیں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی شاندار لائبریری، حسین و جمیل مسجد، کنونشن سینٹر ہاسٹل، اسکالر ہاؤس، اسٹاف کوارٹرس، گیسٹ ہاؤس، کینٹین سب ہیں۔ اتنے سارے شعبے کئی کئی افراد اور ادارے تودر کنار حکومتیں بھی نہیں قائم کرسکتیں جو تن تنہا حکیم عبدالحمید کی سعی پہہم سے وجود میں آگئے ہیں۔
حکیم عبدالحمید کا خاص میدان عمل فن طب تھا۔ جس کی تجدید، احیا اور نشاۃ ثانیہ ان کا مشن تھا، وہ ہندوستان کے طبیب اعظم اور اس فن کے مجدد تھے، شریفی اور عزیزی خاندانوں کے اہل کمال کے خاتمے کے بعد آزاد ہندوستان میں ان ہی کی فراست ذہانت اور حذاقت نے مخالف ہوا میں بھی طب یونانی کا چراغ روشن رکھا، ان کے مجتہدانہ دماغ نے دور حاضر کے معیار و مذاق اور ضرورتوں و تقاضوں کے مطابق سائنٹفک دوائیں ایجاد کر کے طب یونائی کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کردیا۔ ان کے عزم و استقلال، جوش خدمت، مطب کی پابندی، فن کے ساتھ دیانت و ایمانداری، صفائی اور صحت وژن کے ساتھ اعلیٰ ادویہ کی تیاری اور خوش معاملگی نے ان کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ طب کے فروغ کے لیے خود بھی طبی ادارے اور تحقیقاتی مراکز قائم کئے اور ملک کے کسی گوشے میں اس کے جو ادارے قائم ہوئے، وہ ابھی ان کی توجہ کا مرکز رہے، گوناگوں مشغولیتوں اور کبر سنی کے باوجود ان اداروں کے پروگرام میں شریک ہوتے اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ۱۹۵۲؁ء سے وفات تک آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے صدر رہ کر بھی طب کی ترقی کا سامان کرتے رہے۔ سنٹرل کاؤنسل آف ریسرچ ان یونانی میڈیسین اور بہت سے مڈیکل اداروں کی مسند صدرارت کو بھی اسی لیے رونق بخشی، ان کو طبیہ کالج کے فارغین کا یہ طرز عمل پسند نہیں تھا کہ وہ یونانی طریقہ علاج چھوڑ کر ایلوپیتھک میں پریکٹس کریں۔
تعلیم کا فروغ بھی حکیم صاحب کی جدوجہد اور سرگرمی کا ایک میدان رہا ہے، جناب سید حامد کا یہ خیال بجا ہے کہ انفرادی طاقت تعلیم اور صحت سے بنتی ہے، ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن کے صدر نے پہلے صحت کی طرف دھیان دیا اور بعد میں تعلیم کی طرف، یونانی طب کو جو روبہ زوال تھی طاقت پہنچائی اور یونانی دواؤں کو جن کی دستیابی اور تیاری دونوں دشوار ہوچکی تھیں معیار بندی اور تجدید سے اعتبار عطا کیا، دواؤں کی فروخت سے جو یافت ہوئی اس کا بیشتر حصہ تعلیم اور روزگار کی مدوں میں لگادیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے اور دوسرے ہم وطنوں کی طرح انکو آگے کرنے کے لیے حکیم صاحب نے مختلف منصوبے اور اسکیمیں بنائیں۔ ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی عصری درس گاہوں کے ہونہار طلبہ کو قرض وظیفے دیتی ہے۔ ہمدرد کوچنگ سینٹر میں سول سروسز کے امتحان کی تیاری کا سلسلہ شروع کیا تا کہ مسلمان طلبہ کے لیے بھی ملازمتوں کے در کھلیں، ایجوکیشن سروے اعداد و شمار کی فراہمی کرکے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ حکیم صاحب قدیم علوم کے وارث اور مشرقی تہذیب کے پروردہ ہونے کے باوجود جدید سائنس کے علمبردار تھے، ان کا ذہن روشن اور فکر وسیع تھا، وہ نہ مشرق سے بیزار تھے اور نہ مغرب سے حذر کرتے تھے، ان سے دینی اداروں اور جدید تعلیم گاہوں دونوں کو فیض پہنچا مگر وہ دینی مدارس کی اس روش ’’آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ چلنا‘‘ سے مطمئن نہیں تھے وہ ان کو جامعۃ الہدایت جے پور کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیتے تھے۔
