Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338413

Access

Open/Free Access

Pages

615

مولانا سیدابوالحسن علی ندوی
داعی الیٰ اﷲ کی وفات
افسوس اور سخت افسوس ہے کہ محفلِ دوشیں کا وہ چراغ سحر جو پچھلے برس ہی سے ضعف و مرض کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر سنبھل جاتا تھا بالآخر ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔ یعنی اس دور کے بہت مقبول و مقدس بزرگ، دنیائے اسلام کے محبوب و محترم عالم، عرب و عجم کی سرمایہ افتخار و نازش ذات، شرق و غرب کی موقر و مکرم ہستی، ہر فرقہ و مذہب کے معزز و معتمد شخص، انسانیت کے پیام رساں اور علمبردار، مسلمانوں کے راہبر و رہنما، دین و مذہب کے عاشق و شیدائی، اسلام کے داعی و نقیب، ایمان و یقین کے حامل و مبلغ، عزیمت و جہاد کے پیکر، خانہ کعبہ کے کلید بردار، ہندوستان میں سرمایہ ملت کے نگہبان، ندوۃ العلماء کے ناظم، دارالمصنفین کے روح رواں، مسلم پرسنل لابورڈ اور دینی تعلیمی کونسل کے صدر، رابطہ عالمِ اسلامی اور مدینہ یونیورسٹی کے تاسیسی رکن، رابطہ ادب اسلامی کے بانی و صدر اسلامی سینٹر آکسفورڈ یونیورسٹی کے چیرمین اور ہندو بیرونِ ہند کے مختلف اداروں اور انجمنوں کے سربراہوں اور سرپرست حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے ۲۲؍ رمضان المبارک ۱۴۲۰؁ھ، ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹؁ء کو اس سرائے فانی کو الوداع کہا، انا ﷲ وانا الیہ راجعون، اور اپنے لاکھوں عقیدت مندوں، قدردانوں، رفیقوں اور عزیزوں کو غم زدہ اور سوگوار چھوڑ کر زبان حال سے یہ کہتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔
اضا عونی وای فتی اضا عوا
لیوم کریھۃ و سدا و ثغر
بیسویں صدی کے اختتام سے ایک برس پہلے جب شمسی سال کے ختم ہونے میں ایک دن رہ گیا تھا تو یہ المناک اور دل دوز خبر بجلی بن کر گری۔
نعی الرکب اوفی حین آیت رکا بھم
لعمری لقد جاؤ ابشر فاوجعوا
نعواباسق الا فعال لایخلفونہ
تکاد الجبال الصم منہ تصدع
عین نصف النہار کے وقت وہ آفتاب عالم تاب غروب ہوگیا جس سے ہندوستان اور پوری دنیائے اسلام منور تھی، اس وجود مقدس کا خاتمہ ہوگیا جس کے ذکرِ جمیل سے مسجدیں، خانقاہیں، مدارس، جدید تعلیم گاہیں، یونیورسٹیاں اور سیاست و حکومت کے ایوان پرُشور رہتے تھے، وہ برگزیدہ ہستی معدوم ہوگئی جس کے ایک ہاتھ میں جامِ شریعت اور دوسرے میں سندانِ عشق تھا، وہ خیرِ کارواں رخصت ہوا جس کا شغل ذکر کے ساتھ فکر اور جس کا معمول تسبیح و مناجات کی طرح و سعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل تھا۔ وہ نہ ملت کے جوانوں کی طرح نخچیر زمانہ تھا اور نہ پیرانِ کہن سال کی طرح بیگانہ ایام۔ یہی وہ چراغ تھا جس سے علم و عرفان اور شرعیت و طریقت کی بزم روشن تھی، اس کے فیض سے ایمان کی بادبہار چل رہی تھی، معرفت و یقین کی دوکان آراستہ تھی، دریائے علم رواں اور دوائے دل ارزاں تھی، اس کی ذات لکھنؤ اور رائے بریلی میں فضل و کمال، محبت و معرفت، یقین و نگاہ اور رشدو ہدایت کی شمع فروزاں تھی، اس کی ہستی سیرت و خلق محمدی، شاہ علم اﷲ کے زہد و ریاضت، سید احمد شہید کے جہد و جہاد اور مولانا عبدالحئی کے علم و دانش کا مجموعہ تھی اور اس کی ذات میں اسلاف اور اپنے بزرگ اجداد کی بہت سی روایات و خصوصیات اکٹھا ہوگئی تھیں، ارشاد و ہدایت، و عظ و نصیحت، درس و تدریس، تلاش و مطالعہ، تحریر و تصنیف اور دین و ملت کی راہ میں جاں فروشانہ جذبہ اور مجاہدانہ اخلاص۔
