Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالرؤف رحمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالرؤف رحمانی
ARI Id

1676046599977_54338408

Access

Open/Free Access

Pages

613

مولاناحکیم زماں حسینی
افسوس ہے کہ ۲۳؍ دسمبر کو کلکتہ کے مشہور و باوقار عالم مولانا حکیم زماں حسینی وفات پاگئے۔ اناﷲ و اناالیہ راجعون۔
وہ علم و عمل میں پختگی و استقامت، زہد و اتقاء میانہ روی اور ذاتی وجاہت کی بناء پر کلکتہ کے علمی و دینی حلقوں میں بہت مقبول تھے، ان کا تعلق کلکتہ سے تھا مگر اپنی علمی و دینی وجاہت متوازن شخصیت، پاکیزہ سیرت، اصابتِ رائے اور معاملہ فہمی کی وجہ سے پورے ملک میں باوزن اور قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔ ان کے دل میں قوم و ملت کا درد تھا، اس لیے مسلمانوں کی موجودہ تباہی اور زبوں حالی سے بہت بے چین رہتے تھے، کلکتہ کے علمی و تعلیمی اداروں کے علاوہ وہ ہندوستان کے بھی ممتاز دینی و تعلیمی اداروں اور قومی و ملی تنظیموں سے وابستہ تھے۔ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنو اور دارالعلوم دیو بند جیسے عالمگیر شہرت کے حامل اداروں کے عرصے سے اہم رکن تھے اور ان کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ امارت شرعیہ بہار واڑیسہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے بھی سرگرم ممبر تھے۔ دارالمصنفین سے مخلصانہ تعلق رکھتے تھے، ہم لوگوں میں سے کوئی اگر کلکتہ پہنچ جاتا تو بہت خوش ہوتے اور لطف و مدارات سے پیش آتے۔
مولانا سید حسین احمد مدنی ؒکے ارشد تلاندہ میں تھے، ان سے غیر معمولی عقیدت ہی کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ حسینی لکھتے تھے، دینی علوم میں اچھی دستگاہ تھی، فن تفسیر سے زیادہ مناسبت تھی، مفسر قرآن کہلاتے تھے، قدرت نے حسن بیان اور تاثیر کی نعمت بخشی تھی، ان کے درس قرآن کی شہرت تھی، برسوں کولوٹولہ کی مسجد میں قرآن پاک کی تفسیر بیان کی، روزنامہ آزاد ہند کے ہفت وار ایڈیشن میں ان کی تفسیر برابر شایع ہوتی تھی۔ ان کو حکمت و اسرار دین سے بھی اچھی واقفیت تھی جس کا اندازہ ان کی گفتگو اور تحریر سے ہوتا تھا۔
وہ بڑے حاذق طبیب تھے، حذاقت کی وجہ سے ان کے مطب میں کثرت سے مریض آتے تھے، طب و حکمت کی مصروفیت اور قومی و ملی اشغال سے تعلق کے باوجود مطالعہ و تصنیف کا مشغلہ بھی جاری تھا، بعض جرائد و رسائل میں ان کے مضامین چھپتے تھے، جن کا ایک مجموعہ ’’مقالات شریعت و حکمت‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوا تھا۔ چند اور رسائل بھی شایع ہوئے، ان کے قلم سے سب سے اہم اور بیش قیمت تحریر ’’سیرت شیخ ابن سینا کے بعض پہلو اور القانون فی الطب کا مطالعاتی جائزہ‘‘ کے نام سے نکلی، یہ دراصل ان کا وہ مبسوط مقالہ تھا جو ایشیاٹک سوسائٹی کے سمینار کے لیے لکھا گیا تھا۔ مولانا حکیم زماں صاحب اگرچہ کم لکھتے تھے مگر جو کچھ لکھتے تھے غور و فکر اور مطالعہ کے بعد لکھتے تھے اس لیے ان کی تحریریں پرمغز ہوتی تھیں۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا، علمی و دینی رسالے اور نئی مطبوعات برابر پڑھتے تھے، میں غالباً ۱۹۷۶؁ء میں پہلی مرتبہ ان سے کلکتہ میں ملا توفرمایا کہ ’’میں تمہارے مضامین برابر پڑھتا رہا ہوں، سمجھتا تھا کہ تم معمر ہوگے‘‘۔ وہ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے انتقال کے بعد رسالہ برہان کے نگراں ہوگئے تھے۔
حکیم صاحب قدیم تہذیب و شرافت کی یاد گار اور اسلاف کی علمی و دینی روایتوں کے امین تھے، اﷲ تعالیٰ دین و ملت اور علم و حکمت کے اس خادم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین! (ضیاء الدین اصلاحی، جنوری ۲۰۰۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...