مختلف طبی، علمی اور تعلیمی اداروں سے حکیم صاحب کا گہرا تعلق تھا اور ہر ایک کو انہوں نے فائدے بھی پہنچائے، ۱۹۶۶؁ء میں الیکشن کے بغیر متفقہ طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا جو بڑے فخر و اعزاز کی بات ہے۔ شروع ہی سے ان کو دارالمصنفین سے بڑا لگاؤ تھا، وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے معزز رکن تھے، کبھی کبھی اس کے جلسوں میں بھی تشریف لاتے تھے، دو ایک بار ان کی سہولت کے خیال سے ہمدرد نگر ہی میں اس کا جلسہ ہوا، آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کانفرنس کا چھٹا اجلاس ۳۰؍ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۶۹؁ء کو دارالمصنفین میں ہوا، اس کی صدارت کے لیے ان کا نام تجویز کیا گیا تو دارالمصنفین سے تعلق کی بنا پر منظور کرلیا جیسا کہ فرماتے ہیں ’’اس صدارت سے آپ کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو مجھے یہ سعادت ضرور حاصل ہوگئی کہ اس بہانے اعظم گڑھ حاضر ہونے کا موقع مل گیا جو علوم اسلامیہ کی تحقیق کا ایک پرانا اور اہم مرکز ہے، جو علامہ شبلی نعمانی جیسے فاضل روزگار کا وطن اور ان کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کا ایک میدان رہا ہے اور جو دارالمصنفین جیسے ادارہ کو اپنے آغوش میں لئے ہوئے ہے جسے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور جواب بھی بہت سے علماء و فضلا کا مرکز ہے، مجھے دارالمصنفین میں حاضری سے اس لیے بھی خوشی ہوئی ہے کہ اس کی مطبوعات سے مجھے ۱۹۲۴؁ء سے ہی دلچسپی رہی ہے، معارف کے پرانے پرچے میں نے اسی سال یہاں سے منگوا کر مجلد کرائے تھے اور اس وقت سے اب تک میرا اس ادارہ سے تعلق ہے‘‘۔ اس خطبہ میں اعظم گڑھ سے بھی والہانہ تعلق اور بہت سی مفید باتوں کا ذکر ہے جس کو بہت پسند کیا گیا تھا۔
غیر علمی مشاغل میں شب و روز منہمک رہنے کے باوجود حکیم صاحب علم و فن کے دل دادہ اور مطالعہ و کتب بینی کے مریض تھے، ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے ہاتھ میں کتاب و قلم پکڑلیا تھا، علم و ادب اور مطالعہ و تحقیق ان کی گھٹی میں شامل تھے، ہر قسم کی چیزیں طب، سائنس، ادب و اسلامیات، تاریخ و تذکرہ کی کلاسیکل اور تازہ ترین تصانیف اور تحقیقی رسائل ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں اور وہ مشرق و مغرب کی جدید طبی و علمی تحقیقات سے برابر باخبر رہتے تھے، بڑھاپے میں بھی ان کی تحقیق و جستجو میں کمی نہیں آئی تھی، ہر وقت جاننے اور سیکھنے کی امنگ رہتی تھی۔ یورپ کے کئی سفر اس کے لیے اور وہاں کے نوادر دیکھنے کے لیے کئے تھے۔ صبح سویرے ملک کے قومی سطح کے انگریزی اور اردو اخبارات اور ملکی و غیر ملکی رسائل اور میگزین کا مطالعہ کرتے تھے اور ان کے مخصوص مضامین اور خبروں پر نشانات لگا کر متعلقہ شعبہ کو ان کے تراشے کاٹنے کے لیے بھیج دیتے اور یہ ہدایت بھی فرمادیتے کہ یہ تراشے کس نام کے فائل میں رکھے جائیں۔ اس طرح ملک اور مسلمانوں کے اہم مسائل کے متعلق مختلف عنوانات پر سینکڑوں ضخیم فائلیں تیار ہوگئیں جو سنہ وار مرتب ہو کر جامعہ ہمدرد کی مرکزی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ میری ایک کتاب قرآنیات جو پاکستان سے شائع ہوئی تھی، میں نے یہ جاننے کے باوجود کہ حکیم صاحب کو مطالعہ کا موقع کہاں ملتا ہوگا انہیں پیش کی تھی، چند روز بعد ڈاک سے ان کا گرامی نامہ ملا جس میں میری حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ایسی باتیں تحریر تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے پوری کتاب ملاحظہ فرمالی ہے۔ میں نے اپنے مخدوم بزرگ جناب مالک رام صاحب سے عرض کیا کہ آخر حکیم صاحب کب پڑھتے لکھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے مطالعہ کے مخصوص دن ہیں، ان دنوں میں کسی سے ان کی ملاقات نہیں ہوسکتی۔ خواجہ حسن نظامی ثانی صاحب ایک روز ان سے ملنے لال کنویں والے دفتر پہنچے وہ اس وقت تنہا چھت پر ایک چھوٹے سے تپتے ہوئے سائبان کے نیچے لکڑی کے ایک معمولی سے تخت پر بیٹھ کر جس پر ایک ٹاٹ کی بوری بچھی ہوئی تھی محو مطالعہ تھے۔
حکیم صاحب کے تحریری و تصنیفی کاموں میں ابن سینا کی شہرہ آفاق کتاب القانون فی الطب ہے جس کا صحیح نسخہ تیار کر کے تحقیق و تدوین کے بعد شائع کیا، اس پر ان کا عربی مقدمہ ہے، یہ پانچ جلدوں میں ہے، چھٹی جلد میں مصطلحات و لغات کا تذکرہ ہے، ایک جلد کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کرایا، ابن سینا کی دوسری اہم طبی تصنیف الادویۃ القلبیۃ کے ایک نسخہ کو بنیاد بنا کر انگریزی میں اس کا ترجمہ کرایا۔ اس کے شروع میں طب یونانی کے پس منظر پر بعض اہل قلم سے محققانہ مقالات لکھوائے۔ آل انڈیا طبی کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے ۵۲؁ء سے ۹۴؁ء تک جو صدراتی خطبات دیئے تھے انہیں ڈاکٹر خاور ہاشمی نے ’’خطبات حمید‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے مکتوبات تصوف (فارسی) کا اردو ترجمہ ایک صاحب کو اعزازیہ دے کر کرایا۔ متعدد انگریزی کتابیں بھی تالیف کیں یا اپنی نگرانی میں کرائیں، ان کا ایک تحریری میدان طبی و سائنسی صحافت بھی تھا۔ ہمدرد صحت کے وہ برسوں مدیر رہے، جس کے کئی اہم خاص نمبر نکالے، پندرہ روزہ ہمدرد بھی ان کی ادارت میں نکلا، کئی انگریزی میگزین بھی شائع کئے جن میں سہ ماہی اسٹڈیز ان ہسٹری آف میڈیسین اینڈ سائنس اور اسٹڈیز ان اسلام زیادہ مشہور ہیں۔ حکیم صاحب کی تحریر ماقل و مادل ہوتی تھی۔ وہ کم سے کم لفظوں میں اپنا مدعا پوری طرح واضح کردیتے تھے۔ حکیم صاحب نے صلہ و ستایش سے بے پروا ہوکر علم و فن کی جو عظیم الشان خدمات انجام دیں ان کے اعتراف میں انہیں پدم شری اور پدم بھوشن کے قومی اعزاز عطا کئے گئے۔ سویٹ روس سے ابن سینا اوارڈ، ہمدرد یونیورسٹی کراچی نے اعزازی اوارڈ اور ڈی لٹ دیا اور ایرانی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے اعزازی ممبر تھے۔ اردو کے مشہور اہل قلم مالک رام نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ’’نذرحمید‘‘ مرتب کی۔