ولیس علی اﷲ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
۲۲؍ رضان المبارک کو جمعہ کی نماز پڑھ کر بعض اعیانِ شہر کے ساتھ اپنی رہایش گاہ کے سامنے صحن میں بیٹھا تھا کہ شہر کے ایک صاحب کے فون سے اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع ملی۔ تصدیق اور تدفین کا وقت معلوم کرنے کے لیے لکھنؤ اور رائے بریلی فون کرایا مگر پتہ نہیں چلا، خبر پھیلی تو دارالمصنفین کے احاطہ کے لوگ، شبلی کالج کے اساتذہ اور شہر کے بعض حضرات میری قیام گاہ پر جمع ہوگئے، ڈاکٹر مسیح الرحمن لکچرر شبلی کالج نے لکھنؤ میں اپنے بڑے بھائی مولانا سعیدالرحمن اعظمی کے یہاں فون کرایا تو خبر کی تصدیق ہوگئی اور ۳۰:۴ بجے میں ان کے اور اپنے رفقا، عزیزوں اور ڈاکٹر سلمان سلطان رکن مجلسِ انتظامی دارالمصنفین کے ساتھ روانہ ہوا، مگر تکیہ سے ۳ کلو میٹر پہلے ہی گاڑی روک دی گئی، ہم لوگ پیدل چل پڑے، راستے میں آدمی ہی آدمی تھے، کچھ تو نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہو کر واپس آرہے تھے اور کچھ بے تابانہ تدفین میں شریک ہونے جارہے تھے ہم لوگوں کو جنازے کی سعادت سے محروم رہ جانے پر بڑا قلق ہوا، دو تین گھنٹے گزار کر بہ مشکل مولانا کے خواہر زادگان مولانا سید محمد رابع اور مولانا سید واضح سے ملاقات کر کے ۸ بجے صبح اعظم گڑھ واپس اس حال میں آئے۔
اذامادعوت الصبر بعدک والبکا
اجاب البکا طوعاولم یجب الصبر
کئی روز تک گم صم رہا، کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا، قلم اٹھانے کا یارانہ تھا، حیص بیص میں دن بیت گئے، ہفتے گزر گئے، جنوری کے آخری عشرے میں مولانا مستقیم احسن نے بمبئی سے فون کیا، ’’ابھی تک معارف نہیں پہنچا، مولانا پر مضمون کا شدید انتظار ہے‘‘ حکیم محمد مختار اصلاحی اور پروفیسر خورشید نعمانی ردولوی اور دوسرے قدردانِ معارف کی طرف سے بھی ماتمی تحریر کے لیے بے قراری ظاہر کی گئی۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو زمانے پہ کیا گزری
اس پیہم تقاضے اور شدید اصرار نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا مگر اسی اثنا میں اعظم گڑھ میں فساد کی آگ بھڑک اُٹھی جس کی زد سے دارالمصنفین بھی محفوظ نہیں رہا، نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا ظلمات بعضھا فوق بعض [النور:۴۰] کا منظر تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی وفات نہ تنہا ان کے عزیزوں اور نیاز مندوں کا حادثہ ہے اور نہ دارالمصنفین اور ندوۃالعلماء کی دنیا ویران ہوئی ہے، بے شمار ادارے تنظیمیں اور انجمنیں بے رونق ہوگئی ہیں، امتِ مرحومہ کا سرمایہ اعتماد جاتا رہا، عالم اسلام کا سہارا ختم ہوگیا، تباہ و خستہ حال ہندوستان کا غم خوار چلا گیا، آہ وہ پُردرد آواز خاموش ہوگئی جو نصف صدی تک ہندوستان اور دنیائے اسلام کے ہر سانحہ پر صدائے صور بن کر بلند ہوتی تھی، واحسرتا وہ بے قرار دل ساکت ہوگیا جو اسلام اور مسلمانوں کی ہر مصیبت پر تڑپتا اور تڑپاتا تھا، وااسفاوہ اشک آلود آنکھیں بند ہوگئیں جو دین و ملت کے ہر غم میں خوں بار رہتی تھیں، بائے اس پرجوش سینہ کا تلاطم ختم ہوگیا جو آلام و مصائب کے پہاڑوں کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتا تھا، ہم کس کس چیز کا ماتم کریں اور کس کس کے لیے روئیں، وہ ایک فرد نہیں ایک قوم، ایک شخص نہیں ایک ملت اور تنہا نہیں مجموعہ صفات و کمالات تھا۔
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا پدری سلسلہ حضرت امام حسنؓ پر اور مادری سلسلہ حضرت امام حسینؓ پر منتہی ہوتا ہے۔ حضرت امام حسنؓ کے صاحب زادے حسن مثنیٰ سے امام حسینؓ کی چھوٹی دختر فاطمہ صغریٰ منسوب تھیں، اس لیے ان کے خاندان کو حسنی حسینی کہا جاتا ہے، اس خاندان کے پہلے بزرگ جو مدینہ منورہ سے ہندوستان تشریف لائے وہ امیر قطب الدین محمد المدنی تھے جو شیخ عبدالقادر جیلانی کے بھانجے اور جلیل القدر ولی تھے، انہوں نے کڑامانک پور اور اس کے نواح کو نور اسلام سے منور کیا۔ کڑا میں ان کی اولاد تقریباً ایک صدی تک عزت اور نیک نامی کی زندگی بسر کرتی رہی، جب اس خانوادے کے ایک بزرگ میر سید قطب الدین محمد ثانی کو جائس کا قاضی مقرر کیا گیا تو وہ وہاں منتقل ہوگئے، ان کے بیٹے سید علاء الدین نصیرآباد کے قاضی ہوکر وہاں جابسے ان کے ایک پوتے قاضی سید احمد تھے جن کے فرزند سید محمد معظم کے دو نامور فرزند تھے، سید محمد فضیل اور سید محمد اسحق۔ اول الذکر حضرت سید آدم بنوریؒ کے جلیل القدر خلیفہ اور ممتاز عارف باﷲ حضرت شاہ علم اﷲ کے والد بزرگوار تھے جن کی پانچویں پشت میں مردِ حق آگاہ اور مجاہد کبیر حضرت سید احمد شہیدؒ پیدا ہوئے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی موخرالذکر کی نسل سے تھے جن کی نوائے حق ااور نالہ درد سے عرب و عجم گونج رہا ہے ؂
سالہا گوشِ جہاں زمزمہ زا خواہد شد
زیں نواہا کہ دریں گنبد گردوں زدہ ام
خاندان قطبی کی دونوں شاخوں میں اتنے اولیاء، علماء اور مشائخ پیدا ہوئے کہ کم خاندانوں میں ہوئے ہوں گے، مولانا علی میاں کے جدا مجد مولوی حکیم سید فخرالدین خیالیؔ علمی باطنی کمالات سے مالا مال تھے، فارسی، اردو خاص کر بھاشا کے اچھے اور صاحبِ دیوان شاعر تھے، ان کی اکثر تصنیفات تلف ہوگئیں لیکن جو محفوظ رہ گئی ہیں وہ بھی کم نہیں ’’مہر جہاں تاب‘‘ بڑی عجیب اور اہم ہے جس کے حصہ اول کا تیسرا دفتر عربی، فارسی، اردو اور بھاشا کے شاعروں کا تذکرہ ہونے کی بنا پر اردو کے ناقدوں اور محققوں کا بھی مرکزِ توجہ ہے، ان کے فرزند اور مولانا علی میاں کے پدر بزرگوار مولانا حکیم سید عبدالحئی سابق ناظم ندوۃ العلماء نے عربی میں نزھۃ الخواطر اور الثقافتہ الاسلامیۃ فی الھند اور اردو میں ’’گل رعنا‘‘ یاد گار چھوڑیں جو ہمیشہ حوالے اور مرجع کا کام دیں گی۔ مولانا علی میا ں کا نانہال بھی علمائے کبار اور اولیائے عظام سے معمور تھا۔
ایں سلسلہ از طلائے ناب است
ایں خانہ تمام آفتاب است
سید محمد فضیل کے فرزند حضرت شاہ علم اﷲ حرمین شریفین کے مستقل قیام کے ارادے سے نصیرآباد سے روانہ ہوئے اور رائے بریلی میں جہان آباد پہنچے تو ایک بزرگ مجذوب کے کہنے سے ارادہ تبدیل کردیا اور جنگل میں دریائے سئی کے کنارے مٹی اور پھوس کا ایک مکان اور مٹی ہی کی مسجد تعمیر کر کے طرحِ اقامت ڈال دی، قریب کے ایک گاؤں لوہانی پور کے زمیندار دولت خاں نے پختہ دس بیگھ زمین نذر کی۔ جو آگے چل کر دائرۂ شاہ علم اﷲ یا تکیہ کے نام سے موسوم ہوئی۔ شاہ علم اﷲ کے بنی اعمام نصیر آباد ہی میں سکونت پذیر رہے، جب یہاں کے مولانا سید عبدالعلی نصیر آبادی کی شادی مولانا سید محمد ظاہر کی جو حضرت شاہ علم اﷲ کی پانچویں پشت میں تھے دو صاحب زادیوں سے یکے بعد دیگرے ہوئی تووہ نصیر آباد سے ترکِ سکونت کر کے دائرۂ شاہ علم اﷲ رائے بریلی منتقل ہوئے، اسی مقتدر خاندان میں آگے چل کر مولانا علی میاں کی ولادت ہوئی اور دائرۂ شاہ علم اﷲ یاتکیہ ان کا مولود و منشا بنا۔