حکیم صاحب دین دار اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے لیکن ان میں توسع اور وسیع المشربی تھے، ہر مسلک و عقیدہ اور ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے اور وہ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں مقبول اور غیر مسلموں کے بھی معتمد تھے، ان کی سیرت کا سب سے اعلیٰ جوہر خلق خدا کی خدمت اور نفع رسانی تھا، بڑی دلکش صفات و خصائل کے مالک تھے، دولت کی فراوانی اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان میں بلا کی سادگی اور انکسار تھا۔ ان کی اپنی ذات پر ۱۰۰ روپئے ماہوار سے زیادہ خرچ نہ ہوتا لیکن دوسروں پر خرچ کرنے میں حاتم تھے، قومی اور تعلیمی امور پر بے دریغ خرچ کرتے، صبر و قناعت کے خوگر تھے، بناوٹ اور تکلفات سے ان کی زندگی بری تھی، لباس، رہن سہن اور کھانے پینے میں بڑی سادگی تھی، کمرے میں نہ دری نہ چاندنی اور نہ ایرکنڈیشنر لگایا۔ پنکھے کے بھی عادی نہ تھے، سخت ٹھنڈک میں ہیٹر نہ استعمال کرتے، صبح ٹھنڈے پانی سے نہاتے، ۸۰ برس کی عمر میں سید شہاب الدین دسنوی صاحب نے اس کے لیے کہا تو فرمایا کہ بوڑھا ہوں گا تو گرم پانی سے نہاؤں گا، کپڑے میں پیوند لگے ہوتے، اپنا رومال، بنیان اور موزے وغیرہ خود ہی دھولیتے، بہت پرانے کپڑے اور جوتے ان کے استعمال میں رہتے۔ عرصے سے نئے کپڑے اور جوتے نہیں خریدتے تھے کہ جو ہیں وہی عمر بھر کام دے دیں گے۔ کبر وغرور، فخر و تعلی اور ریا و نمود کا شائبہ بھی ان میں نہ تھا، اپنے حیرت انگیز اور عظیم الشان کارناموں کی تحسین کے کبھی متوقع نہیں ہوئے، بلکہ ان کو اس کے تذکرے سے بھی وحشت اور گھبراہٹ ہوتی تھی اور جب کوئی داد و تحسین دیتا تو بڑی عاجزی اور ناگواری سے اسے سن لیتے۔ حکیم صاحب کی زبان پر کبھی نازیبا اور تہذیب سے گرا ہوا لفظ نہیں آیا، انہیں کسی کو برا کہتے ہوئے نہیں سنا گیا، جو لوگ دق کرتے اور پریشانی کا موجب بنتے ان پر بھی غصہ نہ ہوتے، ضبط، تحمل اور برداشت میں بے مثال تھے، کبھی کسی کی سرزنش نہ کرتے۔ ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیتے اور انتقام کا خیال بھی دل میں نہ لاتے، کہتے تھے کہ انتقام لینے سے پہلے اس پر غور کرلینا چاہئے کہ شاید یہ ہمارے امکان میں نہ ہو یا ہم اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں، لیکن عفو و درگزر بہرحال ہمارے بس کی بات ہے اور ہم اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں، ہم عفو و درگزر کر کے شاید قتل کے بغیر و شمن کو مغلوب کرسکتے ہیں۔
سستی اور کاہلی ان کے قریب بھی نہ پھٹکتی، نہایت تیزی سے کام کرتے، ان کی تیز رفتاری کا کوئی ساتھ نہیں دے سکتا تھا، تاہم مردم سازی ان کی خصوصیت تھی اس لیے اپنے مقصد کے افراد تیار کرلیتے، وہ لوگوں کی اصلاح و تربیت زبان کے بجائے عمل سے کرتے، دوسروں سے کام لینے اور کام کرنے کا فن بھی جانتے تھے، حکیم صاحب کی دوربینی لوگوں کی صلاحیتوں کا اندازہ کرلیتی۔ لیکن ان کی لینت و مروت کی وجہ سے بہت سے بے صلاحیت لوگ بھی ان سے چپکے رہتے جن کو وہ اپنے حکمت عملی سے کسی نہ کسی درجہ میں کارآمد بنالیتے، اس طرح کے بعض لوگ نقصان پہنچانے کے درپے رہتے مگر حکیم صاحب کے دریائے کرم کا بہاؤ ان کی جانب بھی رہتا اور وہ برخواست نہ کئے جاتے، وہ تقلیل کلام، تقلیل طعام اور تقلیلِ منام پر ہمیشہ عمل پیرا رہے۔ نہایت کم سخن تھے، بس ہاں ہوں میں جواب دیتے، ایک مرتبہ ان کو اور بشیر حسین زیدی صاحب کو اعظم گڑھ سے بابت پور کے لیے نکلنے میں دیر ہوگئی، اندیشہ تھا کہ جہاز چھوٹ جائے گا، میں ساتھ میں تھا، زیدی صاحب راستہ بھر پریشانی اور گھبراہٹ ظاہر کرتے رہے مگر حکیم صاحب بالکل خاموش تھے، ان پر کسی طرح کی گھبراہٹ نہ تھی جب پہنچے تو جہاز آنے میں کچھ تاخیر تھی، زیدی صاحب نے فرمایا کہ حکیم صاحب میں آپ کی کرامت کا قائل ہوگیا۔ غذا بہت کم تھی، صبح ناشتہ اور رات کو ہلکا کھانا کھاتے، روغنی غذاؤں سے پرہیز کرتے، چائے، پان اور سگریٹ کو کبھی منھ نہیں لگایا۔ دوسروں کو پرتکلف کھانا کھلاتے، مجھے ان کی بعض دعوتوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ہے، وہ مہمانوں کی خاطر سے بیٹھے رہتے مگر خود کچھ نہ کھاتے، کم خفتن پر بھی عمل تھا، رات میں جلد سوجاتے اور فجر سے بہت پہلے بیدار ہوجاتے، دن میں آرام نہ کرتے وقت اور معمولات کے پابند تھے، ان کا ایک لمحہ بھی رائگاں نہ جاتا، تفریح اور مجلس آرائی سے ہمیشہ دور رہے، ایک صاحب کو اپنے دفتر میں چھ بجے کا وقت دیا، وہ پہلے ہی آگئے اور حکیم صاحب کو نہ پاکر سخت برہم ہوئے، جب چھ بجا تو حکیم صاحب آگئے، معمولات کی پابندی کا یہ حال تھا کہ صبح میلوں پیدل ٹہلنے کے عادی تھے، آندھی ہو، مینہ برسے، طوفان آئے صبح کے ٹہلنے میں ناغہ نہ کرتے۔
بے حد مشغول رہنے کے باوجود حکیم صاحب لوگوں سے تعلق بھی رکھتے تھے، ہر چھوٹے بڑے سے انتہائی خلوص، خوش اخلاقی اور تواضع سے پیش آتے، ان کی شادی، غمی اور رنج و راحت میں شریک رہتے، میں ایک دفعہ آصف علی روڈ کے مطب میں ان سے ملنے گیا، مریضوں کا تانتا لگا تھا وہاں سے نکلنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہوگیا، عین وقت پر حکیم صاحب بھی تشریف لائے اور مجھے دیکھ کر فرمایا ابھی یہیں ہیں۔ احباب سے ملاقات کے لیے جاتے۔ مہمانوں اور عزیز و اقارب کی خاطر داری کرتے اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے بھی وقت نکال لیتے، دلی کی ادبی و ثقافتی تقریبات میں بھی شریک ہوتے، اپنے چھوٹے بھائی حکیم محمد سعید سے غیر معمولی محبت تھی، وہ ۴۸؁ء میں پاکستان جانے لگے تو انہیں بڑا صدمہ تھا، ایسے شیر و شکر اور ایک جان دو قالب بھائی تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گے، ان کے بے رحمانہ قتل نے ان کو نڈھال کردیا تھا اور زیادہ دنوں تک ان کی جدائی برادشت نہیں کرسکے حالانکہ وہ مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے۔
ان کی زندگی کا ایک بڑاتابناک کارنامہ ان کی تعمیرات ہیں، وہ اس عہد کے شاہ جہاں تھے، انہوں نے تغلق آباد کے خرابے کی نوے ایکڑ زمین پر خوبصورت اور سربفلک عمارتوں کا ایک شہر ہمدرد نگر کے نام سے بسادیا، عمارتوں کے نقشوں کو آخری منظوری وہ خود دیتے تھے۔ تغلق آباد کی پر شکوہ عمارتیں، آصف علی روڈ پر ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن اور تعلیم آباد میں ہمدرد پبلک اسکول کی عمارتیں ان کے اعلیٰ ذوق کا نمونہ ہیں جو دلی کا حسن دو بالا کرتی ہیں۔ غرض حکیم صاحب ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخص تھے، وہ بیسویں صدی کے عظیم ترین اور نابغہ روز گار انسان تھے جو قدرت کی بے اندازہ فیاضیوں کا مظہر بن کر عالم وجود میں آئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں بہشت بریں عطا کرے، آمین!
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
(ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۱۹۹۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...