بلاد بھاتمت علی تمائمی
واول ارض مس جلدی ترابھا
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی تسمیہ خوانی تکیہ رائے بریلی میں ہوئی اور مکتبی تعلیم امین آباد لکھنؤ کے محلہ بازار جھاؤ لال کی مسجد نوازی کے مکتب میں پائی، یہ محلہ اب محمد علی لین کہلاتا ہے، یہاں ان کے والد کا مکان اور مطب تھا۔ ابھی وہ نو دس برس ہی کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا اس لیے اس کو چھوڑ کر تکیہ آنا پڑا مگر جلد ہی ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید عبدالعلی سابق ناظم ندوۃالعلماء نے بھی اسی محلہ میں اپنا مطب شروع کیا تو ان کو بھی لکھنو بلالیا اور بڑی شفقت اور دل سوزی سے ان کی سرپرستی اور تربیت کی۔ مولانا کو اردو کا اچھا ذوق اور شعر فہمی کی صلاحیت یہیں پیدا ہوئی، انہوں نے لکھنو یونیورسٹی سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کے امتحانات دئے، اپنے پھوپھا مولانا سید محمد طلحہ پروفیسر اورینٹل کالج لاہور سے صرف و نحو کی مشق کی، دارالعلوم ندوہ سے استفادے کا آغاز ہوا، مولانا شبلی جیرا جپوری سے فقہ اور مولانا حیدر حسن خاں سے حدیث کی کتابیں پڑھیں، ۲۹؁ء میں لاہور کا سفر کیا، مولانا سید محمد طلحہ کے ہم راہ علامہ اقبال اور دوسرے ناموروں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اگلے برسوں میں پھر جاکر مولانا احمد علیؒ سے مولانا عبید اﷲ سندھیؒ کے طرز تفسیر و فکر کے مطابق قرآن مجید اور جحۃ اﷲ البالغہ کا درس لیا، اس طرز میں اس سے پہلے ان کے خواجہ تاش خوا جہ عبدالحئی فاروقیؒ استاد تفسیر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بھی اپنے گھر پر قرآن شریف کی بعض سورتیں پڑھ چکے تھے، ۳۲ء میں مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے درسِ حدیث میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، ان سے بعض قرآنی مشکلات میں رہنمائی کے بھی طالب ہوئے۔
برصغیر میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی عربی کے سب سے ممتاز انشا پر داز اور مصنف تھے، اس کی تعلیم کا آغاز ۱۹۲۴؁ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر مولانا خلیل عرب کے گھر پر ہوا اور عربی بولنے اور لکھنے کی مشق بھی یہیں ہوئی، طلبہ کے لیے عربی بولنا لازمی تھا، اردو بولنے پر جرمانہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں عربی اخباروں اور رسالوں کے مطالعہ کا چسکہ لگا جو ان کے بڑے بھائی اور مربی ڈاکٹر سید عبدالعلی کے یہاں آتے تھے، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ان کے مطالعہ کا مزید موقع ملا، مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کی دوستی اور رفاقت سے اس ذوق میں جلا پیدا ہوئی، مولانا کے مضامین مصر کے رسالوں میں چھپنے لگے، ستمبر ۳۰؁ء میں علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی ندوہ میں ادبِ عربی کے اعلیٰ استاد ہوکر آئے تو یہاں عربی ادب کے نئے دور کا آغاز ہوا، ان سے مولانا علی میاں نے بھی فائدہ اٹھایا، مولانا سید سلیمان ندوی اور ہلالی صاحب کی نگرانی اور مولانا مسعود عالم ندوی کی ادارت میں مئی ۳۲؁ء میں الضیاء کا اجرا ہوا، جس کے مولانا مستقل مضمون نگار تھے، یہ رسالہ تین سال بعد بند ہوگیا، اس کے تخم سے البعث لاسلامی اور الرائد نکلے جن کے مولانا سرپرست اور نگراں تھے، عربی تحریر و تقریر سے ان کا شغف مدۃالعمر قائم رہا، ۱۹۵۶؁ء میں وہ دمشق یونیورسٹی کے وزیٹر پروفیسر ہوئے۔ یہاں کی المجمع العلمی کے رکن بھی تھے۔ عربی میں ان کے مضامین و کتب اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے، اپنی اس خصوصیت کی بنا پر وہ عرب ملکوں کے ہر پروگرام میں مدعو ہوتے تھے اور وہاں کے اکثر اداروں اور انجمنوں کے ممبر بھی تھے، ان سے زیادہ کسی ہندوستانی نے عرب ملکوں کا سفر نہیں کیا، ان کی اردو کتابوں کے عربی ترجمے بھی شایع ہوئے، وہ عرب ملکوں کے موجودہ فضلاء اور اہل قلم سے کسی اعتبار سے کم پایہ نہ تھے، اپنی اسی شہرت و مقبولیت اور دینی عظمت و وجاہت کی بنا پر کلید کعبہ ان کے حوالے کی گئی تھی، وکفٰی بہ فخراً۔
مولانا علی میاں نے بیس سال کی عمر حصول تعلیم میں گزاری، ۳۴؁ء میں ندوۃ العلماء میں تفسیر و ادب کے استاد مقرر ہوئے، درس تیاری، محنت اور مطالعہ کے بعد دیتے تھے، اس ضمن میں ندوہ کی سفارت، اس کے تعارف اور اس کے مقاصد کی اشاعت کے لیے سفر بھی کیا، ۴۰؁ء مولانا سید سلیمان ندوی کی نگرانی اور ان کی اور مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کی ادارت میں الندوہ پھر جاری ہوا اور فروری ۴۲؁ء میں بند ہوگیا، دعوتی ذوق کی بنا پر بعد میں بھی صحافت سے دلچسپی رہی، ۴۸؁ء میں مولانا عبدالسلام قدوائی کے اشتراک سے پندرہ روزہ اخبار تعمیر نکالا اور اس کے لیے متعدد فکر انگیز مضامین لکھے ہفتہ وار ندائے ملت کے اجراء میں بھی ان کی مساعی شامل تھیں، ان کی سرپرستی میں پندرہ روزہ تعمیر حیات شایع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ ان کو اپنے تدریسی دور میں عربی زبان و ادب کے نصاب کی اصلاح کا خیال ہوا، اس کے لیے مختارات، القراۃ الراشدہ اور قصص النبیین وغیرہ خود لکھیں اور اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے متعدد ریڈریں لکھوائیں، ان کو کورس کی کتابوں کی ترتیب کا خاص سلیقہ تھا، ۳۸؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے لیے بی۔ اے کلاس کی ایک کتاب تیار کی جس کا معاوضہ ۵۰۰ روپے ملا اور مولانا سید سلیمان ندوی نے مبارکباد بھی دی۔ انہوں نے دارالعلوم کے طلبہ میں دینی روح پھونکی اور ندوہ کے مقاصد سے دلچسپی پیدا کی۔ دوسرے دینی مدارس سے اس کا ربط بڑھایا، تبلیغ و دعوتِ دین کے کام سے مولانا کو زیادہ مناسبت تھی، اس میں انہماک بڑھا تو تدریس سے ضابط کا تعلق ختم کرلیا، لیکن ندوۃ العلماء سے ان کا خاندانی و موروثی تعلق تھا، اس کی محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور یہی آیندہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگیا تھا، ۴۸؁ء کے وسط میں اس کی مجلسِ انتظامی کے رکن منتخب ہوئے اور جنوری ۴۹؁ء میں انہیں نائب معتمد بنایا گیا اور مولانا سید سلیمان ندوی کے انتقال کے بعد ۵۴؁ء میں معتمد ہوئے، ۶۱؁ء میں اپنے بھائی و مربی کی وفات کے بعد ناظم ندوۃ العلماء بنائے گئے، ان کے زمانے میں اس کو عالم گیر شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی، علمی تعلیمی، دینی اور روحانی حیثیت سے ترقی ہوئی، عمارتوں میں بہ کثرت اضافے اور توسیع ہوئی، گوناگوں شعبے اور دفاتر قائم ہوئے، مالی حیثیت سے مستحکم ہوا، مختلف شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں، پچاس سالہ جشن منایا گیا، بین الاقوامی سمینار ہوئے، جلسے، اجتماعات اور تقریبات آئے دن کا معمول ہوگئے ہیں، غرض انہوں نے ندوۃ العلماء کے چپہ چپہ پر اپنے لازوال نقوش چھوڑے ہیں۔
لعمرک ماواری التراب فعالہ
ولکنھا واری ثیابا واعظما
ہندوستان اور عالمِ اسلام کے بے شمار اداروں سے ان کا تعلق تھا، ہر ادارہ ان سے اپنی نسبت کو باعثِ فخر سمجھتا تھا، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے ان کو گہرا اور مخلصانہ لگاؤ تھا، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی سے عقیدت مندانہ تعلق کی بنا پر وہ اس کے کاموں میں پیش پیش رہتے اور پوری دلچسپی لیتے، اس کی ترقی و کامیابی سے خوش ہوتے، وہ اور ان کے بڑے بھائی اس کی مختلف مجالس کے رکن تھے، مولانا عبدالماجد دریابادی کے انتقال کے بعد ان کو مجلس عاملہ کا صدر بنایا گیا، ان کے، ڈاکٹر سید محمود اور مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کے انتقال کے بعد وہی اس کے روح رواں تھے، بڑی پابندی سے دارالمصنفین کے جلسوں میں تشریف لاتے، اس کے جشن طلائی اور اسلام و مستشرقین پر بین الاقومی سمینار کو کامیاب بنانے میں انہوں نے پوری سرگرمی دکھائی، یہاں سے ان کے والد بزرگوار کی کتاب گلِ رعنا اور الثقافتہ الاسلامیہ فی الھند کا اردو ترجمہ شایع ہوا، خود ان کی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے شروع کے دونوں حصوں کا پہلا ایڈیشن یہیں سے نکلا۔ معارف پابندی سے پڑھتے، کسی مہینے میں تاخیر ہوتی تو شکایت کرتے ابھی جلد ہی ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا پسندیدہ رسالہ کونسا ہے تو جواب دیا معارف۔ دارالمصنفین کو مالی فائدہ بھی پہنچاتے۔ یو۔پی کے وزیر اعلیٰ مسٹر بہوگنانے ندوۃ العلماء کو ایک لاکھ روپے دیئے تو اسے دارالمصنفین کی طرف منتقل کرادیا، مولانا سید سلیمان ندوی کی سیرۃ النبی حصہ ہفتم کا مقدمہ انہوں نے لکھا تھا، یہ کتاب جنرل ضیاء الحق مرحوم کو بہت پسند آئی اور انہوں نے مولانا کو ایک لاکھ روپے نذر کرنا چاہا تو فرمایا میں اس کا مستحق نہیں۔ دارالمصنفین اور سید صاحب کی بیگم ہیں۔ چنانچہ نصف نصف رقم دونوں کو ملی، حال ہی میں ابوظہبی اور برونائی کی حکومتوں سے ان کو خطیر رقم ملی، اسے انہوں نے مدارس میں تقسیم کردیا۔ اس موقع پر بھی دارالمصنفین کا خیال رکھا۔ ان کی سفارش سے اسے رابطہ عالمِ اسلامی سے ایک اچھی رقم سالانہ ملتی تھی، مگر عرصے سے وہ بند ہوگئی۔
تقریر و تحریر کا ملکہ خداداد تھا، اردو اور عربی دونوں کے ممتاز خطیب اور نامور مصنف تھے، ان کے معاصرین میں ان سے زیادہ شاید ہی کسی نے تقریر یں کی ہوں اور تحریری ذخیرہ چھوڑا ہو، ان کا طغرائے امتیاز یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے اس جوہر کا صحیح استعمال کیا، ان کی ہر تقریر و تحریر کا مقصد اعلائے کلمتہ اﷲ اور اسلام کی سربلندی ہوتا، ان کی طبیعت کا سوز اور دل کی درد مندی تقریروں اور تحریروں کو اس قدر موثر بنادیتی تھی کہ ان کو سننے اور پڑھنے والے پر رقت طاری ہوجاتی تھی، تقریر و بیان پر معجزانہ قدرت کی وجہ سے ۴۳؁ء میں جب مولانا عبدالسلام قدوائی نے ادارۂ تعلیمات اسلام قائم کیا اور اس کے زیر اہتمام ان پر قرآن مجید اور حدیث شریف کے درس کی ذمہ داری ڈالی تو اس میں لکھنو کے تعلیم یافتہ طبقہ، اعلیٰ عہدیداروں اور دین دار مسلمانوں کا بڑا مجمع ہونے لگا، اس خصوصیت کی بنا پر نو عمری ہی میں وہ بڑے بڑے جلسوں میں تقریر کے لیے بلائے جاتے اور ندوہ کے نمائندے ہوکر اہم علمی اجتماعات میں مقالے پڑھنے کے لیے مدعو کئے جاتے ۳۶؁ء میں علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی جبلی میں شرکت کی اور ۳۸؁ء میں اس کے پٹنہ کے اجلاس میں شریک ہوئے، ۴۲؁ء میں جامعہ ملیہ کے شعبہ اسلامیات کی دعوت پر ’’مذہب و تمدن‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا جو بعد میں کتابی صورت میں چھپا، ادب و انشا سے فطری دلچسپی تھی، اس کا بانکپن ان کی ہر تقریر و تحریر میں نظر آتا، کبرسنی کے باوجود ان کے زور و اثر اور حسن بیان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ سیرت سید احمد شہید، مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہنچا، ارکانِ اربعہ، نبی رحمت االمرتضیٰ اور تاریخ دعوت و عزیمت وغیرہ سے اگر ان کی تلاش و تحقیق، کدو کاوش، محنت و دیدہ ریزی وقت آفرینی اور نکتہ سنجی کا پتہ چلتا ہے تو دوسری تصانیف سے فکر و خیال کی بلندی، رعنائی بیان، زورِ قلم، تازگی، آمد، روانی اور بے ساختگی کا اندازہ ہوتا ہے، ان کی تمام تصنیفات کو حسنِ قبول حاصل ہوا اور جو اردو میں لکھی گئیں ان کے عربی اور عربی کے اردو ترجمے ہوئے، اکثر کے انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے۔ ان کی عظیم الشان دینی و دعوتی خدمات اور گوناگوں تصنیفات کی وجہ سے ۸۰؁ء کا فیصل ایوارڈ ملا، اور اس کے بعد کے ایوارڈ سے ملنے والی ساری رقم اسلام کے مفاد اور دینی خدمات کے میدان میں صرف کردی اور اپنے لیے ایک حبہ بھی نہ رکھا۔
نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
مولانا شروع سے محب وطن اور تحریک آزادی کے حامی تھے، انگریزوں سے نفرت کے جراثیم موروثی تھے، ۸ برس کی عمر میں وہ تحریک خلافت کا جوش و خروش اور پھر ۳۰؍ مارچ ۲۴؁ء کا وہ منحوس دن دیکھ چکے تھے جب انگریزوں کی سازش سے کمال اتاترک نے بیک جنبشِ لب اس کا خاتمہ کردیا تھا، دیوبند کے قیام اور حضرت مدنیؒ کی صحبت نے اس رنگ کو اور چوکھا کردیا تھا، اپنے تجربہ و مطالعہ سے ایک انگریز ہی کیا سارے یورپ کے الحادی و مادی نظریات کو وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے سُتمِ قاتل سمجھتے تھے، عملی سیاست سے کنارہ کش رہنے کے باوجود ان کا اور ان کے گھرانے کا رجحان جمیعۃ العلماء اور مجلسِ احرار کی طرف تھا، ۴۲؁ء میں کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ کی تجویز منظور کی تو ان علماء کے طرز عمل کو پسند کیاجو جنگ آزادی اور استخلاصِ وطن کی تحریک میں شریک تھے، مگر آزادی کے بعد جب حکومت کے کار پردازوں کا رنگ بدلا اور مسلمان احساسِ کمتری اور مایوسی کا شکار ہونے لگے تو وہ جارحیت کے سامنے سپر انداز نہیں ہوئے، ۴۸؁ء میں ان کی دعوت پر ندوۃ العلماء میں ایک ملی اجتماع ہوا جس میں نشانِ راہ اور لائحہ عمل تجویز ہوا، یورپ کی سیاسی و تہذیبی تاخت، عقائدی ارتداد اور فکری و اخلاقی انتشار کا مقابلہ کرنے کے لیے مجلسِ تحقیقات و نشریات اسلام قائم کیا، مشرکانہ عقائد اور دیومالائی تصورات کے انسداد کے لیے دینی تعلیمی کونسل کی رہنمائی کی مسلمانوں میں نئی دینی، فکری اور جرأت مندانہ قیادت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ندائے ملت جاری کیا، ۶۴؁ء میں کلکتہ جمشید پور اور راوڑکیلا کے ہولناک فسادات کی سنگینی دیکھ کر ان کو خیال ہوا کہ تمام تعلیمی و تعمیری کاموں سے پہلے اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنے اور اس کو موثر بنانے کے لیے اکثریتی فرقہ کے جاں باز اور سرفروش قائدین کو بھی اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، اسی غرض سے مولانا محمد منظور نعمانی کی معیت میں ونوبا بھاوے اور جے پرکاش نرائن سے ملے، ڈاکٹر سید محمود کی قیادت میں ندوۃالعلماء میں مسلم مجلس مشاورت قائم ہوئی تو اس میں سرگرم حصہ لیا، ملک کو زوال اور اخلاقی بحران سے نکالنے اور ہندو مسلم خلیج پاٹنے کے لیے ’’پیامِ انسانیت‘‘ کی تحریک چلائی، عائلی قوانین کے تحفظ کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کی سربراہی کی۔ بابری مسجد کے انہدام پر خون کے آنسو بہائے۔ غرض ان کا بے قرار اور درد منددل ہر نازک موڑ پر برادرانِ وطن کو درس حقیقت اور مسلمانوں کو شجاعت و عدالت کا سبق پڑھا کر اس کی تلقین کرتا رہا کہ،
ع معمارِ حرم باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
مولانا ایک داعی و مصلح تھے، دعوت و عزیمت اور دینی غیرت و حمیت ان کی امتیازی شان تھی ان کا گھرانا عقائد و مسلک میں حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کا سختی سے پیرو اور ولی اللّہی فکر کا حامل تھا، ان کا محلہ بازار جھاؤلال بھی صحیح العقیدہ لوگوں سے آباد تھا، وہ شعائر اﷲ کی توہین، دین و اخلاق اور انسانیت کی پامالی کو برداشت نہیں کرسکتے تھے، اسلام کی سربلندی اصلاح و دعوت اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں ہمیشہ منہمک رہے، ۳۵؁ء میں ۲۱ برس کی عمر ہی میں ایک موقع پر ڈاکٹر امبیڈکر کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے بمبئی کا سفر کیا، وہ عمر بھر مسلمانوں کو مادی تمدن کے دریا کے خلاف تیرنے اور اس کا دھارا موڑنے اور اپنے باطل افکار و خیالات اور غلط رسوم و عادات کی قربانی دینے کے لیے آمادہ کرتے رہے، ندوۃ العلماء میں معلمی کے زمانے میں ان کے ذوق و رجحان میں تبدیلی آئی، اب ان کی پرواز مدرسہ کی چار دیواری تک محدود نہیں رہنا چاہتی تھی اور وہ کسی صالح تحریک و دعوت سے وابستہ ہونے کے لیے فکر مند رہتے، اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے مضامین سے بہت متاثر ہوئے اور چند برس تک حلقہ لکھنو کی جماعتِ اسلامی کے ذمہ دار بھی رہے، پھر مولانا محمد الیاسؒ کی دینی دعوت سے ان کا ربط و تعلق بڑھا اور عرصہ تک اس میں مشغولیت اور سرگرمی رہی وہ اپنی اصلاح، تربیت اور تزکیہ نفس سے بھی غافل نہ تھے، اس کے لیے مشائخ و اولیاء کی خدمت میں برابر حاضری دیتے، مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے، ان کے سوانح اور مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کا تذکرہ لکھا، چند بار مولانا تھانویؒ سے بھی ملے، مولانا مدنیؒ سے برابر تعلق رکھتے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے اکثر ملتے مولانا شاہ وصی اﷲؒ، مولانا محمد احمد پر تاب گڑہیؒ اور حضرت شاہ یعقوب مجددیؒ کی خدمت میں بھی باریاب ہوتے، موخرالذکر کے ملفوظات مرتب کر کے شایع کیا، سیرت و کردار، اخلاقی و عادات اور اوصاف و محامد میں اسلاف اور اپنے اجداد کا نمونہ اور اقبال کے مردِ مومن کا آئینہ تھے، ان کی کوئی جسمانی یاد گار نہ تھی، شادی ۱۹۳۴؁ء میں ہوگئی تھی، اپنے برادر و خواہر زادگان کو اپنی اولاد سے زیادہ مانتے تھے، معنوی اولاد اور نیاز مندوں کی تعداد حدوشمار سے باہر ہے جن کے غم و اندوہ کا کون اندازہ کرسکتا ہے، تدمع العین ویحزن القلب ولا نقول الامایرضی ربنا وانا بفراقک لمحزونون۔ اللھم صبب علیہ شأیب رحمتک واغفرلہ برحمتک یا ارحم الراحمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، فروری ۲۰۰۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...